محمد کریم ابھی ماں کے پیٹ میں ہی تھے کہ آپ کی والدہ نے خواب دیکھا کہ ان کے پیٹ سے ایک روشنی نکلی جس سے قیصر و کسریٰ کے محلات روشن ہو گئے۔ صدقے اور قربان جائیں اس ذات باری تعالیٰ کے جو اپنے پیارے حبیب کو دنیا میں لانے سے پہلے ہی اس کی روشنیاں دکھا دیتا ہے اور جب دنیا میں ظہور پذیر کرتا ہے تو حضرت عبداللہ کی شفقت پدری سے محروم یتیم پیدا فرما دیتا ہے۔ حضرت آمنہ جب گول مٹول خوبصورت بچے کو جنم دیتی ہیں تو گود میں اٹھانے والا باپ ہی موجود نہیں، کفالت کرنے والا سرپرست ہی نہیں، معاشی بوجھ اٹھانے والا ہی موجود نہیں، محبت سے انگلی پکڑ کر راہ دکھانے والا رہبر ہی نہیں۔ اس پیارے، ننھے اور بن باپ کے یتیم کہلانے والے بچے کا ذمہ دادا نے لے لیا۔ اس یتیم بچے کا سرپرست دادا بن گیا۔ دادا دنیا سے رخصت ہوئے تو چچا نے سرپرستی کا ذمہ اٹھا لیا اور سب سے بڑھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ سرپرست اعلیٰ بن گیا۔
اللہ قرآن پاک میں فرماتے ہیں، کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا اور تجھے جگہ دی اور اس نے تجھے راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھاد یا اور اس نے تجھے تنگدست پایا تو غنی کر دیا۔ جہاں تک یتیم کا تعلق ہے پس اسے حقیر نہ جان اور جہاں تک سائل کا تعلق ہے اسے مت جھڑک۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے نبی کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا کروائے کہ یتیم کو حقیر نہیں جاننا اور کسی سائل کو جھڑکنا نہیں، یتیم پیدا ہونے والے میرے نبی یتیم کے دکھ کو بھلا کیسے بھلا سکتے ہیں۔ یتیم کے درد کو آپ سے زیادہ کون جان سکتا ہے، یتیم کی محرومی کو آپ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ اس لئے آپ نے فرمایا: یتیم کی کفالت کرنے والا، وہ یتیم اس کا قریبی ہو یا غیر، میں اور وہ (یعنی کفالت کرنے والا) ان دو انگلیوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔ آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیان والی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا۔ (مسلم)
یتیمی کے درد سے آشنا ہونے والے محمد کریم یتیمی کی محرومی کو خوب جانتے تھے۔
اس لئے یتیم کی پرورش کرنے والے کو جنت کی نوید سنائی اور اپنا ساتھ ہونے کی خوشخبری دی اور آپ نے یہ بھی فرمایا، بیواﺅں اور مسکینوں کے کام آنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے، یا رات بھر عبادت کرنے والے اور روزے رکھنے والے کے برابر ہے۔ (بخاری) بیواﺅں کی دیکھ بھال اور کام آنے والے کی اس لئے اتنی فضیلت بتائی گئی چونکہ وہ اس عورت کی مدد کرتا ہے جس کے زیر کفالت یتیم ہیں اور وہ عورت بن باپ کے بچوں کی پرورش کر رہی ہے۔ اس لئے بیوہ کی مدد کرنا کہ وہ یتیم بچوں کو کھلا پلا لے تو اس کے بدلے ان پر خرچ کرنے والے کے شب و روز مسلسل قیام اور روزے جیسے ہو جاتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ ریا کاری اور اذیت دینے سے بچا ہو اور اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے یہ عمل کرے۔
رسول کریم نے یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کر کے اور کفالت کا ذمہ لے کر اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ غزوئہ احد میں حضرت ابو عقربہؓ شہید ہو گئے، ان کے بیٹے بِشرؓ یتیم ہو گئے۔ بِشرؓ جب بڑے ہوئے تو اپنا واقعہ خود بتاتے ہیں، اپنی یتیمی اور محرومی کا حال سناتے ہوئے بتلاتے ہیں: محمد رحمة للعالمین مدینہ منورہ کے بازارسے گزرے، میں رو رہا تھا، آپ نے سواری کو روکا، نیچے اترے، میرے پاس تشریف لائے اور پوچھنے لگے! میرا پیارا کیوں رو رہاہے؟ میں نے بتایا میرے ابا جی شہید ہو گئے ہیں۔ ان کو یاد کر کے رو رہا ہوں۔ حضور رحمة للعالمین نے مجھے اپنے ساتھ چمٹا لیا، میرے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور فرمایا: بیٹا اس بات پر خوش ہو جاﺅ گے اگر میں تمہارا ابو جان اور حضرت عائشہ تمہاری امی جان بن جائیں۔ بشرؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم نے مجھے اپنے ساتھ سواری پر سوار کر لیا۔ (الصحیحہ للالبانی)
قارئین کرام! یہ اسوہ تھا، یہ کامل نمونہ تھا جو یتیموں کے بارے میں رسول کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا، یتیموں کا والی وارث بن کر دکھایا اور پوری امت کو درس دیا کہ یتیم کا سہارا بننا ہے، یتیم کی حوصلہ افزائی کرنی ہے، یتیم کی دلجوئی کرنی ہے، یتیم کو معاشرے میں مقام دلا کر احساس محرومی سے بچانا ہے۔ چونکہ یتیم بچہ احساس محرومی کا شکار ہوتا ہے، اس محرومی کی وجہ سے باپ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا دفاع خود کرنا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے نارمل رویے کا مظاہرہ نہیں کرتا، تھوڑی سی بات پر بھڑک اٹھتا ہے، یا پھر باپ نہ ہونے کی وجہ سے ڈرپوک ہو جاتا ہے، کسی کے ساتھ لڑائی ہو جائے تو بھاگ کر گھرمیں ماں کے پاس چھپ جاتاہے، اسے یہ احساس محرومی ہوتا ہے کہ اس کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔
ایسے ہی مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ دو بچے آپس میں لڑ پڑے، ان میں سے ایک بچہ بولا کہ میں ابھی اپنے ا بو کو بلا کر لاتا ہوں جبکہ دوسرا بچہ ڈر سہم کر اپنے گھر میں دبک کر بیٹھ گیا۔
پہلا بچہ اپنے باپ کو لے کر آیا اور اسے لے کر اس بچے کے گھر گیا جس کے ساتھ اس کی لڑائی ہوئی تھی، بچے کے باپ نے اپنے بچے کی محبت میں ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک عورت نے دروازہ کھولا پہلے بچے کے باپ نے کہا تمہارے بچے نے میرے بچے کو مارا ہے اس لئے اس کے باپ کوبلاﺅ تاکہ میں اسے بتاﺅں کہ اپنے بچے کو سنبھال کر رکھے۔ وہ عورت کہنے لگی، اس بچے کا باپ تو عرصہ ہوا فوت ہو گیا ہے۔ میں بچے کو لے کر آتی ہوں۔ یہ کہہ کہ وہ عورت اندر چلی گئی۔ باہر کھڑا بچے کے ساتھ بچے کی محبت کی وجہ سے چل کر آنے والا باپ دل تھام کر رہ گیا کہ وہ تو بچہ یتیم ہے، اس بچے کا تو باپ ہی نہیں، اس باپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اس نے اپنے بیٹے کو ساتھ چمٹا لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس کے بیٹے کا سایہ اس کے سر پر موجود ہے۔ اتنی دیر میں وہ عورت ڈرے سہمے ہوئے بچے کو لے کر دروازے پر آ گئی، پہلے بچے کے باپ نے اس بچے کو کچھ نہ کہا بلکہ پیار و محبت سے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا، پھر اسے اپنے ساتھ گھر میں لے گیا، دونوں بچوں کی آپس میں صلح کروائی اور اپنے بیٹے کے ہاتھوں اسے تحفے تحائف دلوا کر عزت و احترام سے اس کے گھر چھوڑ کر آیا۔
قارئین کرام! اس واقعہ کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میرا دل غم سے بھر گیا اور ساتھ ہی خوشی سے بھی کہ دنیا میں ابھی تک کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یتیموں کے دکھ کا درد دل میں رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ رسول کریم کے اسوہ پر ہیں۔
ترکی جومسلمانوں کے ہر بین الاقوامی معاملے میں پہل کرتا ہے، اس ترکی کی ایک تنظیم نے دسمبر 2013ءکو ایک تجویز دی کہ 15 رمضان کو یتیم بچوں کا عالمی دن قرار دیا جائے۔ اس تجویز کو او آئی سی نے قبول کر لیا۔ تب سے یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ اس کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے فلاحی ادارے بنائے جائیں جہاں ان بچوں کی پرورش ہو سکے۔ ان یتیم اور بے سہارا بچوں کو معاشرے کا کار آمد شہری بنایا جائے، احساس محرومی سے بچایا جائے، تاکہ یہ بچے دھرتی کا بوجھ بننے کے بجائے بوجھ اٹھانے والے بن جائیں۔ پاکستان میں حکومت نے بے سہارا بچوں کے لئے چائلڈ پروٹیکشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں بے سہارا اور یتیم بچوں کو سرکاری سطح پر پرورش کا بندوبست کیا گیا ہے تاہم اس کے علاوہ متعدد تنظیمیں بھی یتیم اور لاوارث بچوں کی پرورش کے لئے متحرک ہیں اور اس کارخیر میں حصہ لے رہی ہیں۔
اسی طرح ہر مخیر اور صاحب استطاعت کو چاہیے کہ وہ اپنے اڑوس پڑوس میں اپنے رشتہ دار و احباب میں انفرادی طور پر یتیموں کی مدد کریں، اس رمضان المبارک میں اپنے صدقات و خیرات، زکوٰة و فطرانہ وغیرہ دے کر ان کی محرومی کو دور کریں، خاص طور پر عید کے موقع پر اپنا دست شفقت رکھ کر اعلیٰ نمونہ پیش کریں اور یتیموں کی پرورش کر کے جنت میں نبی کے ساتھی بن جائیں اور بیواﺅں اور مسکینوں کی مدد کر کے اور ان کے کام آ کر مسلسل عبادت اور روزے رکھنے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر
نوٹ: قارئین کرام! اپنے گھر میں تعمیراتی کام کی وجہ سے اس بار میں اپنی سہیلی اور پڑوسن محترمہ نسیم اہلیہ عبدالسلام کے گھر میں وسیع ہال کے اندر دورئہ تفسیر کروا رہی ہوں۔ ان کی نواسی حرم سمیع اللہ کے لئے دعا کی درخواست ہے جس کی عمر 7 ماہ ہے، ڈاکٹرز نے کہا ہے بچی قوت سماعت سے محروم ہے، مزید یہ کہ جسم کے پٹھے بھی کمزور ہیں، مہربانی کر کے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ بچی کو قوت سماعت اور قوت گویائی عطا فرمائے، اور تمام جسم کے اعضاءکو تندرستی عطا فرمائے اور مخفی اور ظاہری بیماری کو دور فرمائے۔ (آمین)
بشریٰ امیر