Arslan
Moderator
[TABLE="width: 500, align: center"]
[TR]
[TD="class: small_txt, align: right"]لاہور میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کیس میں ہم نے رونا تو بہت رولیا مگر کیا ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بھی کوشش کریں گے تا کہ ایسے واقعات کو آئندہ روکا جا سکے۔اس گھناونے جرم کے مرتکب درندوں کو پکڑنا ابھی باقی ہے مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ درندگی کے ایسے واقعات میں ہمارا کتنا کردار ہے۔حکومت ہویا سیاستدان، پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ، سول سوسائٹی ہو یا میڈیا ہم سب اگر اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ہم بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ لاہور زیادتی کیس کے بعد سول سوسائٹی کی طرف سے مطالبہ سامنے آیا کہ مجرموںکو سرعام پھانسی دے کر نشان عبرت بنایا جائے۔
ہمارا دین بھی ایسے جرائم کی یہی سزا تجویز کرتا ہے۔ درندہ صف مجرموں کو سرعام بیچ چوک کے لٹکانا، انہیں سنگسار کرنا اور کوڑے مارنا یہ ہے ہماری شریعت کا حکم مگر جب اس بارے میں کوئی سنجیدہ بات کی جاتی ہے اور اسلامی سزاوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہی سول سوسائٹی، نام نہاد این جی اوز، کچھ سیکولر سیاسی پارٹیاں اور میڈیا کا ایک با اثر طبقہ سب ہاتھ دھو کر ایسا مطالبہ کرنے والوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ حکومت اور حکمران بیرونی دبائو اور بیرونی قوتوں کے ایجنٹوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر ایسی سزائوں پر عملدرآمد کی بات تک نہیں کرتے۔ اس ملک میں اسلامی آئین کے ہوتے ہوئے بھی ہماری پارلیمنٹ اسلامی سزائوں پر سختی سے عمل درآمد کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اعلیٰ عدالتوں اور سپریم کورٹ نے اگرچہ انسانی حقوق کیسوںپر خوب توجہ دی مگر آئین کی اسلامی دفعات کی کھلے عام خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کاروائی نہیں کی۔ لاہور کا زیادتی کیس تو ہمارے سامنے آ گیا۔ ہمیں تو کوئی اندازہ ہی نہیں کہ انسانی شکل میں درندوں نے کس کس کے ساتھ زیادتی کی، کتنی بچیوں اور خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ کس کس کو جسم فروشی کے رستہ پر لگایا۔ کیا ان زیادتیوں کے ہم بھی ذمہ دار نہیں۔ وہ میڈیا جس نے فحاشی و عریانیت کی تمام حدوں کو عبور کرلیا ہے کیا وہ ان حالات کا ذمہ دار نہیں۔
اسٹیج ڈراموں کے نام پر معاشرہ میں گندگی پھیلانے اور جنسی جذبات ابھارنے والے کیا اس ذمہ داری سے عاری ہیں۔ حکومت، حکمران ، متعلقہ حکومتی ادارے اور پارلیمنٹ اپنے آپ کو کیسے ان زیادتیوں سے بری الزمہ قرار دے سکتے ہیں جب وہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانیت کو روکنے میں کوئی دلچسبی نہیں رکھتے۔ حکومت اور پارلیمنٹ اس معاشرتی بگاڑ کو روکنے میںکوئی دلچسبی نہیں رکھتے مگر اعلیٰ عدلیہ نے اس سلسلے میں اپنا کردار اداکیوں نہیں کیا۔میڈیا ان زیادتیوں پر تو آواز اآٹھا رہا ہے مگر خود ایسے پروگرام، گانے، ڈانس، ڈرامہ، اشتہار اور شوز کو روکنے کے لیے کیوں تیارنہیں جو دیکھنے والوں میںجنسی جذبات ابھارتے ہیں اور معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سندھ اسمبلی کے ایک رکن نے اسمبلی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے گلی محلوں میں جسم فروشی کا کام کھلے عام ہو رہا ہے۔ سڑکوں، عام شاہراہوںاور چوراہوں پر جسم فروشی کی دعوت دینے والی عورتیں دعوت گناہ دے رہی ہوتی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہی حال دوسرے شہروں بشمول راولپنڈی اسلام آباد کا بھی ہے۔ بڑی تعداد میں ہوٹل جسم فروشی کے اڈے بن چکے ہیں مگر اس پر حکومت، پولیس، سول انتظامیہ سب خاموش ہیں۔ معاشرہ میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانیت سے جہاں زنا جیسے گناہ میں اضافہ ہو جاتا ہے وہاں ریپ کے واقعات بھی بڑھ جاتے ہیں۔مثلاً امریکا جیسا ملک جہاں زنا کرنا کوئی جرم نہیں اور فحاشی و عریانیت جیسے الفاظ اپنے معانی کھو چکے وہاں ریپ (rape ) کے ریکارڈ کیس ہوتے ہیں۔ 2010 میں کیے گئے ایک Sexual Violence Surveyکے مطابق امریکا کو جنسی زیادتی کے واقعات کی ایک ایسی وبا ء کا سامنا ہے جس میں ہر پانچ میں سے ایک عورت جنسی زیادتی کا شکار بنتی ہے۔ اس سروے کے مطابق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں میں سے تقریباً اسی فیصد80% کی عمر پچیس سال سے کم ہوتی ہے جبکہ چالیس فیصد (40%) کے ساتھ یہ زیادتی اٹھارہ سال سے بھی کم عمر میں ہوتی ہے۔اس سروے کے مطابق سال 2010 میں امریکا میںتقریباً بارہ لاکھ 27 ہزار (12,27,000) عورتوں کو ریپ کیا گیا۔ یعنی اُس سال ہر 29سیکنڈ میں ایک عورت کے ساتھ زیادتی کی جاتی رہی۔فحاشی و عریانیت کا دوسرا رخ امریکا میں ناجائز تعلقات اور ناجائز اولاد کا ہونا ہے۔ امریکا میں تقریباً ہر دوسری عورت شادی سے پہلے زنا کرچکی ہوتی ہے۔ زنا اور حرام کی اولاد کو تو آج مغربی معاشرہ میں برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔بلکہ وہاں تو شادی شدہ عورتیں دوسرے مردوں کے ساتھ رہتی ہیں اور اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں کیا جاتا۔ میرا حکومت، میڈیا، عدلیہ، پارلیمنٹ اور سول سوسائیٹی سے یہ سوال ہے کہ کیا ہم پاکستانی معاشرہ کو اُس تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جس کا سامنا امریکا و مغرب کو ہے۔ کہنے کو تو ہم سب نہیں کہہ دیں گے مگر اس کے لیے ہم کیا کوئی عملی قدم اٹھا رہے ہیں۔ یہاں بھی جواب نہیں ہی ہے۔ ایک طرف زانیوں،جسم فروشی کا دھندہ کرنے والوں اور ریپ کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا ہو گا تو دوسری طرف اپنے معاشرہ کو فحاشی و عریانیت کی بیماری سے پاک کرنا ہو گا جس کے لیے میڈیا کا سدھرنا(یا اس کو سدھارنا) سب سے اہم اقدام ہے۔ اب دیکھتے ہیں کون کون اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے تا کہ آئندہ کسی اور بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوئی جرأت نہ کر سکے۔
[/TD]
[TD]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
source
[TR]
[TD="class: small_txt, align: right"]لاہور میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کیس میں ہم نے رونا تو بہت رولیا مگر کیا ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بھی کوشش کریں گے تا کہ ایسے واقعات کو آئندہ روکا جا سکے۔اس گھناونے جرم کے مرتکب درندوں کو پکڑنا ابھی باقی ہے مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ درندگی کے ایسے واقعات میں ہمارا کتنا کردار ہے۔حکومت ہویا سیاستدان، پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ، سول سوسائٹی ہو یا میڈیا ہم سب اگر اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ہم بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ لاہور زیادتی کیس کے بعد سول سوسائٹی کی طرف سے مطالبہ سامنے آیا کہ مجرموںکو سرعام پھانسی دے کر نشان عبرت بنایا جائے۔
ہمارا دین بھی ایسے جرائم کی یہی سزا تجویز کرتا ہے۔ درندہ صف مجرموں کو سرعام بیچ چوک کے لٹکانا، انہیں سنگسار کرنا اور کوڑے مارنا یہ ہے ہماری شریعت کا حکم مگر جب اس بارے میں کوئی سنجیدہ بات کی جاتی ہے اور اسلامی سزاوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہی سول سوسائٹی، نام نہاد این جی اوز، کچھ سیکولر سیاسی پارٹیاں اور میڈیا کا ایک با اثر طبقہ سب ہاتھ دھو کر ایسا مطالبہ کرنے والوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ حکومت اور حکمران بیرونی دبائو اور بیرونی قوتوں کے ایجنٹوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر ایسی سزائوں پر عملدرآمد کی بات تک نہیں کرتے۔ اس ملک میں اسلامی آئین کے ہوتے ہوئے بھی ہماری پارلیمنٹ اسلامی سزائوں پر سختی سے عمل درآمد کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اعلیٰ عدالتوں اور سپریم کورٹ نے اگرچہ انسانی حقوق کیسوںپر خوب توجہ دی مگر آئین کی اسلامی دفعات کی کھلے عام خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کاروائی نہیں کی۔ لاہور کا زیادتی کیس تو ہمارے سامنے آ گیا۔ ہمیں تو کوئی اندازہ ہی نہیں کہ انسانی شکل میں درندوں نے کس کس کے ساتھ زیادتی کی، کتنی بچیوں اور خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ کس کس کو جسم فروشی کے رستہ پر لگایا۔ کیا ان زیادتیوں کے ہم بھی ذمہ دار نہیں۔ وہ میڈیا جس نے فحاشی و عریانیت کی تمام حدوں کو عبور کرلیا ہے کیا وہ ان حالات کا ذمہ دار نہیں۔
اسٹیج ڈراموں کے نام پر معاشرہ میں گندگی پھیلانے اور جنسی جذبات ابھارنے والے کیا اس ذمہ داری سے عاری ہیں۔ حکومت، حکمران ، متعلقہ حکومتی ادارے اور پارلیمنٹ اپنے آپ کو کیسے ان زیادتیوں سے بری الزمہ قرار دے سکتے ہیں جب وہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانیت کو روکنے میں کوئی دلچسبی نہیں رکھتے۔ حکومت اور پارلیمنٹ اس معاشرتی بگاڑ کو روکنے میںکوئی دلچسبی نہیں رکھتے مگر اعلیٰ عدلیہ نے اس سلسلے میں اپنا کردار اداکیوں نہیں کیا۔میڈیا ان زیادتیوں پر تو آواز اآٹھا رہا ہے مگر خود ایسے پروگرام، گانے، ڈانس، ڈرامہ، اشتہار اور شوز کو روکنے کے لیے کیوں تیارنہیں جو دیکھنے والوں میںجنسی جذبات ابھارتے ہیں اور معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سندھ اسمبلی کے ایک رکن نے اسمبلی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے گلی محلوں میں جسم فروشی کا کام کھلے عام ہو رہا ہے۔ سڑکوں، عام شاہراہوںاور چوراہوں پر جسم فروشی کی دعوت دینے والی عورتیں دعوت گناہ دے رہی ہوتی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہی حال دوسرے شہروں بشمول راولپنڈی اسلام آباد کا بھی ہے۔ بڑی تعداد میں ہوٹل جسم فروشی کے اڈے بن چکے ہیں مگر اس پر حکومت، پولیس، سول انتظامیہ سب خاموش ہیں۔ معاشرہ میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانیت سے جہاں زنا جیسے گناہ میں اضافہ ہو جاتا ہے وہاں ریپ کے واقعات بھی بڑھ جاتے ہیں۔مثلاً امریکا جیسا ملک جہاں زنا کرنا کوئی جرم نہیں اور فحاشی و عریانیت جیسے الفاظ اپنے معانی کھو چکے وہاں ریپ (rape ) کے ریکارڈ کیس ہوتے ہیں۔ 2010 میں کیے گئے ایک Sexual Violence Surveyکے مطابق امریکا کو جنسی زیادتی کے واقعات کی ایک ایسی وبا ء کا سامنا ہے جس میں ہر پانچ میں سے ایک عورت جنسی زیادتی کا شکار بنتی ہے۔ اس سروے کے مطابق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں میں سے تقریباً اسی فیصد80% کی عمر پچیس سال سے کم ہوتی ہے جبکہ چالیس فیصد (40%) کے ساتھ یہ زیادتی اٹھارہ سال سے بھی کم عمر میں ہوتی ہے۔اس سروے کے مطابق سال 2010 میں امریکا میںتقریباً بارہ لاکھ 27 ہزار (12,27,000) عورتوں کو ریپ کیا گیا۔ یعنی اُس سال ہر 29سیکنڈ میں ایک عورت کے ساتھ زیادتی کی جاتی رہی۔فحاشی و عریانیت کا دوسرا رخ امریکا میں ناجائز تعلقات اور ناجائز اولاد کا ہونا ہے۔ امریکا میں تقریباً ہر دوسری عورت شادی سے پہلے زنا کرچکی ہوتی ہے۔ زنا اور حرام کی اولاد کو تو آج مغربی معاشرہ میں برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔بلکہ وہاں تو شادی شدہ عورتیں دوسرے مردوں کے ساتھ رہتی ہیں اور اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں کیا جاتا۔ میرا حکومت، میڈیا، عدلیہ، پارلیمنٹ اور سول سوسائیٹی سے یہ سوال ہے کہ کیا ہم پاکستانی معاشرہ کو اُس تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جس کا سامنا امریکا و مغرب کو ہے۔ کہنے کو تو ہم سب نہیں کہہ دیں گے مگر اس کے لیے ہم کیا کوئی عملی قدم اٹھا رہے ہیں۔ یہاں بھی جواب نہیں ہی ہے۔ ایک طرف زانیوں،جسم فروشی کا دھندہ کرنے والوں اور ریپ کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا ہو گا تو دوسری طرف اپنے معاشرہ کو فحاشی و عریانیت کی بیماری سے پاک کرنا ہو گا جس کے لیے میڈیا کا سدھرنا(یا اس کو سدھارنا) سب سے اہم اقدام ہے۔ اب دیکھتے ہیں کون کون اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے تا کہ آئندہ کسی اور بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوئی جرأت نہ کر سکے۔
[/TD]
[TD]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="align: right"]
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
source
- Featured Thumbs
- http://images.thenews.com.pk/jang/131564_s.jpg