جب سے نور مقدّم کا قتل ہوا ہے، پورا پاکستان جیسے سکتے کی حالت میں آچکا ہے. ایسا لگتا ہے جیسے آج تک کوئی اور قتل ہوا ہی نہ ہو. ہماری عوام نے خوب ٹویٹر ٹرینڈ چلایا، ہمارے دانشور، صحافی، انتظامیہ، حتی کہ عوام بھی اس سانحے کو خوب اچھال رہی ہے. میرا اختلاف ان سے نہیں جو اس سانحے کو روزانہ، بلکہ گھنٹوں کے حساب سے رپورٹ کر رہے ہیں، میرا اختلاف ان سے ہے جو باقی جرائم کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہے
اس قتل کے بعد ایک واقعہ اور رونما ہوا، جب ایک جانور نما انسان نے ایک عورت کی کھلے آسمان تلے عصمت دری کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے تعاون نہ کرنے پر نہ صرف اس کو شدید زخمی کردیا، بلکہ اس کے شیر خوار بچے کو اس کے سامنے ذبح کردیا. وہ عورت تو جیتے جی مر ہی گئی ہوگی، صرف اس کی روح پرواز کرنے میں تھوڑی دیر ہوگئی ورنہ اپنا بچہ اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھ کر کون زندہ رہ سکتا ہے
ہمارے معاشرے میں انسانی حقوق صرف اور صرف امیروں کے ہیں. وہ مہنگا نشہ کر کے، اسلامی معاشرتی اقدار کی دھجیاں بکھیر تے ہوے تاریک راہوں میں مارے جایئں تو ہماری عوام کو جیسے لگتا ہے بڑا ظلم ہوگیا صرف انہی افراد کو تو معاشرے میں جینے کا حق تھا- باقی اس ماں اور بچے کے قتل پہ نہ عوام نے زیادہ شور مچایا، نہ صحافی اپنا گریبان پھاڑتے پھرے، نہ پولیس نے زیادہ کوئی مستعدی دکھائی. نا ہی کوئی ٹرینڈ بنا، نہ کسی کو ہوش آیا کہ آج جو اس ماں اور بچے کے ساتھ ہوا ہے، کل کو ہماری فیملی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، اور اگر ہم ارب پتی یا کسی بیوروکریٹ کی اولاد نہ ہوں، تو ہمیں کسی کاروائی یا انصاف کی توقع نہیں کرنی چاہیے
لوگ نور مقدّم کے لئے مرے جارہے ہیں. ایسا لگ رہا ہے کہ اس حرام کی اولاد نے نور مقدم کو اس کے گھر میں گھس کر اس کے ماں باپ کے سامنے ذبح کیا ہو. اور یہ آدمی ہر ایک کے ساتھ ایسا کرسکتا ہو. اگر فوری انصاف نہیں ملا تو پورا معاشرہ اس قاتل کے رحم و کرم پہ ہوگا. نہیں جناب، صرف وہ لوگ ان کے رحم و کرم پہ ہیں جن کے بچے مہنگے نشے کرتے ہیں، بغیر نکاح کے ماں باپ کی رضا مندی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، فجر کی اذان ہونے تک ناچ گانے کی محفلیں سجاتے ہیں. عام آدمی کو خطرہ ایسے لوگوں سے زیادہ اس بھیڑیے سے ہے جو کھلے عام ایک عورت اور اس کے بچے کو ذبح کر گیا. میں نہیں کہتا کہ جو کچھ نور کے ساتھ ہوا وہ ٹھیک تھا. میں یہ بھی نہیں کہتا کے ہمیں اس حرام کے پلّے کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھانی چاہیے اور پولیس کو پریشر میں نہیں رکھنا چاہیے. میں یہ بھی سمجھتا ہوں کے بے راہ روی کے باوجود نور مقدّم کا معاملہ اب اللہ کے پاس ہے اور قوی امید ہے کہ اللہ نے اس کے تمام گناہ، اس تکلیف کے بدلے جس سے وہ گزری، معاف کر دیے ہونگے کیونکہ اس کی ذات تو غفور و رحیم ہے اور ہمیں اس سے بہت زیادہ رحم کی امید ہے. لیکن عوام کو اب سوچنا ہوگا کہ کیا صرف انصاف امیر زادوں اور امیر زادیوں کا ہی حق ہے یا ماڈل ٹاؤن میں کھلے عام چودہ افراد کا قتل بھی اہمیت کا حامل ہے، کیا ساہیوال کا سانحہ بھی کسی توجہ کے لائق ہے، کیا وہ بچے جو اپنے استادوں کے ہاتھوں ریپ ہوئے اور ان استادوں کا ان کے تعلق کی بنا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا، یہ کیا وہ ماں اور بچہ بھی ہم عوام کا ضمیر اسہی طرح جھنجوڑ پائینگے جیسے نور مقدم نے ہمارا دل، دماغ، شریانیں، سب کچھ ماؤف کردیا
نور مقدّم کو اللہ جنّت نصیب کرے، اور اس کے ماں باپ کو صبر عطا کرے، اور اس قاتل کو عوام پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھے، اور اللہ پاک ہماری بگڑی نسل کو اس واقعے سے سبق سیکھنے کی توفیق دے کہ اللہ کے ہر حکم میں ہمارے ہی لئے کوئی نہ کوئی فائدہ ہے. اللہ تمام ماں باپ کو اپنے بچوں کی صحیح تربیت، اور اچھے برے کی پہچان کرنے کی توفیق دے. اور اللہ ہم عوام کو تمام جرائم کو اسہی طرح سمجھنے کی توفیق دے جیسے ہم نور مقدّم کے جرم کو سمجھ رہے ہیں. آمین
یاد رکھیں، ترقی صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب ہم عوام کی نظر میں امیر اور غریب کی برابر اہمیت ہوگی. عوام ہی قانون بناتے ہیں، عوام ہی سے پولیس میں لوگ بھرتی ہوتے ہیں، عوام ہی سے لوگ وکیل اور جج بنتے ہیں، اور عوام ہی اپنے حکمران منتخب کرتی ہے. جو برائیاں عوام میں ہونگی وہ ہمارے سب اداروں، انتظامیہ، حکمرانوں میں سرائیت کرینگی. ہم اچھے تو سب اچھے
آخر میں وہی حدیث دہراتا چلوں، نبی پاک محمد صل اللہ علیه وسلم کا ارشاد ہے، تم سے پہلے کے لوگ اس لئے برباد ہوگئے کہ ان میں اگر کوئی غریب جرم کرتا تو سزا پاتا اور امیر کرتا تو معاف کردیا جاتا.
اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری بربادی میں ہمارا اپنا ہی ہاتھ ہے. ایسا نہیں ہے کہ ہماری قوم کا ضمیر ہمیشہ ہی سویا رہا ہو، ہم نے کبھی کبھی غریبوں کے لئے بھی ٹرینڈ چلائے ہیں، لیکن جس طرح آج کل ہماری عوام نور مقدّم کے کیس کو لے کر پیچھے پڑی ہے، کاش کہ ہم اپنی حکومت کو باقی جرائم جو وہ بھول چکے ہیں ساتھ ساتھ یاد کرواتے چلیں. کاش کہ ایک ٹرینڈ لاہور ہائی کورٹ کے ان گھٹیا ججز کے خلاف بھی ہوجاۓ جنہوں نے ماڈل ٹاؤن کے کیس کو بلاوجہ روکا ہوا ہے. کاش کہ ہم میں اتنی ہمت آجائے کہ ہم آتے جاتے ان ججز کی گاڑیوں کے اوپر انڈے جوتے اور پتھر برسائیں
اس قتل کے بعد ایک واقعہ اور رونما ہوا، جب ایک جانور نما انسان نے ایک عورت کی کھلے آسمان تلے عصمت دری کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے تعاون نہ کرنے پر نہ صرف اس کو شدید زخمی کردیا، بلکہ اس کے شیر خوار بچے کو اس کے سامنے ذبح کردیا. وہ عورت تو جیتے جی مر ہی گئی ہوگی، صرف اس کی روح پرواز کرنے میں تھوڑی دیر ہوگئی ورنہ اپنا بچہ اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھ کر کون زندہ رہ سکتا ہے
ہمارے معاشرے میں انسانی حقوق صرف اور صرف امیروں کے ہیں. وہ مہنگا نشہ کر کے، اسلامی معاشرتی اقدار کی دھجیاں بکھیر تے ہوے تاریک راہوں میں مارے جایئں تو ہماری عوام کو جیسے لگتا ہے بڑا ظلم ہوگیا صرف انہی افراد کو تو معاشرے میں جینے کا حق تھا- باقی اس ماں اور بچے کے قتل پہ نہ عوام نے زیادہ شور مچایا، نہ صحافی اپنا گریبان پھاڑتے پھرے، نہ پولیس نے زیادہ کوئی مستعدی دکھائی. نا ہی کوئی ٹرینڈ بنا، نہ کسی کو ہوش آیا کہ آج جو اس ماں اور بچے کے ساتھ ہوا ہے، کل کو ہماری فیملی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، اور اگر ہم ارب پتی یا کسی بیوروکریٹ کی اولاد نہ ہوں، تو ہمیں کسی کاروائی یا انصاف کی توقع نہیں کرنی چاہیے
لوگ نور مقدّم کے لئے مرے جارہے ہیں. ایسا لگ رہا ہے کہ اس حرام کی اولاد نے نور مقدم کو اس کے گھر میں گھس کر اس کے ماں باپ کے سامنے ذبح کیا ہو. اور یہ آدمی ہر ایک کے ساتھ ایسا کرسکتا ہو. اگر فوری انصاف نہیں ملا تو پورا معاشرہ اس قاتل کے رحم و کرم پہ ہوگا. نہیں جناب، صرف وہ لوگ ان کے رحم و کرم پہ ہیں جن کے بچے مہنگے نشے کرتے ہیں، بغیر نکاح کے ماں باپ کی رضا مندی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، فجر کی اذان ہونے تک ناچ گانے کی محفلیں سجاتے ہیں. عام آدمی کو خطرہ ایسے لوگوں سے زیادہ اس بھیڑیے سے ہے جو کھلے عام ایک عورت اور اس کے بچے کو ذبح کر گیا. میں نہیں کہتا کہ جو کچھ نور کے ساتھ ہوا وہ ٹھیک تھا. میں یہ بھی نہیں کہتا کے ہمیں اس حرام کے پلّے کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھانی چاہیے اور پولیس کو پریشر میں نہیں رکھنا چاہیے. میں یہ بھی سمجھتا ہوں کے بے راہ روی کے باوجود نور مقدّم کا معاملہ اب اللہ کے پاس ہے اور قوی امید ہے کہ اللہ نے اس کے تمام گناہ، اس تکلیف کے بدلے جس سے وہ گزری، معاف کر دیے ہونگے کیونکہ اس کی ذات تو غفور و رحیم ہے اور ہمیں اس سے بہت زیادہ رحم کی امید ہے. لیکن عوام کو اب سوچنا ہوگا کہ کیا صرف انصاف امیر زادوں اور امیر زادیوں کا ہی حق ہے یا ماڈل ٹاؤن میں کھلے عام چودہ افراد کا قتل بھی اہمیت کا حامل ہے، کیا ساہیوال کا سانحہ بھی کسی توجہ کے لائق ہے، کیا وہ بچے جو اپنے استادوں کے ہاتھوں ریپ ہوئے اور ان استادوں کا ان کے تعلق کی بنا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا، یہ کیا وہ ماں اور بچہ بھی ہم عوام کا ضمیر اسہی طرح جھنجوڑ پائینگے جیسے نور مقدم نے ہمارا دل، دماغ، شریانیں، سب کچھ ماؤف کردیا
نور مقدّم کو اللہ جنّت نصیب کرے، اور اس کے ماں باپ کو صبر عطا کرے، اور اس قاتل کو عوام پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھے، اور اللہ پاک ہماری بگڑی نسل کو اس واقعے سے سبق سیکھنے کی توفیق دے کہ اللہ کے ہر حکم میں ہمارے ہی لئے کوئی نہ کوئی فائدہ ہے. اللہ تمام ماں باپ کو اپنے بچوں کی صحیح تربیت، اور اچھے برے کی پہچان کرنے کی توفیق دے. اور اللہ ہم عوام کو تمام جرائم کو اسہی طرح سمجھنے کی توفیق دے جیسے ہم نور مقدّم کے جرم کو سمجھ رہے ہیں. آمین
یاد رکھیں، ترقی صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب ہم عوام کی نظر میں امیر اور غریب کی برابر اہمیت ہوگی. عوام ہی قانون بناتے ہیں، عوام ہی سے پولیس میں لوگ بھرتی ہوتے ہیں، عوام ہی سے لوگ وکیل اور جج بنتے ہیں، اور عوام ہی اپنے حکمران منتخب کرتی ہے. جو برائیاں عوام میں ہونگی وہ ہمارے سب اداروں، انتظامیہ، حکمرانوں میں سرائیت کرینگی. ہم اچھے تو سب اچھے
آخر میں وہی حدیث دہراتا چلوں، نبی پاک محمد صل اللہ علیه وسلم کا ارشاد ہے، تم سے پہلے کے لوگ اس لئے برباد ہوگئے کہ ان میں اگر کوئی غریب جرم کرتا تو سزا پاتا اور امیر کرتا تو معاف کردیا جاتا.
اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہماری بربادی میں ہمارا اپنا ہی ہاتھ ہے. ایسا نہیں ہے کہ ہماری قوم کا ضمیر ہمیشہ ہی سویا رہا ہو، ہم نے کبھی کبھی غریبوں کے لئے بھی ٹرینڈ چلائے ہیں، لیکن جس طرح آج کل ہماری عوام نور مقدّم کے کیس کو لے کر پیچھے پڑی ہے، کاش کہ ہم اپنی حکومت کو باقی جرائم جو وہ بھول چکے ہیں ساتھ ساتھ یاد کرواتے چلیں. کاش کہ ایک ٹرینڈ لاہور ہائی کورٹ کے ان گھٹیا ججز کے خلاف بھی ہوجاۓ جنہوں نے ماڈل ٹاؤن کے کیس کو بلاوجہ روکا ہوا ہے. کاش کہ ہم میں اتنی ہمت آجائے کہ ہم آتے جاتے ان ججز کی گاڑیوں کے اوپر انڈے جوتے اور پتھر برسائیں