بادشاہ اور قیدی کے درمیان مکالمہ
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی نے طول پکڑ لیا، قیصر مسلمانوں کی بہادر اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔ عبد اللہ بن حذافہ کو لا کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاوں میں ہتھکڑیاں تھی، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو ان کی ذہانت سے حیران رہ گیا، دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا: –
قیصر: نصرانیت قبول کر لے تجھے رہا کر دوں گا۔
عبد اللہ: نہیں قبول کروں گا۔
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تجھے دے دوں گا
عبد اللہ: نہیں۔
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تجھے حکمرانی میں شریک کروں گا
عبد اللہ: نہیں، اللہ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباء و اجداد کی مملکت، عرب و عجم کی حکومتیں بھی دے دو تو میں پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔
قیصر غضبناک ہوا اور کہا: تجھے قتل کر دوں گا۔
عبد اللہ: مجھے قتل کر دے۔
قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے (ڈرانے کے لیے ) پھر اس کو عیسائیت قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے۔
جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی اور وہ کسی حال میں بھی اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ اس کو قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو۔ ۔ عبد اللہ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا۔
جب عبد اللہ نے یہ دیکھا تو کہا: اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ مضطر(پریشان حال) ہوں جس کے لیے یہ حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کرنا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے عبد اللہ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا، اس کے بعد ایک حسین و جمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہرہ کرے۔ اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر عبد اللہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے۔
جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا: تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں سمجھ نہ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر۔ اللہ کی قسم اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مذکر ہوں یا مونث!!
جب قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ عبد اللہ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور عبد اللہ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک دوسرے مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جن کی ایک چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں الگ ہو گئیں اور تیل کے اوپر تیرنے لگی، عبد اللہ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، اب ایک بار پھر قیصر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر عبد للہ نے انکار کر دیا۔
قیصر غصے سے پاگل ہونے لگا اور حکم دیا کہ اس دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اللہ کے سر پر ڈال دیا جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر عبد اللہ کے قریب کی اور اس کی تپش کو عبد اللہ نے محسوس کیا تو وہ رونے لگے !!
آپ کی ان خوش نصیب آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جن آنکھوں نے رسول اللہﷺ کا چہرہ انور دیکھا تھا!!
یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا: عیسائی بن جاؤ معاف کر دوں گا۔
عبد اللہ نے کہا: نہیں۔
قیصر: تو پھر رویا کیوں ؟
عبد اللہ: اللہ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی۔ ۔ میری یہ تمنا ہے کہ میری میرے سر کے بالوں کے برابر جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اللہ کی راہ میں نکلیں۔
یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اللہ سے کہا: کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کروں ؟
عبد اللہ: اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر تے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں۔
قیصر: ٹھیک ہے۔
عبد اللہ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سرکو بوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کر دیے گئے۔
جب واپس عمر بن الخطاب کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عبد اللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور عبد اللہ کے سر کو بوسہ دیا۔ رضی اللہ عنھم کیسی سیرت تھی صحابہ کی!۔
کیسی قربانیاں تھیں ان کی!۔
کیا یہ اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہیے ؟؟
در اصل یہی اصل ہیرو ہیں زندگیوں کے , آج کل ہمارے پاس اپنی اولادوں کو اسلام کے ہیروز کے بارے میں بتانے کا وقت نہیں ہے , ہماری اولادیں یہ تو جانتی ہیں , کہ سپرمین, آئرن مین, بیٹ مین,۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیرو ہیں جو کہ خیالی ہیں , اور اصل ہیرو کون اور کیسے ہوتے ہیں یہ ہی نہیں علم, اللہ سب کو علم دین سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا کرے۔آمین
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی نے طول پکڑ لیا، قیصر مسلمانوں کی بہادر اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔ عبد اللہ بن حذافہ کو لا کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاوں میں ہتھکڑیاں تھی، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو ان کی ذہانت سے حیران رہ گیا، دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا: –
قیصر: نصرانیت قبول کر لے تجھے رہا کر دوں گا۔
عبد اللہ: نہیں قبول کروں گا۔
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تجھے دے دوں گا
عبد اللہ: نہیں۔
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تجھے حکمرانی میں شریک کروں گا
عبد اللہ: نہیں، اللہ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباء و اجداد کی مملکت، عرب و عجم کی حکومتیں بھی دے دو تو میں پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔
قیصر غضبناک ہوا اور کہا: تجھے قتل کر دوں گا۔
عبد اللہ: مجھے قتل کر دے۔
قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے (ڈرانے کے لیے ) پھر اس کو عیسائیت قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے۔
جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی اور وہ کسی حال میں بھی اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ اس کو قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو۔ ۔ عبد اللہ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا۔
جب عبد اللہ نے یہ دیکھا تو کہا: اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ مضطر(پریشان حال) ہوں جس کے لیے یہ حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کرنا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے عبد اللہ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا، اس کے بعد ایک حسین و جمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہرہ کرے۔ اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر عبد اللہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے۔
جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا: تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں سمجھ نہ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر۔ اللہ کی قسم اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مذکر ہوں یا مونث!!
جب قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ عبد اللہ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور عبد اللہ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک دوسرے مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جن کی ایک چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں الگ ہو گئیں اور تیل کے اوپر تیرنے لگی، عبد اللہ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، اب ایک بار پھر قیصر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر عبد للہ نے انکار کر دیا۔
قیصر غصے سے پاگل ہونے لگا اور حکم دیا کہ اس دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اللہ کے سر پر ڈال دیا جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر عبد اللہ کے قریب کی اور اس کی تپش کو عبد اللہ نے محسوس کیا تو وہ رونے لگے !!
آپ کی ان خوش نصیب آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جن آنکھوں نے رسول اللہﷺ کا چہرہ انور دیکھا تھا!!
یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا: عیسائی بن جاؤ معاف کر دوں گا۔
عبد اللہ نے کہا: نہیں۔
قیصر: تو پھر رویا کیوں ؟
عبد اللہ: اللہ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی۔ ۔ میری یہ تمنا ہے کہ میری میرے سر کے بالوں کے برابر جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اللہ کی راہ میں نکلیں۔
یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اللہ سے کہا: کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کروں ؟
عبد اللہ: اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر تے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں۔
قیصر: ٹھیک ہے۔
عبد اللہ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سرکو بوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کر دیے گئے۔
جب واپس عمر بن الخطاب کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عبد اللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور عبد اللہ کے سر کو بوسہ دیا۔ رضی اللہ عنھم کیسی سیرت تھی صحابہ کی!۔
کیسی قربانیاں تھیں ان کی!۔
کیا یہ اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہیے ؟؟
در اصل یہی اصل ہیرو ہیں زندگیوں کے , آج کل ہمارے پاس اپنی اولادوں کو اسلام کے ہیروز کے بارے میں بتانے کا وقت نہیں ہے , ہماری اولادیں یہ تو جانتی ہیں , کہ سپرمین, آئرن مین, بیٹ مین,۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیرو ہیں جو کہ خیالی ہیں , اور اصل ہیرو کون اور کیسے ہوتے ہیں یہ ہی نہیں علم, اللہ سب کو علم دین سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا کرے۔آمین