لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال اعوان اور بریگیڈیئر راجہ رضوان کی گرفتاری اور سزاؤں سے کئی سنجیدہ سوال جنم لیتے ہیں۔
وہ کیا عوامل ہیں جو فوج کے اعلیٰ افسران کو ملکی راز فروخت کرنے اور دشمنوں کے ساتھ ملنے کی ترغیب دیتے ہیں؟
اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جو افسران حاضر سروس ہیں وہ ملک و ملت سے وفادار ہیں؟ کیا فورسز میں وفاداری جانچنے اور اسکریننگ کا کوئی باقاعدہ سسٹم موجود ہے؟
اگر کسی کو یہ تکلیف ہورہی ہے کہ سویلیئنز فوج کے بارے میں ایسے سوالات نہیں کر سکتے، ان کو بتاتا چلوں کہ فوج کا ادارہ سویلیئنز ہی کے پیسوں سے چلتا ہے۔ فوج اصولاً عوام کی خادم ہے اور اس بات کی مجاز ہے کہ سویلیئنز کے سنجیدہ سوالات کے جواب دے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ان کی امت کا فتنہ مال ہے۔ اور اس بارے میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ سوال کیا جاسکتا ہے کیا یہ فتنہ فوج کے صرف اکا دکا افسران کو ہی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے یا اس سے کوئی بھی کسی بھی وقت متاثر ہو سکتا ہے؟
فوج کی کرپشن کی بہت داستانیں عوامی حلقوں میں گردش کرتی ہیں، لیکن ان کو سرکاری سطح پر اتنا پوشیدہ رکھا جاتا ہے کہ عام آدمی کو یقین دلایا جاسکے کہ یہ ادارہ مقدس گائے ہے اور اسے پورا اختیار ہے کہ سیاست دانوں میں حب الوطنی اور وفاداری و غداری کی اسناد تقسیم کرے۔
باچا خان غدار، عبدالولی خان غدار، اسفندیار ولی غدار، نواز شریف غدار، بھٹو غدار، بے نظیر غدار، پی ٹی ایم والے غدار۔۔۔مگر ایڈمرل منصورالحق جو آگسٹا آبدوز کھا گئے وہ وفادار؟
جس ملک کا نیول چیف اسلحے کی خریداری میں گھپلا کر کے بے تحاشہ مال بنا سکتا ہے اور پھر مال بٹور کر امریکہ فرار ہو سکتا ہے، کیا وہاں کا آرمی چیف اور ایئر چیف لازمی ہے کہ فرشتہ ہو؟
نیول چیف اگر آبدوزوں کی خریداری میں کرپشن کر سکتا ہے تو کیا وہ جاوید اقبال اعوان اور راجہ رضوان کی طرح حساس معلومات فروخت کرکے مزید پیسہ نہیں بنا سکتا؟
جو آرمی چیف آئین پاکستان اور اپنے حلف سے روگردانی کر کے، مملکت پاکستان پر قابض ہوسکتا ہے کیا وہ شراب کے نشے اور تحفے میں دی گئی لڑکی کے خمار میں امریکی سی آئی اے کو حساس معلومات فراہم نہیں کر سکتا؟
کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ دہشت گردی کے نام پر جنگ میں 60 ہزار پاکستانی سویلیئنز مار دیے گئے؟
کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ پاک فضائیہ اور بحریہ کے اڈوں پر کامیاب دہشت گرد حملے ہوئے؟
اور کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ پاکستان کے جنرل ہیڈ کوارٹرز پر کامیاب دہشت گرد حملہ ہوا، جب کہ دشمن ملک ہندوستان کے آرمی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکا؟؟؟
آج تک ثابت نہیں ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو یا نواز شریف نے حساس معلومات کسی دوست یا دشمن ملک کو فراہم کیں، جبکہ سیاسی وزیراعظم مکمل طور پرفوج کی انٹیلی جنس کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ اس کی ٹیلیفون کالز ریکارڈ ہوتی ہیں، ای میلز تک ایجنسیوں کی رسائی ہوتی ہے، شاید بیڈ رومز میں بھی کیمرے یا آڈیو ریکارڈنگ ڈیوائسز لگے ہوتے ہیں۔
جس جاں فشانی اور مستعدی کے ساتھ فوج، سیاست دانوں کی جاسوسی کرتی ہے اور ان کے بیڈرومز میں گھس کر ممکنہ غداری سے باخبر رہنے کے لیے تگ و دو کرتی ہے، اگر ایسی ہی جاں فشانی اپنے پیٹی بند بھائیوں کے کرتوت جاننے، اور ان کی مشکوک سرگرمیوں کا کھوج لگانے میں صرف کرے، تو شاید پاکستان عظیم نقصانات سے بچ جائے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ غدار اور بکاؤ مال افسران صرف پاکستان کی افواج میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کی ہر فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں موجود ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی افواج میں غداری کی اصل وجوہات پر سے صرف نظر کیا گیا ہے۔
آپ فوج کو ڈی ایچ اے، زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے، عسکری بنک اور شادی ہال جیسے کاروبار سے الگ کریں، فوج کو سیاست دانوں کی جاسوسی اور سیاست میں ٹانگ گھسیڑنے سے باز رکھیں، فوج اپنے کام پر توجہ دے، عدلیہ اور دیگر اداروں میں اپنی ناک نہ گھسائے، اور فوجی افسران کو بے جا عیاشی اور ضرورت سے زیادہ سہولیات سے محفوظ رکھا جائے تو فوج میں عموماً وہی لوگ جائیں گے جو ملک و ملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں نہ کہ وہ جو مال بٹورنے اور دنیا کی زندگی سنوارنے کے لیے جاتے ہیں۔
وہ کیا عوامل ہیں جو فوج کے اعلیٰ افسران کو ملکی راز فروخت کرنے اور دشمنوں کے ساتھ ملنے کی ترغیب دیتے ہیں؟
اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جو افسران حاضر سروس ہیں وہ ملک و ملت سے وفادار ہیں؟ کیا فورسز میں وفاداری جانچنے اور اسکریننگ کا کوئی باقاعدہ سسٹم موجود ہے؟
اگر کسی کو یہ تکلیف ہورہی ہے کہ سویلیئنز فوج کے بارے میں ایسے سوالات نہیں کر سکتے، ان کو بتاتا چلوں کہ فوج کا ادارہ سویلیئنز ہی کے پیسوں سے چلتا ہے۔ فوج اصولاً عوام کی خادم ہے اور اس بات کی مجاز ہے کہ سویلیئنز کے سنجیدہ سوالات کے جواب دے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ان کی امت کا فتنہ مال ہے۔ اور اس بارے میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ سوال کیا جاسکتا ہے کیا یہ فتنہ فوج کے صرف اکا دکا افسران کو ہی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے یا اس سے کوئی بھی کسی بھی وقت متاثر ہو سکتا ہے؟
فوج کی کرپشن کی بہت داستانیں عوامی حلقوں میں گردش کرتی ہیں، لیکن ان کو سرکاری سطح پر اتنا پوشیدہ رکھا جاتا ہے کہ عام آدمی کو یقین دلایا جاسکے کہ یہ ادارہ مقدس گائے ہے اور اسے پورا اختیار ہے کہ سیاست دانوں میں حب الوطنی اور وفاداری و غداری کی اسناد تقسیم کرے۔
باچا خان غدار، عبدالولی خان غدار، اسفندیار ولی غدار، نواز شریف غدار، بھٹو غدار، بے نظیر غدار، پی ٹی ایم والے غدار۔۔۔مگر ایڈمرل منصورالحق جو آگسٹا آبدوز کھا گئے وہ وفادار؟
جس ملک کا نیول چیف اسلحے کی خریداری میں گھپلا کر کے بے تحاشہ مال بنا سکتا ہے اور پھر مال بٹور کر امریکہ فرار ہو سکتا ہے، کیا وہاں کا آرمی چیف اور ایئر چیف لازمی ہے کہ فرشتہ ہو؟
نیول چیف اگر آبدوزوں کی خریداری میں کرپشن کر سکتا ہے تو کیا وہ جاوید اقبال اعوان اور راجہ رضوان کی طرح حساس معلومات فروخت کرکے مزید پیسہ نہیں بنا سکتا؟
جو آرمی چیف آئین پاکستان اور اپنے حلف سے روگردانی کر کے، مملکت پاکستان پر قابض ہوسکتا ہے کیا وہ شراب کے نشے اور تحفے میں دی گئی لڑکی کے خمار میں امریکی سی آئی اے کو حساس معلومات فراہم نہیں کر سکتا؟
کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ دہشت گردی کے نام پر جنگ میں 60 ہزار پاکستانی سویلیئنز مار دیے گئے؟
کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ پاک فضائیہ اور بحریہ کے اڈوں پر کامیاب دہشت گرد حملے ہوئے؟
اور کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ پاکستان کے جنرل ہیڈ کوارٹرز پر کامیاب دہشت گرد حملہ ہوا، جب کہ دشمن ملک ہندوستان کے آرمی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکا؟؟؟
آج تک ثابت نہیں ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو یا نواز شریف نے حساس معلومات کسی دوست یا دشمن ملک کو فراہم کیں، جبکہ سیاسی وزیراعظم مکمل طور پرفوج کی انٹیلی جنس کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ اس کی ٹیلیفون کالز ریکارڈ ہوتی ہیں، ای میلز تک ایجنسیوں کی رسائی ہوتی ہے، شاید بیڈ رومز میں بھی کیمرے یا آڈیو ریکارڈنگ ڈیوائسز لگے ہوتے ہیں۔
جس جاں فشانی اور مستعدی کے ساتھ فوج، سیاست دانوں کی جاسوسی کرتی ہے اور ان کے بیڈرومز میں گھس کر ممکنہ غداری سے باخبر رہنے کے لیے تگ و دو کرتی ہے، اگر ایسی ہی جاں فشانی اپنے پیٹی بند بھائیوں کے کرتوت جاننے، اور ان کی مشکوک سرگرمیوں کا کھوج لگانے میں صرف کرے، تو شاید پاکستان عظیم نقصانات سے بچ جائے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ غدار اور بکاؤ مال افسران صرف پاکستان کی افواج میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کی ہر فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں موجود ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی افواج میں غداری کی اصل وجوہات پر سے صرف نظر کیا گیا ہے۔
آپ فوج کو ڈی ایچ اے، زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے، عسکری بنک اور شادی ہال جیسے کاروبار سے الگ کریں، فوج کو سیاست دانوں کی جاسوسی اور سیاست میں ٹانگ گھسیڑنے سے باز رکھیں، فوج اپنے کام پر توجہ دے، عدلیہ اور دیگر اداروں میں اپنی ناک نہ گھسائے، اور فوجی افسران کو بے جا عیاشی اور ضرورت سے زیادہ سہولیات سے محفوظ رکھا جائے تو فوج میں عموماً وہی لوگ جائیں گے جو ملک و ملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں نہ کہ وہ جو مال بٹورنے اور دنیا کی زندگی سنوارنے کے لیے جاتے ہیں۔