hmkhan
Senator (1k+ posts)
یہ مردہ اور بے حس قوم نہیں
قیصر مرزاصاحب! کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ کیا واقعی بحثیت مجموعی پوری قوم ایسی ہی ہے؟ جی نہیں اب اپنی اس ویڈیو کو ہی لے لو عوام کی اکثریت اس لوٹ مار میں شامل نہیں ہاں چند بے وقوف لوگوں کے اس بے ہودہ عمل پر پوری قوم کو مطعون کرنا مناسب نہیں ذرا آنکھوں پر بندھی عصبیت پٹی اتار کر دیکھو یہی قوم ایثار،قربانی،اخلاص عمل کی حیرت انگیز تاریخ رقم کرتی نظر آئے گی ذرا پیچھے مڑ کر قیام پاکستان کا منظر چشم تصور میں لاؤ جب مہا جرین کے لٹے،پٹے آگ اور خون کا دریا عبور کر کے پاک سرزمین پر آنے والے قافلوں کو اس شہر لاہور کے باسیوں نے بانہیں پھیلا کر اپنی آغوش میں لیا تھا اور انصار مدینہ جیسی تاریخ رقم کی تھی بس ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے مشہور ادیب اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر"مشکور حسین یاد" کی خود نوشت "آزادی کے چراغ" سے ایک اقتباس ضرور پیش کروں گا وہ بھی اس لئے کہ تمہیں احساس ہو کہ یہ قوم ہرگز ایسی نہیں جس کی منظر کشی تم کرنا چاہتے ہو
مشکور حسین یاد تحریر فرماتے ہیں" ہمارا قافلہ ریل گاڑی کے ذریعہ 2 نومبر1947 کی صبح کو پاکستان پہنچا میکلوڈ گنج ریلوےاسٹیشن پر ہمیں اتارا گیا جہاں سے ہمیں اپنی اگلی منزل کی گاڑی پکڑنا تھی ایک جگہ مقامی عورتیں،بچے،بوڑھے آنے والے مہاجیرین کی خاطر تواضع میں مصروف تھے
ہمیں بھنا ہوا گوشت اور گندم کی صاف ستھری روٹیاں پیش کی گئیں ہم نے ایسا کھانا پورے دو ماہ بعد دیکھا تھا اپنے شہیدوں کا تصور ذھن میں تھا اور ہم سے یہ کھانا کھایا نہ گیا میں نے اپنے ابا جان سے کہا دیکھئیے ابا جان میری امی،خدیجہ،اظفر،مسرور،ظہیر،نفیس بانو ہم سے پہلے پاکستان پہنچ گئے ہیں ابا جان! آپ کو ان خاطر مدارات کرنے والوں اور ہمارے گھر کے شہیدوں میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟
ابھی ہم یہ گفتگو ر رہے تھے کہ ایک عورت جس کی گود میں ڈیڑھ دو سال کی بچی تھی ہمارے پاس آئی اور اپن مخصوص لہجے میں کہنے لگی ! آپ لوگ الگ کیوں کھڑے ہیں کچھ کھائیے ناں؟ اتنے میں اس ننھی بچی نے روٹی کا ٹکڑہ ہماری طرف بڑھایا میں ے والد صاحب سے کہا "آپ کہتے تھے میری پھول جیسی بیٹی مسرور بانو کو ظالوں نے مار دیا اور پھر میری شہید ماں اور اپنی دادی کے ساتھ ایک ہی گڑھے میں دفن کر دی گئی لیکن یہ بچی کون ہے؟ مجھے تو اپنے جگرکا ٹکڑہ نظر آتی ہے آپ کی پوتی مسرور بانو!
نومبر کا مہینہ تھا ہم باپ بیٹوں کے تن پر ایک،ایک سوتی دھاری دارقمیض اور پائجامہ تھا یہ کپڑے میلے ہو جاتے تو ہم رات کو انہیں دھو کر سوکھنے کے لئے پھیلا دیتے اور خود لباس سے بے نیاز لحافوں میں دبک جاتے کھدر کے یہ لحاف بھی ہمیں مہاجر کیمپ سے ملے تھے ایک دن مرحوم بدر الدین نظامی آپہنچے عجیب انداز سے لپٹ گئے اور کہنے لگے"مشکور حوصلے سے کام لو اپنے گھر لے گئے ان بیوی جو پردہ کرتی تھیں سامنے آ گئیں نظامی نے ان سے کہا دیکھوبیگم
کپڑوں کا صندوق یہاں اٹھا لاؤ وہ صندوق آیا تو مجھ سے بولے" مشکور اس میں جو کپڑا تمہیں اچھا لگےبلا تکلف لے لواگر تم نے ایسا نہ کیا تو مجھے رنج ہوگا " میں ابھی اسی تذذب میں تھا کہ ان کی بیوی بولی یہ کیا بتائیں گے آپ مشکور بھائی کو وہ لباس دیں جو آپ کوسب سے زیاہ عزیز اور بہتر معلوم ہوتا ہے" ٹھیک کہتی ہو " یہ کہہ کر نظامی نے مجھے وہ اچکن دی جو انہوں نے شادی کے موقع پر بنوائی تھی ظاہرہے انہیں یہ تمام کپڑوں سب سے زیادہ عزیز تھی اچکن کے علاوہ نظامی نے مجھے اپنی جیبی گھڑی،جوتا،قیمتی قلم اورنہ جانے کیا،کیا ضرورت کی چیزیں دے دیں مجھ سے کہنے لگے مشکور یہ ہرگز خیال نہ کرنا میں یہ چیزیں دے کر بہت بڑا ایثار کررہا ہوں میں نے تمہیں وہ چیزیں دیں ہیں جو فاضل ہیں اب یہی دیکھ لو میرے پاس کلائی کی گھڑی موجود ہے پھر جیبی گھڑی میرے لئے فضول نہیں تو اور کیا ہے؟
اسی طرح میرے پاس ایک سوٹ موجود ہے پھر میں اچکن پہننے کا حقدار کیسے ہو سکتا ہوں ؟ میں نے کہا تم بھی تو مہاجر ہو کر آئے ہو میرے یہ الفاظ سن کر نظامی بے ساختہ مجھ سے لپٹ گئے اور آنسؤں اور ہچکیوں میں کہنے لگے"تمہاری طرح مہاجر ہو کر تو نہیں آیا یار! میں نے تو تمہیں پرسا بھی نہیں دیا -- یہ بھی نہیں پوچھا کہ تمہارے پیاروں پر کیا بیتی ؟تمہاری ماں کو ظالموں نے کیسے شہید کیا؟ اپنے کڑیل جوان بھائی کو کہاں گم کر آئے ؟ تمہاری وفا شعار بیوی خدیجہ اور ڈیڑھ سالہ بچی مسرور بانوکس طرح ظلم کا شکار ہوگئیں اس کے علاوہ تمہارے خاندان کے دوسرے افراد بر کیا بیتی " ----- اب یہاں دل جبر کر کے " جناب قیصر مرزا "کو یہ بتانا مقصود ہے محترم "مشکورحسین یاد" کا تعلق شعیہ مکتب فکر جبکہ محترم "بدر الدین نظامی " صاحب سنی العقیدہ تھے --- ابھی 1965 کی جنگ ، شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں ہونے والے قیامت خیززلزلے کے دوران ایثار اور قربانی کا تذکرہ بھی کرنا چاھتا تھا مگر طوالت
کے باعث یہ تذکرہ پھر کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
پس تحریر- یہ مضمون جناب "قیصرمرزا"کے تھریڈ "ایک مردہ اور بے حس قوم" کے جواب میں لکھا گیا
قیصر مرزاصاحب! کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ کیا واقعی بحثیت مجموعی پوری قوم ایسی ہی ہے؟ جی نہیں اب اپنی اس ویڈیو کو ہی لے لو عوام کی اکثریت اس لوٹ مار میں شامل نہیں ہاں چند بے وقوف لوگوں کے اس بے ہودہ عمل پر پوری قوم کو مطعون کرنا مناسب نہیں ذرا آنکھوں پر بندھی عصبیت پٹی اتار کر دیکھو یہی قوم ایثار،قربانی،اخلاص عمل کی حیرت انگیز تاریخ رقم کرتی نظر آئے گی ذرا پیچھے مڑ کر قیام پاکستان کا منظر چشم تصور میں لاؤ جب مہا جرین کے لٹے،پٹے آگ اور خون کا دریا عبور کر کے پاک سرزمین پر آنے والے قافلوں کو اس شہر لاہور کے باسیوں نے بانہیں پھیلا کر اپنی آغوش میں لیا تھا اور انصار مدینہ جیسی تاریخ رقم کی تھی بس ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے مشہور ادیب اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر"مشکور حسین یاد" کی خود نوشت "آزادی کے چراغ" سے ایک اقتباس ضرور پیش کروں گا وہ بھی اس لئے کہ تمہیں احساس ہو کہ یہ قوم ہرگز ایسی نہیں جس کی منظر کشی تم کرنا چاہتے ہو
مشکور حسین یاد تحریر فرماتے ہیں" ہمارا قافلہ ریل گاڑی کے ذریعہ 2 نومبر1947 کی صبح کو پاکستان پہنچا میکلوڈ گنج ریلوےاسٹیشن پر ہمیں اتارا گیا جہاں سے ہمیں اپنی اگلی منزل کی گاڑی پکڑنا تھی ایک جگہ مقامی عورتیں،بچے،بوڑھے آنے والے مہاجیرین کی خاطر تواضع میں مصروف تھے
ہمیں بھنا ہوا گوشت اور گندم کی صاف ستھری روٹیاں پیش کی گئیں ہم نے ایسا کھانا پورے دو ماہ بعد دیکھا تھا اپنے شہیدوں کا تصور ذھن میں تھا اور ہم سے یہ کھانا کھایا نہ گیا میں نے اپنے ابا جان سے کہا دیکھئیے ابا جان میری امی،خدیجہ،اظفر،مسرور،ظہیر،نفیس بانو ہم سے پہلے پاکستان پہنچ گئے ہیں ابا جان! آپ کو ان خاطر مدارات کرنے والوں اور ہمارے گھر کے شہیدوں میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟
ابھی ہم یہ گفتگو ر رہے تھے کہ ایک عورت جس کی گود میں ڈیڑھ دو سال کی بچی تھی ہمارے پاس آئی اور اپن مخصوص لہجے میں کہنے لگی ! آپ لوگ الگ کیوں کھڑے ہیں کچھ کھائیے ناں؟ اتنے میں اس ننھی بچی نے روٹی کا ٹکڑہ ہماری طرف بڑھایا میں ے والد صاحب سے کہا "آپ کہتے تھے میری پھول جیسی بیٹی مسرور بانو کو ظالوں نے مار دیا اور پھر میری شہید ماں اور اپنی دادی کے ساتھ ایک ہی گڑھے میں دفن کر دی گئی لیکن یہ بچی کون ہے؟ مجھے تو اپنے جگرکا ٹکڑہ نظر آتی ہے آپ کی پوتی مسرور بانو!
نومبر کا مہینہ تھا ہم باپ بیٹوں کے تن پر ایک،ایک سوتی دھاری دارقمیض اور پائجامہ تھا یہ کپڑے میلے ہو جاتے تو ہم رات کو انہیں دھو کر سوکھنے کے لئے پھیلا دیتے اور خود لباس سے بے نیاز لحافوں میں دبک جاتے کھدر کے یہ لحاف بھی ہمیں مہاجر کیمپ سے ملے تھے ایک دن مرحوم بدر الدین نظامی آپہنچے عجیب انداز سے لپٹ گئے اور کہنے لگے"مشکور حوصلے سے کام لو اپنے گھر لے گئے ان بیوی جو پردہ کرتی تھیں سامنے آ گئیں نظامی نے ان سے کہا دیکھوبیگم
کپڑوں کا صندوق یہاں اٹھا لاؤ وہ صندوق آیا تو مجھ سے بولے" مشکور اس میں جو کپڑا تمہیں اچھا لگےبلا تکلف لے لواگر تم نے ایسا نہ کیا تو مجھے رنج ہوگا " میں ابھی اسی تذذب میں تھا کہ ان کی بیوی بولی یہ کیا بتائیں گے آپ مشکور بھائی کو وہ لباس دیں جو آپ کوسب سے زیاہ عزیز اور بہتر معلوم ہوتا ہے" ٹھیک کہتی ہو " یہ کہہ کر نظامی نے مجھے وہ اچکن دی جو انہوں نے شادی کے موقع پر بنوائی تھی ظاہرہے انہیں یہ تمام کپڑوں سب سے زیادہ عزیز تھی اچکن کے علاوہ نظامی نے مجھے اپنی جیبی گھڑی،جوتا،قیمتی قلم اورنہ جانے کیا،کیا ضرورت کی چیزیں دے دیں مجھ سے کہنے لگے مشکور یہ ہرگز خیال نہ کرنا میں یہ چیزیں دے کر بہت بڑا ایثار کررہا ہوں میں نے تمہیں وہ چیزیں دیں ہیں جو فاضل ہیں اب یہی دیکھ لو میرے پاس کلائی کی گھڑی موجود ہے پھر جیبی گھڑی میرے لئے فضول نہیں تو اور کیا ہے؟
اسی طرح میرے پاس ایک سوٹ موجود ہے پھر میں اچکن پہننے کا حقدار کیسے ہو سکتا ہوں ؟ میں نے کہا تم بھی تو مہاجر ہو کر آئے ہو میرے یہ الفاظ سن کر نظامی بے ساختہ مجھ سے لپٹ گئے اور آنسؤں اور ہچکیوں میں کہنے لگے"تمہاری طرح مہاجر ہو کر تو نہیں آیا یار! میں نے تو تمہیں پرسا بھی نہیں دیا -- یہ بھی نہیں پوچھا کہ تمہارے پیاروں پر کیا بیتی ؟تمہاری ماں کو ظالموں نے کیسے شہید کیا؟ اپنے کڑیل جوان بھائی کو کہاں گم کر آئے ؟ تمہاری وفا شعار بیوی خدیجہ اور ڈیڑھ سالہ بچی مسرور بانوکس طرح ظلم کا شکار ہوگئیں اس کے علاوہ تمہارے خاندان کے دوسرے افراد بر کیا بیتی " ----- اب یہاں دل جبر کر کے " جناب قیصر مرزا "کو یہ بتانا مقصود ہے محترم "مشکورحسین یاد" کا تعلق شعیہ مکتب فکر جبکہ محترم "بدر الدین نظامی " صاحب سنی العقیدہ تھے --- ابھی 1965 کی جنگ ، شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں ہونے والے قیامت خیززلزلے کے دوران ایثار اور قربانی کا تذکرہ بھی کرنا چاھتا تھا مگر طوالت
کے باعث یہ تذکرہ پھر کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
پس تحریر- یہ مضمون جناب "قیصرمرزا"کے تھریڈ "ایک مردہ اور بے حس قوم" کے جواب میں لکھا گیا
Last edited: