A Must Read - حویلی کا راز


::::حویلی کا راز::::
مسلمانوں میں تفرقہ کو فروغ دینے والے
ایک خفیہ برطانوی ادارے کا چشم کشا احوال


نواب راحت سعید خان چھتاری 1940ء کی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ہیں۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لیئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لا تعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ نواب چھتاری اپنی یاداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا۔ ان کے ایک پکے انگریز دوست نے جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکا تھا، نواب صاحب سے کہا "آیئے! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کراوں جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔

" نواب صاحب خوش ہو گئے، انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کے لیے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی، دو روز بعد کلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا" ہم کل صبح چلیں گے، لیکن میری موٹر میں، سرکاری موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں"۔ اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے۔

شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہو گیا۔ جنگل میں ایک پتلی سڑک موجود تھی، جوں جوں چلتے گئے، جنگل گھنا ہوتا گیا۔ سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا نہ کوئی پیدل مسافر! نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھر اْدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹر چلتے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا، پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی۔

اس کےچاروں طرف کانٹے دار جھاڑیوں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی جسے عبور کرنا ممکن نہ تھا۔ عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔ اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے اس میں سوار ہو جائیں۔ نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا۔ وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں! نواب صاحب گھبرانے لگے، تو انگریز نے کہا "بس منزل آنے والی ہے"۔

آخر دور ایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا "یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جاسکتے ہیں"۔ راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا " کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں بولنے یا سوال کرنے کی بلکل اجازت نہیں"۔ عمارت کے شروع میں وسیع دالان تھا۔ اس کے پیچھے متعد کمرے تھے۔ دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان اور نکلے پہلے نے عربی لہجے میں "السلام وعلیکم" کہا۔ دوسرے نے کہا"وعلیکم اسلام"۔ کیا حال ہے? نواب صاحب یہ منظر دیک کر حیران رہ گئے۔ کچھ پوچھنا چاہتے تھے، لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کر دیا۔ چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے۔

دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھا ہے۔ عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بلکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔ طلباء عربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے۔ نواب صاحب نے دیکھاکہ کسی کمرے میں قرآن مجید پڑھایا جا رہا ہے، کہیں قرآت سکھائی جارہی ہے، کہیں تفسیر کا درس ہو رہا ہے، کسی جگہ بخاری شریف کا درس دیا جا رہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا۔ ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں درمیان مناظرہ ہو رہا تھا۔

ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہو رہی تھی۔ سب سے بڑے کمرے میں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جا رہا تھا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے۔ مثلاً غسل کا طریقہ، وضو، روزے، نمازاور سجدہ سہو کے مسائل، وراثت اور رضاعت کےجھگڑے، لباس اور ڈاڑھی کی وضع قطع، گا گا کر آیات پڑھنا، غسل خانے کے آداب، گھر سے باہر جانا، لونڈی غلاموں کے مسائل، حج کے مناسک بکرا، دنبہ کیسا ہو،

چھری کیسی ہو، دنبہ حلال ہے یا حرام? حج اور قضا نمازوں کی بحث، عید کا دن کیسے طے کیا جائے اور حج کا کیسے? میز پر بیٹھ کر کھانا، پتلون پہننا جائز ہے یا ناجائز، عورت کی پاکی اور ناپاکی کے جھگڑے، حضورصلی اللہ و علیہ وسلم کی معراج روحانی تھی یا جسمانی? امام کے پیچھے سورتہ فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں? تراویح آٹھ ہیں یا بیس? نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو آدمی کیا کرئے? سود مفرد جائزہے یا ناجائز وغیرہ وغیرہ۔

ایک استاد نے سوال کیا، پہلے عربی پھر انگریزی اورآخرمیں نہایت شستہ اردو میں!!!! جماعت اب یہ بتائے کہ جادو نظر بد، تعویز گنڈہ آسیب کا سایہ بر حق ہے یا نہیں? پینتیس چالیس کی جماعت بیک آواز پہلے انگریزی میں بولی "سچ سچ" پھر عربی میں یہی جواب اور پھر اردو میں!!!!

ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ حج کے لیئے نیت ضروری ہے تو مردہ لوگوں کا حج بدل کیسے ہو سکتا ہے? قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے"۔
استاد بولے" قرآن کی بات مت کرو،روایات، ورد اوراستخارے میں مسلمانوں کا ایمان پکا کرو۔ ستاروں، ہاتھ کی لکیروں، مقدر اور نصیب میں انہیں الجھاو"۔

یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا، اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھاہے"?

انگریز نے کہا "ارے بھئ، ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں۔ تعلیم مکمل ہونے پر انہیں مسلمان ملکوں خصوصاً مشرق وسطٰی، ترکی، ایران، اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں۔ انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں۔ یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں۔ وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے، صرف کھانا، سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔ پھر وہ موذن، پیش امام، بچوں کے لیے قرآن پڑھانے کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقرر ہو جاتے ہیں، جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔"

نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں بتا کر حیران کر دیا کہ اس عظیم مدرسے کے بنیادی اہداف یہ ہیں:

--- مسلمانوں کو روایات، زکر کے وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھا کر قرآن سے دور رکھا جائے۔

--- حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کا درجہ جس طرح بھی ہو سکے (نعوذباللہ) گھٹایا جائے۔ کبھی یہ کہو کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم (نعوذباللہ) رجل مسحور یعنی جادو زدہ تھے۔

اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں (رنگیلا رسول) نامی کتاب راجپال سے اسی ادارے نے لکھوائی تھی۔ اس طرح کئی برس پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بنا کر کھڑا کرنے والا یہی ادارہ تھا۔ ان کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہو کر جاتی تھی۔

خبر ہے کہ سلیمان رشدی ملعون کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔

خدایا ایسا نہ ہو کہ مغرب رہن ہی میرا سماج رکھ لے
ہے فتنہ پرور نظام عالم تو اپنے مسلم کی لاج رکھ لے

 
Last edited by a moderator:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

اس میں تو کوئی شک نہیں ،اسلام دشمن ایسی کوششوں میں صدیوں سے مصروف ہیں ، بلکہ ان عیسائیوں نے نور دین زنگی کے دور میں نعوذ باللہ ،رسول pbuhکے روضے تک پہونچنے کی ناپاک کوشش کی ،ان افراد کو نور دین زنگی نے قتل کیا

براہ کرم اس کتاب کا لنک ضرور دیں اگر ہو سکے تو

 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

سلطان نور الدین زنگی
اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی سعادت
یہ واقعہ آپ نے کافی دفعہ پڑھا ہوگا۔
یہ واقعہ مدینے کی تاریخ کی تقریبا تمام کتب میں موجود ہے۔
اس کا ذکر مدینے کی مشہور اور مختصر تاریخ وفا الوفاء کے مصنف علّامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے اور شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب تاریخ مدینہ میں تین بڑی سازشوں کا ذکر کیا ہے ۔ جس میں سے یہ واقعہ سب سے مشہور ہے۔
واقعہ پیش خدمت ہے۔۔
سمہودی کے قول کے مطابق عیسائیوں نے یہ سازش 557 ھ میں مرتب کی اس وقت شام کے بادشاہ کا نام سلطان نورالدین زنگی تھا۔ اوراس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا۔
ایک رات نورالدین زنگی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں تین بار دیکھا ۔ ہر بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوآدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلطان سے کہا مجھے ان دونوں کی شرارت سے بچاو۔
اس رات، نمازِ تہجّد کے بعد، سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔ سلطان ہڑبڑا کر اٹھا، وضو کیا، نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔
دوبارہ وہی خواب دیکھا۔ اٹھا وضو کیا۔ نفل پڑھے اور سو گیا۔
تیسری بار وہی خواب دیکھا۔ اب اس کی نیند اڑ گئی۔ اس نے رات کو ہی اپنے مشیر جمال الدین موصلی کو بلا کر پورا واقعہ سنایا۔
مشیر نے کہا: سلطان یہ خواب تین بار دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینے روانہ ہوجائیں۔
اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینے کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا، لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔
سلطان نے حاضرین سے پوچھا: کیا مدینے کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟ جواب اثبات میں تھا۔
سلطان نے پھر پوچھا: کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟ اس بار حاضرین نے کہا: سوائے دو آدمیوں کے۔ راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔
سلطان نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے؟ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔
سلطان نے کہا: سبحان اللہ اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا: الحمدللہ، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔
جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی،
تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا : تم کون ہو؟ یہاں کیوں آئے ہو؟
انہوں نے کہا، ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
سلطان نے سختی سے کہا: کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟
اب وہ چپ رہے۔
سلطان نے حاضرین سے پوچھا: یہ کہاں رہ رہے ہیں؟ بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں (جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا)
سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں، اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔ نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔
سلطان نے گرج کر کہا: کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟
ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عیسائی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے، انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا، وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کر دیا۔
ہر رات وہ سرنگ کھودتے، جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آ گیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔
سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اورروتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ " میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا ".
سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔
مذکورہ بالا واقعہ ۵۵۷ھ (مطابق ۱۱۶۲ء) کا ہے۔ سلطان نے روضہ مبارک کے قریب ایک چبوترہ بھی بنوایا ۔ تاکہ اس پر ان قبور کی حفاظت کے لئے ہروقت پاسبان رہیں ۔ یہ چبوترہ اب بھی موجود ہے۔ اور باب جبریل سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب ہے ۔ بعض زائرین اسے مقام صفہ سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ مقام اصحاب صفہ مسجد نبوی کے اندر تھا۔ جب کہ چبوترہ اُس وقت کی مسجد کی چاردیواری سے باہر تھا۔ مقام اصحاب صفہ کے تعین کے لئے استونہ عائشہ سے شمال کو چلئے (یعنی قبلہ کی سمت کے خلاف) پانچویں ستوں کے قریب مقام اصحاب صفہ ہے ۔ یا یہ کہ پرانے باب جبریل کے بالمقابل یہ مقام تھا۔ یاد رہے کہ وہاں اس وقت کوئی چبوترہ نہیں

 

kernelxx

MPA (400+ posts)
koi reference in yadasto ka??
I have listen this story a number of time with the reference of different personality, most of the time people connected it with Allama Iqbal as a narrator of this story.. have you any true reference??
 

Cyclops

Minister (2k+ posts)
No reference needed when we have to blame west.
koi reference in yadasto ka??
I have listen this story a number of time with the reference of different personality, most of the time people connected it with Allama Iqbal as a narrator of this story.. have you any true reference??
 
koi reference in yadasto ka??
I have listen this story a number of time with the reference of different personality, most of the time people connected it with Allama Iqbal as a narrator of this story.. have you any true reference??

Brother, Quran says that All mushrikeen are your enemies and will do all efforts unless you start following them what they do. It is a truth that all non-beleivers are collectively against Islam and will do anything to damage it. It was started from the day our beloved prophet Muhammad PBUH started Dawah.
 

Khurpainch

Minister (2k+ posts)
image004.jpg
 

adamfani

Minister (2k+ posts)
Aik Jew D.I.Khan mein 17 saal imam masjid bana raha..................he confessed on Dubai airport

Aur iss doran D.I.Khan kusht o khoon ka markaz bana raha
 

kernelxx

MPA (400+ posts)
Brother, Quran says that All mushrikeen are your enemies and will do all efforts unless you start following them what they do. It is a truth that all non-beleivers are collectively against Islam and will do anything to damage it. It was started from the day our beloved prophet Muhammad PBUH started Dawah.

so after reading this "mystery of haveli". what should our reaction?? and what we can infer..... I think only that we should focus on Quran Pak teaching and not follow these mullahs as this story depict that majority of these mullahs may be the paid agents of jews, US and britain. the ameer of JUI-S have a complexion of Westerns. he might be the student of this haveli??? and many others of our mullah too
 

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)

نواب راحت سعید خان چھتاری 1940ء کی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اترپردیش کے گورنر رہے۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لا تعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ نواب چھتاری اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے انکشافات کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا۔ ان کے ایک پکے انگریز دوست نے جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکا تھا، نواب صاحب سے کہا "آئیے ! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کراؤں جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔”

نواب صاحب خوش ہوگئے۔ انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کے لئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔ دو روز بعد کلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا” ہم کل صبح چلیں گے، لیکن میری موٹر میں، سرکاری موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں”اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔ شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا۔ جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجود تھی۔ جوں جوں چلتے گئے ، جنگل گھنا ہوتا گیا۔ سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا نہ کوئی پیدل مسافر! نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹر چلتے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا، پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع و عریض عمارت دکھائی دی۔ اس کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیوں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی جسے عبور کرنا ممکن نہ تھا۔ عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔

اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے ، اس میں سوار ہوجائیں۔ نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا۔ وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں! نواب صاحب گھبرانے لگے ، تو انگریز نے کہا:”بس منزل آنے والی ہے۔”آخر دور ایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا” یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جاسکتے ہیں۔” راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا” یاد رکھیں ، کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں ، بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں ۔”

عمارت کے شروع میں وسیع دالان تھا۔ اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے ۔ دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجون عربی کپڑے پہنے، سرپر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے ۔ پہلے نے عربی لہجے میں ” السلام علیکم” کہا۔

دوسرے نے کہا” وعلیکم السلام” ! کیا حال ہے؟”

نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کچھ پوچھنا چاہتے تھے، لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔ چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے ۔ دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھا ہے۔ عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں۔ ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھارہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔
طلباء عربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے۔

نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن مجید پڑھایا جارہا ہے ، کہیں قرآت سکھائی جارہی ہے ، کہیں تفسیر کا درس ہورہا ہے ، کسی جگہ بخاری شریف کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا۔ ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی۔ سب سے بڑے کمرے میں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔

انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے۔ مثلاً غسل کا طریقہ ، وضو، روزے ، نماز اور سجدہ سہو کے مسائل ، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے ، لباس اور داڑھی کی وضع قطع ، گاگا کر آیات پڑھنا ، غسل کے آداب ، گھرسے باہر جانا، لونڈی غلاموں کے مسائل ، حج کے منسک ، بکرا ، دنبہ کیسا ہو، چھری کیسی ہو، دنبہ حلال ہے یا حرام؟ حج بدل اور قضا نمازوں کی بحث ، عید کا دن کیسے طے کیا جائے اور حج کا کیسے ، میز پر بیٹھ کار کھانا ، پتلون پہننا جائز ہے یا ناجائز، عورت کی پاکی اور ناپاکی کے جھگڑے، حضور کی معراج روحانی تھی یا جسمانی ؟ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟ نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو آدمی کیا کرے؟ سود مفرد جائز ہے یا ناجائز؟ وغیرہ۔

ایک استاد نے سوال کیا ، پہلے عربی پھر انگریزی اور پھر آخر میں نہایت شستہ اردو میں!” جماعت اب یہ بتائے کہ نظر بد، تعویذ گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں؟”پنتیس چالیس کی جماعت بیک آواز پہلے انگریزی میں بولی "ٹُرو ٹُرو”، پھر عربی میں اور پھر
اردومیں ۔ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر سوال کیا” الاستاد، عبادت کے لئے نیت ضروری ہے تو مردہ لوگوں کا حج بدل کیسے ہوسکتا ہے؟ قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہے”

استاد بولے” قرآن کی بات مت کرو، روایات ، ورد اور استخارے میں مسلمانوں کا ایمان پکا کرو۔ ستاروں ، ہاتھ کی لکیروں ، مقدر اور نصیب میں الجھاؤ۔”

یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا ” اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپا رکھا ہے؟”
انگریز نے کہا” ارے بھئی، ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں ۔ تعلیم مکمل ہونے پر انہیں مسلمان ملکوں خصوصاً مشرق وسطیٰ ، ترکی ، ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں ۔ انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی اور وہ مکمل عالم ہیں ۔ یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں۔ وہ سر دست تنخواہ نہیں چاہتے ، صرف کھانا ، سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔ پھر وہ مؤذن ، پیش امام ، بچوں کے لئے قرآن پڑھانے کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقرر ہوجاتے ہیں۔ جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔”

نواب صاحب کے انگریز میزبان نے انہیں یہ بتاکر حیران کردیا کہ عظیم مدرسے کے بنیادی اہداف یہ ہیں:
-مسلمانوں کو روایات ، ذکر کے وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔
-حضور اکرمﷺ کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے گھٹایا جائے۔ کبھی یہ کہو کہ آپ ﷺ (نعوذ باللہ) رجل مسحور یعنی جادو زدہ تھے۔
اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں (رنگیلا رسول) نامی کتاب راجپال سے اسی ادارے نے لکھوائی تھی۔ اس طرح کئی برس پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بنا کر کھڑا کرنے والا یہی ادارہ تھا۔ ان کی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی۔ خبر ہے کہ سلیمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔

خدایا ایسا نہ ہو کہ مغرب رہن ہی میرا سماج رکھ لے
ہے فتنہ پرور نظام عالم تو اپنے مسلم کی لاج رکھ لے

اب جنگل کی حویلی کے ایک مکین سے ملاقات کیجئے۔ یہ واقعہ میرے دوست امیر فرہاد کے ساتھ کویت میں پیش آیا۔ یہ واقعہ انہی کی زبانی سنیئے:

یہ 1979ء کا واقعہ ہے، ان دنوں میں کویت کی ایک کمپنی میں مندوب تعلقات العامہ (افسر تعلقات عامہ) تھا۔
ہماری کمپنی کے ڈائریکٹر نے سری لنکا سے گھر کے کام کاج کے لئے ایک خادمہ منگائی۔ دوسرے دن مجھ سے کہا” اس خادمہ کو واپس بھیج دو۔ وہ ہمارے کسی کام کی نہیں کیونکہ وہ عربی جانتی ہے نہ انگریزی۔” میں اس کی دستاویزات لے کر متعلقہ جگہ پہنچا تو پتہ چلا کہ فی الحال سری لنکن سفارت کار موجود نہیں البتہ برطانوی ، سری لنکن باشندوں کے معاملات دیکھتے ہیں۔

برٹش کونسل میں استقبالیہ کلرک نے میرا کارڈ دیکھا تو مسٹر ولسن سے ملایا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے اور بٹھایا۔ جب اس نے اندازہ لگایا کہ میں بھارتی یا پاکستانی ہوں، تو اردو میں کہا” میں کیا خدمت کرسکتا ہوں؟”
میں نے سری لنکن خادمہ کے متعلق بتایا، تو اس نے کہا ” کوئی مسئلہ نہیں، اسے ہم رکھ لیں گے۔ آپ کا جو خرچ آیا وہ ہم ادا کردیں گے۔ یہ بتاؤ کہاں کے رہنے والے ہو؟”
میں نے کہا” پاکستان۔”
وہ بولا” وہ تو بہت بڑا ملک ہے ”

میں نے کہا” پشاور کا رہنے والا ہوں۔”
اس نے پشتو میں پوچھا:”کون سی جگہ؟”
میں نے بتایا” نوشہرہ۔”

جب میں نے گاؤں کا نام بتایا تو اس کی آنکھوں میں عجیب چمک پیدا ہوگئی۔ پھر وہ مختلف لوگوں کا پوچھنے لگا۔ میں نے بتایا کہ کون مرگیا اور کون زندہ ہے۔ میں نے سوچا ، ہوسکتا ہے یہ نوشہرہ چھاؤنی میں ملازمت کرتا رہا ہو، لیکن اس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔
لین اس نے کچھ اور کہانی سنائی۔ پہلے اس نے کافی منگائی پھر انٹر کام پر کلرک سے کہا کہ اس کے پاس کسی کو مت بھیجنا۔ وہ اتنا خوش تھا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ کافی کے دوران اس نے بتایا : میں آپ کے گاؤں ، محلّہ عیسیٰ خیل میں چار سال تک پیش امام رہا ہوں۔”

میں پوچھا” کیا آپ مسلمان ہیں؟”

وہ بولا ” میں نے چار سال تک آپ کے گاؤں کا نمک کھایا ہے۔ آپ کے گاؤں والوں نے مجھے بڑی عزت دی۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ میں عیسائی ہوں یعنی اہلِ کتاب۔”اس کے بعد میرا اس کے ہاں آنا جانا رہا۔ وہ مجھے اپنا ہم وطن سمجھتا رہا اور تقریباً میرا ہم عمر تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاں پاکستان بننے کے بعد رہا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھا ” آپ پٹھانوں کا کھانا کیسے کھاتے رہے؟”وہ کہنے لگا” آپ لوگوں کا کھانا اتنا مزیدار ہوتا ہے کہ میں یہاں آج بھی گھر جاتے ہوئے ایرانی تندور سے روٹی لے کر موٹر میں روکھی کھاتا ہوں۔”

جب میں کویت سے پاکستان آرہا تھا تو میں نے اس سے وہی سوال پوچھا جسے وہ ہمیشہ ٹالتا رہا تھا ۔ میں نے دریافت کیا ” اب تو بتادو کہ تم عیسائی ہوکر پٹھانوں کے گاؤں میں روکھی سوکھی کھاتے اور پیش امام کی خدمات انجام دیتے رہے۔۔۔ آخر کیوں؟”

وہ کافی دیر سر جھکائے سوچتا رہا پھر سر اٹھا کر میری آنکھوں میں جھانکا اور کہا” ہمیں اپنے ملک کے مفادات کی کاخاطر بعض اوقات بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں لندن کے مضافات میں ایک مرکز ہے جہاں شکل و شباہت دیکھ کر انگریزون کو بیرونی مذاہب اور زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ وہاں سے فارغ تحصیل ہوکر پھر ہمیں مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔گاؤں آکر میں نے محلّہ عیسیٰ خیل کے بزرگوں کو یہ واقعہ سنایا تو ایک بوڑھے طالب گل نے کہا


” مجھے شک پڑا تھا، مگر سب کہہ رہے تھے کہ یہ چترالی ہے۔” وہاں اکثر چترالی مولوی پیش امام ہیں ۔ وہ بھی گورے ہیں بالکل انگریزوں کی طرح۔ پھر طالب گل نے کہا ” چلو بھائی، اب چار سال کی نمازیں لوٹائیں، جو ہم نے انگریز کی پیچھے پڑھیں۔۔۔ خانہ خراب ہو اس کا۔”جب میں نے جنگل کی حویلی کے متعلق پڑھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ مسٹر ولسن ضرور جنگل کی حویلی کا پروردہ تھا۔

یہ مضمون نوے کی دہائی میں اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا پھر

https://khalidhameed.wordpress.com/2011/07/12/مسلمانوں-میں-تفرقہ-بازی/
 
Last edited by a moderator:

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
بہت خوب، مگر نا قابلِ اعتبار پراپگنڈا ہے ــ
تھوڑا بہت مختلف فرقوں تاریخ اور "فرقوں کی نظریاتی/فکری بنیا د سے واقف شخص فرقوں کو سمجھنے کیلئے اس بیان پر کیا انحصار کرے گا ـ
ـ پھر مسلمان بھی اتنے "منا کاکا "تو کبھی رہے کہ فرنگیوں کے جھانسے میں آ گئے

قادیانیوں کا انگریز حکومت سے تعلق کا واقعہ ایک علیحدہ معاملہ ہے ، اس کے کئی سیاسی پہلو ہوں گے اس بحث سے کچھ تعلق نہیں
 

Back
Top