27-01-2017
تحریر:خداداد
یہ جو پیٹ ہے نا۔۔
یہ غالباً سال دو ہزار چار کی بات ہے۔ کسی سلسلے میں لاہور کے امراض قلب کے سب سے بڑے ہسپتال "پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی" جانے کا اتفاق ہوا۔ شعبہ "ای ٹی ٹی" کے دروازے پر سٹوڈنٹ ڈاکٹرز ایک دائرہ بنا کی کھڑے تھے اور ایک سینئر ڈاکٹر صاحب ان نئے ڈاکٹرز کو لیکچر دے رہے تھے۔ مجھے دروازے تک رسائی نہ مل سکی اور یوں میں طلباء کی بھیڑ میں پھنس گیا۔ لیکچر دینے والے ڈاکٹر صاحب کی پیٹھ میری طرف تھی اس لیے انہیں احساس نہ ہو پایا کہ ایک اجنبی بھی ان کی باتیں سن رہا ہے اور انہوں نے لیکچر جاری رکھا۔
ایک طالب علم نے سوال کیا، "سر اگر ای سی جی کے بعد مریض کی ای ٹی ٹی بھی ٹھیک ہو تو پھر نارمل پروسیجر کے مطابق اینجیوگرافی کیوں کروائی جاتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا اور دھیمی آواز میں اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولے، "یہ جو پیٹ ہے نا۔۔! یہ کرواتا ہے سب کچھ۔ تمہیں وقت کے ساتھ اندازہ ہو جائے گا"۔ حساس نوعیت کی گفتگو کے دوران ایک اجنبی کو اپنے درمیان دیکھ کر ایک دو طالب علموں نے آنکھیں مٹکا کر سینئر ڈاکٹر صاحب کو میری موجودگی کا احساس دلایا اور ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر میرے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔
اس ضمن میں ایک دوسرا واقعہ سال دو ہزار بارہ کا ہے۔ لاہور کے ایک جدید ترین پرائیویٹ ہسپتال میں برطانیہ سے امراض قلب کے ایک انتہائی ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر کے سرجیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے لاہور میں اپنے چند دن کے قیام کے دوران چند درجن دل کے مریضوں کو سٹینٹ لگانے تھے جو وہ برطانیہ سے لے کر آئے تھے۔ کام کے درمیان وقفے کے دوران ان کی ایک ایسے نوجوان سے ملاقات ہوئی جو بہتر نوکری کی تلاش میں تھا۔ دونوں کے درمیان پنجابی میں جو گفتگو ہوئی وہ میں نے مکمل انہماک سے سنی اور اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔
ڈاکٹر: مہینے کے کتنے پیسے کما لیتے ہو؟
نوجوان: پچیس تیس ہزار۔
ڈاکٹر: اتنے میں تو موٹر سائیکل کا خرچ پورا نہیں ہوتا، تم گاڑی کیسے خریدو گے؟
نوجوان: سر اسی لیے بہتر نوکری دیکھ رہا ہوں۔
ڈاکٹر: تم میرے پارٹنر بن جاؤ۔ راستہ میں دکھاؤں گا، چلنا تمہیں ہو گا، دونوں مل کر پیسہ بنائیں گے۔ میں تمہیں برطانیہ سے سٹینٹ بھجواؤں گا۔ ان کی معیاد ختم ہونے کے قریب ہو گی، کچھ کی ختم ہو بھی چکی ہو گی۔ جن کی ختم ہو چکی ہو ان پر نئی معیاد کا سٹیکر بنوا کر لگوانا پڑے گا۔ لیکن فکر نہ کرنا، پاکستان میں سب ہو جاتا ہے، جگہ میں بتا دوں گا، وہاں سے کام تمہیں کروانا ہو گا۔
نوجوان: سر ایکسپائرڈ سٹینٹ مریض کے لیے تو نقصان دہ ہو گا؟
ڈاکٹر: کیا تم ایک کارڈیالوجسٹ سے زیادہ جانتے ہو؟ ایک دو سال پرانا ہو جانے سے سٹینٹ کا کچھ بھی نہیں بگڑتا، اور منافع بھی اسی میں زیادہ ہے۔ معیاد ختم ہونے کے قریب قریب سٹینٹ بہت سستا مل جاتا ہے، گورے تو ایسے سٹینٹ تلف کر دیتے ہیں، پاکستانیوں کے ہاتھ اس طرح کی کھیپ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔
نوجوان: سر چلیں اگر میں نئی معیاد والے سٹیکر بنوا کر ڈبوں پر لگا بھی لوں تو بیچوں گا کیسے اور کن کو؟
ڈاکٹر: تم میرے ساتھ کام کرنے کی حامی بھرو تو دو چار ڈاکٹروں کے نام تو میں ہی بتا دوں گا۔ اور جب ان کو بھی مالی فائدہ نظر آئے گا تو اپنے تعلق والے ڈاکٹروں کو وہ خود تمہارے پاس بھیجیں گے۔ اس طرح تمہارا ایک نیٹ ورک بن جائے گا۔ بس تمہیں ہوشیاری سے ڈاکٹروں کے کمیشن اور ریفرل فیس کا حساب کتاب رکھنا ہو گا۔
نوجوان: سر یہ کمیشن وغیرہ تو کچھ ناجائز سا کام لگتا ہے۔
ڈاکٹر: اوہ۔۔ یار اتنا کیوں سوچتے ہو؟ سوچی پیا تے بندہ گیا۔ ڈاکٹر لوگ مالی فائدے کے بغیر کام نہیں کرتے۔ وہ دور گیا جب لوگوں کے ضمیر زندہ تھے۔ اب تو یہ کمیشن اور ریفرل فیس مارکیٹ کا اصول ہے۔ اتنی اخلاقیات میں ذہن کو الجھاؤ گے تو پیسہ کیسے کماؤ گے؟ میں برطانیہ میں رہتا ہوں۔ میرے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ میں تو تمہاری مدد کرنا چاہ رہا ہوں اور تم ہو کہ الٹا مجھے سبق پڑھا رہے ہو۔ نہیں کرنا میرے ساتھ کام تو نہ کرو۔ میں کسی اور کو پارٹنر بنا لوں گا۔ پیسے کی تو سب کو ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی نوجوان کے ساتھ گفتگو سن کر مجھے کئی سال پہلے طلباء کو لیکچر دینے والے ڈاکٹر صاحب کا جملہ یاد آ رہا تھا جب انہوں نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا، یہ جو پیٹ ہے نا۔۔
[email protected]
تحریر:خداداد
یہ جو پیٹ ہے نا۔۔
یہ غالباً سال دو ہزار چار کی بات ہے۔ کسی سلسلے میں لاہور کے امراض قلب کے سب سے بڑے ہسپتال "پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی" جانے کا اتفاق ہوا۔ شعبہ "ای ٹی ٹی" کے دروازے پر سٹوڈنٹ ڈاکٹرز ایک دائرہ بنا کی کھڑے تھے اور ایک سینئر ڈاکٹر صاحب ان نئے ڈاکٹرز کو لیکچر دے رہے تھے۔ مجھے دروازے تک رسائی نہ مل سکی اور یوں میں طلباء کی بھیڑ میں پھنس گیا۔ لیکچر دینے والے ڈاکٹر صاحب کی پیٹھ میری طرف تھی اس لیے انہیں احساس نہ ہو پایا کہ ایک اجنبی بھی ان کی باتیں سن رہا ہے اور انہوں نے لیکچر جاری رکھا۔
ایک طالب علم نے سوال کیا، "سر اگر ای سی جی کے بعد مریض کی ای ٹی ٹی بھی ٹھیک ہو تو پھر نارمل پروسیجر کے مطابق اینجیوگرافی کیوں کروائی جاتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا اور دھیمی آواز میں اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولے، "یہ جو پیٹ ہے نا۔۔! یہ کرواتا ہے سب کچھ۔ تمہیں وقت کے ساتھ اندازہ ہو جائے گا"۔ حساس نوعیت کی گفتگو کے دوران ایک اجنبی کو اپنے درمیان دیکھ کر ایک دو طالب علموں نے آنکھیں مٹکا کر سینئر ڈاکٹر صاحب کو میری موجودگی کا احساس دلایا اور ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر میرے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔
اس ضمن میں ایک دوسرا واقعہ سال دو ہزار بارہ کا ہے۔ لاہور کے ایک جدید ترین پرائیویٹ ہسپتال میں برطانیہ سے امراض قلب کے ایک انتہائی ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر کے سرجیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے لاہور میں اپنے چند دن کے قیام کے دوران چند درجن دل کے مریضوں کو سٹینٹ لگانے تھے جو وہ برطانیہ سے لے کر آئے تھے۔ کام کے درمیان وقفے کے دوران ان کی ایک ایسے نوجوان سے ملاقات ہوئی جو بہتر نوکری کی تلاش میں تھا۔ دونوں کے درمیان پنجابی میں جو گفتگو ہوئی وہ میں نے مکمل انہماک سے سنی اور اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔
ڈاکٹر: مہینے کے کتنے پیسے کما لیتے ہو؟
نوجوان: پچیس تیس ہزار۔
ڈاکٹر: اتنے میں تو موٹر سائیکل کا خرچ پورا نہیں ہوتا، تم گاڑی کیسے خریدو گے؟
نوجوان: سر اسی لیے بہتر نوکری دیکھ رہا ہوں۔
ڈاکٹر: تم میرے پارٹنر بن جاؤ۔ راستہ میں دکھاؤں گا، چلنا تمہیں ہو گا، دونوں مل کر پیسہ بنائیں گے۔ میں تمہیں برطانیہ سے سٹینٹ بھجواؤں گا۔ ان کی معیاد ختم ہونے کے قریب ہو گی، کچھ کی ختم ہو بھی چکی ہو گی۔ جن کی ختم ہو چکی ہو ان پر نئی معیاد کا سٹیکر بنوا کر لگوانا پڑے گا۔ لیکن فکر نہ کرنا، پاکستان میں سب ہو جاتا ہے، جگہ میں بتا دوں گا، وہاں سے کام تمہیں کروانا ہو گا۔
نوجوان: سر ایکسپائرڈ سٹینٹ مریض کے لیے تو نقصان دہ ہو گا؟
ڈاکٹر: کیا تم ایک کارڈیالوجسٹ سے زیادہ جانتے ہو؟ ایک دو سال پرانا ہو جانے سے سٹینٹ کا کچھ بھی نہیں بگڑتا، اور منافع بھی اسی میں زیادہ ہے۔ معیاد ختم ہونے کے قریب قریب سٹینٹ بہت سستا مل جاتا ہے، گورے تو ایسے سٹینٹ تلف کر دیتے ہیں، پاکستانیوں کے ہاتھ اس طرح کی کھیپ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔
نوجوان: سر چلیں اگر میں نئی معیاد والے سٹیکر بنوا کر ڈبوں پر لگا بھی لوں تو بیچوں گا کیسے اور کن کو؟
ڈاکٹر: تم میرے ساتھ کام کرنے کی حامی بھرو تو دو چار ڈاکٹروں کے نام تو میں ہی بتا دوں گا۔ اور جب ان کو بھی مالی فائدہ نظر آئے گا تو اپنے تعلق والے ڈاکٹروں کو وہ خود تمہارے پاس بھیجیں گے۔ اس طرح تمہارا ایک نیٹ ورک بن جائے گا۔ بس تمہیں ہوشیاری سے ڈاکٹروں کے کمیشن اور ریفرل فیس کا حساب کتاب رکھنا ہو گا۔
نوجوان: سر یہ کمیشن وغیرہ تو کچھ ناجائز سا کام لگتا ہے۔
ڈاکٹر: اوہ۔۔ یار اتنا کیوں سوچتے ہو؟ سوچی پیا تے بندہ گیا۔ ڈاکٹر لوگ مالی فائدے کے بغیر کام نہیں کرتے۔ وہ دور گیا جب لوگوں کے ضمیر زندہ تھے۔ اب تو یہ کمیشن اور ریفرل فیس مارکیٹ کا اصول ہے۔ اتنی اخلاقیات میں ذہن کو الجھاؤ گے تو پیسہ کیسے کماؤ گے؟ میں برطانیہ میں رہتا ہوں۔ میرے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ میں تو تمہاری مدد کرنا چاہ رہا ہوں اور تم ہو کہ الٹا مجھے سبق پڑھا رہے ہو۔ نہیں کرنا میرے ساتھ کام تو نہ کرو۔ میں کسی اور کو پارٹنر بنا لوں گا۔ پیسے کی تو سب کو ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی نوجوان کے ساتھ گفتگو سن کر مجھے کئی سال پہلے طلباء کو لیکچر دینے والے ڈاکٹر صاحب کا جملہ یاد آ رہا تھا جب انہوں نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا، یہ جو پیٹ ہے نا۔۔
[email protected]
Last edited by a moderator: