رفیق ڈوگر ـ
کیا کہتے ہیں اسے؟ جو چھوٹا سا انڈہ دے کر سارا محلہ سر پر اٹھا لیا کرتی ہے کہ آﺅ دیکھو میں نے کتنی عظیم خدمت انجام دی ہے تمہاری! ویسے وہ بے چاری کرے بھی کیا اگر اپنی خدمات کی آپ پبلسٹی نہ کرے تو؟ اس کے پاس تو نہ کوئی اس کارکردگی کی تشہیر کے لئے بجٹ ہوتا ہے اور نہ ہی ماہرین تشہیر سلوتریوں کی فوج باموج ہوتی ہے وہ مرغ بھی تو اس بے چاری کی انڈہ خدمت کی تشہیر میں کوئی مدد نہیں کرتا جو اسے انڈہ دینے پر مجبور کر دیتا ہے اور اس بے چاری کو اپنی اس خدمت عظیم کا شور شرابہ بھی خود ہی مچانا پڑتا ہے۔ ایک انڈہ دینے کے مراحل کی تکلیف اٹھاﺅ اور پھر اس احسان و مشقت سے مالکان کو آگاہی بھی خود ہی کرو کتنی مشکل زندگی ہے اس کی۔ کس کی؟ اس کی جس کو پنجابی زبان میں ککڑی کہا جاتا ہے۔ مرغی؟ ہاں مرغی ہی۔ لیکن وہ بے چاری انڈہ ڈیوٹی کی ماری پنجابی والی ککڑی ہو یا اردو والی مرغی بن جائے اس کے پیشہ میں کوئی تبدیلی آتی ہے نہ مشقت میں اور نہ ہی چھوٹا انڈہ وڈا شور میں۔ اس کے بارے میں زمانہ قدیم سے پنجابی میں ایک محاورہ چلا آ رہا ہے اس کی اصلیت کے بیان کے لئے معلوم نہیں کب بنایا تھا اہل دانش نے یہ محاورہ کہ ککڑی کھیہہ اڈائی تے اپنے سر پائی ککڑی تو ہو گئی اردو میں مرغی لیکن کھیہہ اس کا ٹھیک ٹھیک مفہوم ادا کرنے کے لئے اردو زبان میں کوئی ایک لفظ نہیں مل رہا ہمیں۔ گرد؟ نہیں کھیہہ کے مفہوم میں گندگی بھی شامل ہے وہ گندمند جو ہر مرغی کو بہت پسند ہوتا ہے اپنا نام اور مقام بنانے کے لئے ککڑی پوری قوت مرغیانہ سے اسے اڑاتی ہے اور وہ اس کے سر میں تہ در تہ جم جاتا ہے۔ محاورے کا مفہوم؟ ترجمہ یہ بنتا ہے کہ جو بھی کوئی ککڑی خود ہی کوئی گند مند اڑاتی ہے وہ اس کے اپنے ہی سر میں پڑتا ہوتا ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ آج ہمیں اچانک خادم ککڑی کیوں یاد آ گئی ہے؟ آپ یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ جاﺅ پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے حلقہ انتخاب میں جاﺅ کبھی این آر او شاہ کی جمہوریت کی باد بہاری کے جھونکوں میں اڑتے ہوئے اور دیکھو تو یا جاتی عمرہ کی جمہوریت کے نوخیز قائد حمزہ شہباز شریف کے مرغی خانہ کی مرغیوں کو کبھی جو سردیوں میں سوئی گیس کے ہیٹروں اور گرمیوں میں سرد ہواﺅں کے جنریٹروں میں انڈے دینے کی خدمات عظیم انجام دیتی ہیں۔ ان کو سلام ادب ادا کرتی ہیں اور کبھی حرف شکایت اپنے لب مرغیانہ پر نہیں لاتیں۔ آپ کا فرمان بجا۔ مگر یہ تو اپنے مقدر کی بات ہے کسی ٹھنڈے ٹھار مرغی خانہ کی مرغیوں کے باادب انداز سے کوئی فیض حاصل کر لینا۔ ہم نے تو اس سپیکر کے ایوان پنجاب اسمبلی کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں وہ قرارداد پاس ہوتے بھی نہیں دیکھی تھی جس کی خوشی و خوش خرامی میں وہ بامعاوضہ آرڈر! آرڈر! تک بھی بھول گئے تھے اور وہ قرارداد پاس ہوتے بھی نہیں دیکھ سکے تھے جس کے ذریعے انہی ارکان نے جن نے ہماری مذمت کی قرارداد متفقہ منظور کی تھی میڈیا کے احسانات کو تسلیم کرنے کی برضا و رغبت قرارداد منظور کر ڈالی تھی اسی رانا سپیکر کی قیادت باسعادت میں۔ اب پڑھتے ہیں کہ وہ پہلے والی قرارداد اسی سپیکر کے ٹھنڈے ٹھار چیمبر میں سب پارٹیوں کے 18 ارکان نے مل جل کر باہمی مشورہ سے تیار کی تھی 18ویں ترمیم کی مانند مکمل اتفاق سے اور پھر اسی 18 ارکان کی متفقہ قرارداد کو سب ہی خواتین و حضرات نے متفقہ طور پر منظور کرکے اپنے پارٹی مالکان کے جذبات جمہوریت کا سب پر اظہار کر دیا تھا اور پھر ان میں سے 105 ارکان نے ان کے احسانات کا جن کی ان سب نے تذلیل کی تھی اعتراف کا انڈہ بھی دے دیا تھا لیکن کیا اس نئی قرارداد میں ہماری اور ہمارے صوبہ کے عوام کی تذلیل عظیم پر کوئی معذرت کی گئی ہے کسی سے؟ کسی ایک بھی رکن رکنیہ نے مذمت کی تھی اس پہلے والی مذمتی قرارداد کی؟ یہ ارکان ہیں؟ عوام کے منتخب جموریت کے مالک و محافظ یا کسی ٹھنڈے ٹھار مرغی خانہ میں چوگ چگنے والی کوئی چیز ہیں خدانخواستہ؟ ہم تو ان کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اس صوبہ کے عوام کا انتخاب لاجواب ہیں۔ ان کا اور ان کی چوگ بدست جمہوریت کا احترام کس پر لازم نہیں ان کے اپنے سوا؟ مگر وہی جو پہلی قرارداد لائے تھے متفقہ طور پر وہی دوسری قرارداد پر بھی دل و جان جمہوریت سے فدا اور نثار کیسے ہو گئے تھے؟ انہوں نے سب نے مل کر وہ جو تذلیل کی تھی ہماری اور ہمارے صوبہ کے عوام کی وہ دھل گئی ہے اسمبلی کے ریکارڈ سے اور ہمارے دلوں پر سے؟ شور مرغیانہ کیا ہے کہ دیکھو ہم نے کیسا انڈہ دے دیا ہے کھاﺅ اور صحت بناﺅ واللہ ہم نے تو بیس سال سے کسی مرغی کے شور قیامت سے متاثر ہو کر بھی کبھی اس کے کسی انڈہ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ سی پی این ای والوں نے تو اتفاق کامل سے اس دوسری قرارداد یا انڈے کو باہمی تعلقات کی بحالی کے لئے صحت افزاءقرار دیا ہے لیکن ہم مزدور صحافی؟ ہماری تذلیل کیوں؟ سی پی این ای صاحبان فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں اور اس پارٹی کے قائد جس کے رکن نے وہ پہلی قرارداد پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی اور جس پر ارکان کی اکثریت کا اور سپیکر کا اور ان کے خادم پنجاب کا تعلق ہے فرماتے ہیں کہ کسی نے صحافتی آزادی کو گزند پہنچایا تو ہم مزاحمت کی پہلی دیوار ثابت ہوں گے ویسے ہی جیسے وہ ہم کارکن صحافیوں کے لئے پہلی قرارداد مذمت کے حوالے سے دیوار گریہ بنے ہوئے ہیں؟ صحافت کی آزادی کی قرارداد ان اصولوں کی عکاس ہے جن کی سربلندی کے لئے ان کی ن لیگ لاہور تا لندن جدوجہد کرتی پھرتی رہی ہے تو وہ پہلی قرارداد مذمت ان کے کن اصولوں کی عکاس تھی؟ وہ بھی تو عکاس تھی ہی کسی اصول کی۔ لیکن اس قرارداد کے ذریعے جو کھیہہ میڈیا کے سروں میں ڈالنے جمہوریت نوازی کی گئی تھی وہ کھیہ اڑانے والوں کے اپنے سر؟ ککڑی بے چاری کیا کرے؟
ایک غزل مہدی حسن نے گائی، وہ میرے دل میں اتر گئی۔ مگر یہ معلوم کرنے کی خواہش نہ ہوئی کہ شاعر کون ہے۔ فیض احمد فیض کی غزل کا معلوم تھا۔ ع
گلوں میں رنگ بھرے بادنو بہار چلے
فیض سے مشاعروں میں فرمائش ہوتی کہ مہدی حسن والی غزل سناو مگر اس غزل کے شاعر کا پوری طرح پتہ نہ چل سکا۔ پھر بھی اس کے لئے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اب یہ غزل مہدی حسن کی ہو گئی ہے اس غزل میں تخیل بھی معراج پر ہے میں نے عروج نہیں کہا۔ معراج اور عروج میں فرق ہے۔ رومانیت اور روحانیت کا ایک انوکھا امتزاج ہے جو لفظوں کے مزاج میں سرایت کر گیا ہے۔ مہدی حسن نے اسے اس طرح نہیں گایا جیسے فیض کو گایا۔ یہ غزل گاتے ہوئے مہدی حسن بھی کوئی صوفی فنکار لگتا تھا
غنچہ شوق لگا ہے کھلنے
پھر تجھے یاد کیا ہے دل نے
میرے دل نے واقعی اسے نئے سرے سے یاد کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں یہ نہیں بتاوں گا کہ وہ کون ہے۔ مجھے پتہ ہوگا تو میں بتاﺅں گا۔ پھر میں اس لافانی اور حسن لازوال سے بھرے شعر کے خالق کے بارے میں کیسے بتاوں کہ ان کا مخاطب کون ہے۔ یہ تو کسی واردات کا بیان ہے۔ تخیل سے آگے کی کوئی کیفیت ہے۔ یہاں محبت کرنے والا بھی آسانی سے پہچانا نہیں جائے گا اور وہ جو محبوب ہے اسے محبوب حقیقی کہہ کر بچ کر گزر جانے والی بات نہیں۔ وہ کون ہے اسے تلاش کرو اپنے دل میں دل کے کسی ان دیکھے جہان میں، شاید وہ مل ہی جائے۔ مہدی حسن نے انڈیا میں یہ غزل گائی تو پھر وہ جہاں گیا اسی غزل کی فرمائش ہوئی۔ اسے ہر بار لگا کہ میں نئی طرح سے نئے جذبے سے یہ غزل گا رہا ہوں۔ محبوب پر جب بھی نظر ڈالو تو نئے سرے سے نظر ڈالو، تو وہ کچھ اور محبوب ہو گا
روبرو ہے وہ مرے لیکن ہر لمحے کے بعد
ایسے لگتا ہے اسے بار دگر بھیجا گیا
مجھے دیر بعد پتہ چلا کہ یہ غزل صاحب دل صاحب حال بہت بڑے صوفی علمی و ادبی شخصیت، مفسرِ قرآن، سلسلہ چشتیہ کے عظیم المرتبت شیخ طریقت حضرت خواجہ سید محمد وجیہہ السیما عرفانی کی ہے، لافانی- وجیہہ السیما عرفانی یہ سب تعارف میں نے اس لئے کرایا کہ یہ شاعر عام شاعروں جیسا نہیں
انجمن انجمن آرائش سے
آج ہر چاک لگا ہے سِلنے
داستانیں ہیں لب عالم پر
ہم تو چپ چاپ گئے تھے ملنے
میں نے چھپ کر تری باتیں کی تھیں
جانے کب جان لیا محفل نے
تو نے جھانکا دل عرفانی میں
دل کا ہرذرہ لگا ہے ہلنے
اس غزل کا یہ شعر حضرت وجیہہ السیما عرفانی کے صاحبزادے ان کے علمی اور روحانی کمالات کے فروغ کے لئے کوشاں اور سجادہ نشین جناب سید محمد حبیب عرفانی نے پرانے کاغذات میں سے تلاش کر کے ہم تک پہنچایا ہے
آج گوہر بنے صدف کی روداد
نئے عنواں سے کہی ساحل نے
مرحوم عرفانی صاحب ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن میں مختلف علمی ادبی و دینی پروگرام کرتے تھے اور کسی کو پتہ نہ تھا کہ ان کے درمیان بیٹھا ہوا شخص معرفت اور بصیرت کے کس مقام پر فائز ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو چھپائے رکھا مگر خوشبو کو قید کرنا بڑا مشکل ہے
کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گُم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
پی ٹی وی کے دوست کہتے ہیں کہ وہ آتے ہم ان کے ساتھ بے تکلفی بھی کر لیتے اور وہ گھل مل کر رہتے۔ ایک دن ریڈیو پاکستان کے اسلام شاہ نے انکشاف کر ہی دیا کہ دوستو یہ عرفانی صاحب تو بہت پہنچے ہوئے آدمی ہیں۔ اسلام شاہ آج ان کے لئے اپنی محبت کی عقیدت بنائے ہوئے ہے تب گورنمنٹ کالج لاہور سے ہمیں اسلام شاہ بلاتے تھے اور ہم خوش ہوتے انہیں دیکھ کر نعرے لگاتے۔ اسلام زندہ باد۔ ایک بار ایک شریر لڑکے نے ان کی خدمت میں اس مصرعے کا نذرانہ پیش کر دیا
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اسلام شاہ نے بتایا کہ وہ رومانی معاملات کو کمرشلائز کرنے کے خلاف تھے ۔انہوں نے عام سی زندگی گزاری مگر زندگی کو ایک اور زندگی بنانے کی کوشش کی۔ سلیم گیلانی ریڈیو کے ایک بڑے آدمی تھے وہ حج پر گئے۔ مدینہ منورہ میں انہیں ایک آدمی نے پرانی عربی میں ایک خستہ سی تحریر دی جو حضرت امام حسین ؓکی دعائے عرفہ ہے عرفات کے میدان میں امام عالی مقام ؓ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ۔ سلیم گیلانی نے پاکستان آ کے جناب عرفانی صاحب سے ذکر کیا۔ انہوں نے جو ترجمہ کیا وہ ایک ادبی فن پارہ ہے۔ انہوں نے قرآن کا بھی ترجمہ کیا ہے وہ ترجمے کو ترجمانی سمجھتے تھے۔ انہوں نے خود فرمایا کہ ترجمہ اصل میں ایک زبان کا حسن دوسری زبان کے حسن میں منتقل کرنے کا نام ہے۔ پاکپتن شریف سے ان کا بڑا تعلق تھا بلکہ ہے۔ یہ تعلق مرنے کے بعد نہیں ٹوٹتا۔ مرحوم عرفانی صاحب کا اصل زمانہ تو ان کے مرنے کے بعد شروع ہوا۔ ان کے صاحبزادے حبیب عرفانی ان کے ذکر اور فکر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ مرحوم عرفانی صاحب کہتے تھے کہ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے میری روحانی تربیت کی جیسے کوئی زندہ آدمی تربیت کرتا ہے۔ میرے قبیلے کے سردار منیر نیازی نے بابا فریدؒ کے لئے کہا ہے
جہڑیاں تھانواں صوفیاں جا کے لئیاں مل
اوہ اوہناں دے درد دی تاب نہ سکیاں جھل
اکو کوک فرید دی سُنجے کر گئی تھل
میں نے انہیں ریڈیو پاکستان میں دیکھا تھا انہیں سرسری طور پر مل کے بھی لگتا تھا کہ وہ کوئی اور آدمی اپنے اندر اٹھائے پھرتے ہیں۔ میرے دل میں ان سے پوری طرح ملنے کی آرزو مچلتی رہی۔ خواہش کے پیچھے بھی کوئی خواہش ہوتی ہے۔ میری اہلیہ نے ان کا سنا تو کہا کہ ہم اب سے برسوں پہلے ان کی ہمسائیگی میں رہتے تھے۔ رفعت نے ان کی اہلیہ محمودہ بیگم کو ماں کی طرح یاد کیا اور یاد کرتی چلی گئی۔ جناب حبیب عرفانی ان کے بھائی نجیب، حبیب، حسن اور شاہد حضرت وجیہہ السیما عرفانی سے ایک تعلق نکل آیا۔ مگر وہ تو چلے گئے ہیں ایسے لوگ فوت نہیں ہوتے، کہیں چلے جاتے ہیں۔ رفعت نے انہیں تلاش کرنے کے لئے کہا اور ہم جناب سید محمد حبیب عرفانی صاحب کے گھر گئے۔ وہاں مرحوم عرفانی صاحب کی بیٹیاں رخشندہ، طیبہ اور عطیہ میری اہلیہ سے ملیں جیسے یہ ان کی چوتھی بہن ہو۔ آج کل کے دور میں اپنائیت اور خلوص کہاں ملتا ہے یہ بچپن کی یادوں کی ایک کہکشاں سج گئی۔ مجھے اب محسوس ہوا کہ کئی رشتے چھپے ہوئے ہوتے ہیں مگر وہ گُم نہیں ہوتے۔ میرے دل میں اس اچھے گھرانے کے لئے بہت محبت پیدا ہوئی۔ میری بیوی رفعت نویدہ بھابھی کی بڑی تعریفیں کر رہی تھی۔ بڑے گھر میں رشتوں کی خوشبووں اور پرانی یادوں کو محفوظ رکھنے کے لئے محمودہ بیگم جیسی ماں اور نویدہ بھابھی جیسی بہن کا ہونا ضروری ہے۔
ان کی بیٹی کے نکاح کی تقریب تھی اور ہم سب گھر والے شریک ہوئے۔ نجیب عرفانی میرے پاس بیٹھا رہا اور یاد کیا کہ گورنمنٹ کالج میں وہ میرا شاگرد تھا اس کا والہانہ پن دیکھ کر میں حیران رہ گیا جس میز پر ہم تھے وہاں سید مقبول وارث شاہ، گلاب علی چشتی، عابد نعمانی، ڈاکٹر منیر ظفر اور ڈاکٹر مجیب اللہ کے علاوہ بھی کچھ لوگ تھے۔ خوب محفل رہی۔ انہوں نے مرحوم عرفانی صاحب کی گہرائیوں، سچائیوں اور بھلائیوں کو یاد کیا۔ بات سیاست کی طرف بھی گئی مگر یہ بات مذاق مذاق میں ہوئی۔ میں یہاں سیاسی بات کر کے اس قلبی کیفیت کو غارت نہیں کرنا چاہتا جو اس بابرکت تقریب میں شرکت کر کے مجھے نصیب ہوئی۔ یہ کچھ اور طرح کی دعوت تھی۔ حبیب عرفانی نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے والد کے ایک مریدوں جیسے دوست پروفیسر غلام سرور قریشی کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے۔ بیٹے نے ایم پی اے عائشہ جاوید کو یاد کیا میں سوچ رہا ہوں کہ یہ اصل رشتہ داری ہے کہ اپنے والد کے مرید کے بیٹے کے ساتھ بیٹی کا رشتہ کر دیا جائے۔