اگر ریاست کی قوم پرست تحریک کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اگر چہ شروع شروع میں ریاستی عوام کی غالب اکثریت قوم پرستوں کی ہمنوا نظر آتی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاستی عوام قوم پرستوں کی تحریک اور ان کی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوتی چلی گئی ۔
اور یہی بنیادی مسئلہ ہے جس کے اسباب اور محرکات کو اپنے اس مضمون میں میں تلاش کرنا چاہتی ہوں ۔
قوم پرستوں کی اس مسلسل سیاسی عدم پذیرائی، نا مقبولیت اور غیر فعالیت کی موجودہ کیفیت کو سمجھنے کے لیئے ہمیں ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ اور تنازعے کے مختلف پہلووں کو سمجھنا پڑے گا ۔
جب 1947 میں انگریزوں نے برِصغیر کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے برطانوی پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی ۔
تقسیمِ برِصغیر کے اس پارلیمانی قانون کو قانونِ آزادی ہند کہا جاتا ہے اور اسے 3 جون 1947 کو منظور کیا گیا ۔ اس قانون کے مطابق برِصغیر کی مقامی ریاستوں (Native States) کے حکمرانوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اگر چاہیں تو اگست 1947 میں جنم لینے والے نئے ممالک بھارت اور پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں یا پھر خود آزاد و خودمختار ملک بن جائیں ۔
اگست 1947 میں تقسیم کے وقت برِصغیر میں 565 چھوٹی بڑی مقامی ریاستیں تھیں، یہ ریاستیں برٹش انڈیا کا حصہ نہیں تھیں بلکہ اپنے اپنے مقامی حکمرانوں کی حکومتوں کے ماتحت تھیں ۔ ان ریاستوں کے اپنے اپنے انداز میں برٹش انڈیا کے ساتھ مختلف تجارتی، انتظامی اور دفاعی معائدات تھے ۔
قانونِ آزادی ہند کے مطابق طے پایا تھا کہ ان 565 ریاستوں میں سے جو ریاستیں 14 اگست 1947 تک پاکستان یا 15 اگست 1947 تک بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کریں گی وہ آزاد اور خودمختار ہو جائیں گی اور ان کے برٹش انڈیا کے ساتھ کیئے گئے تمام تجارتی، انتظامی اور دفاعی معائدات بھی ختم ہو جائیں گے ۔
ریاست جموں و کشمیر کا شمار برِصغیر کی اہم ترین اور جغرافیائی اعتبار سے بڑی ریاستوں میں ہوتا تھا ۔ ریاست کے ڈوگرہ (جموں سے تعلق رکھنے والے) حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے فیصلہ کیا کہ ان کی حکومت پاکستان اور بھارت میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق نہیں کرے گی بلکہ ریاست کا ایک مکمل آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ یہ محض ایک خواب یا مبہم خیال نہیں تھا بلکہ ایک ٹھوس آئینی اور قانونی پلان تھا اور اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ ہری سنگھ کی حکومت نے تقسیمِ برِصغیر کے تناظر میں ریاست کو مکمل آزاد و خودمختار بنانے کے لیئے پاکستان اور بھارت دونوں کو ریاست جموں و کشمیر کی برٹش انڈیا کے دور کی صورتحال برقرار رکھنے اور تمام قانونی، آئینی، جغرافیائی اور سیاسی معاملات جوں کے توں رکھنے کے لیئے معائدہ قائمہ کرنے کی پیشکش کی ۔ اس پیشکش کے جواب میں پاکستان نے 15 اگست 1947 کو ریاست جموں و کشمیر کو ایک آزاد و خودمختار ملک تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ معائدہ قائمہ (Standstill Agreement) بھی کر لیا جس پر پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے وزرائے اعظم نے دستخط کیئے ۔ بھارت نے اس پیشکش کا جواب دینے کے لیئے مزید مہلت مانگی اور ریاست کی پوزیشن کا تعین کرنے کا معاملہ التواء میں رکھا ۔
یوں مہاراجہ ہری سنگھ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کے نظریئے کا خالق اور بانی قرار پایا ۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے نظرئیے کے مطابق ریاست جموں کشمیر و تبتہا جس کا کل رقبہ 85806 مربع میل پر محیط تھا کو ایک ایسا مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ملک بنانا مقصود تھا جہاں برطانوی پارلیمانی سیاسی ماڈل کے مطابق کامل جمہوریت اور عوامی راج قائم ہونا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیئے مہاراجہ نے ایک آئینی کمیشن بھی تشکیل دے دیا تھا ۔
مہاراجہ ہری سنگھ کے اس نظریہ خودمختاری کے مطابق ریاست 15 اگست 1947 سے لے کر 26 اکتوبر 1947 تک ایک آزاد و خودمختار ملک کے طور پر قائم بھی رہی ۔
ریاست کے اندرونی سیاسی حالات یہ تھے کہ ریاست میں تین سیاسی قوتیں تھیں ۔ دو تو بڑی سیاسی جماعتیں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس تھیں جب کہ تیسری سیاسی قوت مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی ۔
سیاسی اثرنفوذ اور عوامی قبولیتِ عامہ کے اعتبار سے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا حلقہ اثر ریاست کی مسلم آبادی تک محدود تھا، مسلم کانفرنس تو نام سے بھی مسلمانوں کی نمائیندہ سیاسی تنظیم تھی تاہم نیشنل کانفرنس کی ظاہری تنظیمی ساخت ایک قومی سیاسی جماعت کی تھی ۔ لیکن عملاً مسلم کانفرنس کا آثرنفوذ ریاست کی مسلمان ڈوگرہ آبادی اور نیشنل کانفرنس کی مقبولیت کشمیر وادی میں تھی ۔ اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی مگر ریاست کی غیرمسلم آبادی جس کی غالب اکثریت کا تعلق صوبہ جموں کے ساتھ تھا اور صوبہ تبتہا میں عوام مسلم کانفرنس یا نیشنل کانفرنس کے بجائے مہاراجہ کی حکومت کے ساتھ زیادہ سیاسی قربت رکھتے تھے ۔
تقسیمِ برِصغیر کے تناظر میں ریاست کے مستقبل کے کسی بھی آئینی، قانونی اور سیاسی ڈھانچے کے قیام اور استحکام کے لیئے ریاست کی ان تینوں سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاقِ رائے ضروری تھا ۔
مگر سیاسی نظریات و افکار اور باہمی روابط و تعاون کی صورتحال انتہائی پیچیدہ اور گمبھیر تھی ۔
جاری ہے ۔۔۔