atensari
(50k+ posts) بابائے فورم
’چھروں والی بندوق صرف کشمیر کے لیے مخصوص کی گئی‘
متاثرین اور سماجی شخصیات کی موجودگی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایسے ہی اٹھاسی متاثرین پر مشتمل ایک رپورٹ بدھ کو سرینگر میں جاری کی۔
گذشتہ برس مسلح کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے حکام نے چھروں والی بندوق کا اس قدر استعمال کیا کہ چھرے اور چھروں سے زخمی آنکھیں کشمیری حالات کا تازہ حوالہ بن چکے ہیں۔
حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں چھرّوں سے زخمی ہونے والے 88 متاثرین کا ذکر ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انڈین فوج کے اس آپریشن میں سینکڑوں افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں جبکہ 14 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
جسم میں چھرے، زندگی میں گہری مایوسی
’کشمیر کی جنگ برابری کی جنگ نہیں ہے‘
ایمنسٹی کے انڈیا میں نمائندہ آکار پٹیل کہتے ہیں کہ انڈیا کی مختلف ریاستوں مِیں مظاہرے ہوتے ہیں لیکن چھروں کی بندوق صرف کشمیرکے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ان کا کہنا ہے ’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ دوسری جگہوں پر بھی چھروں کا استعمال کیا جائے تو مسئلہ حل ہوگا، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائد کی جائے اور ہجوم سے نمٹنے کے لیے متبادل انتظام کیا جائے۔‘رپورٹ کی تقریب رونمائی کے موقعے پر بعض متاثرین نے بتایا کہ انھیں آج بھی حیرت ہے کہ انھیں چھرے کیسے لگے کیونکہ وہ احتجاج کا حصہ نہیں تھے۔
پلوامہ کی پندرہ سالہ افرا نے بتایا کہ ’باہر شور تھا، لوگ احتجاج کر رہے تھے، میں اپنے بھائی کو ڈھونڈنے نکلی تو فورسز نے دیکھتے ہی مجھ پر چھرے برسائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ اُس وقت آٹھویں جماعت کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھیں، اور بعد میں آنکھیں متاثر ہونے کی وجہ سے وہ امتحان میں شرکت نہیں کر سکیں۔
نعيم اختر کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جس طرح عام شہریوں کے خلاف پیلٹ گنوں کا استعمال کیا گیا اس کا دفاع ممکن نہیںپلوامہ کے ہی منظور احمد کہتے ہیں کہ آنکھوں میں چھرے لگنے کے بعد انھیں تین آپریشنوں کے لیے ایک لاکھ روپے درکار تھے لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔منظور کا کہنا ہے کہ گیارہ ماہ سے وہ مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس اعتراض کو درست سمجھتی ہے کہ چھروں کی بندوق مہلک ہے، لیکن مظاہرین پرامن رہیں تو جانی نقصان نہیں ہو گا۔ حکومت آج کل ایسے متاثرین کی فہرست بھی مرتب کررہی ہے۔حکمران جماعت کے رہنما اور سرکاری ترجمان وحید الرحمان پرہ کے مطابق فی الوقت حکومت ان تمام افراد کی فہرست مرتب کررہی ہے جو چھروں سے متاثر ہیں۔
تاہم وہ کہتے ہیں ’لوگوں کو بھی سوچنا ہے۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو چھرے اُن حالات میں استعمال کیے گئے جب پرتشدد مظاہرے فورسز کے بالکل قریب گئے۔ لوگ اگر پرامن مظاہرے کریں تو مہلک یا غیر مہلک کا سوال ہی نہیں، ہتھیار ہی کیوں استعمال ہو۔‘انڈیا کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کئی بار یہ وعدہ کر چکے ہیں اعلیٰ سطح کی کمیٹی چھروں والی بندوق کے متبادل سے متعلق رپورٹ تیار کر رہی ہے لیکن سیاسی حلقوں کے اعتراض کے باوجود فورسز حکام نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ کشمیر میں ہجوم سے نمٹنے کے لیے چھروں کی بندوق کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
