ایک انسان جو نتھیا گلی میں جا کر بندروں کے ساتھ ہفتوں ہفتوں پکنک منا سکتا ہے لیکن اس کے پاس کیلیفورنیا کی عدالت جا کر اپنے کردار پر لگے داغ کو دھونے کا وقت نہیں اور وہ دو قطرے خوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نہیں دے سکتا تا کہ اس کے کردار کی شفافیت پوری دنیا کے سامنے آ جاۓ اور بد کرداری جیسا دھبہ دھل جاۓ اس کو یہ بات کیوں گوارا نہیں . ایسا شخص جس نے بغیر نکاح کے اولاد پیدا کی ہو اس کو ہمارے معاشرے میں بد کردار ہی تصور کیا جاتا ہے . ایسے شخص کو اسلام فلاحی ریاست میں کیا سزا دینی چاہئیے اور کیا خدا بھی ایسے شخص کو اپنا مومن یا والی تصور کر سکتا ہے
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں کے لوگ جنسی تعلقات اور خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات کے بارے بہت احساس ہیں اگر کوئی بھی شخص بد کاری کرتا پکڑا جاۓ تو اس کا منہ کالا کر کے پورے علاقے میں پھرایا جاتا ہے اور اس اسے علاقے سے نکال دیا جاتا ہے . پاکستان کے آئین و قانون میں زنا بلرضا اور زنا بالجبر دونو ہی قابل سزا جرم ہیں خطبہ جمعہ تلوادع میں بھی حضور نبی پاک [FONT="]حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[/FONT]
نے خاص طور پر زنا کی سزا سنگساری ٹھرای تھی .
ایسا شخص جس کے ایس بد اعمالوں کے گواہ کثیر تعداد میں موجود ہوں کیا اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجاۓ تخت کی کرسی پر بٹھا دینا چاہئیے ایسا زانی شخص جسے لوگ کونسلر بھی منتخب نہ کریں کیا وزارت اعظمیٰ کے قابل ہو سکتا ہے
یہ الگ بات ہے کہ نام نہاد میڈیا اور سوشل میڈیا پر عمران خان کے بے شمار وفادار اس کے مخالفوں کو کاٹنے کے لیے بیٹھے ہوے ہیں اور کے پی کے میں اس کی کرپشن اور لوٹ مار سامنے آ جانے کے باوجود اسے گناہگار ماننے کو تیار نہیں لیکن کیا
کردار کے اعتبار سے گللائی اور عمران کا کوئی موازنہ ہو سکتا ہے . ایک عورت جس کا ماضی بے داغ ہے نہ کوئی مرد دوست نہ کوئی کہانی دوسرا وہ مرد جس کی کہانیوں پر کتابیں لکھی جا چکی اور عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں . آج ہمارے معاشرے کے کچھ گمراہ لوگ عمران خان کے سیاسی بوجھ تلے دب کر اس کی بد کرداریوں سے نظر چرا کر ایک با کردار عورت کو بدنام کرنے پر لگ گۓ ہیں
اور اس کی تفتیش کی بجاۓ گللائی اور اس کے والد پر الزامات لگانے لگ گۓ ہیں ان میں ہمت ہے کہ عمران خان سے بھی وہ ہی ثبوت مانگیں جو گللائی سے مانگے . عمران خان سے بھی اسی لہجے میں بات کریں جس میں گللائی سے بات کرتے ہیں افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری قوم ایک سیاسی قد و کاٹھ کے نااہل بد کردار شخص کو ایک با کردار عورت پر تجیح دے رہی ہے چاہے اس کا قد جتنا مرضی بڑا وہ جتنا مرضی بڑا مسی�*ا بن جاۓ لیکن جب تک وہ عدالت کا فیصلہ واپس نہیں کرواتا اور اپنا موبائل چیک نہیں کرواتا وہ بد کردار ہی رہے گا
اس کی جیت ہماری قوم کی اجتماعی اخلاقی موت تو ہو سکتی ہے لیکن اسی با کردار ثابت نہیں کر سکتی . جن لوگوں نے بھی بد کردار کی �*مایت کا کردار ادا کیا ہے انہوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بد کرداری کا رستہ ہی چنا ہے ایسے لوگوں پر الله اور رسول کی لعنت ہی ہو سکتی ہے
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں کے لوگ جنسی تعلقات اور خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات کے بارے بہت احساس ہیں اگر کوئی بھی شخص بد کاری کرتا پکڑا جاۓ تو اس کا منہ کالا کر کے پورے علاقے میں پھرایا جاتا ہے اور اس اسے علاقے سے نکال دیا جاتا ہے . پاکستان کے آئین و قانون میں زنا بلرضا اور زنا بالجبر دونو ہی قابل سزا جرم ہیں خطبہ جمعہ تلوادع میں بھی حضور نبی پاک [FONT="]حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[/FONT]
نے خاص طور پر زنا کی سزا سنگساری ٹھرای تھی .
ایسا شخص جس کے ایس بد اعمالوں کے گواہ کثیر تعداد میں موجود ہوں کیا اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجاۓ تخت کی کرسی پر بٹھا دینا چاہئیے ایسا زانی شخص جسے لوگ کونسلر بھی منتخب نہ کریں کیا وزارت اعظمیٰ کے قابل ہو سکتا ہے
یہ الگ بات ہے کہ نام نہاد میڈیا اور سوشل میڈیا پر عمران خان کے بے شمار وفادار اس کے مخالفوں کو کاٹنے کے لیے بیٹھے ہوے ہیں اور کے پی کے میں اس کی کرپشن اور لوٹ مار سامنے آ جانے کے باوجود اسے گناہگار ماننے کو تیار نہیں لیکن کیا
کردار کے اعتبار سے گللائی اور عمران کا کوئی موازنہ ہو سکتا ہے . ایک عورت جس کا ماضی بے داغ ہے نہ کوئی مرد دوست نہ کوئی کہانی دوسرا وہ مرد جس کی کہانیوں پر کتابیں لکھی جا چکی اور عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں . آج ہمارے معاشرے کے کچھ گمراہ لوگ عمران خان کے سیاسی بوجھ تلے دب کر اس کی بد کرداریوں سے نظر چرا کر ایک با کردار عورت کو بدنام کرنے پر لگ گۓ ہیں
اور اس کی تفتیش کی بجاۓ گللائی اور اس کے والد پر الزامات لگانے لگ گۓ ہیں ان میں ہمت ہے کہ عمران خان سے بھی وہ ہی ثبوت مانگیں جو گللائی سے مانگے . عمران خان سے بھی اسی لہجے میں بات کریں جس میں گللائی سے بات کرتے ہیں افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری قوم ایک سیاسی قد و کاٹھ کے نااہل بد کردار شخص کو ایک با کردار عورت پر تجیح دے رہی ہے چاہے اس کا قد جتنا مرضی بڑا وہ جتنا مرضی بڑا مسی�*ا بن جاۓ لیکن جب تک وہ عدالت کا فیصلہ واپس نہیں کرواتا اور اپنا موبائل چیک نہیں کرواتا وہ بد کردار ہی رہے گا
اس کی جیت ہماری قوم کی اجتماعی اخلاقی موت تو ہو سکتی ہے لیکن اسی با کردار ثابت نہیں کر سکتی . جن لوگوں نے بھی بد کردار کی �*مایت کا کردار ادا کیا ہے انہوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بد کرداری کا رستہ ہی چنا ہے ایسے لوگوں پر الله اور رسول کی لعنت ہی ہو سکتی ہے