یوم عرفہ کی فضیلت

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)

یوم عرفہ کی فضیلت
**************
یوم عرفہ کے فضائل میں سے کچھ یہ ہيں

1 -
اس دن دین اسلام کی تکمیل اورنعتموں کا اتمام ہوا
صحیحین میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یھودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یھودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟اس نے کہا
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا - المائدة
آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کوکامل کردیا اورتم پراپناانعام بھر پور کردیا اورتمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا ۔
توعمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے
ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے ، جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئ وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔
2 -
عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے عید کا دن ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔اسے اصحاب السنن نے روایت کیا ہے ۔اورعمربن الخطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ آيت ** اليوم اکملت ** جمعہ اورعرفہ والے دن نازل ہوئ ، اوریہ دونوں ہمارے لیے عید کے دن ہیں ۔

3
یہ ایسا دن ہے جس کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائ ہے
اورعظیم الشان اورمرتبہ والی ذات قسم بھی عظیم الشان والی چيز کے ساتھ اٹھاتی ہے ، اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے وشاهد ومشهود - البروج ( 3 ) حاضرہونے والے اورحاضرکیے گۓ کی قسم ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا یوم موعود قیامت کا دن اوریوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے
اسے امام ترمذي نے روایت کیا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے حسن قرار دیا ہے ۔
اوریہی دن الوتر بھی ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں قسم اٹھائ ہے ** والشفع والوتر ** اورجفت اورطاق کی قسم ۔ الفجر ( 3

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں الشفع عیدالاضحی اورالوتر یوم عرفہ ہے ، عکرمہ اورضحاک رحمہ اللہ تعالی کا قول بھی یہی ہے ۔
4
اس دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے
قتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا یہ گزرے ہوۓ اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے - صحیح مسلم ۔

یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا ، اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ، لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے ۔
5 -
یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عھد میثاق لیاتھا

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اور ان سے آمنے سامنے بات کرتے ہوۓ فرمایا
** کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیون نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خـبر تھے ، یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ ، توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ - الاعراف ( 172- 173 )
مسند احمد ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔
تواس طرح کتنا ہی عظیم دن اورکتنا ہی عظیم عھدو میثاق ہے ۔

6 -
اس دن میدان عرفات میں وقوف کرنےوالوں کوگناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی ملتی ہے
صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا حديث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا ، اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟

عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوۓ کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں - مسند احمد علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔واللہ اعلم

 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
یومِ عرفہ کا روزہ
نو ذی الحجہ کو یا وقوفِ عرفات پر ؟

دنیا بھر کے مسلمان ، یومِ عرفہ کا روزہ کس دن رکھیں ؟

اپنے ملک کے کیلنڈر (اسلامی/قمری) کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو یا حج کے دوران حجاج کرام کے وقوفِ عرفات کے دن؟
اس اختلاف کا سبب دراصل رویت ہلال کی رو سے اختلافِ مطالع اور مختلف ممالک میں قمری تاریخ کے مختلف ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس اختلاف کا کوئی واضح ثبوت کم و بیش نصف قرن پہلے تک نہیں ملتا البتہ اب کچھ سالوں سے یہ اختلاف ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔
اختلافِ مطالع کو جو لوگ معتبر مانتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ
جس ملک میں جب 9۔ذی الحجہ ہوگی ، وہ یومِ عرفہ ہوگا اور وہاں کے لوگوں کو اسی دن یومِ عرفہ کا روزہ رکھنا ہوگا۔

اس کی دلیل میں ان لوگوں کے پاس صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ہے
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ - صحیح بخاری ، کتاب الصوم
چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے 30 دن پورے کر لو۔

اس حدیث سے چاند دیکھنے کی اور قمری تاریخ کی اہمیت کی دلیل لی جاتی ہے۔

اگر برصغیر ، جاپان و کوریا کے مسلمان ، بغیر چاند دیکھے ، سعودی عرب کے مطابق رمضان کے روزے شروع کر دیں اور عید بھی منا لیں تو کیا یہ صحیح ہوگا؟

دوسری طرف جو لوگ اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتے ، ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ ۔۔۔
موجودہ تیز تر وسائلِ نقل و حرکت اور ذرائع ابلاغ کے پیشِ نظر ، حجاجِ کرام کے میدانِ عرفات میں ہونے کی خبر لمحہ بہ لمحہ دنیا بھر میں پہنچ رہی ہوتی ہے ، لہذا یومِ عرفہ کا روزہ بھی اسی دن رکھا جائے جب حجاج کرام ، عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔

اس عقلی دلیل پر چند اشکالات وارد ہوتے ہیں
بعض ممالک مثلاً : لیبیا ، تیونس اور مراکش ۔۔۔ ایسے ہیں جہاں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں جب 10۔ذی الحج کا دن آتا ہے تو مکہ مکرمہ میں یومِ عرفہ کا دن ہوتا ہے۔ اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات والے دن روزہ رکھیں تو یہ گویا ، ان کے ہاں عید کے دن کا روزہ ہوا اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ
اختلافِ مطالع اگر معتبر نہیں ہے تو ہر چیز میں نہیں ہونا چاہئے۔
مثلاً ، افطار و سحری کے اوقات بھی وہی ہونا چاہئے جو مکہ مدینہ کے اوقات ہوں۔
نمازوں کے اوقات بھی وہی ہونا چاہئے جو مکہ مدینہ کی نمازوں کے اوقات ہوں۔
اگر یہ ممکن نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ
: اختلاف مطالع نمازوں اور افطار و سحر کے معاملے میں تو معتبر ہے لیکن رمضان کے روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے میں معتبر نہیں ؟؟
کیا یہ عجیب بات نہیں ؟؟

صحیح مسلم میں ایک حدیث یوں ہے کہ ۔۔۔۔ (صحیح مسلم ، کتاب الصیام)
ملک شام میں لوگوں نے روزہ رکھا اور مدینہ منورہ کے لوگوں نے اس کے اگلے دن روزہ رکھنا شروع کیا۔

فقہائے مدینہ نے اہلِ شام کے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی خبر کو بنیاد بنا کر اہلِ مدینہ کو یہ فتویٰ نہیں دیا کہ : تم ایک روز قضا کرو کیونکہ شام میں چاند ہو چکا تھا۔ بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ان کی رویت ان کے لیے اور ہماری رویت ہمارے لیے ہے اور (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے)۔

علاوہ ازیں ، جو لوگ نعرہ لگاتے ہیں کہ : پوری مسلم امت کیوں ایک دن اپنی عید نہیں مناتی ؟
تو دراصل یہ لوگ گریگورین کلینڈر (عیسائی تقویم) کی برتری کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ عیسوی تقویم کی رو سے بعض جگہ یکم ڈسمبر تو کسی جگہ تین ڈسمبر کو عید ہوتی ہے۔
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو حقیقی ، فطری اور الٰہی یعنی ہجری و قمری تقویم کے مطابق ہر جگہ عید الفطر ، یکم شوال کو اور عید الاضحیٰ 10۔ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے۔ ایک مستند فطری اور الٰہی تقویم کو انسانوں کے خودساختہ اصولوں پر مبنی تقویم (گریگورین کلینڈر) پر پرکھنا ، بھلا کہاں کا انصاف ہے ؟

روزہ و عیدین وغیرہ کے سلسلہ میں بعض حضرات ترمذی شریف کی ایک حدیث سے دلیل دیتے ہیں
الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ - جامع ترمذی ، کتاب الجمعہ
روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔

یہ حدیث واضح تو ہے لیکن اس کے مفہوم کو اپنی مرضی کے مطابق کر لیا جاتا ہے۔
اس کے حقیقی معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے
روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبر ہے

اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ اسی مفہوم کی تائید علامہ البانی رحمۃ اللہ نے " تمام المنۃ " میں یوں کی ہے
جب تک تمام ممالکِ اسلامیہ کسی نقطۂ اتحادِ رویت پر متفق نہ ہو جائیں ، تب تک ہر ملک کے باشندوں کو ، میری رائے کے مطابق ، اپنے ملک اور اپنی حکومت کے ساتھ رہنا چاہئے ، الگ نہیں ہو جانا چاہئے کہ کوئی اپنے ملک کی رویت پر عمل کرنے لگے اور دوسرا کسی دوسرے ملک کی رویت پر ، کیونکہ ایسا کرنے سے ایک ہی ملک والوں کے مابین اختلاف و انتشار کے مزید وسیع ہو جانے کا خطرہ ہے۔

آخری بات ۔۔۔۔
یومِ عرفہ کے روزہ کا معاملہ ، علماء کرام کے درمیان کا اجتہادی معاملہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی حتمی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
جسے اختلافِ مطالع پر اعتبار و اطمینان ہو ، وہ اپنے ملک کی تقویم کے حساب سے 9۔ذی الحجہ کو "یومِ عرفہ" کا روزہ رکھیں۔
اور جو موجودہ تیز ترین ذرائع ابلاغ کا اعتبار کرتے ہوئے اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں مانتا ، وہ حجاج کو میدانِ عرفات میں دیکھ کر روزہ رکھ لے۔

پھر بھی جو بہت زیادہ کنفیوز ہوں یا شک ہو تو شک کا روزہ رکھنے سے رسول صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ، ایسے لوگوں کے لئے بہتر ہے کہ وہ آٹھ اور نو زو الحجہ کا روزہ رکھ لیں
جزاکم الله خیر
 

Back
Top