آج کل تبلیغ کے نام پر الیاس ازم کو فروغ دیا جارہا ہے، اپنے آپ کو تبلیغی کہنے والے دراصل الیاسی ہیں۔ ان الیاسیوں کا اصل کام دین کی تعلیمات کو مسخ کرنا، بلاسند من گھڑت احادیث پیش کرنا، قرآن کی آیات جس ضمن میں نازل کی گئی ہیں، اس سے ہٹ کر اس کی تاویل کرنا۔
اس فورم پر ایک مفتی صاحب کی تقریر پیش کی جارہی ہے، جو دراصل ط ج کی اس حرکت کے دفاع میں جس میں اس نے اسلام کے احکام پردہ کا برسرعام مذاق اڑایا ہے۔ اب کہا جارہا کہ عورت اپنے شوہر کے ہمراہ، بے پردہ ہوکر مولوی کے سامنے پیش ہوسکتی ہے۔
یہاں میں یاد دہانی کروادوں کہ حضرت عائشہ اپنے شوہر کی موجودگی میں ہی ایک نابینا صحابی کے سامنے آئیں تھیں جس پر، آنحضرت ص نے، ان کو منع کیا تھا۔
سورة النور آیت۳۰ میں فرمایاگیا: ” اے نبی ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں “۔
نگاہوں کی حفاظت کا حکم گھرسے باہر بھی ہے تاکہ نامحرموں پر نگاہ نہ پڑے ۔ گھر کے اندر اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ محرم خواتین پر بھی نگاہ نہ ڈالی جائے۔ بلاشبہ محرم خواتین کے ساتھ ایک تقدس کا رشتہ ہے لیکن بہر حال بحیثیت جنسِ مخالف ہونے کے‘ مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لئے کشش ہے اور نگاہوں کی بے احتیاطی فتنہ کا سبب بن سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بدنظری ہی بدکاری کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے اس آیت میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو حفاظتِ فرج کے حکم پر مقدم رکھا گیا ہے۔
اسلام کے ان واضح احکام پردہ کی روشی میں، آپ ط ج کا فوٹو دیکھیں وہ کس دلچسپی سے نظروں میں نظریں ڈال کر دیکھ رہا ہے۔ جس سے اس کی فطرت کا ٹھرک پن جھلک رہا ہے۔
بجائے اپنی اس حرکت پر توبہ کرنے کے اس کاجواز نکالا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ عورت مولوی کے سامنے بےپردہ ہوسکتی ہے، کبھی شیعہ خواتین کی فوٹو شائع کی جارہی ہے کچھ بھروسہ نہیں کہ الیاسی لوگ ---
سورة الاحزاب کی آیت ۵۳ میں مردوں کو ہد ا یت کی گئی ہے کہ :’ اور جب تمہیں نبی اکرم کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو“۔
گویا ایک مرد کے لئے جائز ہی نہیں کہ بلا ضرورت کسی اجنبی عورت سے بات کرے۔ البتہ اگر اجنبی عورت سے کوئی کام ہو تو بھی روبرو ہو کر بات کرنے کی اجازت نہیں۔ تصور کیجئے کہ یہ حکم امت کی ماوں کے لئے ہے جن کے ساتھ ایک مسلمان کا رشتہ اپنی حقیقی ماں کی طرح پاکیزہ اور متبرک ہے تو عام مسلم خواتین کے ساتھ بغیر پردے کے بات چیت یا لین دین کرنے کی اجازت کس طرح ہوسکتی ہے ؟ اسی لئے شریعتِ اسلامی میں اجنبی عورت کے ساتھ بلا ضرورت گفتگو کے تدارک کے لئے اس کے ساتھ خلوت میں موجودگی ہی کی ممانعت کر دی گئی ہے۔
آپ اگر مسلمان ہیں تو قرآن سے ہدایت لیں، رونگ نمبر ملا کی حمایت میں اتنا آگے نہ نکل جائیں، احکام پردہ کو نظر انداز کردیں، عذر گناہ بدتر ازگناہ کی مثال بن جا کی البم دکھا کر ، ط ج کی حرکات کو جواز نکالنا شروع
اگر میں مولوی کے سامنے بے پردہ ہونے خلاف لکھ رہا ہوں تو صرف اس لئے کہ دنیا جان لے کے اسلام کے طرز معاشرت کے خلاف ہے۔ فاحشائی میں صرف اور صرف تباہی و بربادی ہےاور جس کے متعلق رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تباہی فرمادی ہے وہ کبھی بھی فائدہ بخش نہیں ہوسکتی ۔انسان نگاہوں کو لذت وسرور دینے کے لئے آوارہ چھوڑ دیتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ اس آوارگی کا عذاب کل بروز قیامت کتنا سخت ہوگا ،نگاہ بد زنا کا دروازہ ہے ۔اگر کسی انسان کی نگاہیں آوارہ ہوتی ہیں تو جسم آوارہ بن کر اس فعل قبیح کا مرتکب ہوجاتا ہے ،نگاہوں کی حفاظت کے سلسلہ میں اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایاکہ:
”قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذالک ازکیٰ لھم ان اللہ خبیربما یصنعون (النور3)
مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں ،اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ،یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بے شک اللہ عزوجل کو ان کے کاموں کی خبر ہے ۔
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار کائنات ا نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے علی !کسی اجنبی عورت پر اچانک نگاہ پڑجائے تو نظر پھیر لو ۔ دوسری نگاہ اس پر نہ ڈالو۔پہلی نگاہ تو معاف ہے لیکن دوسری نگاہ پر مواخذہ ہوگا ۔اندازہ لگائیے! رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصدا عورتوں کو دیکھنے پر مواخذہ فرما کر واضح فرمادیا کہ اللہ عزوجل کی عطا کردہ نعمت آنکھ کا بے جا استعمال نہ کرو ورنہ آنکھ کا مالک اس کے بے جا استعمال پر مواخذہ فرمائے گا تو کیا جواب دوگے لہذا اپنی آخرت کو برباد کرنے سے بچو ! اور ایک دوسری روایت میں ہے حضرت جریر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ا جنبیہ عورت پر نگاہ پڑ جانے کے بارے میں تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو سرکار رحمت عالم ا نے ارشاد فرمایا کہ نگاہ پھیر لو ۔ ( مسلم شریف )ہوجائیں۔