Haidar Ali Shah
MPA (400+ posts)
اسلام اباد ائیرپورٹ پر جو ہوا وہ ثابت کرتا ہے کہ مشال پر تشدد کوئی انوکھا واقعہ تھا اور نا ہی ہمیں کوئی جھوٹا الزام لگانے کی ضرورت پڑتی ہے. مشال شہید بھی مرنے سے پہلے رحم کی اپیل کر رہا تھا اور ائیرپورٹ میں ایک بدصورت بھینس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والی خواتین بھی چیخ چیخ کر رحم کے اپیل کر رہے تھے. ولی خان یونیورسٹی میں جانور نما انسانوں کے دل میں رحم موجود تھا اور نا ہی اسلام اباد ائیرپورٹ پر موجود اس بھینس میں انسانیت کی کوئی رمق باقی تھی. اٌس عورت کی چیخ و پکار اور معافی کی درخواستیں سب سٌن رہے تھے
لیکن کسی میں تھوڑی سی بھی انسانیت نہیں تھی کہ اس کالی بھینس کو روکت لیتے. میرا خون جل رہا ہے شدت غم سے ہاتھ کانپ رہے ہے سمجھ نہیں آرہا ہمارے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ پولیس اور فوج* کی وردی میں موجود شیطانوں نے بھی کوئی روک ٹوک نہیں کی دس بارہ مسافر بھی صرف نعرہ بازی کرلیتے تو حالات بدل جاتے لیکن شاید ہمارے ہاں انسانیت دم تھوڑ چکی ہے.* یہ لگھڑ بھگڑ کے بچے ہے جو دوسرے جانورں کو شکار کرنے کے بعد ان کے مرنے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ کوئی زندہ شکار کی پاؤں کھا رہا ہوتا ہے کوئی کان اور کوئی پیٹ پھاڑ رہا ہوتا ہے.
یہ ظالم کونسے نسل کے ہے؟ ان کو رحم کی اپیلیں اور چیخ وپکار سنائی کوئی نہیں دیتی؟ ان کے دل پتھر کے بنے ہے کیا؟ میں اج تک سمجھتا رہا کہ میں* دیر کا ہو ہماری زندگی سخت تھی سہولیات کم تھے اسلئے میرا دل عام پاکستانیوں کے مقابلے میں سخت ہوگا لیکن نہیں جناب ایسا نہیں* ولی خان یونیورسٹی والے حادثے اور اسلام اباد ائیرپورٹ والے واقعے کے بعد مجھے سو فیصد یقین آگیا ہے کہ ایسا نہیں ایسا بالکل نہیں میں غلط تھا.سہولیات کی کمی اور حالات کی سختی انسان کو نرم بنا دیتی ہے. انسان کے پاس جب کوئی عہدہ؛ طاقت اور دوسرے سہولیات نہیں ہو تو تکبر سے پاک رہتا ہے.
کوئی بھی خود سے کمتر نہیں لگتا. اسلام اباد ائیرپورٹ میں یہ بےرحمانہ تشدد صرف اور صرف تکبر کا نتیجہ تھا. وہ حیوان نما عورت اس لئے ماں بیٹی پر تشدد کر رہی تھی کیونکہ اس نے ٹیشو پیپر کا پوچھا تھا. بس اتنی سی بات تھی لیکن تکبر کا مچھر اس بھینس کے نتھوں کے رستے اسکی کھوپڑی میں گھس چکا تھا. اور یہ مچھر تب نکلے گا جب اسے عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا اور اسکی تنخواہ اور نوکری دونوں چلے جائے گے. مگر ہم میں سے کون ایسا نہیں کریگا بس کسی بڑی کرسی پر بیٹھنے کی دیر ہے. چلو اچھا ہوا ماں بیٹی نے مزاحمت نہیں کی اور باپ بھی موقع پر موجود نہیں تھا ورنہ کچھ اس سے بھی برا ہو سکتا تھا.
ماں بیٹی پر تشدد کرنے کے بعد انکی فلائٹس بھی مٍس کروا دی گئی اور ان سے معافی نما بھی لکھوا لیا گیا اس کو کہتے ہے "شیر".اخر میں حکومت کو مشورہ دونگا کہ جلد از جلد بھینس کو عارضی سہی بارخاست کیا جائے ورنہ ایک دو دنوں میں کوئی نا کوئی شیر ناروے کی سفارت خانے میں سر جھکائے کھڑا ہوگا اور پھر سچی کاروائی بھی کرنی پڑے گی. سو جوتے اور سو پیاز کھانے سے بہتر ہے ابھی سے ایک دو پیاز کھا کر ذلت و رسوائی سے بچا جائے باقی آپ لوگوں کی مرضی. ویسے نااہل لوگوں کو ایسے حساس جگہوں پر بیٹھاؤ گے تو یہی ہوگا۔
نوٹ.... جو لوگ پاکستان میں ہے ان سے درخواست ہے کہ شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے ظلم دیکھ کر انکھیں بند نا کرے ورنہ کسی دن ظالم کے ہاتھ تمہارے گریبانوں میں بھی پڑے گے. اور پھر جب آپ چیخو گے چلاؤ گے تو اردگرد موجود لوگ صرف تماشہ ہی دیکھے گے. باقی آپ لوگوں کی مرضی*
*

لیکن کسی میں تھوڑی سی بھی انسانیت نہیں تھی کہ اس کالی بھینس کو روکت لیتے. میرا خون جل رہا ہے شدت غم سے ہاتھ کانپ رہے ہے سمجھ نہیں آرہا ہمارے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ پولیس اور فوج* کی وردی میں موجود شیطانوں نے بھی کوئی روک ٹوک نہیں کی دس بارہ مسافر بھی صرف نعرہ بازی کرلیتے تو حالات بدل جاتے لیکن شاید ہمارے ہاں انسانیت دم تھوڑ چکی ہے.* یہ لگھڑ بھگڑ کے بچے ہے جو دوسرے جانورں کو شکار کرنے کے بعد ان کے مرنے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ کوئی زندہ شکار کی پاؤں کھا رہا ہوتا ہے کوئی کان اور کوئی پیٹ پھاڑ رہا ہوتا ہے.
یہ ظالم کونسے نسل کے ہے؟ ان کو رحم کی اپیلیں اور چیخ وپکار سنائی کوئی نہیں دیتی؟ ان کے دل پتھر کے بنے ہے کیا؟ میں اج تک سمجھتا رہا کہ میں* دیر کا ہو ہماری زندگی سخت تھی سہولیات کم تھے اسلئے میرا دل عام پاکستانیوں کے مقابلے میں سخت ہوگا لیکن نہیں جناب ایسا نہیں* ولی خان یونیورسٹی والے حادثے اور اسلام اباد ائیرپورٹ والے واقعے کے بعد مجھے سو فیصد یقین آگیا ہے کہ ایسا نہیں ایسا بالکل نہیں میں غلط تھا.سہولیات کی کمی اور حالات کی سختی انسان کو نرم بنا دیتی ہے. انسان کے پاس جب کوئی عہدہ؛ طاقت اور دوسرے سہولیات نہیں ہو تو تکبر سے پاک رہتا ہے.
کوئی بھی خود سے کمتر نہیں لگتا. اسلام اباد ائیرپورٹ میں یہ بےرحمانہ تشدد صرف اور صرف تکبر کا نتیجہ تھا. وہ حیوان نما عورت اس لئے ماں بیٹی پر تشدد کر رہی تھی کیونکہ اس نے ٹیشو پیپر کا پوچھا تھا. بس اتنی سی بات تھی لیکن تکبر کا مچھر اس بھینس کے نتھوں کے رستے اسکی کھوپڑی میں گھس چکا تھا. اور یہ مچھر تب نکلے گا جب اسے عدالتوں میں گھسیٹا جائے گا اور اسکی تنخواہ اور نوکری دونوں چلے جائے گے. مگر ہم میں سے کون ایسا نہیں کریگا بس کسی بڑی کرسی پر بیٹھنے کی دیر ہے. چلو اچھا ہوا ماں بیٹی نے مزاحمت نہیں کی اور باپ بھی موقع پر موجود نہیں تھا ورنہ کچھ اس سے بھی برا ہو سکتا تھا.
ماں بیٹی پر تشدد کرنے کے بعد انکی فلائٹس بھی مٍس کروا دی گئی اور ان سے معافی نما بھی لکھوا لیا گیا اس کو کہتے ہے "شیر".اخر میں حکومت کو مشورہ دونگا کہ جلد از جلد بھینس کو عارضی سہی بارخاست کیا جائے ورنہ ایک دو دنوں میں کوئی نا کوئی شیر ناروے کی سفارت خانے میں سر جھکائے کھڑا ہوگا اور پھر سچی کاروائی بھی کرنی پڑے گی. سو جوتے اور سو پیاز کھانے سے بہتر ہے ابھی سے ایک دو پیاز کھا کر ذلت و رسوائی سے بچا جائے باقی آپ لوگوں کی مرضی. ویسے نااہل لوگوں کو ایسے حساس جگہوں پر بیٹھاؤ گے تو یہی ہوگا۔
نوٹ.... جو لوگ پاکستان میں ہے ان سے درخواست ہے کہ شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے ظلم دیکھ کر انکھیں بند نا کرے ورنہ کسی دن ظالم کے ہاتھ تمہارے گریبانوں میں بھی پڑے گے. اور پھر جب آپ چیخو گے چلاؤ گے تو اردگرد موجود لوگ صرف تماشہ ہی دیکھے گے. باقی آپ لوگوں کی مرضی*
*
- Featured Thumbs
- http://i.imgur.com/usJRkOr.jpg
Last edited by a moderator: