ہم حالت جنگ میں ہیں – صرف انفارمیشن ہمارا ہتھیار ہے
مسعود انور کا بلاگ
نوٹ ( اب سے گذشتہ ایک برس قبل اگست میں ہی ، میں نے رنگین انقلابات کے نام سے چار
کالموں کی ایک سیریز لکھی تھی جس میں تفصیل سے دنیا بھر میں حکومتوں کی تبدیلی کے
لئے لائے گئے رنگین انقلابات اور ان کی پس پشت قوتوں کے بارے میں بات کی گئی تھی۔اس
وقت تک چونکہ میں نے اپنی ویب سائٹ ڈیولپ نہیں کی تھی۔ اس لئے یہ ویب سائیٹ پر دستیاب
نہیں ہیں۔ مصر کی موجودہ احتجاجی تحریک میں شامل احتجاجی نشان رابعہ نے ان کالموں کو
از سرنو تازہ کردیا ہے ۔ پہلے یہ کالم دوبارہ سے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ اس کے بعد مصر
کی صورتحال پر گفتگو۔ آج کا کالم ان ہی چاروں کالموں کا اضافہ یا تتمع قرار دیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ کالم پڑھنے سے پہلے مذکورہ چاروں کالم پڑھ لئے جائیں تو بات سمجھنا آسان ہوجائے
گی اور پس منظر بھی سمجھ میں آجائے گا۔ )
گذشتہ تین عشروں کو دنیا بھر میں حکومتوں کی تبدیلی کا عرصہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں
ہوگا۔ حکومتو ں کی تبدیلی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے مگر ان تبدیلیوں میں بین الاقوامی
سازش کاروں نے ایک کامیاب تجربہ کیا اور وہ تھا عوامی احتجاج کے ذریعے ہدف بنائی گئی
حکومت کی بے دخلی اور مطلوبہ افراد کی حکومت میں تعیناتی۔ اس تجربے کو بجا طور پر ایک
ہار میں پروئے گئے موتی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کوئی بھی حکومت جب کوئی فوج
آپریشن کرتی ہے تو اس کو ایک نام دیتی ہے، اسی طرح ان حکومتوں کی تبدیلی کے آپریشن کو
مختلف نام دیے گئے۔ یہ سارے نام یا تو کسی رنگ کے نام پر تھے یا پھول کے نام پر۔ اسی لئے
دنیا بھر میں ان آپریشنز کو رنگین انقلابات کہا جاتا ہے۔
ان تمام مہمات جس کو بین الاقوامی میڈیا عوامی تحریک کا نام دیتا ہے، کے بارے میں یہ بھی
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ تشدد سے پاک تحریکیں تھیں۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کے یکسر
برعکس ہیں۔ سب سے پہلے ان مہمات کا ایک مختصرا جائزہ اور پھر اس کے بعد پس منظر کی
کہانیوں کو دیکھتے ہیں۔
گو اس کا آغاز فلپائن سے 1986 میں ہواجس کو عوامی قوت انقلاب کا نام دیا گیا مگر اس کو
عرف عام میں پیلا انقلاب کہا جاتا ہے۔مگر رنگین انقلاب کی اس سیریز کا باقاعدہ آغاز 2000
سے یوگوسلاویہ سے ہوا۔ اس کے بعد 2003 میں گلاب انقلاب کے ذریعے جارجیا میں ایڈورڈ
شیورڈناڈزے کی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ یوکرین میں 2004 میں اورنج انقلاب کے ذریعے
حکومت ہٹائی گئی۔ کرغیزستان میں ٹیولپ انقلاب لایا گیا جس کو بعض اوقات گلابی انقلاب کا
بھی نام دیا گیا ۔
لبنان میں شامی فوج کی واپسی کی لئے 2005 میں دیودار انقلاب لایا گیا۔ کویت میں خواتین کو
پارلیمنٹ میں نشست دلانے والوں نے نیلا رنگ منتخب کیا اور اس کونیلے انقلاب کا نام دیا گیا۔
2005 میں عراق میں جمہوریت کے قیام کی مہم کو جارج بش نے جامنی انقلاب کا نام دیا۔ایران
میں 2009 کے انتخابات کے خلاف مہم کو ہرے انقلاب کا نام دیا گیا۔
تیونس سے شروع ہونے والی عالم عرب میں تبدیلیوں کو ان سازش کاروں نے بہار عرب کا نام
دیا تھا مگر ہر ملک کے لئے الگ کوڈ کا انتخاب کیا گیا۔ تیونس میں حکومت کے خلاف چلنے
والی تحریک کو چنبیلی انقلاب کا نام دیا گیا تھا جبکہ مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف
تحریک کو کنول انقلاب کا نام دیا گیا تھا۔اس کو کئی بار سفید انقلاب اور نیل انقلاب بھی کہا گیا
مگر اصل کوڈ کنول انقلاب ہی تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان میں وکلاء تحریک کو کالے انقلاب کا نام دیا گیا جو عدلیہ کی بحالی سے
شروع ہوئی تھی اور جلد ہی پرویز مشرف ہٹاوٴ تحریک میں بدل گئی تھی۔ دیگر ممالک جہاں پر
یہ تحریکات شروع ہوئیں اس میں چیکو سلاویکیہ ، آزربائیجان ، ازبکستان، برما، چین، بیلارس،
آرمینیا، مالدووا، منگولیا اور روس شامل ہیں۔
ان تمام تحریکات میں کھیل کے میدان کے علاوہ ہر چیز مشترک ہے۔ کھلاڑیوں کا انتخاب، کھیل
کے قوائد، کھلاڑیوں کا یونیفارم، نعرے، نام نہاد انقلاب کا اسکرپٹ، بین الاقوامی میڈیا کا کردار
اور سب سے بڑھ کر فنڈنگ کا طریقہ کار۔ ان تمام تحریکات کے مشترک نکات جن کو ڈھونڈنے
کے لئے کسی خاص دقت کی ضرورت نہیں ہے وہ یہ ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ان کا آغاز
پرانی سیاسی پارٹیوں کے بجائے نئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتار کر کیا جاتا ہے۔ عموما ان کا
تعلق طلبہ یونین یا لیبر یونین سے ہوتاہے۔ بعض اوقات پس منظر میں اور بعض اوقات پیش منظر
میں مختلف این جی اوز انتہائی متحرک ہوتی ہیں۔ ان کو سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس
تحریک کے رہنما پہلے دن سے ہی اس تحریک کے لئے کوئی رنگ یا پھول چن لیتے ہیں جس
کو پوری تحریک کے دوران علامت کے طور پر استعما ل کیا جاتا ہے۔
اس تحریک کے آغاز سے قبل مقتدر شخص کے خلاف ذرائع ابلاغ میں ایک زبردست مہم چلائی
جاتی ہے اور اس کے تمام کالے کرتوت حیرت انگیز طور پر روز ایک نئی انکشافاتی رپورٹ
کی صورت میں ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں چھپے ہوتے ہیں۔ تحریک کے آغاز سے قبل ہی
ملک میں مہنگائی، بدامنی اور اسٹریٹ کرائم کا طوفان آجاتا ہے اور عوام اس مقتدر شخص سے
ہر حال میں چھٹکارے کو تمام مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔تحریک کا آغاز ابتدائی طور پر
پرامن مظاہروں سے شروع ہوتا ہے اور اختتام خوں ریزی پر۔ ان انقلابیوں پر عالمی ذرائع ابلاغ
خصوصی طور پر مہربان رہتے ہیں اور ان کے ہر بلیٹن میں اس کے بارے میں خصوصی
رپورٹس شامل ہوتی ہیں۔ اس کھیل کے پس منظر کرداروں کے بارے میں تفصیل اگلے کالم میں
انشاء اللہ تعالیٰ۔
کالموں کی ایک سیریز لکھی تھی جس میں تفصیل سے دنیا بھر میں حکومتوں کی تبدیلی کے
لئے لائے گئے رنگین انقلابات اور ان کی پس پشت قوتوں کے بارے میں بات کی گئی تھی۔اس
وقت تک چونکہ میں نے اپنی ویب سائٹ ڈیولپ نہیں کی تھی۔ اس لئے یہ ویب سائیٹ پر دستیاب
نہیں ہیں۔ مصر کی موجودہ احتجاجی تحریک میں شامل احتجاجی نشان رابعہ نے ان کالموں کو
از سرنو تازہ کردیا ہے ۔ پہلے یہ کالم دوبارہ سے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ اس کے بعد مصر
کی صورتحال پر گفتگو۔ آج کا کالم ان ہی چاروں کالموں کا اضافہ یا تتمع قرار دیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ کالم پڑھنے سے پہلے مذکورہ چاروں کالم پڑھ لئے جائیں تو بات سمجھنا آسان ہوجائے
گی اور پس منظر بھی سمجھ میں آجائے گا۔ )
گذشتہ تین عشروں کو دنیا بھر میں حکومتوں کی تبدیلی کا عرصہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں
ہوگا۔ حکومتو ں کی تبدیلی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے مگر ان تبدیلیوں میں بین الاقوامی
سازش کاروں نے ایک کامیاب تجربہ کیا اور وہ تھا عوامی احتجاج کے ذریعے ہدف بنائی گئی
حکومت کی بے دخلی اور مطلوبہ افراد کی حکومت میں تعیناتی۔ اس تجربے کو بجا طور پر ایک
ہار میں پروئے گئے موتی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح کوئی بھی حکومت جب کوئی فوج
آپریشن کرتی ہے تو اس کو ایک نام دیتی ہے، اسی طرح ان حکومتوں کی تبدیلی کے آپریشن کو
مختلف نام دیے گئے۔ یہ سارے نام یا تو کسی رنگ کے نام پر تھے یا پھول کے نام پر۔ اسی لئے
دنیا بھر میں ان آپریشنز کو رنگین انقلابات کہا جاتا ہے۔
ان تمام مہمات جس کو بین الاقوامی میڈیا عوامی تحریک کا نام دیتا ہے، کے بارے میں یہ بھی
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ تشدد سے پاک تحریکیں تھیں۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کے یکسر
برعکس ہیں۔ سب سے پہلے ان مہمات کا ایک مختصرا جائزہ اور پھر اس کے بعد پس منظر کی
کہانیوں کو دیکھتے ہیں۔
گو اس کا آغاز فلپائن سے 1986 میں ہواجس کو عوامی قوت انقلاب کا نام دیا گیا مگر اس کو
عرف عام میں پیلا انقلاب کہا جاتا ہے۔مگر رنگین انقلاب کی اس سیریز کا باقاعدہ آغاز 2000
سے یوگوسلاویہ سے ہوا۔ اس کے بعد 2003 میں گلاب انقلاب کے ذریعے جارجیا میں ایڈورڈ
شیورڈناڈزے کی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ یوکرین میں 2004 میں اورنج انقلاب کے ذریعے
حکومت ہٹائی گئی۔ کرغیزستان میں ٹیولپ انقلاب لایا گیا جس کو بعض اوقات گلابی انقلاب کا
بھی نام دیا گیا ۔
لبنان میں شامی فوج کی واپسی کی لئے 2005 میں دیودار انقلاب لایا گیا۔ کویت میں خواتین کو
پارلیمنٹ میں نشست دلانے والوں نے نیلا رنگ منتخب کیا اور اس کونیلے انقلاب کا نام دیا گیا۔
2005 میں عراق میں جمہوریت کے قیام کی مہم کو جارج بش نے جامنی انقلاب کا نام دیا۔ایران
میں 2009 کے انتخابات کے خلاف مہم کو ہرے انقلاب کا نام دیا گیا۔
تیونس سے شروع ہونے والی عالم عرب میں تبدیلیوں کو ان سازش کاروں نے بہار عرب کا نام
دیا تھا مگر ہر ملک کے لئے الگ کوڈ کا انتخاب کیا گیا۔ تیونس میں حکومت کے خلاف چلنے
والی تحریک کو چنبیلی انقلاب کا نام دیا گیا تھا جبکہ مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف
تحریک کو کنول انقلاب کا نام دیا گیا تھا۔اس کو کئی بار سفید انقلاب اور نیل انقلاب بھی کہا گیا
مگر اصل کوڈ کنول انقلاب ہی تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان میں وکلاء تحریک کو کالے انقلاب کا نام دیا گیا جو عدلیہ کی بحالی سے
شروع ہوئی تھی اور جلد ہی پرویز مشرف ہٹاوٴ تحریک میں بدل گئی تھی۔ دیگر ممالک جہاں پر
یہ تحریکات شروع ہوئیں اس میں چیکو سلاویکیہ ، آزربائیجان ، ازبکستان، برما، چین، بیلارس،
آرمینیا، مالدووا، منگولیا اور روس شامل ہیں۔
ان تمام تحریکات میں کھیل کے میدان کے علاوہ ہر چیز مشترک ہے۔ کھلاڑیوں کا انتخاب، کھیل
کے قوائد، کھلاڑیوں کا یونیفارم، نعرے، نام نہاد انقلاب کا اسکرپٹ، بین الاقوامی میڈیا کا کردار
اور سب سے بڑھ کر فنڈنگ کا طریقہ کار۔ ان تمام تحریکات کے مشترک نکات جن کو ڈھونڈنے
کے لئے کسی خاص دقت کی ضرورت نہیں ہے وہ یہ ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ان کا آغاز
پرانی سیاسی پارٹیوں کے بجائے نئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتار کر کیا جاتا ہے۔ عموما ان کا
تعلق طلبہ یونین یا لیبر یونین سے ہوتاہے۔ بعض اوقات پس منظر میں اور بعض اوقات پیش منظر
میں مختلف این جی اوز انتہائی متحرک ہوتی ہیں۔ ان کو سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس
تحریک کے رہنما پہلے دن سے ہی اس تحریک کے لئے کوئی رنگ یا پھول چن لیتے ہیں جس
کو پوری تحریک کے دوران علامت کے طور پر استعما ل کیا جاتا ہے۔
اس تحریک کے آغاز سے قبل مقتدر شخص کے خلاف ذرائع ابلاغ میں ایک زبردست مہم چلائی
جاتی ہے اور اس کے تمام کالے کرتوت حیرت انگیز طور پر روز ایک نئی انکشافاتی رپورٹ
کی صورت میں ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں چھپے ہوتے ہیں۔ تحریک کے آغاز سے قبل ہی
ملک میں مہنگائی، بدامنی اور اسٹریٹ کرائم کا طوفان آجاتا ہے اور عوام اس مقتدر شخص سے
ہر حال میں چھٹکارے کو تمام مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔تحریک کا آغاز ابتدائی طور پر
پرامن مظاہروں سے شروع ہوتا ہے اور اختتام خوں ریزی پر۔ ان انقلابیوں پر عالمی ذرائع ابلاغ
خصوصی طور پر مہربان رہتے ہیں اور ان کے ہر بلیٹن میں اس کے بارے میں خصوصی
رپورٹس شامل ہوتی ہیں۔ اس کھیل کے پس منظر کرداروں کے بارے میں تفصیل اگلے کالم میں
انشاء اللہ تعالیٰ۔