سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کے دوبارہ گنتی کے اختیار کو برقرار رکھتے ہوئے ن لیگ کے تین امیدواروں کو رکن قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب قرار دیدیا ہے، عدالتی فیصلے پر صحافی برادری کا سخت ردعمل سامنے آگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 79، این اے 81 اور این اے 154 میں الیکشن کمیشن کے دوبارہ گنتی کے اختیار کو برقرار رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو کامیاب قرار دیدیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 2-1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا ہے جس کے بعد اس فیصلے کو صحافی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
سینئر صحافی اور کورٹ رپورٹر مطیع اللہ جان نے اس فیصلے پرتفصیلی ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلے سے تاثر ملتا ہے کہ راولپنڈی کے کمشنر کی جانب سے چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر پر دھاندلی سے متعلق جو الزامات لگائے ان کی تحقیقات کتنی ضروری ہے، یہ پلان سی لگتا ہے جس کے تحت ن لیگ کو آئینی ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت پوری کرکے دی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کے نتائج مرتب ہونے اور اعلان ہونے کے بعد بھی الیکشن کمیشن کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا اختیار دینا عدالتی انجینئرنگ کی عمدہ مثال ہے، چیف جسٹس نے ایک فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے بلے کے نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی اور آج کےفیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن قابل احترام ہے۔
شمس خٹک نے سینئر صحافی اسد طور کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت قاضی کو ایکسٹینشن دینے کیلئے مری جارہی ہے، قاضی صاحب آئینی ترمیم میں برابر ملوث ہیں، پلان سی یہی ہے کہ ن لیگ کو آئینی ترمیم کیلئے جو 16 نشستیں درکار ہیں وہ ری کاؤنٹنگ میں کم کرکے پوری کی جائیں۔
عمران ریاض خان نے کہا کہ یہ کیسا قاضی ہے جس کے فیصلوں کا سب کو پہلے سے علم ہوتا ہے۔
انہوں نے دوسری ٹویٹ میں کہا کہ گھٹیا حرکتیں شروع ہوچکی ہیں، ایکسٹینشن کیلئے بڑے پاپڑ ںیلنے پڑتے ہیں، طاقت کا نشہ اور بدلے کی دھن انسان کو ذہنی مریض بنا دیتی ہے۔
ارسلان بلوچ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس معاملے کو الیکشن ٹریبونل میں بھیجا تھا، مگر آج قاضی صاحب نے بغیر انکوائری کے ن لیگ کے حق میں فیصلہ دے کر شب خون مارا ہے۔
عمران افضل راجا نے این اے 81 سے پی ٹی آئی کے امیدوار بلال اعجاز کا بیان شیئر کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے قاضی فائزسے انصاف کی امید تھی، مگر انہوں نے تو انصاف کے ساتھ کھلواڑ کردیا اور ٹریبونلز کا کام بھی خود ہی شروع کردیا۔
ابوبکر بھٹی نے کہا کہ تاریخ اور قدرت بھی اپنا فیصلہ کرے گی، آج کا عدالتی فیصلہ آئین و قانون کی خلاف ورزی اور جمہور پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔
عدیل راجا نے کہا کہ قاضی صاحب نے ریٹائر ہونے سے انکار کردیا ہے۔
عاشر باجوہ نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا آج کا فیصلہ دیکھ کر کیا کسی کے دل سے ان کیلئے دعائیں نکلیں گی؟
اینکر ثمینہ پاشا نے کہا کہ ایک بات تو ماننی پڑے گی، قاضی صاحب اپنے وعدے کے بہت پکے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما اظہر مشہوانی نے کہا کہ قانونی طور پر الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن کا اختیار ختم ہوجاتا ہے اورسارے اختیار الیکشن ٹریبونل کے پاس چلے جاتے ہیں، آج کے فیصلے سے عدالت نے الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن سے ری کاؤنٹ کروایا،اور اس ری کاؤنٹنگ میں پی ٹی آئی کےامیدوار بھی موجود نہیں تھے۔
صحافی محمد عمیر نے کہا کہ ایک طرف قاضی فائز عیسی نے الیکشن ٹربیونلز کی سماعت روکی ہوئی ہے تاکہ تحریک انصاف کو سیٹیں واپس نہ ملیں دوسری جانب جس ری اکاؤنٹ کو لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کیا اسے جائز قرار دیکر ن لیگ کو سیٹیں تحفہ کردیں۔
علی ممتاز نے لکھا کہ جسٹس فائز عیسی نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کی مریدی کا اعلان کر دیا۔آستانہ الیکشن کمیشن کے تبرکات سے ہی تو مدت ملازمت میں توسیع ملے گی
صحافی زبیر علی خان نے کہا کہ مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے ایڈہاک ممبران اسمبلی نامزد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