ہم حالت جنگ میں ہیں

insaan

MPA (400+ posts)
color.jpg

ہم حالت جنگ میں ہیں – صرف انفارمیشن ہمارا ہتھیار ہے


مسعود انور کا بلاگ
نوٹ ( اب سے گذشتہ ایک برس قبل اگست میں ہی ، میں نے رنگین انقلابات کے نام سے چار

کالموں کی ایک سیریز لکھی تھی جس میں تفصیل سے دنیا بھر میں حکومتوں کی تبدیلی کے

لئے لائے گئے رنگین انقلابات اور ان کی پس پشت قوتوں کے بارے میں بات کی گئی تھی۔اس

وقت تک چونکہ میں نے اپنی ویب سائٹ ڈیولپ نہیں کی تھی۔ اس لئے یہ ویب سائیٹ پر دستیاب

نہیں ہیں۔ مصر کی موجودہ احتجاجی تحریک میں شامل احتجاجی نشان رابعہ نے ان کالموں کو

از سرنو تازہ کردیا ہے ۔ پہلے یہ کالم دوبارہ سے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ اس کے بعد مصر

کی صورتحال پر گفتگو۔ آج کا کالم ان ہی چاروں کالموں کا اضافہ یا تتمع قرار دیا جاسکتا ہے۔

اگر یہ کالم پڑھنے سے پہلے مذکورہ چاروں کالم پڑھ لئے جائیں تو بات سمجھنا آسان ہوجائے

گی اور پس منظر بھی سمجھ میں آجائے گا۔ )

گذشتہ تین عشروں کو دنیا بھر میں حکومتوں کی تبدیلی کا عرصہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں

ہوگا۔ حکومتو ں کی تبدیلی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے مگر ان تبدیلیوں میں بین الاقوامی

سازش کاروں نے ایک کامیاب تجربہ کیا اور وہ تھا عوامی احتجاج کے ذریعے ہدف بنائی گئی

حکومت کی بے دخلی اور مطلوبہ افراد کی حکومت میں تعیناتی۔ اس تجربے کو بجا طور پر ایک

ہار میں پروئے گئے موتی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کوئی بھی حکومت جب کوئی فوج

آپریشن کرتی ہے تو اس کو ایک نام دیتی ہے، اسی طرح ان حکومتوں کی تبدیلی کے آپریشن کو

مختلف نام دیے گئے۔ یہ سارے نام یا تو کسی رنگ کے نام پر تھے یا پھول کے نام پر۔ اسی لئے

دنیا بھر میں ان آپریشنز کو رنگین انقلابات کہا جاتا ہے۔

ان تمام مہمات جس کو بین الاقوامی میڈیا عوامی تحریک کا نام دیتا ہے، کے بارے میں یہ بھی

دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ تشدد سے پاک تحریکیں تھیں۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کے یکسر

برعکس ہیں۔ سب سے پہلے ان مہمات کا ایک مختصرا جائزہ اور پھر اس کے بعد پس منظر کی

کہانیوں کو دیکھتے ہیں۔

گو اس کا آغاز فلپائن سے 1986 میں ہواجس کو عوامی قوت انقلاب کا نام دیا گیا مگر اس کو

عرف عام میں پیلا انقلاب کہا جاتا ہے۔مگر رنگین انقلاب کی اس سیریز کا باقاعدہ آغاز 2000

سے یوگوسلاویہ سے ہوا۔ اس کے بعد 2003 میں گلاب انقلاب کے ذریعے جارجیا میں ایڈورڈ

شیورڈناڈزے کی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ یوکرین میں 2004 میں اورنج انقلاب کے ذریعے

حکومت ہٹائی گئی۔ کرغیزستان میں ٹیولپ انقلاب لایا گیا جس کو بعض اوقات گلابی انقلاب کا

بھی نام دیا گیا ۔

لبنان میں شامی فوج کی واپسی کی لئے 2005 میں دیودار انقلاب لایا گیا۔ کویت میں خواتین کو

پارلیمنٹ میں نشست دلانے والوں نے نیلا رنگ منتخب کیا اور اس کونیلے انقلاب کا نام دیا گیا۔

2005 میں عراق میں جمہوریت کے قیام کی مہم کو جارج بش نے جامنی انقلاب کا نام دیا۔ایران

