گیلانی خود بھی جھوٹے اور اولاد بھی
مخدوم یوسف رضا گیلانی 9 جون سنہ 1952 کو جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان کے ایک ایسے بااثر جاگیردار پیرگھرانے میں پیدا ہوئے جو پچھلی کئی نسلوں سے سیاست میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ ملتان کی درگاہ حضرت موسی پاک کا گدی نشین ہونے کی بناء پر ان کا خاندان مریدین یا روحانی پیروکاروں کا بھی وسیع حلقہ رکھتا ہے۔۔یوسف رضا گیلانی نے 1970 میں گریجویشن اور 1976ر میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔ یوسف رضا گیلانی فروری 2008 کے انتخابات میں ملتان سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پانچویں مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔وہ پاکستان کے 24 ویں وزیر اعظم ہیں۔ 2012ء تک مسلسل چار سال وزارت اعظمی پر فائز رہنے کے بعد وہ تاریخ میں پاکستان کا سب سے لمبی مدت وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 19 جون 2012ء کو توہین عدالت کے مقدمہ میں سزا کی وجہ سے پارلیمان رکنیت اور وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
سید یوسف رضا گیلانی توہین عدالت مقدمہ
قومی مفاہمت فرمان یعنی این آر او ، 2007ء کالعدم ہو جانے کے بعد عدالت اعظمی نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو رکوانے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے دوبارہ مقدمات کھولنے کی درخواست سؤئس احکام کو لکھی جائے۔ گیلانی دو سال ٹال مٹول سے کام لیتا رہا حتٰی کہ عدالت اعظمی نے اسے توہین عدالت پر طلب کر لیا جہاں اس کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ زرداری کو بطور صدر استشنی حاصل ہے جو عدالت نے مسترد کر دیا۔ 13 فروری 2012ء کو عدالت نے گیلانی پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کر دی۔[3] 26 اپریل 2012ء کو عدالت نے گیلانی کو توہین عدالت پر 30 سیکنڈ کی سزا سنائی اور اس طرح گیلانی مجرم قرار پایا۔ 19 جون 2012ء کو عدالت نے مکلم پارلیمان کے فرمان کے خلاف مقدمے کے فیصلہ میں لکھا کہ سزا کے بعد گیلانی پارلیمان کی رکنیت سے نااہل ہو چکا ہے اور اسطرح وزیراعظم نہیں رہ سکتا۔ انتخابی محکمہ کو عدالت نے ہدایت کی اس کی معزولی کا حکم جاری کرے جو فیصلے کے چند گھنٹہ بعد جاری کر دیا گیا کہ گیلانی 26 اپریل 2012ء سے معزول سمجھا جائے
پاکستان کی عوام کو جمہوریت کے نام پر 65 سال سے ہمارے سیاست دان بیوقوف بنا رہے ہیں۔26 اپریل 2012 ملکی تاریخ کا اہم دن ثابت ہوااس دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنا مختصر فیصلہ دیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم کو مجرم قرار دے دیا جس کہ تیس سکینڈکے بعد وزیراعظم رہا ہوگئے لیکن یہ فیصلہ پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا اور میڈیا کے لئے سوالیہ نشان بن گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو فیصلہ دیا ہے اس پر عمل کراناکس کی ذمہ داری ہے اگر سپریم کورٹ آف پاکستا ن وزیر اعظم کو جیل کی سزا بھی سنا دیتی تو حکومت نے کون سا عمل کرنا تھاجیسا اس سے پہلے ہوتا ا ٓرہا ہے اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حکومت کے خلاف جتنے کرپشن کے کیسوں کے فیصلے دیئے اس میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا ویسے اس کیس میں دو شخصیت بہت اہم ہیں ایک خود وزیر اعظم اور دوسر ے حکومت کے وکیل اعتزاز احسن ان دونوں صاحبان نے جو وفاداری نبھائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ وزیر اعظم گیلانی نے صدر زرداری سے اور اعتزاز احسن نے صدر زرداری کی طرف سے ملنے والی سینٹ کی سیٹ سے وفاداری نبھاکر ثابت کر دیا کہ ان کی نظر میں ایک کرپٹ آدمی کے لئے ملک،عدلیہ اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہیں ۔