ہرگھرسے بھوکا نکلے گا

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
images


طہر علی ہاشمی

-یہ واقعہ بھی ڈیرہ غازی خان ہی کاہے۔وہاں کے ایک اسکول کی ٹیچرنے برسوں پہلے سنایاتھا۔انہوں نے کلاس میں سوال کیا’’بچو‘ ہمیںکس نے پیداکیاہے؟‘‘ بچوں نے یک زبان ہوکر کہا’’بھٹونے‘بھٹونے‘‘۔ یہ محض لطیفہ نہیں ہے۔ 1977ء سے پہلے کا دورتھاجب ہرطرف بھٹو ہی بھٹو تھا۔ بچے بھی دن رات ایک ہی نام سنتے تھے اور یہی سمجھتے تھے کہ سب کچھ بھٹوصاحب ہی کرتے ہیں۔ اپنی مس کے سوال کا جو جواب بچوں نے دیا اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ جب ہرطرف کسی ایک شخصیت کا چرچا ہو‘ اسی کا بت تراشاجارہاہوتو ذہن ضرور متاثرہوتے ہیں‘ خاص طورپر ناپختہ ذہن اورناخواندہ لوگ یہ سحر اب تک طاری ہے۔ آج بھی ہرگھرسے بھٹو نکالاجارہاہے اورپوچھاجارہاہے کہ تم کتنے بھٹو ماروگے؟ حیدرآباد کے مشاعرے میں پچھلے دنوں حکیم ناصف شعر سنارہے تھے۔ ہرگھرسے بھوکا نکلے گا۔ تم کتنے بھوکے ماروگے؟ ظاہرہے کہ یہ شعر بھی بھٹو صاحب سے متاثرہوکر کہاگیاہے۔ جلنے والوں نے اوربھی پیروڈیزبنارکھی ہیں‘وہ قارئین کے علم میں ہوںگی‘ہم کیوں دہرائیں۔ بلاشبہ بھٹومرحوم کاجادوسرچڑھ کربول رہاہے۔ حتیٰ کہ زرداری صاحب نے تو اپنے بچوں کی ولدیت بھی بدل کر رکھ دی کہ شاید اسی طرح آئندہ بلاول کو پذیرائی مل جائے۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ خود جناب آصف علی اپنے نام کے ساتھ ’’بھٹو‘‘ کا لاحقہ لگالیتے‘ ولدیت کا خانہ بھی درست ہوجاتا ورنہ جن غیرملکی اداروں میں بلاول صاحب پڑھتے رہے ہیں‘ وہاں کی دستاویزات میں تو اب بھی ان کی ولدیت زرداری ہی ہے۔ لیکن زرداری صاحب نے صرف بھٹوکا روحانی بیٹابننے پر اکتفاکیاہے۔ روحانی بیٹے کی حیثیت سے وہ جوکچھ کررہے ہیں اس سے ان کے روحانی والد اور خوابوں میں آکر مشورے دینے والی روحانی والد کی بیٹی بہت خوش ہوں گے۔ ہرگھرسے ہی نہیں ایوان صدر‘ ایوان وزیراعظم اور بہت سے ایوانوں سے بھٹو نکل رہے ہیں اور ہرطرف بھٹو کی جے جے کارہے۔ ڈیرہ غازی خان کا واقعہ ہمیں یوں یادآگیاکہ تازہ واقعہ یا سانحہ کا تعلق بھی ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ پنجاب بورڈ کے لیے انوکھاسوالنامہ تیارکرنے آنے والے (پیپرسیٹر) استاد حافظ اجمل کا تعلق بھی ڈیرے ہی سے ہے۔ انہوں نے نویں جماعت کے بورڈ کے امتحان کے لیے ایسا سوالنامہ تیارکیا جس کی گونج پورے ملک میں سنی گئی اور جن حافظ صاحب کو شاید ڈیرہ غازی خان کے سب لوگ بھی نہ جانتے ہوں انہیں اچانک ملک گیرشہرت مل گئی۔ یہ نصیب اللہ اکبر… نویں جماعت کے بچوں کے سامنے یہ معروضی سوال تھاکہ بتائو‘ ہمارا نظام زندگی کس چیز پرقائم ہے؟ اس کے چار ممکنہ جوابات تھے ’’دولت‘دین‘ زرداری صاحب‘ دنیا‘‘۔ ان میں سے ایک جواب کا انتخاب کرناتھا۔ اب یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاکستانیوں کا نظام زندگی کس چیزپرٹکا ہواہے اورڈول رہاہے۔ لیکن لوگ اسے نظام مانتے ہیں نہ زندگی۔ نہیں معلوم کہ نویں جماعت کے طلبہ میں سے کتنے ڈیرہ غازی خان کے ان بچوں کی طرح تھے جنہوں نے ایک سوال پربھٹو‘بھٹوکا نعرہ لگایاتھا۔اگرکچھ بچوںکا تعلق جیالوںکے خاندان سے ہوگا تو ان کا جواب واضح ہے۔ یوں بھی’’دین‘‘ کو چھوڑکر دولت اور پاکستانیوںکی موجودہ دنیا کا تعلق تو زرداری صاحب اور ان کی حکومت ہی سے ہے۔ دولت ان کے گھرکی لونڈی اوردنیا ان کی دربان‘ آپ چاہیں تو اس ملک کو دنیا سمجھ لیں اور عوام کو دربان۔ استادصاحب کے ذہن پر زرداری صاحب کس حدتک طاری تھے‘ اس کا اندازہ تو سوال کے ممکنہ جوابات سے ظاہرہے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی بلکہ بچوں کو سوچنے‘ سمجھنے کا عادی بنانے کے لیے زرداری صاحب کانام ڈال دیاتھا۔ گزشتہ چاربرس کو دیکھیں تو لگتاہے کہ خود زرداری صاحب یہ تکلف نہیں کرتے۔ معروضی سوالات میں کئی طالبان علم محض اندازے سے کسی ایک جواب پرنشان لگادیتے ہیں۔ اس کی تحقیق کی جانی چاہیے کہ کس کس نے زرداری صاحب کو نشان زدکیا۔ ہماری مرادسیاسی ’’نشان زدگی‘‘ سے ہرگزنہیں کہ اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ کاش حافظ اجمل صاحب خود بھی سوچنے سمجھنے کے عادی ہوتے بشرطیکہ ان کا تعلق جیالوں سے نہ ہو۔ بہرحال انہیں توآئندہ کے لیے پیپربنانے کی خدمت سے محروم کردیاگیا مگر وہ تنہا قصوروارنہیں۔ اساتذہ کے تیارکردہ پرچوں کو جانچنے اور منتخب کرنے والے بھی بورڈ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک کو آرڈینیٹراعجازبخاری پرصرف 5 سال کی پابندی لگائی گئی ہے۔ ممکن ہے یہ لوگ مرکز میں بطور مشیرلے لیے جائیں یاگورنرپنجاب ہی ان کے سرپرہاتھ رکھ دیں کہ ایک زرداری سب پربھاری کے نعرے کو وہ بورڈ کے امتحان میں لے آئے اور طلبہ کو ایک ’’اچھا‘‘ آپشن دیا۔ دلچسپ یا شاید فکرکرنے والی بات یہ ہے کہ جب یہ پرچہ اور عجوبہ سوال سامنے آیا تو بورڈکی طرف سے سب سے پہلے اس طالب علم کو گھیرنے کی کوشش کی گئی جس نے یہ انکشاف کیاتھا۔ کہاگیا کہ سوالنامہ امتحانی مرکزسے باہرلانا جرم ہے چنانچہ پہلے اس طالب علم کو پکڑاجائے جس نے یہ جرأت کی۔ اعلیٰ افسران خواہ کسی محکمہ کے یا کہیں کے ہوں‘ اپنے پروں پرپانی نہیں پڑنے دیتے۔ حکمرانوں سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ ابھی یہ سوالنامہ زیربحث ہی تھا کہ ملتان بورڈ میں بھی ایک واردات ہوگئی۔ وہاں بھی نویں جماعت کا امتحان چل رہا تھا۔ اردو معروضی کے پرچے میں سوال کیا گیا ’’سیاستدان کس زبان کو زیادہ سپورٹ کرتے ہیں؟ اردو انگریزی‘ پنجابی یاسرائیکی؟‘‘ پرچہ اردوکا تھا‘ ہمارے خیال میں ’’سپورٹ‘‘ کا لفظ انگریزی کاہے اور اردومیں اس کا متبادل بھی ہوگا۔ ممکن ہے کہ اصل میں اس کی جگہ حمایت یا سرپرستی وغیرہ ہو اور خبرایجنسیوں نے سپورٹ لکھ دیاہو۔ لیکن سوال بنانے والے کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاستدان خود اپنی زبان کو سپورٹ نہیں کرتے اور زبان سے نکلنے والے الفاظ‘ وعدوں ‘دعووں وغیرہ سے مکرجانے میں تاخیرنہیں کرتے۔ دلیل یہ کہ یہ کوئی قرآن وحدیث تو ہے نہیں۔ لیکن اگرسوال کا مطلب یہ ہے کہ کونسی زبان بولنا یا سننا پسند کرتے ہیں تو پارلیمان کے معززارکان سمیت متعدد سیاستدان ایسے ہیں جو انگریزی کو کافروں کی زبان سمجھ کر بولنا تو درکنار‘ سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ ارکان پارلیمان کے لیے بی اے کی شرط اسی لیے لگائی گئی تھی کہ چونکہ سرکاری کام انگریزی میں ہوتاہے اس لیے اسے سمجھنے کی استعداد بھی ہونی چاہیے۔ یارلوگوں نے اس کا توڑ بھی نکال لیا اور کئی جمشیددستی ایوان میں پہنچ گئے لیکن بی اے کی شرط لگانے والوں کو شاید یہ علم نہیں کہ ہمارے نظام تعلیم میں ایم اے کرکے بھی بہت کم لوگوں میں انگریزی کی سوجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے۔ بی اے پاس توانگریزی میں ایک درخواست بھی بغیرکسی غلطی کے نہیں لکھ سکتا‘سامنے کی مثال ہے میری۔اورپھر اس کی ضرورت بھی کیاہے ۔ کیا انگریزی ہماری مادری زبان ہے؟ کیا ہماری اپنی کوئی زبان نہیں‘ ہم گونگے ہیں؟ کیا بے شمار ممالک ایسے نہیں جنہوں نے انگریزی پڑھے بغیر ترقی کی؟ چین‘جاپان کی مثال تو چھوڑیے‘ خود یورپی ممالک ‘جرمنی‘فرانس وغیرہ میں سب کچھ ان کی اپنی زبان میں ہوتاہے۔ ہم اب تک ذہنی طورپر غلام ہیں۔ کہنے کو تواردوقومی زبان ہے لیکن صدرمملکت بھی جب پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں تو انگریزی دانی کے جوہردکھاتے ہیں اور عوام کی اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہونے دیتے کہ وہ کیاکہہ رہے ہیں۔ شاید ان کے مخاطب کچھ اورلوگ ہوتے ہوں۔ رہی بات سوالنامے کی تو انگریزی اسکولوں اورباہرسے پڑھے ہوئے بلاولوں کی پسندیدہ زبان انگریزی ہے۔ عام سیاستدان یا تو اردومیں بات کرتے ہیں یا اپنی مادری زبان میں۔ وزیراعظم جب سرائیکی میں خطاب کرتے ہیں تو اچھے لگتے ہیں۔ پاکستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور سب ہی خوبصورت ہیں‘ سب کی سپورٹ کرنی چاہیے لیکن کوئی ایک زبان قومی بھی ہوتی ہے۔ اب تو اے این پی والے اس کے بھی منکرہوگئے کہ اردوقومی زبان ہے کیا یہ زبان کسی ایک علاقہ کی ہے؟ اس پر کسی خاص علاقہ یا افراد کی اجارہ داری ہے؟ اے این پی والے ایم کیو ایم کی مخالفت میں تعصب کی عینک اتارکر دیکھیں کہ انہیں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے اردو ہی کا سہارا لینا پڑتاہے۔ اورہم اس کے قائل ہیں کہ جو لکھنے ‘پڑھنے اوربولنے میں اردوکا صحیح استعمال کرتاہے وہی اہل زبان ہے ضروری نہیں کہ اس کے اجدادیوپی‘ سی پی میں پیدا ہوئے ہوں۔ پنجاب اورخیبرپختونخوا نے اردو کے ایسے قادرالکلام شاعردیے ہیں جن کی فہرست بہت طویل ہے لیکن

http://www.jasarat.com/unicode/detail.php?category=17&coluid=4787
 
Last edited:

pak_aus

Senator (1k+ posts)
After Jinnah, Z.A.Bhutto was the only political figure that could restore the dignity of Pakistan.His judicial murder by Zial , a traitor to the country and then planned execution of Benazir were the greatest tragedies that the nation was forced to face.The Civil services and the military regimes destroyed the very entity of Pakistan.And now incompetent politicians like Zardari and Gilani are playing into the hands of foreign powers, like all the military dictators.Zia's projection of Islam(an agent of U.S.A.) destroyed the sanctity of Islam.The Muslim Uma is blind-folded.It does not have the ability to denounce the Saudi monarchy that has a lineage of Bandits imposed on the Holy Land, and the incompetence of the Mufti e Azam of Kaba.Do not we have the ability to realise that the Muslim Uma has been exploited to the largest extent by encouraging martial law with a pretension of restoring freedom and democracy in all the muslim countries.For God's sake open your eyes and ears to learn in which direction the world is going.
 

frozen20

MPA (400+ posts)
Lo g...ek or data entry operator ki job lag gae......
aj to koi ye nara laga k dikhaye......tum kitne bhutto marogay......hamara jawab yahi hoga k jo bhi niklega usko marengy.....
yar zulm ki bhi koi had hoti hy......dollars swiss banks me rakhy howe hain awam ka pesa......aj log bhok se mar rahy hain.....
yaAllah en zardari, altaf hussain, asfandyar wali, maulana fazlu or nawaz sharif choron ko tabah 0 barbaad karday.......ameen......
 

Back
Top