میں 2009 کے انتخابات کے خلاف مہم کو ہرے انقلاب کا نام دیا گیا۔

تیونس سے شروع ہونے والی عالم عرب میں تبدیلیوں کو ان سازش کاروں نے بہار عرب کا نام

دیا تھا مگر ہر ملک کے لئے الگ کوڈ کا انتخاب کیا گیا۔ تیونس میں حکومت کے خلاف چلنے

والی تحریک کو چنبیلی انقلاب کا نام دیا گیا تھا جبکہ مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف

تحریک کو کنول انقلاب کا نام دیا گیا تھا۔اس کو کئی بار سفید انقلاب اور نیل انقلاب بھی کہا گیا

مگر اصل کوڈ کنول انقلاب ہی تھا۔

اس کے علاوہ پاکستان میں وکلاء تحریک کو کالے انقلاب کا نام دیا گیا جو عدلیہ کی بحالی سے

شروع ہوئی تھی اور جلد ہی پرویز مشرف ہٹاوٴ تحریک میں بدل گئی تھی۔ دیگر ممالک جہاں پر

یہ تحریکات شروع ہوئیں اس میں چیکو سلاویکیہ ، آزربائیجان ، ازبکستان، برما، چین، بیلارس،

آرمینیا، مالدووا، منگولیا اور روس شامل ہیں۔

ان تمام تحریکات میں کھیل کے میدان کے علاوہ ہر چیز مشترک ہے۔ کھلاڑیوں کا انتخاب، کھیل

کے قوائد، کھلاڑیوں کا یونیفارم، نعرے، نام نہاد انقلاب کا اسکرپٹ، بین الاقوامی میڈیا کا کردار

اور سب سے بڑھ کر فنڈنگ کا طریقہ کار۔ ان تمام تحریکات کے مشترک نکات جن کو ڈھونڈنے

کے لئے کسی خاص دقت کی ضرورت نہیں ہے وہ یہ ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ان کا آغاز

پرانی سیاسی پارٹیوں کے بجائے نئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتار کر کیا جاتا ہے۔ عموما ان کا

تعلق طلبہ یونین یا لیبر یونین سے ہوتاہے۔ بعض اوقات پس منظر میں اور بعض اوقات پیش منظر

میں مختلف این جی اوز انتہائی متحرک ہوتی ہیں۔ ان کو سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس

تحریک کے رہنما پہلے دن سے ہی اس تحریک کے لئے کوئی رنگ یا پھول چن لیتے ہیں جس

کو پوری تحریک کے دوران علامت کے طور پر استعما ل کیا جاتا ہے۔

اس تحریک کے آغاز سے قبل مقتدر شخص کے خلاف ذرائع ابلاغ میں ایک زبردست مہم چلائی

جاتی ہے اور اس کے تمام کالے کرتوت حیرت انگیز طور پر روز ایک نئی انکشافاتی رپورٹ

کی صورت میں ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں چھپے ہوتے ہیں۔ تحریک کے آغاز سے قبل ہی

ملک میں مہنگائی، بدامنی اور اسٹریٹ کرائم کا طوفان آجاتا ہے اور عوام اس مقتدر شخص سے

ہر حال میں چھٹکارے کو تمام مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔تحریک کا آغاز ابتدائی طور پر

پرامن مظاہروں سے شروع ہوتا ہے اور اختتام خوں ریزی پر۔ ان انقلابیوں پر عالمی ذرائع ابلاغ

خصوصی طور پر مہربان رہتے ہیں اور ان کے ہر بلیٹن میں اس کے بارے میں خصوصی

رپورٹس شامل ہوتی ہیں۔ اس کھیل کے پس منظر کرداروں کے بارے میں تفصیل اگلے کالم میں

انشاء اللہ تعالیٰ۔

 
Last edited:

insaan

MPA (400+ posts)

حصہ دوم



یہ 1985 کی بات ہے کہ ناٹو کے زیراہتمام ایک سماجی سائنسداں جین شارپ کا ایک مقالہhttp://www.gophoto.it/view.php?i=http://www.masoodanwar.com/wp-content/uploads/2013/08/CR-2.jpgچھاپا گیا

جس کا عنوان تھا یورپ کو ناقابل تسخیر بنانا ۔اس مقالے میں شارپ نے دنیا میں ایک عالمگیر حکومت

کے قیام کے لئے موجود حکومتوں کی تبدیلی کی بابت اپنا طریقہ کار پیش کیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ

کے بعد ہی 1989 میں سی آئی اے نے شارپ کو ٹاسک دیا کہ اس نے جو تھیوری پیش کی ہے اس کو

چین میں عملی جامہ پہنائے۔ وہ چین میں ڈینگ زیاوٴپنگ کی جگہ ژو ژیانگ کی حکومت چاہتی تھی۔

سی آئی اے اس سے قبل ایران میں وزیراعظم مصدق کا تخت اسی طریقہ کار کے مطابق الٹ چکی تھی۔

اس وقت کی تحریک میں اور شارپ کی مجوزہ تحریک میں بس اتنا فرق تھا کہ شارپ کے طریقہ کار کے

تحت منظم کئے گئے نوجوان ژو ژیانگ کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کے بھی زیر اثر ہوتے۔ تاہم ڈینگ

زیاوٴپن
گ حکومت نے اس معاملے پر سختی سے کام لیا اور شارپ کو گرفتار کرکے جلاوطن کردیا جبکہ دیگر گرفتار

شدگان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا۔ اس طرح یہ مشن ناکامی سے دوچار ہوگیا۔

جلاوطنی کے بعد شارپ اسرائیلی فوج کے چیف سائیکولوجسٹ کرنل ریوون گال کے قریب ہوگیا۔ بعد میں

گال ایریل شیرون کی حکومت میں ڈپٹی سیکوریٹی نیشنل ایڈوائزر ہوگیا۔شارپ کے سامنے فرانسیسی

سماجی سائنسداں گستاف لے بون کا بھی کام تھا جس کا کہنا تھا کہ ہجوم میں تبدیل ہونے کے بعد بالغ

افراد کا رویہ بھی بچوں جیسا ہوجاتا ہے ۔ اس نے سگمنڈ فرائیڈ اور لے بون کے نظریات پر مشتمل اپنی

تھیوری پر دوبارہ نظر ثانی کی اور نوجوانوں کے ہجوم کو حکومت الٹنے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے پر

تیار ہوگیا۔اس کے بعد شارپ اور گال نے نوجوانوں کو انقلاب لانے کے لئے تربیتی کیمپوں کا انعقاد شروع

کردیا۔ روس اور بلقان کی ریاستوں میں کامیابی کے بعد یہ دونوں اپنے طریقہ کار میں موجود خامیوں پر قابو

پاچکے تھے اور اس ماڈل کا پہلا کامیاب ترین تجربہ 1998 میں سرب صدر سلوبوجان میلاسووک کا تخت

الٹ کر کیا گیا۔

اس طریقہ کار کو جمہوریت کو پروان چڑھانے کا نام دیا گیا۔میں بار بار اس امر پر بحث کرچکا ہوں اور اس پر

تفصیل سے اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں بتاچکا ہوں کہ کسی بھی پروجیکٹ کو کامیاب بنانے کے

لئے اہم ترین فیکٹر اس کی فنڈنگ ہے۔ مالی معاونت اس پورے کھیل میں اسی حیثیت کی حامل ہے

جو ایک زندہ جسم میں خون کی ہے۔نوجوانوں کو منظم کرنے اور اس پروجیکٹ کی فنڈنگ کے لئے این جی

اوز کا سہارا لیا گیا۔ اس مقصد کے لئے خاص طور سے کئی نجی فاوٴنڈیشنوں اور انسٹی ٹیوشنوں کا قیام

عمل میں لایا گیا جس میں سرفہرست البرٹ آئنسٹائن انسٹیٹیوٹ ، نیشنل اینڈومنٹ فار ڈیموکریسی،

انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹیٹیوٹ، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ، فریڈم ہاوٴس اور انٹرنیشنل سنٹر فارنان

وائیولینٹ کانفلکٹ ہیں۔ ان تمام این جی اوز جو کہ دیکھنے میں علمی تحقیق کے لئے کام کررہی تھیں،

واشنگٹن نے فنڈز کی بلاروک ٹوک فراہمی شروع کردی۔ یہ فنڈز نوجوانون کو منظم کرنے اور ان سیاسی

گروہوں میں تقسیم کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جو ہدف کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں۔ فنڈنگ

کی ذمہ داری امریکی حکومت کے مالی ونگ یوایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کو سونپی گئی۔یو

ایس ایڈ کا کام صرف اتنا نہیں ہے کہ وہ مالی معاونت معاونت فراہم کرے۔ آج کے دور میں یو ایس ایڈ

امریکی خارجہ پالیسی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ اس وقت یہ ایجنسی امریکہ کی سیکوریٹی،

انٹیلی جنس اور دفاع ، ہر شعبہ میں اہم ترین کردار ادا کرہی ہے۔تعمیر نو، اقتصادی ترقی، گورنیس،

جمہوریت اور اسی طرح کے دیگر عنوانات کے تحت یو ایس ایڈ کروڑوں ڈالر ہر سال اس ملک میں منتقل

کرتی ہے جو اس کا ہدف ہوتا ہے۔یہ ڈالراین جی اوز، طلبہ تنظیموں، لیبر یونینوں اور سیاسی تنظیموں میں

تقسیم کئے جاتے ہیں اور ان تمام جگہوں پر استعمال کئے جاتے ہیں جو ہدف کو ہٹانے میں معاون ثابت

ہوسکیں۔ آپ آج کل پاکستانی میڈیا پر یوایس ایڈ کے ڈھیروں اشتہارات دیکھ رہے ہوں گے۔ اب بات

کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ کس طرح میڈیا ہاوٴسز کو پیسہ منتقل کیا جارہا ہے اور عوامی نقطہ

نظر تشکیل دیاجارہا ہے۔

رنگین انقلاب لانے کے لئے نوجوانوں کو کس طرح منظم کیا جاتا ہے۔ اس پر گفتگو اگلے کالم میں انشاء

اللہ تعالیٰ۔ ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی ان گھناوٴنی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور
اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔



 

insaan

MPA (400+ posts)
حصہ سوم

شارپ اور گال کے طریقہ کار کے تحت انقلاب لانے کی ترکیب ہر ملک میں ایک ہی رہی ہے۔

طلبہ اور نوجوانوں کی تحریک تشکیل دی جائے جس کا لیڈر بالکل ایک نیا چہرہ ہو۔ اس

تحریک میں شمولیت کو فیشن کا درجہ دے دیا جائے ۔ شروع سے ہی کوئی ایک لوگو اور ایک

رنگ مارکیٹ اسٹراٹیجی کے طور پر چن لیا جائے جس سے پورے ملک کی سڑکیں اور بازار

بھردئے جائیں۔

سربیا میں اوٹپر نامی گروپ اس تحریک کو چلارہا تھا ۔ اس نے ملک کے کونے کونے، تما م

اہم شاہراہوں اور سڑکوں اور پبلک مقاما ت کو ٹی شرٹس، جھنڈوں اور پوسٹروں سے بھردیا

تھا جس میں کالے اور سفید رنگ کا ایک مکا بنا ہوا تھا۔ یہ ان کی مزاحمتی تحریک کی علامت

تھا۔ یوکرین میں لوگو وہی تھا مگر اس کا رنگ کالے اور سفید سے تبدیل کرکے نارنجی کردیا

گیا تھا۔ جارجیا میں اس مکے کا رنگ گلاب کے پھول کے رنگ جیسا تھا جبکہ وینیزویلا میں

ورائٹی لانے کے لئے اس لوگو میں ایک تبدیلی کی گئی تھی اور وہ یہ تھا کہ اس مکے کو

کھول کرکھلا ہاتھ استعمال کیا گیا تھا۔مگر یہاں پر وہی پرانی کلر اسکیم استعمال کی گئی تھی

یعنی سفید اور کالا۔

ان تمام رنگین انقلابات میں ایک اور قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ انقلابات ہمیشہ ان ممالک


میں ہی برپا کئے گئے جن کی اسٹراٹیجک اہمیت ہو ، وہاں پر فوجی بیس قائم کرنے ہوں یا

پھروہاں پر امریکہ کا جیوپولیٹیکل مفاد ہو۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ ہوسکتی ہے تو اس

ملک کا قدرتی وسائل جیساکہ تیل و قدرتی گیس ہے، سے مالا مال ہونا ہے۔احتجاجی تحاریک

اور دیگر اقدامات ہمیشہ انتخابات کے زمانے میں شروع کئے جاتے ہیں جہاں پر انتخابات میں

دھاندلی کے نام پر پوری تحریک کو منظم کیا جاتا ہے۔اس موقع پر حزب اختلاف جو ہار چکی

ہوتی ہے مگرکسی بھی صورت میں حزب اقتدار کو بھی اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی، کا

کاندھا بہ آسانی استعمال کے لئے مل جاتا ہے۔ اب امریکی ایجنسی یو ایس ایڈ کا کام شروع ہوتا

ہے۔ اس کے تحت قائم کی گئی فاوٴنڈیشینیں اور انسٹی ٹیوٹ متاثرہ ملک میں فنڈنگ، ٹریننگ

اور رہبری کے لئے پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت ریاستی طاقت کے

ستونوں کو غیر مستحکم کرنا اور تتربتر کرنا، سیکوریٹی فورسز کی وفاداری کو مقتدر سے ہٹا

کر ان کو نیوٹرل کرنا اور ملک میں ابتری و افراتفری کا ماحول پیدا کرنا ہے۔

اس پالیسی کے بانیوں میں سے ایک اور البرٹ آئنسٹائن انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کرنل رابرٹ

ہیل وے اس پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس حکمت عملی کے تحت پولیس اور

فوج سے تصادم سے بچا جاتا ہے اور ان دونوں اداروں کو اس امر پر آمادہ کرنے کی کوشش

کی جاتی ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی حمایت ترک کردیں۔ کرنل ہیل وے کا کہنا ہے کہ ہم ان

کو سمجھاتے ہیں کہ اس طرح آئندہ بننے والی حکومت میں بھی ان کے لئے جگہ بن سکے گی۔

اور یہی وہ نقطہ اوریقین دہانی ہے جس پر پولیس اور فوج کی اعلیٰ قیادت بہ آسانی اپنی

وفاداری کوتبدیل کردیتی ہے اور جدھر کی ہوا چل رہی ہوتی ہے اسی طرف اس کا رخ ہوجاتا

ہے۔فوج کو تصادم سے روکنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس میں

نوجوانوں اور لڑکیوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ جیسا کہ تھائی لینڈ میں یا دیگر ممالک میں کیا گیا۔

اس میں فوجیوں اور پولیس والوں کو مظاہرین کی جانب سے پھول پیش کئے جاتے ہیں۔ ان کی

بندوقوں کی نالوں اورٹینکوں کے دہانوں کو پھولوں سے بھر دیا جاتا۔ اس سے ان اداروں کے

اہلکاروں کی طرف سے ان مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال مشکل ہوجاتا ہے۔

بچے، لڑکیاں، عورتیں اور نوجوان یہ کام زیادہ آسانی سے کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک

پولیس آفیسر کو یہ سمجھانا آسان ہے کہ ہم سب متاثرہ ہیں اور حکومت کے خلاف مظاہرے

میں شامل ایک تیرہ سالہ لڑکے یا نوجوان لڑکی پر لاٹھی چارج کا کہیں سے بھی کوئی جواز

نہیں ہے۔ اس کے لئے زبردست منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور پہلے سے ہی سرکاری حکام،

فوج اور پولیس کے متعلقہ افسران کونشان زد کرلیا جاتا ہے اور ان پرسماجی و نفسیاتی حربے

استعمال کئے جاتے ہیں۔یہ ایک مکمل اور جدید نفسیاتی جنگ ہے جسے جدید طریقہ کار کے

مطابق ماہرین کی زیرنگرانی لڑا جاتا ہے۔

اس جنگ کے طریقہ کار پر مزید گفتگو اگلے کالم میں انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس طریقہ کار کو

پڑھتے جائیے اور پاکستان کی صورت حال کو بھی اس کی روشنی میں دیکھتے جائیے۔ حیرت

انگیز مماثلت نظر آئے گی۔ ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی

ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔

 
Last edited:

insaan

MPA (400+ posts)
رنگین انقلابات حصہ آخر

رنگین انقلاب کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے وینزویلا ایک بہترین مثال ہے۔ یہ 2003

کی بات ہے کہ ان سازش کاروں نے وینز ویلا میں حکومت کی تبدیلی کے لئے رنگین انقلاب


لانے کا فیصلہ کیا ۔ اس سے ایک سال قبل یہ ہیوگو شاویز کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک

ناکام کوشش کرچکے تھے۔ رنگین انقلاب لانے کا فیصلہ کرتے ہی البرٹ آئن اسٹائن انسٹی

ٹیوٹ AEI نے وینز ویلا میں نازل ہوگئی۔ اس کا ڈائریکٹر اور اس تھیوری کے بانیوں میں سے

