ہر چیز سیکھنے سے

ابابیل

Senator (1k+ posts)
دروس حدیث ۔۔۔ ابو کلیم فیضی
ہر چیز سیکھنے سے

حدیث نمبر :15

عَنْ ابی ہریرۃ رضی اللہ عَنْہ قال :قال رَسُوْلُ ۖ :اِنَّمَاالْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ وَ الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ وَمَنْ یَتَحَرَّ الْخَیْرَ یُعْطَہُ وَمَنْ یَتَوَقِّ الشَّرَّ یُوْقَہُ

الصحیحہ : ۳۴۲
ترجمہ : حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ، برد باری بردبار بننے کی کوشش کرنے سے ملتی ہے ، جو شخص خیر کی جستجو میں رہتا ہے اسے خیر مل جا تا ہے اور جوشرسے بچنے کی کو شش کر تا ہے وہ شر سے بچا لیا جا تا ہے۔

(الصحیحہ للا لبانی)
تشریح: اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہر چیز کو اسباب کے تابع اور وسیلے سے منسلک کیا ہے ، اسباب و وسائل کی اہمیت بیان کی ہے اور اس کے استعمال کا حکم دیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے پیٹ بھر نے کے لئے کھانے اور روزی حاصل کرنے کے لئے کمانے کا حکم دیا ہے ، بارش کے لئے بدلی کو اور دھوپ کے لئے سورج کو سبب قرار دیا ہے اور کچھ ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر چیز جو وجود میں آتی ہے وہ سبب کی محتاج اور وسیلے کی حا جت مند ہے ، مذکورہ حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ ہے اس میں چار چیزوں کو چار سبب سے منسلک بتلا یا ہے۔

۱- علم کے لئے جدوجہد: کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے عالم بن کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو استعمال کر کے ہی عالم بنتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :واللہ اخرجکم من بطون امھاتکم لا تعلمون شیئاوجعل لکم السمع والآبصار والآفئدۃ لعلکم تشکرون، (النحل ۷۸)

اور اللہ نے تمہیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اسوقت تم کچھ نہیں جانتے تھے اس نے تمھارے لئے کا ن اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو :(النحل ۷۸)

یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو کان آنکھ اور دل کی دولت سے اس لئے نوازا تا کہ انہیں استعمال میں لائے اور ان کے ذریعہ اپنے نفع و نقصان میں تمیز کرے ، واضح رہے کہ علم دو طرح کا ہے ایک علم دنیوی اور دوسرا علم دینی ، علم دنیا تو انسان تجربے اور باپ و دادا کی تقلید سے حاصل کر لیتا ہے البتہ دینی علم کے لئے اس کے صحیح مصدر سے سیکھنا ضروری ہے بلکہ شرعی طور پر وہی علم معتبر ہے جو انبیا علیہم السلام سے حاصل کیا جائے ، وہی علم مقبول ہے جو قرآن و حدیث سے لیا جائے ، اس میں تجربہ اور باپ دادا کی تقلید کا کوئی دخل نہیں، بلکہ تجربہ اور باپ دادا کی تقلید غیر شرعی سبب اور غلط وسیلہ ہے۔

۲- برد باری بردبار بننے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے۔ بعض لوگ فطری طور پر جلد باز، غصہ ور، جذباتی اور بے صبرا ہو تے ہیں، اگر یہ لوگ اپنے اوپر قا بو نہ رکھیں تو جلد با زی اور غصہ میں بہت سی ایسی حرکتیں کر جا تے ہیں جس پر بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ، اس لئے لو گو ں کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اپنے اندر حلم و برد باری پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے اسباب ووسائل کو استعمال میں لائیں۔

۳ جو خیر کی جستجو کرے اسے خیر مل کر رہتا ہے۔ نیکی و بھلائی عمل خیر ہی سے حاصل ہوتی ہے ، نماز کا ثواب نماز پڑھنے سے حاصل ہو گا، جو شخص نیکی کے کام کرنے اور نیکی کے مواقع کو تلا ش کرنے میں کوشاں رہتا ہے اسے نیکی مل جا تی ہے ، صرف تمنا اور جذبات سے نیکی حاصل نہیں ہو تی بلکہ اس کے لئے کوشش وجستجوضروری سبب اور لا زمی وسیلہ ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ومن اراد الآخرۃ وسعی لہا سعیہا وہو مؤمن فاولئک کان سعیہم مشکورا (۱۹ الاسرا)

اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدر دانی کی جائے گی۔ (۱۹ الاسراء)

۴- جو برائی سے بچنا چاہے وہ برائی سے بچا لیا جاتا ہے ۔ جسطرح نیکی کے لئے جستجو و کوشش ضروری ہے اس طرح برائی سے بچنے کے لئے برائی سے دوری اور برائی کے مواقع سے اجتناب بھی ضروری ہے ، انسان کو چاہئے کہ وہ برائی سے بچے اور برائی کی طرف لے جا نے والے اسباب سے پر ہیز کرے ، کچھ لوگ برائی پر برائی کرتے جا تے ہیں، ان سے بچنے کی نہ کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی بچنے کے اسباب استعمال کرتے ہیں ، پھر چاہتے ہیں کہ وہ برائی سے نجات پائیں۔ ایسا ہر گز نہیں بلکہ برائی و گناہ سے بچنے کے خواہاں حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں اور برائی سے بچنے کے لئے ا ن تمام اسباب ووسائل کو بھی چھوڑیں جو انھیں برائی تک لے جا تے ہیں۔

فائدے


۱: مقصود کے حصول کے لئے اسباب کا استعمال ضروری ہے ۔

۲: اسباب کا استعمال توکل کے خلاف نہیں ہے ۔
۳: علم نافع وہی ہے جو انبیا ورسل سے حاصل ہو.
۴: خیر کے حصول کی تمنا اور شر سے بچنے کی خواہش اسباب کے استعمال کے بغیر مفید نہیں ہے۔
٭٭٭
 
Last edited by a moderator:

Back
Top