ویسے فیصلے سے پہلے اعتزاز احسن کہتے تھے اگر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کو مجرم قرار دیا تو وہ خود وزیر اعظم گیلانی کو جیل چھوڑ کر آئیں گے لیکن اب جب فیصلے آگیا سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کو مجرم قرار دے دیا تو اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ وہ اپیل میں جائیں گے اپیل میں جانے کی دو وجوہات ہیں ایک تو صدر زرداری کو کرپشن کیس سے بچانا اور دوسرا خود وزیر اعظم گیلانی کو بچانا کیونکہ وزیر اعظم گیلانی کے اپنے دونوں بیٹوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اگر وزیر اعظم گیلانی اپنے عہدے سے دستبردار ہوجاتے تو ان کے دونوں بیٹوں کی کرپشن پر کون پردہ ڈالے گا اور شائد وزیر اعظم گیلانی کا عہدے سے دستبردار نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے اورا گر دیکھا جایئں تو پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ ہمیشہ کرپشن پر ہواہیں ہوسکتا ہے پیپلز پارٹی کے منشور میں کرپشن کا ذکر ہوں جب ہی تو پیپلز پارٹی کے اراکین ٹی وی پروگرام میں کہتے ہیں کہ کرپشن ان کا حق ہے۔
ویسے پاکستان کی عوام کو آج تک کوئی مخلص صدر یا وزیر اعظم نہیں ملااور اب تو ایک مجرم ملک کا وزیر اعظم ہے اس فیصلے کے بعد بھی وزیر اعظم کا وہی اندازرہا نہ ہی کوئی شرم یا ندامت تھی اسی شاہانہ انداز اور پروٹوکول کے سا تھ وزیر اعظم ہاﺅس گئے وہ تو شکر ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہم اس فیصلے کی انکوئری کمیشن بنادیا ہیں جو سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا ۔ ویسے لگتا ہے وزیر اعظم گیلانی کو صدر زردای کے اشارے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ہی صدر زرداری نے کہا ہمیں وزیر اعظم گیلانی پر پورا اعتماد ہے اسکے بعد تو وزیر اعظم گیلانی نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں صاف کہہ دیا اسپیکر کے سوا کو ئی نہیں ہٹا سکتا ن لیگ میں ہمت ہے توتحریک عدم اعتماد لائے بھلا اسپیکر اپنی پارٹی کے وزیر اعظم کو عہدے سے کیوں ہٹائے گی۔ اور پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان کوئی بھی فیصلہ دے اس پر عمل کرنا یانہ کرنا حکومت کے لئے ضروری نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم گیلانی جس پارلیمنٹ کی بات کر رہے ہیں شائد اس پارلیمنٹ کا ریموٹ صدر زرداری کے پاس ہے ویسے اس حکومت کے اتحادیوں نے بھی صدر زرداری کا خوب ساتھ دیا اور حکومت کے ہر غلط فیصلے پر لبیک کہا شائد یہ حکومت ایک سال بھی نہ چلتی اگر اس حکومت کے اتحادی ساتھ نہ دیتے ویسے صدر زرداری صاحب کی سرپرستی میں ملک چلانے والوں سے ایسی ہی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اور اپوزیشن کا ذکر تو وزیر اعظم گیلانی پارلیمنٹ کے اجلاس میں کر چکے ہے کہ اس حکومت میں اپوزیشن نے بھی فائدہ اٹھایا ہے اس سے وزیر اعظم گیلانی کی کیا مراد ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اپوزیشن بھی حکومت کی کرپشن میں برابر کی شریک ہے کیونکہ اب تک تو عوام حکومت کی کرپشن دیکھتی چلی آ رہی ہیں۔
سابقہ وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی صاحب نے ببانگ دھل اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی پارٹی کے صدر کے خلاف ، اور پیپلز پارٹی کی پالیسی کے خلاف ہرگز صدر زرداری صاحب کی مجرمانہ کرپشن پر خط نہیں لکھیں گے ، اور وہ صدر صاحب اور پارٹی پر قربان ہو جائیں گے ، اس طرح انہوں نے پاکستان سے وفا کے حلف سے انحراف کیا ،
یہ تھی وہ اصل بات ،مگر گیلانی صاحب اب جگہ جگہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کو یہ سزا اس لیے دی گئی کہ وہ سرائیکی صوبہ کے عوام کی بات کرتے ہیں ،کیا دنیا کو اور پاکستانی عوام کو مزید بےوقوف بنایا جا سکتا ہے ،شرم ان کو مگر نہیں آتی
یہی حالت اب جناب عبدالقادر گیلانی اور ان کے برادر موسی گیلانی کی ہے وہ جگہ جگہ پاکستانی عوام میں زہریلا جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کو سزا اس لیے دی جا رہی کہ وہ سرائیکی صوبہ اور سرائیکی عوام کی بات کرتے ہیں ، حالانکہ روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ ایک بھائی حاجیوں کی لوٹ مار میں شریک مجرم تھا اور اب بھی وہی کیس ان پر چل رہا ہے ، اور دوسرے بھائی موسی گیلانی پر نشہ آور ڈرگز کا کیس ہے ،جس کی وفاقی ادارہ انٹی نارکوٹک فورس تحقیق کر رہا ہے اور یہ دونوں مقدمات میں نامزد اور مطلوب ملزمان ہیں ، شرم ان کو مگر نہیں آتی
جب وہ عوام میں جاتے ہیں تو ان سادہ لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں سزا اس لیے دی جا رہی ہے کہ ہم سرائیکی صوبہ اور عوام کے خادم ہیں ، لعنۃ اللہ علی الکاذبین
کیا ہمارے سیاستدانوں نے ہماری نئی نسلوں پر حکمرانی کرنے کے لیے اس قسم کی کرپٹ نسلیں پیدا کی ہیں ؟ ؟
وہ خود تو کرپٹ تھے تو کیا ضروری تھا کہ اپنی اولادیں کو بھی اپنے ہاتھوں سے خود کرپٹ کرتے ؟
کیا انہیں اپنے بچوں پر فخر کرنے کے لیے کوئی اور کام نہیں سوجھا تھا؟
بقول رؤف کلاسرا مونس الہی ۔ حمزہ شہباز اور عبدالقادر گیلانی اور موسی گیلانی تک ہمارے سیاسی کلچر کی بدعنوانیوں کی یہ وہ مکروہ داستان ہے جس لکھتے ہوئے میرا اپنا دل بہت دکھی اور افسردہ ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں، جنہوں نے خدا کیطرف سے دی گئی عزت کو چھوڑ کر اپنے لیے ذلت کا انتخاب کیا
سید یوسف رضا گیلانی توہین عدالت مقدمہ
قومی مفاہمت فرمان یعنی این آر او ، 2007ء کالعدم ہو جانے کے بعد عدالت اعظمی نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو رکوانے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے دوبارہ مقدمات کھولنے کی درخواست سؤئس احکام کو لکھی جائے۔ گیلانی دو سال ٹال مٹول سے کام لیتا رہا حتٰی کہ عدالت اعظمی نے اسے توہین عدالت پر طلب کر لیا جہاں اس کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ زرداری کو بطور صدر استشنی حاصل ہے جو عدالت نے مسترد کر دیا۔ 13 فروری 2012ء کو عدالت نے گیلانی پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کر دی۔[3] 26 اپریل 2012ء کو عدالت نے گیلانی کو توہین عدالت پر 30 سیکنڈ کی سزا سنائی اور اس طرح گیلانی مجرم قرار پایا۔ 19 جون 2012ء کو عدالت نے مکلم پارلیمان کے فرمان کے خلاف مقدمے کے فیصلہ میں لکھا کہ سزا کے بعد گیلانی پارلیمان کی رکنیت سے نااہل ہو چکا ہے اور اسطرح وزیراعظم نہیں رہ سکتا۔ انتخابی محکمہ کو عدالت نے ہدایت کی اس کی معزولی کا حکم جاری کرے جو فیصلے کے چند گھنٹہ بعد جاری کر دیا گیا کہ گیلانی 26 اپریل 2012ء سے معزول سمجھا جائے
پاکستان کی عوام کو جمہوریت کے نام پر 65 سال سے ہمارے سیاست دان بیوقوف بنا رہے ہیں۔26 اپریل 2012 ملکی تاریخ کا اہم دن ثابت ہوااس دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنا مختصر فیصلہ دیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم کو مجرم قرار دے دیا جس کہ تیس سکینڈکے بعد وزیراعظم رہا ہوگئے لیکن یہ فیصلہ پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا اور میڈیا کے لئے سوالیہ نشان بن گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جو فیصلہ دیا ہے اس پر عمل کراناکس کی ذمہ داری ہے اگر سپریم کورٹ آف پاکستا ن وزیر اعظم کو جیل کی سزا بھی سنا دیتی تو حکومت نے کون سا عمل کرنا تھاجیسا اس سے پہلے ہوتا ا ٓرہا ہے اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حکومت کے خلاف جتنے کرپشن کے کیسوں کے فیصلے دیئے اس میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا ویسے اس کیس میں دو شخصیت بہت اہم ہیں ایک خود وزیر اعظم اور دوسر ے حکومت کے وکیل اعتزاز احسن ان دونوں صاحبان نے جو وفاداری نبھائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ وزیر اعظم گیلانی نے صدر زرداری سے اور اعتزاز احسن نے صدر زرداری کی طرف سے ملنے والی سینٹ کی سیٹ سے وفاداری نبھاکر ثابت کر دیا کہ ان کی نظر میں ایک کرپٹ آدمی کے لئے ملک،عدلیہ اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہیں ۔ویسے فیصلے سے پہلے اعتزاز احسن کہتے تھے اگر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کو مجرم قرار دیا تو وہ خود وزیر اعظم گیلانی کو جیل چھوڑ کر آئیں گے لیکن اب جب فیصلے آگیا سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کو مجرم قرار دے دیا تو اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ وہ اپیل میں جائیں گے اپیل میں جانے کی دو وجوہات ہیں ایک تو صدر زرداری کو کرپشن کیس سے بچانا اور دوسرا خود وزیر اعظم گیلانی کو بچانا کیونکہ وزیر اعظم گیلانی کے اپنے دونوں بیٹوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اگر وزیر اعظم گیلانی اپنے عہدے سے دستبردار ہوجاتے تو ان کے دونوں بیٹوں کی کرپشن پر کون پردہ ڈالے گا اور شائد وزیر اعظم گیلانی کا عہدے سے دستبردار نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے اورا گر دیکھا جایئں تو پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ ہمیشہ کرپشن پر ہواہیں ہوسکتا ہے پیپلز پارٹی کے منشور میں کرپشن کا ذکر ہوں جب ہی تو پیپلز پارٹی کے اراکین ٹی وی پروگرام میں کہتے ہیں کہ کرپشن ان کا حق ہے۔
ویسے پاکستان کی عوام کو آج تک کوئی مخلص صدر یا وزیر اعظم نہیں ملااور اب تو ایک مجرم ملک کا وزیر اعظم ہے اس فیصلے کے بعد بھی وزیر اعظم کا وہی اندازرہا نہ ہی کوئی شرم یا ندامت تھی اسی شاہانہ انداز اور پروٹوکول کے سا تھ وزیر اعظم ہاﺅس گئے وہ تو شکر ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ نہیں کہا کہ ہم اس فیصلے کی انکوئری کمیشن بنادیا ہیں جو سات دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا ۔ ویسے لگتا ہے وزیر اعظم گیلانی کو صدر زردای کے اشارے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ہی صدر زرداری نے کہا ہمیں وزیر اعظم گیلانی پر پورا اعتماد ہے اسکے بعد تو وزیر اعظم گیلانی نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں صاف کہہ دیا اسپیکر کے سوا کو ئی نہیں ہٹا سکتا ن لیگ میں ہمت ہے توتحریک عدم اعتماد لائے بھلا اسپیکر اپنی پارٹی کے وزیر اعظم کو عہدے سے کیوں ہٹائے گی۔ اور پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے یعنی سپریم کورٹ آف پاکستان کوئی بھی فیصلہ دے اس پر عمل کرنا یانہ کرنا حکومت کے لئے ضروری نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم گیلانی جس پارلیمنٹ کی بات کر رہے ہیں شائد اس پارلیمنٹ کا ریموٹ صدر زرداری کے پاس ہے ویسے اس حکومت کے اتحادیوں نے بھی صدر زرداری کا خوب ساتھ دیا اور حکومت کے ہر غلط فیصلے پر لبیک کہا شائد یہ حکومت ایک سال بھی نہ چلتی اگر اس حکومت کے اتحادی ساتھ نہ دیتے ویسے صدر زرداری صاحب کی سرپرستی میں ملک چلانے والوں سے ایسی ہی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اور اپوزیشن کا ذکر تو وزیر اعظم گیلانی پارلیمنٹ کے اجلاس میں کر چکے ہے کہ اس حکومت میں اپوزیشن نے بھی فائدہ اٹھایا ہے اس سے وزیر اعظم گیلانی کی کیا مراد ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اپوزیشن بھی حکومت کی کرپشن میں برابر کی شریک ہے کیونکہ اب تک تو عوام حکومت کی کرپشن دیکھتی چلی آ رہی ہیں۔
سابقہ وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی صاحب نے ببانگ دھل اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی پارٹی کے صدر کے خلاف ، اور پیپلز پارٹی کی پالیسی کے خلاف ہرگز صدر زرداری صاحب کی مجرمانہ کرپشن پر خط نہیں لکھیں گے ، اور وہ صدر صاحب اور پارٹی پر قربان ہو جائیں گے ، اس طرح انہوں نے پاکستان سے وفا کے حلف سے انحراف کیا ،
یہ تھی وہ اصل بات ،مگر گیلانی صاحب اب جگہ جگہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کو یہ سزا اس لیے دی گئی کہ وہ سرائیکی صوبہ کے عوام کی بات کرتے ہیں ،کیا دنیا کو اور پاکستانی عوام کو مزید بےوقوف بنایا جا سکتا ہے ،شرم ان کو مگر نہیں آتی
یہی حالت اب جناب عبدالقادر گیلانی اور ان کے برادر موسی گیلانی کی ہے وہ جگہ جگہ پاکستانی عوام میں زہریلا جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کو سزا اس لیے دی جا رہی کہ وہ سرائیکی صوبہ اور سرائیکی عوام کی بات کرتے ہیں ، حالانکہ روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ ایک بھائی حاجیوں کی لوٹ مار میں شریک مجرم تھا اور اب بھی وہی کیس ان پر چل رہا ہے ، اور دوسرے بھائی موسی گیلانی پر نشہ آور ڈرگز کا کیس ہے ،جس کی وفاقی ادارہ انٹی نارکوٹک فورس تحقیق کر رہا ہے اور یہ دونوں مقدمات میں نامزد اور مطلوب ملزمان ہیں ، شرم ان کو مگر نہیں آتی
جب وہ عوام میں جاتے ہیں تو ان سادہ لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں سزا اس لیے دی جا رہی ہے کہ ہم سرائیکی صوبہ اور عوام کے خادم ہیں ، لعنۃ اللہ علی الکاذبین
کیا ہمارے سیاستدانوں نے ہماری نئی نسلوں پر حکمرانی کرنے کے لیے اس قسم کی کرپٹ نسلیں پیدا کی ہیں ؟ ؟
وہ خود تو کرپٹ تھے تو کیا ضروری تھا کہ اپنی اولادیں کو بھی اپنے ہاتھوں سے خود کرپٹ کرتے ؟
کیا انہیں اپنے بچوں پر فخر کرنے کے لیے کوئی اور کام نہیں سوجھا تھا؟
بقول رؤف کلاسرا مونس الہی ۔ حمزہ شہباز اور عبدالقادر گیلانی اور موسی گیلانی تک ہمارے سیاسی کلچر کی بدعنوانیوں کی یہ وہ مکروہ داستان ہے جس لکھتے ہوئے میرا اپنا دل بہت دکھی اور افسردہ ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں، جنہوں نے خدا کیطرف سے دی گئی عزت کو چھوڑ کر اپنے لیے ذلت کا انتخاب کیا