27-01-2017
تحریر: خداداد
کیا معاشی دھماکہ ہونے والا ہے؟
ایک انتہائی با خبر تجزیہ نگار نے اپنے لائیو پروگرام میں یہ اطلاع دی ہے کہ بین الاقوامی سفارتی اور صحافتی حلقوں میں پاکستان میں کسی انتہائی اہم اور پیچیدہ صورتحال کے اچانک اور غیر متوقع طور پر پیدا ہونے کی بات گردش کر رہی ہے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں نو منتخب امریکی انتظامیہ کو بھی پاکستان کے بارے میں مشکل اور اہم فیصلے کرنا پڑ سکتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اَن گنت ممکنات میں سے وہ کون سی ایسی صورتحال ہو سکتی ہے جو بیک وقت اچانک بھی ہو اور انتہائی غیر متوقع بھی، مگر اس کی ناگہانی آمد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری سے ہمارا قومی نقصان ہونے کے بعد ایسا محسوس ہو کہ جیسے "یہ تو ہونا ہی تھا"۔
زکر چونکہ نئی امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے بارے میں مشکل فیصلوں کا آیا ہے تو ہمیں اس ضمن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اب تک لوگوں کے سامنے آنے والی شخصیت اور ان کے دعووں اور فیصلوں سے راہ نمائی لینا ہو گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک منہ پھٹ انسان ہیں۔ لگی لپٹی رکھے بغیر جھٹ سے اپنے دل کی بات زبان پر لے آنے کی عادت نے انہیں صدارتی دوڑ کے آغاز سے ہی متنازع بنائے رکھا۔ لیکن اس تمام تر منہ زوری اور بد زبانی و بد مزاجی کے باوجود وہ ریاستوں کی مضبوطی اور غیر ریاستی عناصر بشمول بے لگام میڈیا اور بے مُہار دہشتگرد اور خفیہ تنظیموں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی امریکی زمین سے باہر لڑی جانے والی جنگوں کی کھلم کھلا حمایت نہیں کی، اس کے علاوہ روس کے ساتھ بلا وجہ کے تناؤ کے بھی وہ مخالف ہیں اور امریکہ اور روس کے مابین ایٹمی ہتھیاروں کی کمی کے نتیجہ خیز معاہدوں کے بارے میں بھی خاصے پر امید ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جنگوں کے مخالف اور میڈیا کے زریعے کی جانے والی سازشوں اور غیر ریاستی تنظیموں کے زریعے پیدا کی جانے والی افراتفری سے بیزار ہیں تو دوسری ریاستوں کے بارے میں وہ کون سے مشکل فیصلے ہو سکتے ہیں جن کی ان سے توقع کی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب شاید چینی کمپنیوں کے بارے میں ان کے بیان میں پوشیدہ ہے۔ میکسیکو کے بارڈر پر دیوار کھڑی کرنے والے بیان اور حال ہی میں چھ ممالک کے شہریوں کے لیے سفری پابندیوں کو اگر ایک تناظر میں دیکھیں تو بھی ٹرمپ کے دوسری ریاستوں کے بارے میں مشکل فیصلوں کے کچھ خدوخال واضع ہوتے ہیں۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دھیان اس طرف جاتا ہے کہ کہیں پاکستان کا بڑھتا ہوا غیر ملکی قرضہ تو ہمارے لیے ناگہانی صرتحال پیدا کرنے والا نہیں؟ کیا وہ وقت آن پہنچا جس کے بارے میں ایک عرصے سے پیشین گوئیاں ہو رہی تھیں کہ پاکستان پر قرض کی ادائیگی کے لیے اچانک اور شدید دباؤ ڈالا جائے گا، ایسا دباؤ کہ جس کے ہاتھوں بے بس ہو کر ریاست اپنے اہم ترین "اثاثہ جات" گروی رکھنے پر رضا مند ہو جائے؟
ایک لمحے کو مملکت خداداد کے بد خواہ بن کر سوچیں تو اس ریاست کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پَر کترنے کا یہ نہایت موزوں وقت ہے جب اس ریاست کے امراء ریاست کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنی کرپشن چھپانے اور کالا دھن بچانے میں مگن ہیں۔ فوج تگڑی ہی سہی لیکن دفاعی بجٹ مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ کراچی جیسے مرکزی شہر میں امن ہوا تو ہے لیکن بد امنی پھیلانے والوں کے سرغنہ ابھی آزاد ہیں۔ اقتصادی راہداری پر کام خواہ تیزی سے جاری ہے لیکن اس کے ثمرات ابھی ملنا شروع نہیں ہوئے۔ پَر کترنے میں تھوڑی سی دیر ہو گئی اور ریاست نے بادِ مخالف کے سامنے پَر پھیلا دیے تو پَر کترنا تو دور کی بات، اس بلندی تک پہنچنا ہی مشکل ہو گا جس بلندی پر پرواز کی قدرت نے اس ریاست کو استطاعت دی ہے۔
[email protected]
تحریر: خداداد
کیا معاشی دھماکہ ہونے والا ہے؟
ایک انتہائی با خبر تجزیہ نگار نے اپنے لائیو پروگرام میں یہ اطلاع دی ہے کہ بین الاقوامی سفارتی اور صحافتی حلقوں میں پاکستان میں کسی انتہائی اہم اور پیچیدہ صورتحال کے اچانک اور غیر متوقع طور پر پیدا ہونے کی بات گردش کر رہی ہے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں نو منتخب امریکی انتظامیہ کو بھی پاکستان کے بارے میں مشکل اور اہم فیصلے کرنا پڑ سکتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اَن گنت ممکنات میں سے وہ کون سی ایسی صورتحال ہو سکتی ہے جو بیک وقت اچانک بھی ہو اور انتہائی غیر متوقع بھی، مگر اس کی ناگہانی آمد اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری سے ہمارا قومی نقصان ہونے کے بعد ایسا محسوس ہو کہ جیسے "یہ تو ہونا ہی تھا"۔
زکر چونکہ نئی امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے بارے میں مشکل فیصلوں کا آیا ہے تو ہمیں اس ضمن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اب تک لوگوں کے سامنے آنے والی شخصیت اور ان کے دعووں اور فیصلوں سے راہ نمائی لینا ہو گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک منہ پھٹ انسان ہیں۔ لگی لپٹی رکھے بغیر جھٹ سے اپنے دل کی بات زبان پر لے آنے کی عادت نے انہیں صدارتی دوڑ کے آغاز سے ہی متنازع بنائے رکھا۔ لیکن اس تمام تر منہ زوری اور بد زبانی و بد مزاجی کے باوجود وہ ریاستوں کی مضبوطی اور غیر ریاستی عناصر بشمول بے لگام میڈیا اور بے مُہار دہشتگرد اور خفیہ تنظیموں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی امریکی زمین سے باہر لڑی جانے والی جنگوں کی کھلم کھلا حمایت نہیں کی، اس کے علاوہ روس کے ساتھ بلا وجہ کے تناؤ کے بھی وہ مخالف ہیں اور امریکہ اور روس کے مابین ایٹمی ہتھیاروں کی کمی کے نتیجہ خیز معاہدوں کے بارے میں بھی خاصے پر امید ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جنگوں کے مخالف اور میڈیا کے زریعے کی جانے والی سازشوں اور غیر ریاستی تنظیموں کے زریعے پیدا کی جانے والی افراتفری سے بیزار ہیں تو دوسری ریاستوں کے بارے میں وہ کون سے مشکل فیصلے ہو سکتے ہیں جن کی ان سے توقع کی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب شاید چینی کمپنیوں کے بارے میں ان کے بیان میں پوشیدہ ہے۔ میکسیکو کے بارڈر پر دیوار کھڑی کرنے والے بیان اور حال ہی میں چھ ممالک کے شہریوں کے لیے سفری پابندیوں کو اگر ایک تناظر میں دیکھیں تو بھی ٹرمپ کے دوسری ریاستوں کے بارے میں مشکل فیصلوں کے کچھ خدوخال واضع ہوتے ہیں۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دھیان اس طرف جاتا ہے کہ کہیں پاکستان کا بڑھتا ہوا غیر ملکی قرضہ تو ہمارے لیے ناگہانی صرتحال پیدا کرنے والا نہیں؟ کیا وہ وقت آن پہنچا جس کے بارے میں ایک عرصے سے پیشین گوئیاں ہو رہی تھیں کہ پاکستان پر قرض کی ادائیگی کے لیے اچانک اور شدید دباؤ ڈالا جائے گا، ایسا دباؤ کہ جس کے ہاتھوں بے بس ہو کر ریاست اپنے اہم ترین "اثاثہ جات" گروی رکھنے پر رضا مند ہو جائے؟
ایک لمحے کو مملکت خداداد کے بد خواہ بن کر سوچیں تو اس ریاست کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پَر کترنے کا یہ نہایت موزوں وقت ہے جب اس ریاست کے امراء ریاست کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنی کرپشن چھپانے اور کالا دھن بچانے میں مگن ہیں۔ فوج تگڑی ہی سہی لیکن دفاعی بجٹ مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ کراچی جیسے مرکزی شہر میں امن ہوا تو ہے لیکن بد امنی پھیلانے والوں کے سرغنہ ابھی آزاد ہیں۔ اقتصادی راہداری پر کام خواہ تیزی سے جاری ہے لیکن اس کے ثمرات ابھی ملنا شروع نہیں ہوئے۔ پَر کترنے میں تھوڑی سی دیر ہو گئی اور ریاست نے بادِ مخالف کے سامنے پَر پھیلا دیے تو پَر کترنا تو دور کی بات، اس بلندی تک پہنچنا ہی مشکل ہو گا جس بلندی پر پرواز کی قدرت نے اس ریاست کو استطاعت دی ہے۔
[email protected]
Last edited by a moderator: