جزیرۂ عرب اپنی طبعی تقسیم کی بناء پرتوکئی حصوں پر مشتمل ہے؛ لیکن تمدنی اور سیاسی اعتبار سے دوحصوں میں منقسم ہے، حجاز اور یمن، اب تک زیادہ تربحث حجاز میں یہود کی آمداور اس سے ان کے قدیم وجدید تعلقات پرتھی، اب ہم عرب کے دوسرے حصہ یمن سے یہود کے تعلقات پربھی ایک نظر ڈال لینا چاہتے ہیں۔
یمن میں یہودیت2
یمن گوجزیرۂ عرب ہی کا ایک حصہ ہے؛ لیکن سیاسی اور تجارتی اہمیت کے اعتبار سے ہمیشہ وہ ایک مستقل ملک رہا ہے، اس اہمیت کی بناپر اس کا تذکرہ ہم علیحدہ کرتے ہیں، اہلِ یمن سے بھی یہود کے تعلقات قدیم زمانہ سے شروع ہوچکے تھے، اُوپرآچکا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت یعنی سنہ۱۰۰۰ق، م میں اہلِ عرب اور یہود میں تجارت ہوتی تھی جس کا سب سے بڑا مرکز سبا تھا جویمن کا دارالسلطنت تھا، اس کے علاوہ قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کا جوواقعہ ذکر فرمایا گیا ہے اس سے بھی یہود اور اہلِ یمن کے تعلقات پرکافی روشنی پڑتی ہے، معین جویمن کے بیچ میں واقع تھا، اس کا تذکرہ تحریری طور پر سنہ ۸۰۰ق، م میں ملتا ہے۔
(تاریخ دوم، آیت:۸،۲۶، یہ بڑی ترقی یافتہ حکومت تھی، جدید اثری تحقیقات نے اس کے بارے میں بہت کچھ معلومات فراہم کردیے ہیں)
یمن میں یہودیت کواصل فروغ حمیری حکومت کے بعد ہوا، اس لیے کہ یہودیت حمیری حکومت کا تقریباً سرکاری مذہب ہوگیا تھا، اس کے فرمانرواؤں میں ایک ستارہ پرست، ایک دوعیسائی، بقیہ سب یہودی تھے؛ لیکن حمیری حکومت کی ابتداء کب ہوئی؟ اس کے بارے میں مؤرخین کی بہت مختلف اور متضاد رائیں ہیں۔
حضرت الاستاذ مولانا سیدسلیمان صاحب ندوی نے ارض القرآن میں اس پرمفصل بحث کی ہے، ڈاکٹر ہالوے نے اس کی ابتدا سنہ۱۱۵ق،م قرار دی ہے؛ لیکن سیدصاحب نے اس پرنقد کیا ہے اور مختلف دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ حمیری حکومت کی ابتدا سنہ۲۰ق،م سے آگے نہیں بڑھتی، بہرنوع اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوسری صدی قبل مسیح یاپہلی صدی کے وسط میں یمن میں یہودیت کوفروغ ہونا شروع ہوگیا تھا اور ۵۵۰برس تک وہاں اس کوفروغ حاصل رہا؛ لیکن حمیری حکومت کے آخری فرمانروا ذونواس کی موت (سنہ۵۲۵) کے بعد یمن میں یہودیت کا زور ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ عیسائیت نے لے لی، جس کا تذکرہ آگے آتا ہے۔
جزیرۂ عرب میں یہودیت کا ذکر کرتے ہوئے یعقوبی نے لکھا ہے:
فأما من تهود منهم، فاليمن بأسرها۔
(تاريخ اليعقوبي،أزلام العرب:۱/۱۰۱، شاملہ، موقع الوراق)
ترجمہ: جزیرۂ عرب میں جولوگ یہودی ہوئے، ان میں یمن بھی ہے، یمن پورے کا پورا یہودی تھا۔
پھراس کے بعد یعقوبی نے یمن میں یہودیت کی ابتداء کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ:
[FONT=&]كان تبع حمل حبرين من أحبار اليهود إلى اليمن، فأبطل الأوثان، وتهود من باليمن[/FONT]۔
([FONT=&]تاريخ اليعقوبي،أزلام العرب[/FONT]:۱/۱۰۱، شاملہ،[FONT=&] موقع الوراق[/FONT]۔دوسری طباعت:۱/۲۹۸)
ترجمہ:ملک تبع نے دویہودی عالموں کویمن بھیجا؛ انھوں نے وہاں سے بت پرستی کومٹایا اور ان کے اثر سے یمن کے باشندوں نے یہودیت قبول کرلی۔
جدید اثری تحقیقات کے مطابق تبابعہ کا زمانہ تیسری صدی عیسوی سے آگے نہیں بڑھتا اس لیے یعقوبی کے بیان کے مطابق یمن میں یہودیت کوپورا فروغ تیسری صدی میں ہوا، اوپر یمن میں یہودیت کی جوقدامت دکھائی گئی ہے، اس سے یہ بیان کچھ مختلف معلوم ہوتا ہے؛ مگراہلِ یمن کا وہ عام مذہب تسری صدی میں ہوا ہو۔
