جیسے جیسے ریمارکس، تسبیح کے دانے تیز
پانامالیکس کیس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اُن کے بچوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے جہاں سپریم کورٹ کا نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے تو وہیں ان درخواستوں کی سماعت کے لیے کمرہ عدالت بھی تبدیل کردیا گیا۔
اب ان درخواستوں کی سماعت عدالت نمبر دو میں ہوتی ہے اور یہ کمرۂ عدالت چیف جسٹس کے کمرۂ عدالت کی نسبت بہت ہی چھوٹا ہے۔ یہاں صرف چالیس کے قریب افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
بدھ کے روز ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کے بیٹھنے سے پہلے ہی کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرچکا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی خاصی دیر تک کھڑے رہنا پڑا۔ بالآخر انھیں سیٹ مل ہی گئی۔ اس کے برعکس حکمران جماعت کے حامی بھی عدالت میں موجود تھے اور جونہی کوئی وفاقی وزیر کمرۂ عدالت میں آتا تو وہ اپنی سیٹ سے اُٹھ جاتے اور یوں وفاقی وزرا کو آسانی سے نشست مل جاتی۔
پاناما لیکس کی درخواستوں کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ہاتھ میں آج پہلی مرتبہ تسبیح بھی نظر آئی۔ اس سے پہلے والے بینچ اور سنہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کے ہاتھ میں کبھی بھی تسبیح نہیں دیکھی گئی۔ تاہم بدھ کو جب بھی بینچ میں شامل کوئی جج ریمارکس دیتے یا پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری سے کوئی سوال پوچھتے تو عمران خان کے دائیں ہاتھ کی انگلیاں تسبیح پر زیادہ تیزی سے چلنا شروع ہوجاتی تھیں۔
کمرۂ عدالت سے نکلنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے تسبیح اپنی جیب میں ڈال لی۔
سماعت کے دوران عمران خان متعدد بار اپنی نشست سے کھڑے بھی ہوتے رہے۔ نعیم بخاری جب اپنے دلائل دے رہے تھے تو عمران خان، جہانگیر ترین اور اسد عمر اپنے وکلا کو سرگوشیوں میں مشورے بھی دیتے رہے۔
بدھ کے روز جب ان درخواستوں کی سماعت ختم ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میڈیا کے نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹی وی پر ان درخواستوں کی سماعت کے بارے میں ٹاک شوز میں ججز کے ریمارکس کو زیر بحث نہ لایا کریں۔
اُنھوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ایک ترجمان فواد چوہدری کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان درخواستوں کی سماعت میں وقفے کے دوران اُنھوں نے باہر جاکر میڈیا کے نمائندوں کو بریف کرنا شروع کردیا لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔
اسی دوران عمران خان روسٹرم پر آئے اور اُنھوں نے کہا کہ وہ حزب مخالف میں ہیں لہٰذا ان کا کام الزام لگانا ہے جبکہ ثابت کرنا حکومت کا کام ہے۔ اس جملے کے بعد کمرہ عدالت میں ایک زرودار قہقہ لگایا گیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے بارے میں اُن کی طرف سے کی جانے والی تقاریر اور پریس کانفرنس کو عدالتوں پر دباؤ نہ سمجھا جائے۔
قومی اسمبلی میں ایک ہی سیٹ رکھنے والی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے تجویز دی کہ چونکہ یہ اہم نوعیت کا معاملہ ہے اس لیے اس مقدمے کی براہِ راست کوریج کی اجازت دی جائے جسے عدالت نے منظورنہیں کیا۔
سماعت کے بعد حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے عمران خان کی طرف سے عدالت میں کہے گئے بیان کے بارے میں کہا کہ حکومت پہلے ہی کہتی تھی کہ پاناما لیکس سے متعلق عمران خان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں اور وہ صرف الزام ہی لگاتے ہیں۔
اب ان درخواستوں کی سماعت عدالت نمبر دو میں ہوتی ہے اور یہ کمرۂ عدالت چیف جسٹس کے کمرۂ عدالت کی نسبت بہت ہی چھوٹا ہے۔ یہاں صرف چالیس کے قریب افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔
بدھ کے روز ان درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کے بیٹھنے سے پہلے ہی کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرچکا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی خاصی دیر تک کھڑے رہنا پڑا۔ بالآخر انھیں سیٹ مل ہی گئی۔ اس کے برعکس حکمران جماعت کے حامی بھی عدالت میں موجود تھے اور جونہی کوئی وفاقی وزیر کمرۂ عدالت میں آتا تو وہ اپنی سیٹ سے اُٹھ جاتے اور یوں وفاقی وزرا کو آسانی سے نشست مل جاتی۔
پاناما لیکس کی درخواستوں کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ہاتھ میں آج پہلی مرتبہ تسبیح بھی نظر آئی۔ اس سے پہلے والے بینچ اور سنہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کے ہاتھ میں کبھی بھی تسبیح نہیں دیکھی گئی۔ تاہم بدھ کو جب بھی بینچ میں شامل کوئی جج ریمارکس دیتے یا پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری سے کوئی سوال پوچھتے تو عمران خان کے دائیں ہاتھ کی انگلیاں تسبیح پر زیادہ تیزی سے چلنا شروع ہوجاتی تھیں۔
کمرۂ عدالت سے نکلنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے تسبیح اپنی جیب میں ڈال لی۔
سماعت کے دوران عمران خان متعدد بار اپنی نشست سے کھڑے بھی ہوتے رہے۔ نعیم بخاری جب اپنے دلائل دے رہے تھے تو عمران خان، جہانگیر ترین اور اسد عمر اپنے وکلا کو سرگوشیوں میں مشورے بھی دیتے رہے۔
بدھ کے روز جب ان درخواستوں کی سماعت ختم ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میڈیا کے نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹی وی پر ان درخواستوں کی سماعت کے بارے میں ٹاک شوز میں ججز کے ریمارکس کو زیر بحث نہ لایا کریں۔
اُنھوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ایک ترجمان فواد چوہدری کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان درخواستوں کی سماعت میں وقفے کے دوران اُنھوں نے باہر جاکر میڈیا کے نمائندوں کو بریف کرنا شروع کردیا لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔
اسی دوران عمران خان روسٹرم پر آئے اور اُنھوں نے کہا کہ وہ حزب مخالف میں ہیں لہٰذا ان کا کام الزام لگانا ہے جبکہ ثابت کرنا حکومت کا کام ہے۔ اس جملے کے بعد کمرہ عدالت میں ایک زرودار قہقہ لگایا گیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے بارے میں اُن کی طرف سے کی جانے والی تقاریر اور پریس کانفرنس کو عدالتوں پر دباؤ نہ سمجھا جائے۔
قومی اسمبلی میں ایک ہی سیٹ رکھنے والی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے تجویز دی کہ چونکہ یہ اہم نوعیت کا معاملہ ہے اس لیے اس مقدمے کی براہِ راست کوریج کی اجازت دی جائے جسے عدالت نے منظورنہیں کیا۔
سماعت کے بعد حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے عمران خان کی طرف سے عدالت میں کہے گئے بیان کے بارے میں کہا کہ حکومت پہلے ہی کہتی تھی کہ پاناما لیکس سے متعلق عمران خان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں اور وہ صرف الزام ہی لگاتے ہیں۔
BBChttp://www.bbc.com/urdu/pakistan-38508661?ocid=socialflow_twitter
Last edited: