ہبہ واپس لینے کی کراہت

Amal

Chief Minister (5k+ posts)
ہبہ واپس لینے کی کراہت

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے ہبے کو واپس لیتا ہے۔ وہ اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے کی طرف لوٹتا ہے۔ (متفق علیہ) اور ایک اور روایت میں ہے :اس شخص کی مثال جو اپنے صدقے کی طرف لوٹتا (یعنی اسے واپس لیتا) ہے اس کتے کی ہے جو قے کرتا ہے پھر اپنی قے کی طرف لوٹتا اور اسے کھاتا ہے۔ البخاری (/۲۳۴۵۔ ۲۳۵۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۲) (۸) ۔

اس سے ہبہ کو واپس لینے کی شناعت و قباحت واضح ہوتی ہے، ایک تو ایسے شخص کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے، دوسرے ہبہ کی گئی چیز کو قے سے تعبیر کیا جس سے انسان انتہائی کراہت محسوس کرتا ہے۔

حضرت عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی مجاہد کو ایک گھوڑا بطور صدقہ دے دیا لیکن جس شخص کے پاس یہ گھوڑا تھا اس نے اسے ضائع کر دیا (یعنی اس کی صحیح دیکھ بھال نہ کی)تو میں نے اسے خریدنا چاہا اور میرا خیال تھا کہ وہ اسے معمولی قیمت پر فروخت کر دے گا۔ پس میں نے نبیﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:

تم اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو اگرچہ وہ تمہیں ایک درہم میں دے دے ، اس لیے کہ اپنے صدقے کو واپس لینے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قے کی طرف لوٹے (یعنی اسے چاٹ لے)۔ (متفق علیہ) البخاری (/۳۵۳۳۔ فتح)و مسلم (۱۶۲۰)۔


عبداللہ بن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عطیہ دے کر اسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کسی ذی محرم کو کوئی چیز بطور ہبہ دے تو پھر اسے واپس لینے کا اختیار نہیں، اور جو کسی غیر ذی محرم کو کوئی چیز بطور ہبہ دے تو اس کے لیے اسے واپس لینا جائز ہے جب اسے اس کا بدلہ نہ دیا گیا ہو،

یہی ثوری کا قول ہے، اور شافعی کہتے ہیں: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کو کوئی عطیہ دے پھر اسے واپس لے، سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے، شافعی نے عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عطیہ دے کر اسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے“۔

سنن ابی داود/ البیوع ۸۳ (۳۵۳۹)، سنن النسائی/الہبة ۲ (۳۷۲۰)، و ۴ (۳۷۳۳)، سنن ابن ماجہ/الہبات ۱ (۲۳۷۷)، و مسند احمد (۲/۲۷، ۷۸) ۔

12189631_1065653513493340_4666306067995965660_n.jpg


 
Last edited:

Back
Top