کیا عالمی منڈی میں پاکستان چاول کی برآمد کا سنہری موقع گنوا چکا ہے؟

13pakistanrcekjskjdjd.png

پاکستان سے چاول برآمد کرنے والے تاجروں کو گزشتہ برس بھارت کی طرف سے اپنے چاول عالمی منڈی سے ہٹانے کے منصوبہ پر سنہری موقع ملا، بھارتی کسانوں نے چاول کی برآمد پر پابندی کے باعث نریندر مودی پر تنقید کی۔

خبررساں ادارے پرافٹ کی طرف سے اس حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی اپنے اسی فیصلے کے باعث الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور چاولوں کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی مہم کے دوران ہی نریندر مودی نے باسمتی چاول کو چھوڑ کر تمام اقسام کے چاولوں کی برآمد پر پابندی عائد کر دی۔ بھارتی حکومت نے محسوس کیا کہ چاول برآمد کرنے والے تاجر لالچی ہیں اور بہتر قیمت پر عالمی مارکیٹ میں فروخت کرنا چاہتے ہیں جس پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔

بھارت کے چاول برآمد کرنے پر پابندی پاکستان کیلئے چاول کیلئے دوسری ملکوں پر انحصار کرنے والے ملکوں میں اپنی جگہ بنانے کا سنہری موقع تھا تاہم بھارتی حکومت نے اب کہا ہے کہ وہ باسمتی چاول کی برآمدات کیلئے فلور پرائس میں کمی کریں گے۔ بھارت غیرملکی شپمنٹ پر مقررہ ڈیوٹی عائد کر کے باسمتی چاول کی برآمدات پر 20 فیصد تک ایکسپورٹ ٹیکس نافذ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

بھارت دنیا میں سفید چاول کا سب سے بڑا برآمدکنندہ ہے جو بین الاقوامی مارکیٹ کا 40 فیصد کنٹرول کرتا ہے اور مختلف اقسام کے چاول فراہم کرتا ہے، 2022ء میں دنیا بھر میں 22 ملین ٹن سے زیادہ چاول برآمد کر چکا ہے۔ گزشتہ برس بھارت نے مہنگی وخوشبودار باسمتی قسم کے علاوہ ہر طرح کے چاول کی برآمد پر پابندی عائد کی جس کی وجہ ملک میں غذائی افراط زر کے بحران اور بڑھتی قیمتیں قرار دیا گیا تھا۔

ایک طرف روس یوکرین جنگ کے باعث خوراک کا بحران بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف چاول کی اس بڑی کمی کو پورا کیسے کیا جائیگا؟ یہ سوال چاول درآمد کرنے والے ملکوں کے سامنے کھڑا ہے۔ بھارتی چاول کی برآمد پر پابندی سے امریکہ ودیگر ملکوں میں بھارتی چاول پر انحصار کرنے والی سپرمارکیٹیں خوف وہراس کا شکار ہوئیں۔

چاول برآمد کرنے والے دوسرے ملکوں کی طرف سے بھی ایسی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں جو پاکستانی برآمدکنندگان کیلئے سنہری موقع ہے کیونکہ پاکستان چاول برآمد کرنے والے ملکوں میں چوتھے نمبر پرموجود ہے۔ بھارت کے بعد تھائی لینڈ دوسرے، ویتنام تیسرے نمبر پر ہے، 2002ء میں پاکستان میں چاول کی پیداوار 5.5 ملین ٹن سے زائد اور مجموعی برآمد 3.5 ملین ٹن کے قریب تھی۔

چاول کے بنیادوں خریداروں میں نائجیریا، فلپائن اور چین شامل ہیں جبکہ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا جیسے ملکوں کو سوئنگ خریدار پکارا جاتا ہے جو کم پیداوار پر درآمدات میں بڑھاتے ہیں۔ چاول براعظم افریقہ میں پاناما اور کیوبا جیسے ملکوں میں خوراک کا اہم ذریعہ ہے، بھارت نے گزشتہ برس 140 ملکوں میں 22 ملین ٹن چاول برآمد کیا تھا جس میں سستے انڈیکا سفید چاول 6 ملین ٹن کے قریب تھے۔

چاول کی بین الاقوامی تجارت کا تخمینہ 56 ملین ٹن کے قریب لگایا گیا ہے بھارتی پابندی کے بعد چاول کے بڑے برآمدکنندگان جن میں پاکستان شامل ہے اس بحران میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت اس پر کوئی کردار ادا کر سکے گی؟ رائس ایکسپورٹر ایسوسی ایشن پاکستان (ریپ) کے عہدیدار کے مطابق پاکستان 4.5ملین میں سے صرف 0.5ٹن چاول برآمد کر سکتا ہے۔

پاکستان میں غذائی اجناس کی قیمتیں زیادہ ہونے کے باعث چاول کی برآمد میں حکومت دلچسپی نہیں لے گی کیونکہ اس سے مقامی سطح پر چاول کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گے۔ پاکستان کی گزشتہ مالی سال میں چاول کی برآمدات 5.8 ملین ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے جس کی وجہ چاول کی برآمد پر بھارتی پابندی اور ملک میں سازگار موسم، زرعی اجناس کی وافر دستیابی ہے۔

ادارہ شمارت پاکستان کے مطابق گزشتہ مالی سال جولائی تا اپریل 2024ء تک چاول کی برآمدات 50 لاکھ ٹن سے زیادہ تھیں جس سے 3.4ڈالر آمدن ہوئی اور گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 1.8 ارب ڈالر مالیتی 32 لاکھ ٹن برآمدات ہوئیں۔ پاکستان کی باسمتی چاول کی برآمدات میں 24 فیصد، غیرباسمتی چاول کی برآمدات میں 32 فیصد اضافہ ہوا جس نے بھارتی پابندی کے باعث پیدا قلت ختم کی۔

پاکستان سے برآمد باسمتی چاول کی برآمد قیمت 1141 ڈالر فی ٹن اور غیرباسمتی چاول کی 574 ڈالر فی ٹن تھی، بھارتی غیرباسمتی چاول کی برآمدات 10 لاکھ ٹن سے بھی کم ہوئیں جو گزشتہ برس 16.4 ملین ٹن تھیں۔ اپریل 2023ء سے مارچ 2024ء میں پاکستانی باسمتی چاول کی برآمدات 0.73ملین ٹن تھیں جو بھارتی برآمدات کا 14 فیصد ہے لیکن فی ٹن آمدن 1137 ڈالر تھی جو بھارتی قیمت سے 3 فیصد زائد ہے۔

بھارتی تاجروں نے یہ فیصلہ تجارتی کے بجائے سیاسی قرار دیا تھا جس کے بعد اب اطلاعات ہیں کہ بھارت یہ پابندی ہٹانے والا ہے اور وہ پھر سے چاول کے سرفہرست برآمدکنندہ کی پوزیشن حاصل کر لے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے انتخابی نتائج پر اس پابندی کا اثر پڑا اور غور کیا جا رہا ہے کہ درآمدات کا سہارا اور برآمدات پابندیوں کے بغیر غذائی افراط زر کیسے کنٹرول کرے؟

ماہرین کے مطابق نریندر مودی کیلئے کم سے کم 2 اشیائے ضروریہ پر برآمدی پابندیاں نرم کرنا ضروری ہے، بھارتی حکومت نے موسم گرماں میں پیدا ہونے والی فصلوں کی امداد قیمتوں میں اضافے کا بھی اعلان کیا ہے تاہم اس سے کسانوں کے مطمئن ہونے کا امکان نہیں۔ چاول برآمد کرنے پر بھارتی پابندی ختم ہونے پر کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو ملنے والا موقع عارضی تھا بھارت دوبارہ سرفہرست ہو گا۔

پاکستان کی چاول کی مجموعی پیداوار گزشتہ برس صرف 5.5 ملین ٹن تھی جس کی بڑی وجہ 2021ء میں سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والا نقصان تھا جس سے کسانوں کے کھیت پانی سے بھرےرہے۔ پاکستانی چاول کا شعبہ برآمدی آمدنی، غربت میں کمی، دیہی ترقی وگھریلو روزگار کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے کیونکہ پاکستان میں چاول اہم غذا کے ساتھ نقدآور فصل بھی ہے۔

چاول زراعت میں شامل ویلیو ایڈڈ کا 3.0فیصد، جی ڈی پی کا 0.6فیصد اور گندم کے بعد دوسری اہم فصل ہے، 2018-19ء میں چاول کی فصل کے رقبہ میں 3.1 فیصد کمی دیکھی گئی تھی۔ پاکستان کو کسی بھی طویل مدتی تبدیلی کیلئے اپنے زرعی نظام میں اہم ترامیم کرنی پڑیں گے، رواں برس چاول برآمد کرنے کیلئے نئی منڈیاں تلاش کرنے کا سنہری موقع ہو سکتا تھا تاہم پاکستان صرف سٹاپ گیپ ہی حل کر پائے گا۔

پرافٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان باسمتی چاول کے شعبہ میں مسابقتی برتری کھو چکا ہے، 2006ء میں اس کی مجموعی برآمد 46 فیصد کم ہو کر 2017ء میں 10 فیصد سے بھی کم ہو گئی جس کا بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کے مقابلے میں اس عرصے میں بھارت کو ترجیح حاصل ہونے میں مضبوط تکنیکی جدت، باسمتی چاول کی پیداواری ترقی اور اعلیٰ ان سبسڈی کے باعث پیداواری لاگت میں کمی بتائی گئی ہے۔
 

kayawish

Chief Minister (5k+ posts)
Pakistan tu khud booka nanga hai tu chawal kese export karay ga ? apne logon ke kanay ke wande hai aur pakistan chawal export kaaray ga 😂
 

Back
Top