Zafar Malik
Chief Minister (5k+ posts)
وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کے خارجہ تعلقات کو حقائق کی روشنی میں دیکھیں
اب تک ہمارے خارجہ تعلقات شخصیتوں کے مرہونِ منت رہے ہیں ۔ ہماری حکومتیں
دوسرے ممالک سے تعلقات ملک کی خاطر نہیں بلکہ دوسرے ممالک کے سربراہوں سے
ذاتی تعلقات بنانے کی خاطر استوار کرتے رہے ہیں تاکہ وقت آنے پر وہ ان کے کام آئیں
کسی بھی ملک کے لئے خارجہ تعلقات ملکی سلامتی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے
ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی اس معاملے میں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وزارت خارجہ
بنا کسی اہل وزیر کے چل رہی ہے ایک اسی سالہ بزرگ کو مشیر کا درجہ دے دیا گیا
ہے اور چاروں طرف سے نامساعد حالات میں گھرا ہوا ملک بغیر کسی امورخارجہ کے ماہر اور قابل وزیر کے دو مشیروں کی متضاد مشاورت کے سپرد کر دیا گیا ۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی میں سُپر پاورز کے علاوہ ہمارے نام نہاد دوست
بھی دخل اندازی کرتے ہیں۔ جن کی دوستی کی قیمت بعض اوقات ہمیں اپنے ملکی مفادات کو قربان کر کے ادا کرنی پڑتی ہے ۔ وقتکا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے قریبی ہمسایہ ملک ایران سے تعلقات مضبوط بنائیں تاکہ کم از کم ایک سرحد سے تو ہمیں اطمینان ہو اور انڈیا سے ایران کو کچھفاصلہ پر لے جائیں اور افغانستان میں بھی سہولت ملے ۔ اب اگر ایران پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل ہونا چاہتا ہے تو ایران سے اچھے تعلقات قائم ہو سکتے ہیں اور برادر ملکوں کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوسکتی ہیں
اب تک ہمارے خارجہ تعلقات شخصیتوں کے مرہونِ منت رہے ہیں ۔ ہماری حکومتیں
دوسرے ممالک سے تعلقات ملک کی خاطر نہیں بلکہ دوسرے ممالک کے سربراہوں سے
ذاتی تعلقات بنانے کی خاطر استوار کرتے رہے ہیں تاکہ وقت آنے پر وہ ان کے کام آئیں
کسی بھی ملک کے لئے خارجہ تعلقات ملکی سلامتی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے
ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی اس معاملے میں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وزارت خارجہ
بنا کسی اہل وزیر کے چل رہی ہے ایک اسی سالہ بزرگ کو مشیر کا درجہ دے دیا گیا
ہے اور چاروں طرف سے نامساعد حالات میں گھرا ہوا ملک بغیر کسی امورخارجہ کے ماہر اور قابل وزیر کے دو مشیروں کی متضاد مشاورت کے سپرد کر دیا گیا ۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی میں سُپر پاورز کے علاوہ ہمارے نام نہاد دوست
بھی دخل اندازی کرتے ہیں۔ جن کی دوستی کی قیمت بعض اوقات ہمیں اپنے ملکی مفادات کو قربان کر کے ادا کرنی پڑتی ہے ۔ وقتکا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے قریبی ہمسایہ ملک ایران سے تعلقات مضبوط بنائیں تاکہ کم از کم ایک سرحد سے تو ہمیں اطمینان ہو اور انڈیا سے ایران کو کچھفاصلہ پر لے جائیں اور افغانستان میں بھی سہولت ملے ۔ اب اگر ایران پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل ہونا چاہتا ہے تو ایران سے اچھے تعلقات قائم ہو سکتے ہیں اور برادر ملکوں کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوسکتی ہیں
[*=right]
تہران(مانیٹرنگ ڈیسک) چین کو براستہ پاکستان بحیرہ عرب سے ملانے والے تاریخی منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری کو خطے کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت کی بہت کوشش تھی کہ ایران کو ساتھ ملا کر اس منصوبے کی اہمیت گھٹانے والا کوئی منصوبہ شروع کیا جائے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شاندار منصوبے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ایران نے اس کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔
تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے پاک چین اقتصادی راہدار ی کو ایک شاندار منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اس کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو برادرانہ اور ہر آزمائش پر پورا اترنے والے قرار دیا۔ ایرانی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور باہمی تجارت کے حجم کو پانچ ارب ڈالر (تقریباً پانچ کھرب پاکستانی روپے) تک لے جانے کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔
واضح رہے کہ مغربی چین سے بحیرہ عرب تک پھیلے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تعمیر چھیالیس ارب ڈالر (تقریباً چھیالیس کھرب پاکستانی روپے) کی بھاری سرمایہ کاری سے جاری ہے۔ اسے اکیسویں صدی کی شاہراہ ریشم قرار دیا جارہا ہے، جو عالمی تجارت کا اہم ترین راستہ ہوگا، اور اس کے مثبت اثرات مشرق بعیدسے لے کر افریقہ اور مغربی یورپ تک نظر آئیں گے۔
http://dailypakistan.com.pk/international/19-Apr-2016/367436
تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے پاک چین اقتصادی راہدار ی کو ایک شاندار منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اس کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو برادرانہ اور ہر آزمائش پر پورا اترنے والے قرار دیا۔ ایرانی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور باہمی تجارت کے حجم کو پانچ ارب ڈالر (تقریباً پانچ کھرب پاکستانی روپے) تک لے جانے کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔
واضح رہے کہ مغربی چین سے بحیرہ عرب تک پھیلے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تعمیر چھیالیس ارب ڈالر (تقریباً چھیالیس کھرب پاکستانی روپے) کی بھاری سرمایہ کاری سے جاری ہے۔ اسے اکیسویں صدی کی شاہراہ ریشم قرار دیا جارہا ہے، جو عالمی تجارت کا اہم ترین راستہ ہوگا، اور اس کے مثبت اثرات مشرق بعیدسے لے کر افریقہ اور مغربی یورپ تک نظر آئیں گے۔
http://dailypakistan.com.pk/international/19-Apr-2016/367436
Last edited by a moderator: