سعودی عرب سمیت دس عرب ملک امریکہ کی مدد
جان کیری نے جمعرات کو جدہ میں عرب رہنماوں سے ملاقات کی
سعودی عرب سمیت دس عرب ملکوں نے دولت اسلامیہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے عراق اور شام
میں فوجی کارروائیاں کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون پر اتفاق کر لیا ہے۔
قبل ازیں روس نے امریکہ کو شام میں فوجی کارروائی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قسم کی کارروائی کے لیے سلامتی کونسل سے قرار داد منظور کروانا ضروری ہے۔دریں اثنا امریکہ وزیر خارجہ جان کیری نے جمعرات کو عرب رہنماوں پر زور دیا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف امریکی صدر براک اوباما کی فوجی مہم کی حمایت کریں اور شدت پسندوں کو مالی وسائل کی فراہمی کے راستوں کو مسدود کرنے اور عرب ذرائع ابلاغ پر شدت پسندانہ رجحانات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
امریکہ پر ستمبر سنہ 2001 کے حملوں کی برسی کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور فوجی کارروائی کا راستہ استوار کرنے کے لیے سعودی شہر جدہ پہنچے ہیں۔ایک روز قبل ہی امریکی صدر براک اوباما نے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے فوجی ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے کا اعلان کیا تھا۔سعودی عرب میں اپنے دورے کے دوران جان کیری نے امریکی فوج کے لیے مزید اڈے حاصل کرنے اور امریکی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی پروازوں کے لیے منظوری چاہی ہے۔سعودی عرب نے کئی دہائیوں کے بعد عراق میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کی بات کی ہے۔
سعودی عرب شام میں کئی سنی تنظیموں کی بھرپور مدد کر رہا لیکن دولت اسلامیہ کو ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے۔ سعودی عرب نےاس تنظیم کے خلاف صدر اوباما کی جنگی مہم کی حمایت کرنے اور معتدل گروپوں کے جنجگؤں کو تربیت دینے کے لیے اڈے فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔شیعہ اکثرت والے ملک ایران نے دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی اتحاد پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے امریکی ارادوں پر بھی شک ہے۔
اوباما نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ دولت اسلامیہ کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ایک نئے اتحاد کی قیادت کریں گے جس سے امریکہ خطے میں جاری دو تناعات میں براہ راست الجھ جائے گا۔امریکہ دولت اسلامیہ نامی شدت پسند تنظیم کو نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ قرار دیتا ہے کیونکہ اس تنظیم میں مغرب ملکوں سے بھی نوجوان شامل ہو رہے ہیں۔دولت اسلامی شدت پسند سنی تنظیم شام میں صدر اسد کی حکومت کے خلاف اور عراق میں شیعہ اکثریتی حکومت کے خلاف برسر پیرکار ہے جب کہ یہ کردوں اور معتدل سنیوں سے بھی نبردآزما ہے۔
عرب ملکوں کے علاوہ اس ملاقات میں ترکی نے بھی شرکت کی
دولت اسلامی کے خلاف اتحاد میں ایسے ملکوں کو بھی شامل ہونا پڑے گا جو ایک دوسرے کے سخت مخالف اور دشمن ہیں۔امریکہ ایک طرف تو عراق میں شیعہ حکمرانوں کی حمایت کر رہا دوسری طرف یہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف ہے اور ایران سے بھی اس کے تعلقات خراب ہیں۔ امریکہ ایسی سنی ریاستوں کا بھی اتحادی ہے جن کے ایران سے بہتر تعلقات ہیں۔
جدہ میں ہونےوالی ملاقات میں عرب ممالک اور غیر عرب سنی ملک ترکی نے بھی شرکت کی۔جان کیری کے ہمراہ آئے ہوئے ایک اعلیٰ امریکی سفارت کا مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں سے کہیں گے کہ وہ خطے میں امریکی اڈوں پر علاقے کی فضاوں میں زیادہ امریکی موجود کے لیے تیار رہیں۔ان کا کہنا تھا ’ کہ امریکہ کو اڈوں اور فضاؤں میں زیادہ موجودگی درکار ہوگی اور اس سلسلے میں تفصیلات طے کرنے کے لیے وزراء دفاع کا جلد اجلاس ہوگا۔‘جان کیری نےعلاقائی ٹی وی چینل خاص طور پر قطر میں قائم الجزیرہ اور سعودی ٹی وی چینل العربیہ پر زور دیا کہ وہ شدت پسندوں کی حوصلہ شکنی کریں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/09/140911_arab_agree_fz.shtml
سعودی عرب سمیت دس عرب ملک امریکہ کی مدد کو تیار
آخری وقت اشاعت: جمعرات 11 ستمبر 2014 ,* 16:28 GMT 21:28 PST
جان کیری نے جمعرات کو جدہ میں عرب رہنماوں سے ملاقات کی
سعودی عرب سمیت دس عرب ملکوں نے دولت اسلامیہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے عراق اور شام
میں فوجی کارروائیاں کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون پر اتفاق کر لیا ہے۔
قبل ازیں روس نے امریکہ کو شام میں فوجی کارروائی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قسم کی کارروائی کے لیے سلامتی کونسل سے قرار داد منظور کروانا ضروری ہے۔دریں اثنا امریکہ وزیر خارجہ جان کیری نے جمعرات کو عرب رہنماوں پر زور دیا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف امریکی صدر براک اوباما کی فوجی مہم کی حمایت کریں اور شدت پسندوں کو مالی وسائل کی فراہمی کے راستوں کو مسدود کرنے اور عرب ذرائع ابلاغ پر شدت پسندانہ رجحانات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
امریکہ پر ستمبر سنہ 2001 کے حملوں کی برسی کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور فوجی کارروائی کا راستہ استوار کرنے کے لیے سعودی شہر جدہ پہنچے ہیں۔ایک روز قبل ہی امریکی صدر براک اوباما نے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے فوجی ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے کا اعلان کیا تھا۔سعودی عرب میں اپنے دورے کے دوران جان کیری نے امریکی فوج کے لیے مزید اڈے حاصل کرنے اور امریکی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی پروازوں کے لیے منظوری چاہی ہے۔سعودی عرب نے کئی دہائیوں کے بعد عراق میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کی بات کی ہے۔
سعودی عرب شام میں کئی سنی تنظیموں کی بھرپور مدد کر رہا لیکن دولت اسلامیہ کو ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے۔ سعودی عرب نےاس تنظیم کے خلاف صدر اوباما کی جنگی مہم کی حمایت کرنے اور معتدل گروپوں کے جنجگؤں کو تربیت دینے کے لیے اڈے فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔شیعہ اکثرت والے ملک ایران نے دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی اتحاد پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے امریکی ارادوں پر بھی شک ہے۔
اوباما نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ دولت اسلامیہ کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ایک نئے اتحاد کی قیادت کریں گے جس سے امریکہ خطے میں جاری دو تناعات میں براہ راست الجھ جائے گا۔امریکہ دولت اسلامیہ نامی شدت پسند تنظیم کو نہ صرف خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ قرار دیتا ہے کیونکہ اس تنظیم میں مغرب ملکوں سے بھی نوجوان شامل ہو رہے ہیں۔دولت اسلامی شدت پسند سنی تنظیم شام میں صدر اسد کی حکومت کے خلاف اور عراق میں شیعہ اکثریتی حکومت کے خلاف برسر پیرکار ہے جب کہ یہ کردوں اور معتدل سنیوں سے بھی نبردآزما ہے۔
عرب ملکوں کے علاوہ اس ملاقات میں ترکی نے بھی شرکت کی
دولت اسلامی کے خلاف اتحاد میں ایسے ملکوں کو بھی شامل ہونا پڑے گا جو ایک دوسرے کے سخت مخالف اور دشمن ہیں۔امریکہ ایک طرف تو عراق میں شیعہ حکمرانوں کی حمایت کر رہا دوسری طرف یہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف ہے اور ایران سے بھی اس کے تعلقات خراب ہیں۔ امریکہ ایسی سنی ریاستوں کا بھی اتحادی ہے جن کے ایران سے بہتر تعلقات ہیں۔
جدہ میں ہونےوالی ملاقات میں عرب ممالک اور غیر عرب سنی ملک ترکی نے بھی شرکت کی۔جان کیری کے ہمراہ آئے ہوئے ایک اعلیٰ امریکی سفارت کا مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں سے کہیں گے کہ وہ خطے میں امریکی اڈوں پر علاقے کی فضاوں میں زیادہ امریکی موجود کے لیے تیار رہیں۔ان کا کہنا تھا ’ کہ امریکہ کو اڈوں اور فضاؤں میں زیادہ موجودگی درکار ہوگی اور اس سلسلے میں تفصیلات طے کرنے کے لیے وزراء دفاع کا جلد اجلاس ہوگا۔‘جان کیری نےعلاقائی ٹی وی چینل خاص طور پر قطر میں قائم الجزیرہ اور سعودی ٹی وی چینل العربیہ پر زور دیا کہ وہ شدت پسندوں کی حوصلہ شکنی کریں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/09/140911_arab_agree_fz.shtml