یہودیت.

ابابیل

Senator (1k+ posts)
جزیرۂ عرب میں یہود (اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے کویہود کہا جاتا تھا؛ لیکن ان کا قدیم اور اصلی نام بنی اسرائیل تھا، یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا عبرانی نام اسرائیل تھا ان کی اولاد، بنی اسرائیل کے بجائے ان کا نام یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بہت بعد غالباً حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد کے بعد پڑا، حضرت سلیمان کے بعد یہود دوحصوں میں بٹ گئے تھے، ایک گروہ موحد تھا، یہ گروہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے فرزند وولی عہد کے ماتحت تھا، اصل میں یہود ان ہی کالقب تھا، اس لیے کہ یہود کا لفظ ہود سے مشتق ہے، جس کے معنی رجوع کے ہیں؛ چونکہ یہ لوگ اللہ کی طرف رجوع ہوئے اس لیے ان کا نام یہی پڑگیا، واللہ اعلم، دوسرا گروہ وہ مشرک تھا، یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا سزا یافتہ اور دشمن تھا؛ لیکن ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہلے کے بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ ان کے امتی اور ماننے والے جواس وقت یہود کے نام سے مشہور ہیں ان سے بحث کرنی ہے، اس لیے ہم نے ہرجگہ یہود ہی کا لفظ استعمال کیا ہے، اس لیے غلط فہمی نہ ہونی چاہیے، قرآنِ پاک میں ان کا تذکرہ ان کے قدیم اور جدید دونوں ناموں سے کیا گیا ہے) کی تاریخ دو، دوروں پرمنقسم ہے پہلا دَور سنہ۵۰۰ ق، م جسے یہود بائدہ کا دَور کہا جاتا ہےاور دوسرا دور سنہ۵۰۰ ق، م سے ظہورِ اسلام تک، پہلے دور میں جویہود جزیرہ۷ عرب میں آئے ان کے متعلق قدیم صحیفوں اور عربی تاریخوں میں متعدد روایتیں ملتی ہیں؛ لیکن یہ صحیح طور سے نہیں بتایا جاسکتا کہ کب سے ان کا وجود یہاں ملتا ہے بعض عربی تاریخوں کی روایتوں سے توپتہ چلتا ہے کہ حجاز میں اُن کی آمد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ یعنی سنہ۵۰۰ق، م سے ہی شروع ہوگئی تھی، یاقوت نے معجم البلدان میں مدینہ کے باشندوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

حين أظهره اللّٰه تعالى على فرعون فوطىء الشام وأهلك من كان بها منهم ثم بعث بعثاً آخر إلى الحجاز إلى العماليق، وأمرهم أن لايستبقوا أحداً ممن بلغ الحلم إلامن دخل في دينه فقدموا عليهم فقاتلوهم فأظهرهمٍ الله عليهم فقتلوهم، وقتلوا ملكهم الأرقم، وأسروا ابنا له شاباً جميلاً كأحسن من رأى في زمانه فضنوا به عن القتل وقالوا: نستحييه حتى نقدم به على موسى فيرى فيه رأيه فأقبلوا، وهو معهم، وقبض الله موسى قبل قدومهم فلما قربوا، وسمع بنو إسرائيل بذلك تلقوهم، وسألوهم عن أخبارهم فأخبروهم بما فتح الله عليهم قالوا: فما هذا الفتى الذي معكم، فأخبروهم بقصته فقالوا: إن هذه معصية منكم لمخالفتكم أمر نبيكم والله لادخلتم علينا بلادنا أبداً فحالوا بينهم وبين الشام فقال ذلك الجيش: مابلد إذمنعتم بلدكم خير لكم من البلد الذي فتحتموه وقتلتم أهله فارجعوا إليه فعادوا إليها فأقاموا بها فهذا كان أول سُكنى اليهود الحجاز والمدينة۔


(معجم البلدان،الجزء السابع،باب الميم والدال وما يليهما:۴/۷۲، شاملہ، موقع الوراق)

ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوفرعون پرغالب کیا توانہوں نے فرعون کے اعوان وانصار کوختم کرنے کے بعد ایک فوج حجاز عمالیق (حجاز میں اس وقت عمالقہ کی حکومت تھی جن کا ظلم وستم فرعون سے کچھ کم نہ تھا) کی سرکوبی کے لیے بھیجی، علاوہ ہربالغ کوختم کردیا جائے؛ چنانچہ وہ فوج حجاز گئی اور اس کوعمالقہ پرغلبہ حاصل ہوگیا اور وہاں کا بادشاہ ارقم قتل کیا گیا، اس کا ایک لڑکا گرفتار ہوا؛ چونکہ وہ بہت خوبصورت اور معصوم تھا اس لیے فوج اس کواپنے ساتھ شام لیتی آئی، اس لڑکے کے بارے میں وہ غور کررہے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس اسے لے جایا جائے یانہیں؟ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی تھی، بنواسرائیل نے فوج سے حجاز کے حالات دریافت کیے؛ انھوں نے صورتِ حال بتائی اس پربنواسرائیل فوج پرخفا ہوئے کہ تم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قول کی خلاف ورزی کی، اس لیے تم شام میں نہیں رہ سکتے؛ چنانچہ وہ شام میں داخل نہیں ہوسکے یہ صورتِ حال دیکھ کرفوج کے سردار نے کہا کہ فوجیو! شام کے بعد تمہارے لیے حجاز ہی کی سرزمین بہتر ہے، تووہیں واپس چلو؛ چنانچہ وہ حجاز واپس آئے، مدینہ اور حجاز میں یہود کی یہ پہلی آبادی تھی، جویہاں آباد ہوئی۔

(اس روایت کواغانی نےاپنی کتاب کی جلد:۱۱/صفحہ:۹۱ میں۔ اور ہمودی نے وفالوفاء:۱۱۱ میں۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ:۲/۲۸۷ میں نقل کیا ہے)

اس روایت کے متعلق تاریخ الیہود کے مصنف اسرائیل دلفنسوں نے لکھا ہے کہ یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے، اس لیے کہ صحف قدیم میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی تردید کے لیے صرف اتنا ثبوت کافی نہیں ہے کہ صحفِ قدیم میں اس کا تذکرہ نہیں ہے، بہت سے ایسے قدیم تاریخی واقعات ملیں گے جومسلمات کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں مگرصحفِ قدیم ان کے تذکرہ سے خالی ہیں توکیا یہ سب ناقابل اعتبار ہیں؟ اور پھرمصنف کوبھی یہ تسلیم ہے کہ سنہ۱۲۰۰ق، م سے پہلے حجاز میں یہود کی آمد شروع ہوگئی تھی توپھراس روایت کے عدم قبولیت کا سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ اپنی یہودی عصبیت کی بناء پرعربی ماخذ کی روایات کوکمزورکرنا چاہتا ہے؛ جیسا کہ اس نے کتاب میں متعدد جگہ اس کا اظہار کیا ہے۔

(اس روایت کوناقابل اعتبار ٹھہرانے میں مصنف کی غلط فہمی کا سبب شاید یہ ہوکہ اِسی روایت کا ماخذ اس نے صرف اغانی کوسمجھا ہے؛ حالانکہ دوسری مستند کتابوں جن کا تذکرہ اُوپر آچکا ہے ان میں بھی یہ روایت موجود ہے)
اسی کے بعد جزیرۂ عرب میں یہود کی دوسری آمد بنی شمعون کی ہجرت قرار پاسکتی ہے، اس کے متعلق صحفِ قدیم کا بیان ہے کہ وہ چراگاہ کی تلاش کے لیے طورِ سینا تک گئے اور وہاں ان سے اور قبائلِ معان سے جووہاں کے قدیم باشندے تھے، جنگ ہوئی جس میں بنی شمعون غالب رہے، وہ پورا بیان یہ ہے:

۳۸۔یہ جن کے نام مذکور ہوئے، اپنے اپنے گھرانے کے سردار تھے اور ان کا آبائی گھرانہ بہت بڑھ گیا، ۳۹۔اور وہ جدور کی درآمد تلک اس وادی کے پورب تک اپنے گلوں کے لیے چراگاہ ڈھونڈھنے گئے، ۴۰۔وہاں انہوں نے ستھری اور اچھی چراگاہ پائی کہ وہ زمین وسیع اور چکنی اور سکھ کی گجہ تھی، آحام کے لوگ قدیم سے اس میں رہتے تھے، ۴۱۔اوروہ جن کے نام لکھے گئے ہیں شاہ یہود اور حزقیاہ کے دنوں میں چڑھ آئے اور انہوں نے ان کا پڑاؤ مارا اور معونیم (معونیم یعنی قبائل معان یامعین جومکہ اور یثرب کے اطراف میں آباد تھے، تاریخ الیہود صفحہ:۵، اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے اور قبائل معان میں جوجنگ ہوئی اس میں بنی اسرائیل غالب رہے اور انہوں نے معان کوقتل کرکے اس سرزمین پرقبضہ کرلیا، یہ قبائل عرب کے بہت قدیم قبائل ہیں؛ انھوں نے کئی برس تک جزیرۂ عرب میں حکومت کی ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: ارض القرآن، جلداوّل) جووہاں ملے قتل کیا اسیا کہ وہ آج کے دن تک نابود ہیں اور ان کے گھروں میں آپ رہے؛ کیونکہ ان کے گلے کے لیے وہاں چرائی تھی، ۴۲۔اور ان میں سے یعنی بنوشمعون کے بیٹوں میں سے پانچ سومرد شیعر کے پہاڑ پرگئے اور یسعی کے خلطیاہ اور نعرماہ اور رفایاہ اور غریئیل ان کے سردار تھے، ۴۳۔اور ان باقی عمالیقوں کوجوبھاگ نکلے تھے قتل کیا اور آج کے دن تک وہاں بستے ہیں۔&(تواریخ:۱، باب:۴)

اس ہجرت کی سنہ کی تعیین میں اختلاف ہے، ڈوزی (Doziy) نے اپنی کتاب بنی اسرائیل مکہ میں، میں یہ ثابت کیا ہے کہ یہ ہجرت حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ سے کچھ پہلے یعنی سنہ۱۰۰۰ق، م کے قریب ہوئی؛ لیکن مارگولیتھ (Morgolouth) نے ڈوزی سے اختلاف کیا ہے اور اپنی کتاب عربوں اور بنی اسرائیل کے تعلقات، میں یہ ثابت کیا ہے کہ یہ ہجرت حزقیل کے وقت میں ہوئی؛ جنہوں نے سنہ۶۹۱ق،م کا واقعہ قرار دیا ہے۔

تاریخ الیہود کے مصنف کا خیال ہے کہ کم از کم اس ہجرت کا زمانہ سنہ۱۲۰۰ق،م ہے؛ لیکن اس نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے، غالباً اس نے یہ رائے اسی لیے قائم کی ہے کہ بائبل میں اس واقعہ کا سنہ تو سنہ۷۱۵ق،م درج ہے؛ لیکن اس واقعہ سے پہلے اور بعد کے جتنے واقعات ہیں وہ سب سنہ۱۴۰۰ق،م کے تحت درج ہیں، صرف اسی واقعہ کے سامنے سنہ۷۱۵ق،م درج ہے۔

بہرحال اس سے اتنا توثابت ہوتا ہے کہ سنہ۵۰۰ق،م سے پہلے بنی شمعون عرب میں آباد ہوچکے تھے اسی اختلاف روایات کی بناپربعض مستشرقین نے بنی شمعون کے وجود ہی سے انکار کردیا ہے؛ لیکن کتاب یوشع بن نون کے دیکھنے سے ان کے اس خیال کی تردید ہوجاتی ہے، اس میں ان قبائل کے نام اور ان کے جائے قیام کے حدود مفصل درج ہیں۔

(کتاب یوشع بن نون، فصل:۱۹، آیت:۱ تا۹)

اس کے علاوہ صحفِ قدیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ عرب تاجر برابر کنعان اور بنی اسرائیل کے دوسرے شہروں تک سامانِ تجارت لے کرجایا کرتے تھے اور یہود تجار سبا تک برابر تجارتی سفر کرتے رہتے تھے (حزقیاہ، باب۲۷، آیت۲۱) اوپر یہود اور عمالقہ کی جنگ کا ذکر ااچکا ہے، اس کے علاوہ متعدد بار عمالقہ اور عربی قبائل میں لڑائیاں ہوئی ہیں (ملوک، جلد:۱، باب:۹، آیت:۲۶) جویہود کے عرب میں متوطن ہونے کا بڑا سبب ہوئیں۔

غرض ان ہی مذکورہ اسباب کی بناپر حجاز میں یہود کی آمدورفت اور بودوباش شروع ہوئی؛ لیکن اس دور کے یہود کے تاریخی آثار باقی نہیں رہ گئے ہیں اس لیے ان کویہودِ بائدہ (یعنی مٹ جانے والے) کہا جاتا ہے۔

دوسرا دَور

دوسرے دَور میں جویہود حجاز آئے، وہ زیادہ ترشام وفلسطین کے باشندے تھے، وہ کیا اسباب تھے، جن کی بناپر انہوں نے اپنے سرسبز وشاداب وطن کوچھوڑ کرجزیرۂ عرب جیسی بے آب وگیاہ سرزمین کا رُخ کیا، ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، مختصر طور پران کی ہجرت کے تین قوی سبب یہ تھے:

(۱)فلسطین میں یہود کی آبادی بہت زیادہ بڑھی تھی؛ چنانچہ اس وقت ان کی تعداد چالیس لاکھ تک بتائی جاتی ہے، ظاہر ہے کہ فلسطین جیسی چھوٹی جگہ میں اتنی کثیر آبادی کا فراغت اور خوشحالی کے ساتھ رہنا اور پھراس کے ذرائعِ معاش کا مہیا ہونا دشوار ہوگا، اس لیے وہ عرب اور عراق کا رُخ کرتے تھے، جہاں کی آبادی اُن کے رقبہ کے اعتبار سے بہت کم تھی اور پھرجیسا کہ اُوپرذکر آچکا ہے یہود کی آبادیاں متفرق طور سے پورے جزیرۂ عرب میں پھیلی ہوئی تھیں جویہاں اُن کی آمد کا ایک بڑا سبب بن گئیں۔
(۲)پہلی صدی ہجری میں رومیوں نے متعدد بار فلسطین پرحملہ کیاں تک کہ یہود کوزمامِ حکومت ان کے ہاتھ میں دے دینا پڑی؛ لیکن ظاہر ہے کہ فلسطین یہود کا صرف وطن ہی نہیں تھا؛ بلکہ وہ ان کی سب سے مقدس عبادت گاہ بھی تھی، اس لیے وہ چین سے نہیں بیٹھے اور بغاوت کے فتنے برابر اُٹھاتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومیوں نے ان پرہرقسم کے ظلم توڑنے شروع کردیے اب ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا کہ فلسطین چھوڑ کرکہیں ہجرت کرجاتے جس کے لیے ان کوسب سے قریب آزادسرزمین جزیرۂ عرب ہی کی مل سکتی تھی۔

(ویری یومی یشرئیل، بحوالہ تاریخ الیہود:۹)


(۳)اس کے بعد پہلی صدی ہجری یعنی سنہ۷۰ میں رومیوں اور یہودیوں میں ایک زبردست جنگ ہوئی جس میں پورا فلسطین تہ وبالا ہوگیا؛ یہاں تک کہ بیت المقدس کی مشہور عبادت گاہیں تک برباد کردی گئیں، اس جنگ میں یہودیوں کوشکست اُٹھانی پڑی اور اس شکست کے بعد خاص طور سے ان کے قافلے کے قافلے فلسطین سے نکلنے لگے اور ان کوجہاں جائے پناہ ملی، وہاں چلے گئے، ان تارکینِ وطن میں ایک بڑی تعداد نے عرب کا رُخ کیا؛ جہاں ایک کثیر تعداد میں یہود پہلے سے موجود تھے، یہود کی اس ہجرت کی پوری تفصیل یہودی مؤرخ یوسف جوان جنگوں میں شریک بھی رہا ہے اس کے بیان سے معلوم ہوتی ہے۔
(ویری یومی یشرئیل، بحوالہ تاریخ الیہود:۹)


رومیوں اور یہودیوں کی جنگ اور یہود کی جزیرۂ عرب کی طرف ہجرت کے متعلق بہت سی مفید باتیں عربی مصادر میں بھی مل جاتی ہیں؛ چنانچہ صاحب اغانی نے بنوقریظہ اور بنونضیر کی ہجرت کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ:
ثم ظهرت الروم على بني إسرائيل جميعا بالشام فوطئوهم وقتلوهم ونكحوا نساءهم فخرج بنو النضير وبنو قريظة وبنو بهدل هاربين منهم إلى من بالحجاز من بني إسرائيل۔


(الأغانی،المدينة أول استيطان اليهود:۲۲/۱۱۳، شاملہ، المؤلف: أبي الفرج الأصفهاني، الناشر: دارالفكر،بيروت،تحقيق: سمير جابر)

ترجمہ:جب رومیوں نے شام کے بنواسرائیل (یہود) پرغلبہ پایا توان کوخوب برباد کیا ان کوقتل کیا، ان کی عورتوں کواپنے حبالہ عقد میں لے آئے، اس ظلم وستم سے بچنے کے لے بنونظیر، بنوقریظہ اور بنوہدل وغیرہ حجاز میں اپنے دوسرے یہودی بھائیوں کے یہاں چلے آئے۔

بہرنوع یہی اسباب تھے جن کی بناپر یہود حجاز میں آئے۔

جاری ہے ۔
 
Last edited by a moderator:

Back
Top