جاری ہے ۔
یمن میں یہودیت2
یمن گوجزیرۂ عرب ہی کا ایک حصہ ہے؛ لیکن سیاسی اور تجارتی اہمیت کے اعتبار سے ہمیشہ وہ ایک مستقل ملک رہا ہے، اس اہمیت کی بناپر اس کا تذکرہ ہم علیحدہ کرتے ہیں، اہلِ یمن سے بھی یہود کے تعلقات قدیم زمانہ سے شروع ہوچکے تھے، اُوپرآچکا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت یعنی سنہ۱۰۰۰ق، م میں اہلِ عرب اور یہود میں تجارت ہوتی تھی جس کا سب سے بڑا مرکز سبا تھا جویمن کا دارالسلطنت تھا، اس کے علاوہ قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کا جوواقعہ ذکر فرمایا گیا ہے اس سے بھی یہود اور اہلِ یمن کے تعلقات پرکافی روشنی پڑتی ہے، معین جویمن کے بیچ میں واقع تھا، اس کا تذکرہ تحریری طور پر سنہ ۸۰۰ق، م میں ملتا ہے۔
(تاریخ دوم، آیت:۸،۲۶، یہ بڑی ترقی یافتہ حکومت تھی، جدید اثری تحقیقات نے اس کے بارے میں بہت کچھ معلومات فراہم کردیے ہیں)
یمن میں یہودیت کواصل فروغ حمیری حکومت کے بعد ہوا، اس لیے کہ یہودیت حمیری حکومت کا تقریباً سرکاری مذہب ہوگیا تھا، اس کے فرمانرواؤں میں ایک ستارہ پرست، ایک دوعیسائی، بقیہ سب یہودی تھے؛ لیکن حمیری حکومت کی ابتداء کب ہوئی؟ اس کے بارے میں مؤرخین کی بہت مختلف اور متضاد رائیں ہیں۔
حضرت الاستاذ مولانا سیدسلیمان صاحب ندوی نے ارض القرآن میں اس پرمفصل بحث کی ہے، ڈاکٹر ہالوے نے اس کی ابتدا سنہ۱۱۵ق،م قرار دی ہے؛ لیکن سیدصاحب نے اس پرنقد کیا ہے اور مختلف دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ حمیری حکومت کی ابتدا سنہ۲۰ق،م سے آگے نہیں بڑھتی، بہرنوع اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوسری صدی قبل مسیح یاپہلی صدی کے وسط میں یمن میں یہودیت کوفروغ ہونا شروع ہوگیا تھا اور ۵۵۰برس تک وہاں اس کوفروغ حاصل رہا؛ لیکن حمیری حکومت کے آخری فرمانروا ذونواس کی موت (سنہ۵۲۵) کے بعد یمن میں یہودیت کا زور ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ عیسائیت نے لے لی، جس کا تذکرہ آگے آتا ہے۔
جزیرۂ عرب میں یہودیت کا ذکر کرتے ہوئے یعقوبی نے لکھا ہے:
فأما من تهود منهم، فاليمن بأسرها۔
(تاريخ اليعقوبي،أزلام العرب:۱/۱۰۱، شاملہ، موقع الوراق)
ترجمہ: جزیرۂ عرب میں جولوگ یہودی ہوئے، ان میں یمن بھی ہے، یمن پورے کا پورا یہودی تھا۔
پھراس کے بعد یعقوبی نے یمن میں یہودیت کی ابتداء کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ:
[FONT=&]كان تبع حمل حبرين من أحبار اليهود إلى اليمن، فأبطل الأوثان، وتهود من باليمن[/FONT]۔
([FONT=&]تاريخ اليعقوبي،أزلام العرب[/FONT]:۱/۱۰۱، شاملہ،[FONT=&] موقع الوراق[/FONT]۔دوسری طباعت:۱/۲۹۸)
ترجمہ:ملک تبع نے دویہودی عالموں کویمن بھیجا؛ انھوں نے وہاں سے بت پرستی کومٹایا اور ان کے اثر سے یمن کے باشندوں نے یہودیت قبول کرلی۔
جدید اثری تحقیقات کے مطابق تبابعہ کا زمانہ تیسری صدی عیسوی سے آگے نہیں بڑھتا اس لیے یعقوبی کے بیان کے مطابق یمن میں یہودیت کوپورا فروغ تیسری صدی میں ہوا، اوپر یمن میں یہودیت کی جوقدامت دکھائی گئی ہے، اس سے یہ بیان کچھ مختلف معلوم ہوتا ہے؛ مگراہلِ یمن کا وہ عام مذہب تسری صدی میں ہوا ہو۔
جاری ہے ۔