ایک کرنل ہیل وے بہ نفس نفیس خود وہاں پہنچا اور اس نے آمر کا تختہ الٹنے کے موضوع پر

ایک نو روزہ کورس کا اہتمام کیا۔ اس کورس کے شرکاء میں وینز ویلا کی حزب اختلاف، این

جی اوز، طلبہ و مزدور تنظیموں کے چیدہ چیدہ ارکان نے شرکت کی۔ کورس میں بتایا گیا کہ

آمر کا تختہ الٹنے کے لئے وہ کیا تیکنک ہے جو پوری دنیا میں استعمال کی گئی۔ اس کے ایک

سال کے اندر اندر پورا وینز ویلافسادات و مظاہروں کی لپیٹ میں آچکا تھاجس کو پوری دنیا کا

مین اسٹریم میڈیا پوری طرح کور کررہا تھا۔ان مظاہروں میں حزب اختلاف نے شاویز کے

خلاف ریفرینڈم کا مطالبہ کردیا جس میں حزب اختلاف کا بری طرح شکست ہوئی مگر اس نے

حسب توقع اس میں دھاندلی کا الزام عائد کردیا۔ تاہم یہ الزام اس لئے بودے ثابت ہوئے کہ بین

الاقوامی مبصرین کی فوج جس میں کارٹر سنٹر اور او اے ایس کے بھی نمائندے شامل تھے ،

اس کے درست ہونے کا سرٹیفکٹ جاری کرچکے تھے۔

مارچ 2005 میں ان سازش کاروں نے از سرنو صف بندی کی۔ اس مرتبہ حزب اختلاف کے

پرانے چہروں کو نوجوان اور طلبہ لیڈروں کے ایک گروپ سے تبدیل کردیا گیا تھا۔ ان

لوگوں کی تربیت کے لئے سربیا کے دو کامیاب انقلابی اور اوٹپر کے سابق رہنما سولوب جان

ڈینووک اور ایوان مارو وک بلغراد سے خصوصی طور پر وینز ویلا پہنچے۔ اس عرصہ میں

یوایس ایڈ اور این ای ڈی کے فنڈنگ گروپ بھی متحرک ہوچکے تھے اور انہوں نے نوملین

ڈالر کی فنڈنگ کی۔ ان کی مدد کے لئے فریڈم ہاوٴس بھی وہاں پہنچ چکا تھاتاکہ 2006 میں

ہونے والے عام انتخابات کی آڑ میں انقلاب رونما کیا جاسکے۔چنیدہ لوگوں کو سیمینار اور

ورکشاپ کی آڑ میں عوام خصوصا نوجوانوں کو منظم کرنے کے گر سکھائے جارہے تھے

تاکہ سڑکیں شاویز مخالف نعروں سے بھری جاسکیں۔ مگر اس مرتبہ پھر شاویز ان کا توڑ

کرنے میں کامیاب رہا ۔

اس کے دو سال بعد 2007 میں پھر ایک نئی کوشش کی گئی اور اس مرتبہ بہانہ تھا حزب

اختلاف کے ترجمان ایک نجی ٹیلی وژن چینل آر سی ٹی وی کے لائسنس کی تجدید کا ۔ اس

مرتبہ بھی طلبہ کا ہی مورچہ لگایا گیا اور سڑکیں ایک مرتبہ پھر پرتشدد مظاہرین سے بھر

گئیں۔ پورا وینزویلا انہی انقلابیوں کے سلوگن سے بھردیا گیا۔ہر دفعہ کی طرح ملکی و غیر

ملکی میڈیا پھر ان کی پشت پر تھا۔ فنڈنگ کی کوئی کمی نہیں تھی۔ سیکڑوں منتخب افراد کو

تربیت کے لئے بلغراد بھیجا گیا جبکہ طلبہ لیڈر یان گوئی کوچی Yon Goicochea کو

امریکی تھنک ٹینک ساٹو انسٹی ٹیوٹ نے وینزویلا میں تربیتی کیمپوں کے انعقاد کے لئے پانچ

لاکھ ڈالر فراہم کئے تھے۔ تاہم ہیوگو شاویز انقلاب کی اس لہر پر بھی قابو پانے میں کامیاب

رہا۔

وینزویلا کا تفصیل کے ساتھ میں نے اس لئے تذکرہ کیا کہ ان سازشیوں کے طریقہ کار کو

سمجھنے میں آسانی ہو۔ مصر، شام اور لیبیا میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ کرغیزستان میں

رنگین انقلاب لانے والوں نے فری انٹرنیٹ ملک میں متعارف کروایا تھا اور اس کی مدد سے

انہوں نے تربیت فراہم کی اور اپنے رابطے برقرار رکھے۔

اکثر لوگ انقلاب کے لفظ سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ یہاں پر انقلاب اور رنگین انقلاب کے مابین

ایک باریک فرق کو سمجھ لیجئے۔ انقلاب کا مطلب ہوتا ہے کہ برسوں سے قائم شدہ سیاسی،

سماجی و ملکی ڈھانچہ کو یکسر تبدیل کردینا جبکہ رنگین انقلاب کا مطلب ہے صرف اور

صرف حکومت کی تبدیلی۔ اس سازش میں سارے عوامل کام کرتے ہیں۔ یہ بات جان لیجئے کہ

حسنی مبارک تحریر اسکوائر پر ہونے والے مظاہروں کی بناء پر مستعفی نہیں ہوا تھا بلکہ یہ

مصر میں امریکی سفیر فرینک وائزنر تھا جس نے حسنی مبارک کو اس کا حکم دیا تھا۔

اب پاکستان کے حالات کو دیکھئے کہ کس طرح معاملات آگے بڑھتے ہیں۔ کہاں کہاں سول


سوسائٹی اور میڈیا کا سمبندھ ہوتا ہے اور کب کب نئے چہرے کھیل میں داخل کئے جاتے ہیں۔

یوایس ایڈ کس طرح اور کتنا پاکستان میں متحرک ہے۔ اور اس کے دیگر ذیلی ادارے کتنے

پاکستانیوں کو تربیت فراہم کررہے ہیں تو پور ا کھیل ازخود سمجھ میں آجاتا ہے۔

ہیوگو شاویز سمیت جس جس نے بھی ان سازشیوں کو ناکام بنایا ہے انہوں نے سب سے پہلے

ان تربیتی اداروں کی چھٹی کی۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ادارے نام بدل کر پھر وہاں داخل ہوتے

رہے۔ جارجیا میں نارنجی انقلاب کے رونما ہوتے ہی اس کے ہمسایہ وسط ایشیا کے ممالک

نے خطرے کی بو سونگھ لی تھی اور اس میں جارج سوروز کی اوپن سوساءٹی انسٹی ٹیوٹ

کے کردارکا ادراک کرلیا تھا۔ اس لئے ازبکستان نے فوری طور پر اوپن سوساءٹی کو اپنا دفتر

بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ان اداروں کو کھلی چھٹی دینے کا مطلب ہے ان کو سازش کرنے

کی کھلی چھٹی دینا۔

 

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
میرے خیال میں جھاں جھاں یہ رنگین انقلاب کامیاب ھوا ھے اس کی وجہ وھاں کے حکمرانوں اور بیوروکریسی کی کرپشن لوٹ مار انسانی حقوق کی پامالی،مذھبی گروپوں کے ھاتھوں سے عام شھریوں کی تذلیل اور ان کو انکی نیچر کے خلاف زندگی گزارنے پر مجبور کرنا تھا۔ایک پڑھا لکھا نوجوان یہ برداشت کیسے کرے کہ ایک جاھل سا نقاب پوش اسے روک کر تھپڑ مارتے ھوے داڑھی بڑھانے اور شلوار کے پائنچے کٹوانے کا حکم دے۔اگر لوگوں کا حاکم انصاف پسند ھو تو وینزویلا کی طرح وھاں کے لوگ ایسی کسی تحریک کا ساتھ نھیں دیتے
مجھے لگتا ھے ایسی تحریک پاکستان میں آسانی سے کامیاب نھیں ھوگی کیونکہ تحریک انصاف جیسی موومنٹ پھلے ھی یہ خلا پر کر چکی ھے۔یعنی کرپٹ ساستدانوں اور مولویوں کا احتساب کرنے کی موومنٹ۔
 

drkjke

Chief Minister (5k+ posts)
we are muslims .so only Islamic inqilaab will be acceptable to us.seculars,kufar munafiqqeen and hypocrite ***** slaves can dream of rangeen inqilaab so called information inqilaab or secular inqilaabs.but they will fail