Source
متاثرین اور سماجی شخصیات کی موجودگی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایسے ہی اٹھاسی متاثرین پر مشتمل ایک رپورٹ بدھ کو سرینگر میں جاری کی۔
گذشتہ برس مسلح کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے حکام نے چھروں والی بندوق کا اس قدر استعمال کیا کہ چھرے اور چھروں سے زخمی آنکھیں کشمیری حالات کا تازہ حوالہ بن چکے ہیں۔
حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں چھرّوں سے زخمی ہونے والے 88 متاثرین کا ذکر ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انڈین فوج کے اس آپریشن میں سینکڑوں افراد کی آنکھیں متاثر ہوئیں جبکہ 14 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
جسم میں چھرے، زندگی میں گہری مایوسی
’کشمیر کی جنگ برابری کی جنگ نہیں ہے‘
ایمنسٹی کے انڈیا میں نمائندہ آکار پٹیل کہتے ہیں کہ انڈیا کی مختلف ریاستوں مِیں مظاہرے ہوتے ہیں لیکن چھروں کی بندوق صرف کشمیرکے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ان کا کہنا ہے ’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ دوسری جگہوں پر بھی چھروں کا استعمال کیا جائے تو مسئلہ حل ہوگا، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائد کی جائے اور ہجوم سے نمٹنے کے لیے متبادل انتظام کیا جائے۔‘رپورٹ کی تقریب رونمائی کے موقعے پر بعض متاثرین نے بتایا کہ انھیں آج بھی حیرت ہے کہ انھیں چھرے کیسے لگے کیونکہ وہ احتجاج کا حصہ نہیں تھے۔
پلوامہ کی پندرہ سالہ افرا نے بتایا کہ ’باہر شور تھا، لوگ احتجاج کر رہے تھے، میں اپنے بھائی کو ڈھونڈنے نکلی تو فورسز نے دیکھتے ہی مجھ پر چھرے برسائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ اُس وقت آٹھویں جماعت کے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھیں، اور بعد میں آنکھیں متاثر ہونے کی وجہ سے وہ امتحان میں شرکت نہیں کر سکیں۔
نعيم اختر کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جس طرح عام شہریوں کے خلاف پیلٹ گنوں کا استعمال کیا گیا اس کا دفاع ممکن نہیںپلوامہ کے ہی منظور احمد کہتے ہیں کہ آنکھوں میں چھرے لگنے کے بعد انھیں تین آپریشنوں کے لیے ایک لاکھ روپے درکار تھے لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔منظور کا کہنا ہے کہ گیارہ ماہ سے وہ مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس اعتراض کو درست سمجھتی ہے کہ چھروں کی بندوق مہلک ہے، لیکن مظاہرین پرامن رہیں تو جانی نقصان نہیں ہو گا۔ حکومت آج کل ایسے متاثرین کی فہرست بھی مرتب کررہی ہے۔حکمران جماعت کے رہنما اور سرکاری ترجمان وحید الرحمان پرہ کے مطابق فی الوقت حکومت ان تمام افراد کی فہرست مرتب کررہی ہے جو چھروں سے متاثر ہیں۔
تاہم وہ کہتے ہیں ’لوگوں کو بھی سوچنا ہے۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو چھرے اُن حالات میں استعمال کیے گئے جب پرتشدد مظاہرے فورسز کے بالکل قریب گئے۔ لوگ اگر پرامن مظاہرے کریں تو مہلک یا غیر مہلک کا سوال ہی نہیں، ہتھیار ہی کیوں استعمال ہو۔‘انڈیا کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کئی بار یہ وعدہ کر چکے ہیں اعلیٰ سطح کی کمیٹی چھروں والی بندوق کے متبادل سے متعلق رپورٹ تیار کر رہی ہے لیکن سیاسی حلقوں کے اعتراض کے باوجود فورسز حکام نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ کشمیر میں ہجوم سے نمٹنے کے لیے چھروں کی بندوق کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
Source
Last edited by a moderator: