Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)

پیمرا کی ذمہ داری کیا ہے؟
ہمارا ’’الیکٹرانک‘‘ میڈیا!!
محمد امجد چوہدری
صحافت کے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ خلقِ خدا کے دل کی آواز سے شناسائی حاصل کرکے اسے ایمان داری سے ہر خاص و عام تک پہنچانا ہی اصل صحافت ہے، بصورتِ دیگر اسے زرد صحافت سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے موجودہ ذرائع ابلاغ خاص طور برقی میڈیا عوام کو وہ کچھ دکھا رہے ہیں جسے وہ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ان میں لچر پن اور عریانی کے ساتھ ساتھ واقعات میں رنگ آمیزی اور سنسنی خیزی کا پہلو نمایاں ہے۔ واقعات کو من وعن اور غیر جانب داری سے دوسروں تک پہنچانے کو صحافت کی اساس کہا گیا ہے۔ اگر خبر کو کسی خاص پہلو یا زاویے کے لحاظ سے اجاگر کیا جائے، اس میں رنگ آمیزی کی جائے، یا پھر اسے سنسنی خیزی سے بیان کیا جائے تو اسے ’’صحافتی بددیانتی‘‘ کہا جائے گا، اور اگر ایسا ریٹنگ بڑھاکر اشتہارات بٹورنے کے لیے کیا جائے تو اسے صحافتی کرپشن قرار دیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ تمام برائیاں ہمارے برقی میڈیا میں پائی جاتی ہیں جس کے تدارک پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے قومی اخبارات ابھی تک اخلاقی اور صحافتی اوصاف کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور وہ عوام کو معلومات فراہم کرنے کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے کلچر اور اسلامی شعار کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر برقی میڈیا کے میدان میں وہی گروپ اترے ہیں جو پہلے ہی پرنٹ میڈیا میں اپنا ایک معتبر نام اور اپنی اعلیٰ صحافتی روایات اور اوصاف کی ایک روشن تاریخ رکھتے ہیں، بلکہ اس کو آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اسی گروپ کی لیڈرشپ رکھنے کے باوجود ایسے اوصاف سے خالی نظر آتا ہے! اس خلا کی بڑی وجہ شاید الیکٹرانک میڈیا کا مزاج ہوسکتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں عام طور پر ٹی وی کو انٹرٹینمنٹ کے طور پر لیا جاتا ہے اور اس سے وابستہ افراد کا تعلق بھی زیادہ تر شوبز سے ہوتا تھا۔ الیکٹرانک چینلز کو نشریات کی اجازت ملی تو شروع میں اس سے جو لوگ وابستہ ہوئے اُن کا تعلق شو بزنس سے تھا۔ انہوں نے ان نیوز چینلز کو بھی اسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی، اور جب بنیاد ہی ٹیڑھی ہو تو اس پر عمارت کس طرح سیدھی تعمیر ہوسکتی ہے! نیوز چینلز میں صحافت اور شوبز کے اس ملاپ سے جس نئی بھڑکیلی اور گلابی صحافت نے جنم لیا ہے اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے اینکرز اور نیوزکاسٹرز اردو میں انگریزی کا تڑکا لگانے کو فیشن خیال کرتے ہیں۔ خواتین میزبان بھڑکیلے لباس پہن کر خوب میک اَپ کرکے سادگی کا درس دے رہی ہوتی ہیں۔ ڈائریکٹر حضرات ائرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اپنے رپورٹرز کو خطرناک اور جنگ زدہ علاقوں میں ’’اور آگے اور آگے‘‘ کی رٹ لگاکر ان کی جان کے درپے ہورہے ہوتے ہیں۔ قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد سامنے آرہا ہے کہ اللہ کی پناہ۔
ریٹنگ فوبیا کا شکار یہ ڈائریکٹر اب علم اور تجربے کو ایک طرف رکھ کر شکل اور لہجے کی بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا میں بھرتی کررہے ہیں، اور اس بنیاد پر بھرتی
ہونے والے اپنی ادائیں دکھانا تو جانتے ہیں مگر صحافت، صحافتی اوصاف، تاریخِ پاکستان، نظریۂ پاکستان، اسلام اور اپنے کلچر سے قطعاًَ واقفیت نہیں رکھتے، جس کا نتیجہ ظاہر ہے الیکٹرانک میڈیا میں صحافتی اوصاف اور روایات کے خالی ہونے اور عوام میں اس کی ساکھ میں کمی کی صورت میں نکلا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ چینلز پر بھانڈ پن کا راج ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ نے تمام چینلز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ظاہر ہے اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر پڑیں گے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ایسے نام نہاد ڈائریکٹرز کی بدولت اب خبر صحافتی اصولوں سے خالی اور مزاج میں غیر حقیقی اور غیر سنجیدہ ہوگئی ہے۔ اعتدال تو یکسر ختم ہوگیا ہے۔ انتہائی نازک اور سنجیدہ خبر کو چہرے پر مسکراہٹ سجاکر بھونڈے انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ ٹاک شوز کے دوران اکثر اینکرز وہ کردار ادا کررہے ہوتے ہیں جو پہلوانوں کی کشتی کے دوران ریفری کا ہوتا ہے۔ اپنے شو کے دوران وہ صرف دوکاموں پر توجہ دیتے ہیں: فضا کے درجہ حرارت کو بڑھانا اور ’’بریک پر چلتے ہیں‘‘۔ غیر جانبداری کا پہلو کہیں نظر نہیں آتا بلکہ بعض اینکرز تو لہجے میں اتنی تلخی لے آتے ہیں کہ روایتی ’’تھانیدار‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ کیمروں کی چیرہ دستیوں کے سامنے اب چادر اور چاردیواری کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے۔ میڈیا کے نمائندے دندناتے ہوئے جہاں چاہتے ہیں گھس جاتے ہیں اور ایک سرکاری ایجنسی کی طرح چھان بین شروع کرتے نظر آتے ہیں، بلکہ اپنے شو کو براہِ راست بلا تدوین پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ درست ہے کہ میڈیا میں تحقیقاتی رپورٹنگ ایک اہم اور کٹھن شعبہ ہے، لیکن اس کا مزاج بنیادی طور پر خفیہ اور غیر محسوس ہوتا ہے۔ رپورٹر کئی ماہ حتیٰ کہ سال صرف کرکے ایسے حقائق مع ثبوت اور دلائل عوام تک پہنچاتا ہے جس سے بڑی بڑی بدعنوانیاں منظرعام پر آجاتی ہیں۔ مگر یہاں ایک مکمل ہوئی چھان بین کو دوبارہ فلمانے کو تحقیقی صحافت سمجھ لیا گیا ہے۔ اس طرح الیکٹرانک میڈیا پر ایک واقعے کو ڈرامے کے سے انداز سے فلماکر اسے لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ اس دوران واقعہ کے ایک ایک پہلو کو بڑی تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ڈرامائی رنگ جرائم پیشہ افراد کو نئے ڈھنگ سکھانے کے ساتھ ساتھ عوام میں بے چینی پھیلانے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ اس سے ایک ملزم کو قانونی اور عدالتی تحقیقات کے بغیر ہی ملزم سے مجرم بنانے کی روایت چل نکلی ہے جومعاشرے میں انتہائی خطرناک رجحانات کو جنم دے سکتی ہے۔
خبروں کے ساتھ بھارتی گانے اور ایک خبر کو باربار نشر کرنے سے ناظرین اعصابی اور نفسیاتی بیمار ہونے لگے ہیں۔ انٹرویو کے دوران ایڈیٹنگ کا پہلو فراموش کردیا جاتا ہے اور عریانی اور فحاشی کو عوام کے گھروں تک ایک منظم انداز سے لے جایا جارہا ہے۔ مجھے ایک اداکارہ کا انٹرویو ابھی تک یاد ہے۔ ایک معروف چینل پر جب اس سے ہمسایہ ملک میں عریاں ڈانس کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ’’اللہ کا شکر ہے اگر موقع ملا توعالمی سطح پر ملک وقوم کا نام اور بھی مشہور کروں گی‘‘۔ ایسے انٹرویوز ہماری نوجوان نسل کو کیا پیغام دیں گے! کیا ہمارے ملک کی عزت اور وقار کا جنازہ اس طرح نکالا جائے گا؟ اسی طرح دہشت گردی کو اجاگر کرنے میں بھی میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا بڑا مقصد چونکہ لوگوں کو ڈرانا، دھمکانا اور خوفزدہ کرنا ہوتا ہے، دہشت گردی کے واقعہ، خودکش حملے یا بم دھماکے سے انہیں دس فیصد کامیابی ملتی ہے، مگر میڈیا جس انداز سے اس واقعے کی خبر دیتا ہے اور کیمرے کی آنکھ انسانی لاشوں اور آنسوئوں کو جس انداز سے دکھاتی ہے اس سے وہ سو فیصد اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اس تناظر میں الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور عوام کو وہ کچھ دکھائیں جو معاشرے اور کلچر کی صحیح عکاسی کرے، ہمارے عالمی تشخص کو اجاگر کرے، عوام میں اسلام اور ملک وقوم کے بارے میں روایات کے علاوہ اخلاقیات اور تحمل وبرداشت کو فروغ دے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں اپنے مواد پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ شوبز ڈائریکٹرز سے نجات اور ایسے سنجیدہ اور محب وطن صحافیوں کو مواقع فراہم کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ہر حال میں صحافتی اصولوں اور روایات کو زندہ رکھنے کے لیے پُرعزم ہوں۔
http://jasarat.com/index.php?page=03&date=2013-02-10
محمد امجد چوہدری
صحافت کے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ خلقِ خدا کے دل کی آواز سے شناسائی حاصل کرکے اسے ایمان داری سے ہر خاص و عام تک پہنچانا ہی اصل صحافت ہے، بصورتِ دیگر اسے زرد صحافت سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے موجودہ ذرائع ابلاغ خاص طور برقی میڈیا عوام کو وہ کچھ دکھا رہے ہیں جسے وہ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ان میں لچر پن اور عریانی کے ساتھ ساتھ واقعات میں رنگ آمیزی اور سنسنی خیزی کا پہلو نمایاں ہے۔ واقعات کو من وعن اور غیر جانب داری سے دوسروں تک پہنچانے کو صحافت کی اساس کہا گیا ہے۔ اگر خبر کو کسی خاص پہلو یا زاویے کے لحاظ سے اجاگر کیا جائے، اس میں رنگ آمیزی کی جائے، یا پھر اسے سنسنی خیزی سے بیان کیا جائے تو اسے ’’صحافتی بددیانتی‘‘ کہا جائے گا، اور اگر ایسا ریٹنگ بڑھاکر اشتہارات بٹورنے کے لیے کیا جائے تو اسے صحافتی کرپشن قرار دیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ تمام برائیاں ہمارے برقی میڈیا میں پائی جاتی ہیں جس کے تدارک پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے قومی اخبارات ابھی تک اخلاقی اور صحافتی اوصاف کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور وہ عوام کو معلومات فراہم کرنے کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے کلچر اور اسلامی شعار کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ یہاں غور طلب پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر برقی میڈیا کے میدان میں وہی گروپ اترے ہیں جو پہلے ہی پرنٹ میڈیا میں اپنا ایک معتبر نام اور اپنی اعلیٰ صحافتی روایات اور اوصاف کی ایک روشن تاریخ رکھتے ہیں، بلکہ اس کو آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اسی گروپ کی لیڈرشپ رکھنے کے باوجود ایسے اوصاف سے خالی نظر آتا ہے! اس خلا کی بڑی وجہ شاید الیکٹرانک میڈیا کا مزاج ہوسکتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں عام طور پر ٹی وی کو انٹرٹینمنٹ کے طور پر لیا جاتا ہے اور اس سے وابستہ افراد کا تعلق بھی زیادہ تر شوبز سے ہوتا تھا۔ الیکٹرانک چینلز کو نشریات کی اجازت ملی تو شروع میں اس سے جو لوگ وابستہ ہوئے اُن کا تعلق شو بزنس سے تھا۔ انہوں نے ان نیوز چینلز کو بھی اسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی، اور جب بنیاد ہی ٹیڑھی ہو تو اس پر عمارت کس طرح سیدھی تعمیر ہوسکتی ہے! نیوز چینلز میں صحافت اور شوبز کے اس ملاپ سے جس نئی بھڑکیلی اور گلابی صحافت نے جنم لیا ہے اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے اینکرز اور نیوزکاسٹرز اردو میں انگریزی کا تڑکا لگانے کو فیشن خیال کرتے ہیں۔ خواتین میزبان بھڑکیلے لباس پہن کر خوب میک اَپ کرکے سادگی کا درس دے رہی ہوتی ہیں۔ ڈائریکٹر حضرات ائرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اپنے رپورٹرز کو خطرناک اور جنگ زدہ علاقوں میں ’’اور آگے اور آگے‘‘ کی رٹ لگاکر ان کی جان کے درپے ہورہے ہوتے ہیں۔ قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد سامنے آرہا ہے کہ اللہ کی پناہ۔
ریٹنگ فوبیا کا شکار یہ ڈائریکٹر اب علم اور تجربے کو ایک طرف رکھ کر شکل اور لہجے کی بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا میں بھرتی کررہے ہیں، اور اس بنیاد پر بھرتی
ہونے والے اپنی ادائیں دکھانا تو جانتے ہیں مگر صحافت، صحافتی اوصاف، تاریخِ پاکستان، نظریۂ پاکستان، اسلام اور اپنے کلچر سے قطعاًَ واقفیت نہیں رکھتے، جس کا نتیجہ ظاہر ہے الیکٹرانک میڈیا میں صحافتی اوصاف اور روایات کے خالی ہونے اور عوام میں اس کی ساکھ میں کمی کی صورت میں نکلا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ چینلز پر بھانڈ پن کا راج ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ نے تمام چینلز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ظاہر ہے اس کے اثرات ہمارے معاشرے پر پڑیں گے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ایسے نام نہاد ڈائریکٹرز کی بدولت اب خبر صحافتی اصولوں سے خالی اور مزاج میں غیر حقیقی اور غیر سنجیدہ ہوگئی ہے۔ اعتدال تو یکسر ختم ہوگیا ہے۔ انتہائی نازک اور سنجیدہ خبر کو چہرے پر مسکراہٹ سجاکر بھونڈے انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ ٹاک شوز کے دوران اکثر اینکرز وہ کردار ادا کررہے ہوتے ہیں جو پہلوانوں کی کشتی کے دوران ریفری کا ہوتا ہے۔ اپنے شو کے دوران وہ صرف دوکاموں پر توجہ دیتے ہیں: فضا کے درجہ حرارت کو بڑھانا اور ’’بریک پر چلتے ہیں‘‘۔ غیر جانبداری کا پہلو کہیں نظر نہیں آتا بلکہ بعض اینکرز تو لہجے میں اتنی تلخی لے آتے ہیں کہ روایتی ’’تھانیدار‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ کیمروں کی چیرہ دستیوں کے سامنے اب چادر اور چاردیواری کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے۔ میڈیا کے نمائندے دندناتے ہوئے جہاں چاہتے ہیں گھس جاتے ہیں اور ایک سرکاری ایجنسی کی طرح چھان بین شروع کرتے نظر آتے ہیں، بلکہ اپنے شو کو براہِ راست بلا تدوین پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ درست ہے کہ میڈیا میں تحقیقاتی رپورٹنگ ایک اہم اور کٹھن شعبہ ہے، لیکن اس کا مزاج بنیادی طور پر خفیہ اور غیر محسوس ہوتا ہے۔ رپورٹر کئی ماہ حتیٰ کہ سال صرف کرکے ایسے حقائق مع ثبوت اور دلائل عوام تک پہنچاتا ہے جس سے بڑی بڑی بدعنوانیاں منظرعام پر آجاتی ہیں۔ مگر یہاں ایک مکمل ہوئی چھان بین کو دوبارہ فلمانے کو تحقیقی صحافت سمجھ لیا گیا ہے۔ اس طرح الیکٹرانک میڈیا پر ایک واقعے کو ڈرامے کے سے انداز سے فلماکر اسے لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ اس دوران واقعہ کے ایک ایک پہلو کو بڑی تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ڈرامائی رنگ جرائم پیشہ افراد کو نئے ڈھنگ سکھانے کے ساتھ ساتھ عوام میں بے چینی پھیلانے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ اس سے ایک ملزم کو قانونی اور عدالتی تحقیقات کے بغیر ہی ملزم سے مجرم بنانے کی روایت چل نکلی ہے جومعاشرے میں انتہائی خطرناک رجحانات کو جنم دے سکتی ہے۔
خبروں کے ساتھ بھارتی گانے اور ایک خبر کو باربار نشر کرنے سے ناظرین اعصابی اور نفسیاتی بیمار ہونے لگے ہیں۔ انٹرویو کے دوران ایڈیٹنگ کا پہلو فراموش کردیا جاتا ہے اور عریانی اور فحاشی کو عوام کے گھروں تک ایک منظم انداز سے لے جایا جارہا ہے۔ مجھے ایک اداکارہ کا انٹرویو ابھی تک یاد ہے۔ ایک معروف چینل پر جب اس سے ہمسایہ ملک میں عریاں ڈانس کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ’’اللہ کا شکر ہے اگر موقع ملا توعالمی سطح پر ملک وقوم کا نام اور بھی مشہور کروں گی‘‘۔ ایسے انٹرویوز ہماری نوجوان نسل کو کیا پیغام دیں گے! کیا ہمارے ملک کی عزت اور وقار کا جنازہ اس طرح نکالا جائے گا؟ اسی طرح دہشت گردی کو اجاگر کرنے میں بھی میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا بڑا مقصد چونکہ لوگوں کو ڈرانا، دھمکانا اور خوفزدہ کرنا ہوتا ہے، دہشت گردی کے واقعہ، خودکش حملے یا بم دھماکے سے انہیں دس فیصد کامیابی ملتی ہے، مگر میڈیا جس انداز سے اس واقعے کی خبر دیتا ہے اور کیمرے کی آنکھ انسانی لاشوں اور آنسوئوں کو جس انداز سے دکھاتی ہے اس سے وہ سو فیصد اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اس تناظر میں الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور عوام کو وہ کچھ دکھائیں جو معاشرے اور کلچر کی صحیح عکاسی کرے، ہمارے عالمی تشخص کو اجاگر کرے، عوام میں اسلام اور ملک وقوم کے بارے میں روایات کے علاوہ اخلاقیات اور تحمل وبرداشت کو فروغ دے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں اپنے مواد پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ شوبز ڈائریکٹرز سے نجات اور ایسے سنجیدہ اور محب وطن صحافیوں کو مواقع فراہم کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ہر حال میں صحافتی اصولوں اور روایات کو زندہ رکھنے کے لیے پُرعزم ہوں۔
http://jasarat.com/index.php?page=03&date=2013-02-10
Last edited: