Arslan
Moderator

جنابِ نواز شریف اور جنابِ شہباز شریف وطن لوٹے، تو، ہم نے محترمی و مکرمی جنابِ مجید نظامی کی خدمتِ اقدس میں ایک محضرِ تشکر روانہ کیا! اس میں ہم نے اُنہیں شریف برادران کی واپسی پر مبارک باد عرض کرتے ہوئے اس امر پر گہرے تشکر کا اظہار کیا کہ اُنہوں نے اپنی مطبوعات کے سلسلے کے وسیلے سے شریف برادران کی جلاوطنی کے زمانے میں اُن کا نام ہر گھڑی عوام کے دِلوں و دماغ میں ترو تازہ اور زندہ تر رکھا! اور ہم نے اس خط میں یہ توقع بھی ظاہر کی کہ شریف برادران جنابِ مجید نظامی کا یہ رویہَّ کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے!
یہ خط کافی طویل تھا! اور اس میں اُن لوگوں کے نام بھی شامل تھے، جنہوں نے نوائے وقت کے صفحات پر جنابِ نوازشریف اور جنابِ شہباز شریف کی عام انتخابات 2008سے قبل وطن واپسی اور انتخابات میں عملی شرکت پر زور دیا تھا!
اگر کالم نگار کی پشت پرمدیر کا دستِ جرات آموز دستک نہ دے رہا ہو،تو،کالم نگار جو جی میں آئے لکھ لے! اور اپنی ہی کسی ذاتی فائل میں لگا لے!اُسے اخبار کی فائل کا حصہ صرف ایک جری مدیر ہی بنا سکتا ہے!
نوائے وقت کے کالم نگار ، جنابِ عرفان صدیقی سے ہماری ارادت کا بنیادی سبب ہی شریف برادری سے ہماری دل بستگی تھی! وہ صدر تارڑ کی سیکرٹری شپ سے علیحدہ ہو کر نوائے وقت بھی آئے اور کالمسٹ بن گئے۔ اس کا اعتراف وہ خود بھی فرماتے ہیں۔ جنابِ عطاءالحق قاسمی بھی اُن دِنوں اپنی محبت کا راگ نوائے وقت کے صفحات پر ہی الاپا کرتے تھے! لیکن حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچا لی گئی کہ جنابِ پرویز مشرف کے آٹھ برس کے اقتدار کے دوران جنابِ نواز شریف کا نامِ نامی صرف جنابِ عطاءالحق قاسمی کے اسمِ گرامی کے طفیل زندہ رہ پایا! اگر جنابِ عطاءالحق قاسمی نواز شریف کا ساتھ نہ دیتے ،تو، شاید آٹھ سال کے دوران جنابِ نواز شریف کے اکلوتے نام لیواجنابِ عطاءالحق قاسمی بھی کسی کے ذہن میں زندہ نہ رہ پاتے!
ہم جب کبھی اُن کی زبانی ایسے دعوے سننے کی حماقت کرتے،تو، دِل ہی دِل میں اُن کی بڑائی پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے! کہ اُس زمانے میں بھی اُصولی موقف رکھنے والے کالم نگاروں اور کالم کاروں کی کوئی کمی نہ تھی! اور ٹی وی چینل اپنی ریٹنگ ٹھیک رکھنے کے لیے جنابِ نواز شریف اور جنابِ شہباز شریف کے لیے تھوڑا بہت وقت مخصوص کیے رکھنے پر مجبور ہو چکے تھے! کیونکہ وہ بھی یہ کریڈٹ اکیلے نوائے وقت کے لیے چھوڑ دینے پر تیار نہیں تھے!
آج ایک بار پھر عام انتخابات کا غلغلہ بلند ہے! جنابِ نواز شریف اور اُن کے برادرِ خورد جنابِ شہباز شریف اُن کی ٹیم کے ایک رُکن کی حیثیت سے کارفرما ہیں! مگر حقیقت یہ ہے کہ لوگ ٹکٹیں طلب کرنے کے لیے بھی جنابِ عطاءالحق قاسمی کا سہارا لیتے دکھائی دے رہے ہیں! ہمیں اُن کی کوتاہ دستی پر رشک آتا ہے کہ یہ بے چارے نارائن کی تلاش میں چیونٹی کے گھر آنکلے ہیں!
جنابِ عطاءالحق قاسمی پہلے شاعر بنے! پھر سفرنامہ نگار! پھر ڈرامہ نگار! پھر سفیر مگر، وہ اِن تمام حیثیتوں میں بھی بطور کالم نگار ہی پہچانے گئے! حیران کن بات یہ ہے کہ اب سیاسی سوجھ بوجھ کے اظہار میں بھی اپنی شگفتہ مزاجی کے سبب ہی مقام پا رہے ہیں! اگر کسی محفل میںکوئی سنجیدہ بحث جاری ہو! اور جنابِ عطاءالحق قاسمی خاموش بیٹھے ہوں،تو، اہلِ زر اُنہیں کچھ نہ کچھ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں! اور پھر اُن کی بات سن کر کئی دن تک ہنستے رہتے ہیں! حتیٰ کہ پھر کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سامنے آ جاتا ہے کہ یاروں کو ایک بار پھر سرجوڑ کر بیٹھنا پڑ جاتا ہے! ایسے مواقع پر اُنہیں مدعو کیا جانا کبھی نہیں بھولا جا تا! کیونکہ یار لوگ اس بھولے بادشاہ کی باتیں سن کر اِتنا ہنستے ہیں کہ ہنستے ہنستے اُن کے آنسو نکل آتے ہیں!
ہم بھی اُن کی باتوں پر ہنستے ہنستے رو پڑنے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں! اور آج اُن کے زیرِ اہتمام جاری سیمینار میں سجے سجائے صدارتی فورم اور پہلی صف میں بیٹھے شرکا کے سوا پورا ہال خالی دیکھ کر پہلے،تو، ہمارے آنسو ، ہماری پلکیں چھوڑ گئے! اور اُس کے بعد ہمارے قہقہے ہمارے ہونٹوں کا ساتھ چھوڑ گئے! ہم نے ایسا شان دار منتظم آج تک نہیں دیکھا!
اس وقت فیس بُک پر کسی نابکار نے ایک ایسا لطیفہ اُن کے نام کے ساتھ جوڑ دیا ہے کہ اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد ناموں کے ساتھ ٹیگ ہو چکا ہے! ابھی،تو، شام کا غلغلہ بلند ہوا ہے! ابھی مہتاب اور زحل کا 20ٹوئنٹی میچ شروع ہونا باقی ہے! ستارئہ سحری زہرہ کے نمودار ہونے تک کتنے گل اور کھل چکے ہوں گے، جنہیں یار لوگ کھلتے ہی چُن لیں گے! اور دوستوں کے کالروں پر سجانے آگے بڑھ چکے ہوں گے
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/14-Oct-2012/134607