وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ عوام پر پہلے بھی مہنگائی کا بوجھ تھا اور اب بھی ہے، پچھلے 5 سالوں کے دوران ملکی کرنسی کا بیڑا غرق کر دیا گیا۔ چیئرمین سینٹ کیلئے مراعات کے بل کو منی بل کا حصہ نہیں بنایا جس پر مسلم لیگ ن کا اصولی فیصلہ ہے کہ اس بل کی حمایت نہیں کی جائے گی نہ ہی اسے قومی اسمبلی سے پاس ہونے دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم وہائیکورٹ کے تمام ججز کی بنیادی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے لیے سمری بھیج چکے ہیں، 30 جون سے قبل تنخواہوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ سول سروسز کے اخراجات میں کمی کی گنجائش موجود ہے لیکن ڈیفنس میں اخراجات کم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدے کیلئے اگلے ایک دو دن انتہائی اہم ہیں، ہمیں امید ہے کہ قوم کو معاملات طے پا جائیں گے اور خوشخبری ملے گی۔ پچھلی حکومت میں آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے پورے نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ ملکی معاشی حالت میں سدھار کیلئے میثاق معیشت وقت کی ضرورت ہے، ہمیں ملک کیلئے خوشی سے قربانی دینی چاہیے۔
انہوں نے بجٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2 لاکھ سے زائد تنخواہ پر اڑھائی فیصد ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے، اس سے کم تنخواہ پر ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا گیا کیونکہ تنخواہ دار طبقہ پہلے ہی بہت بوجھ ہے، اس لیے تنخواہوں میں اضافی کیا گیا۔موجودہ حکومت کی طرف سے کفایت شعاری کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی امریکہ اور یورپ میں فلائٹس پر لگی پابندی ہٹوانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سول ایوی ایشن قوانین میں تبدیلیاں لا کر اسے بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ کریں گے جس کے بعد امید ہے کہ ماہ ستمبر تک پابندی ختم ہو جائے گی۔ پی آئی اے کی امریکہ ویورپ کو پروازیں بند ہونے کے باعث سالانہ 71 ارب روپے کا نقصان ہوا، مزید کہا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ کو آئوٹ سورس کر رہے ہیں لیز پر نہیں دے رہے۔