Zafar Bukhari
Politcal Worker (100+ posts)
کچھ بھی تو نہیں بدلا!
حتیّ کہ ہماری نام نہاد قیادت کے بیانات تک نہیں بدلے۔وزیرِاعظم فرماتے ہیں ـدہشت گرد وں کی آخری باقیات ہیں ،وزیرِدفاع کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے ثمرات پہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا جبکہ آرمی چیف نے اور فوج کے ابلاغ عامہ کے تر جمان نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ پاکستانیوں کے خون کے ہر قطرے کا حساب لیا جائے گا ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پوری قوم کو پْر سکون رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔
ان بیانات میں سے کوئی ایک بیان بھی نیا نہیں ہے یہاں تک کہ الفاظ بھی کم و بیش وہی ہیں جو لاہور میں ہونے والے دھماکے کے بعد تھے۔مگر مجھ جیسے عام پاکستانیوں کے اذہان میں ایک ہی سوال ہے کہ اگر یہ سب رہنما اپنے بیانات کی طرح ہی مخلص ہیں تو پھر ہم لوگ ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود عرب امارات اور کویت جیسے ممالک کی دھمکیاں کیوں برداشت کرتے ہیں؟ہماری حکومت اور فوج کی وہ کون کون سی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے ہم گالیاں بکنے اور سرِعام ملک توڑنے کی کوشش کرنے والے افغانیوں کو واپس نہیں بھیج سکتے؟
ہماری وہ کون سی کمزوری ہے جس کی بناء پہ افغانستان کا صدر ہماری امداد تک قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ الٹا ہمارے خلاف تضحیک آمیز لہجہ اختیار کرتا ہے؟آدھے سے زیادہ بم دھماکوں کے تانے بانے بیرونِ ملک ملنے کے باوجود ہمارے سیاسی رہنما بیانات پہ ہی کیوں اکتفا کرتے ہیں؟ ٹی وی پہ اس ملک کا مذاق بنانے والے،اپنی صحافتی دکان چمکانے والے اور بیرونی ایجنڈے کو دانستہ یا نا دانستہ فروغ دینے والے غدار لوگ دانشور کیوں کہلاتے ہیں؟اور ہمارے محبِ وطنجرنیل ہر بڑی دہشت گرد کاروائی کے بعد بجائے سرحد پار موجود درندوں کو کیفرِکردار تک پہنچانے اور ان کے ہمدردوں کا خاتمہ کرنے کے گانے کیوں ریلیز کرنا شروع کردیتے ہیں؟
مگر ان سب سوالوں سے بڑا سوال یہ ہے کہ سب سیاستدان اپنی تمام تر نااہلی اور بد طینتی کے باوجود بھاری اکثریت سے کیسے منتخب ہو جاتے ہیں؟ان سب سوالوں کے جواب ہماری اس نااہلی میں موجود ہے جس کے ہم بحیثیتِ مجموعی مرتکب رہے ہیں۔ہم میں سے اکثر اشخاص کے ماتھے پہ جلی حروف میں برائے فروخت کا بورڈ لگا ہوتا ہے اور اب یہی ہمارا قومی رویہ بھی بن چکا ہے۔ہم دس دس لاکھ روپے کے عوض افغانی،ایرانی یا تورانی کسی کو بھی اپنے ملک کی زمین لے کر دیتے ہیں اور پھر فوج سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے ہر سرپرست کو ختم کردے۔
ہم ہزار ہزار روپوں کے عوض افغان باشندوں کو اپنے ملک کی شہریت دلوا دیتے ہیں جبکہ افغانستان جو کہ تین دہائیوں سے جنگ زدہ بھی ہے،وہاں ہم پاکستانی ایک انچ زمین بھی نہیں لے سکتے۔ہم ان سب چہروں سے واقف ہوتے ہیں کہ جو صحافت کے نام پہ ہماری قومی دانش کا مذاق اڑارہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی تماشے کی خاطر سب سے پہلے انہیں کے پروگرام دیکھتے ہیں۔ہم اپنی سول انتظامیہ کو ہر جائز کام بھی رشوت دے کر کرواتے ہیں مگر پھر پولیس کی خرابی کا رونا بھی روتے ہیں۔ہمارے معاشرے کی ایلیٹ کلاس کسی سیکیورتی چیک پوسٹ پہ اپنی شناخت ثابت کرنے کے مطالبے کو تو اپنی توہیں سمجھتی ہے مگر پھر یہ سوال بھی کرتی نظر آتی ہے کہ دہشت گرد جائے وقوعہ تک پہنچ کیسے جاتے ہیں؟
ہم سب کو ہی یہ اندازہ ہے کہ کچھ زیادہ نہیں ہونے والا مگر پھر بھی سیاسی و فوجی قیادت کے بیانات میں تاثیرِمسیحائی کی توقع کرتے رہتے ہیں۔ہم یہ جانتے ہیں کہ افغانیوں کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہندوستان سے پہلے ہی افغانی ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں اور ایسا کرتے رہیں گے۔یہ بھی طے ہے کہ افغان قیادت ہربرائی کا ذمہ پاکستان کے سر ڈالے گی۔ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ہمارے برادر خلیجی ممالک پاکستانیوں کو دھکے دے کر اپنے اپنے علاقے سے بے روزگار کرکے نکالتے رہیں گے مگر ہمارے حکمرانوں کو نواز کر پوری قوم کے محسن بنتے رہیں گے۔
مگر ایسا کب تک چلتا رہے گا؟کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ ہم دوست دشمن اور رہنما و رہزن کی تمیز کر سکیں؟کیا ہم بطورِ قوم اس قابل نہیں ہوئے کہ اپنے ملک کو اپنے ذاتی گھر جتنا عزیز رکھ سکیں؟کیا ہم اپنے ملک کو بیچنے سے اجتناب کرسکتے ہیں اور کیا اپنے ملک کو بیچنے والوں کو رسوائی کی دلدل میں دھکیل سکتے ہیں؟
اگر ان چند سوالات میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی اثبات میں ہو تو ہم خوش قسمت ہیں وگرنہ کچھ بھی نہیں بدلےگا!لاشیں گرتی رہیں گی اور الفاظ کے معمولی ہیر پھیر کے ساتھ رہنما بیانات دیتے رہیں گے۔
فوج اسی طرح اعلانات کرتی رہے گی کہ ہیلی کاپٹرعوام کی خدمت کے لئے بھیج دیے کئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد وہ کوئی اچھا سا گانا بھی ریلیز کردیں!
حتیّ کہ ہماری نام نہاد قیادت کے بیانات تک نہیں بدلے۔وزیرِاعظم فرماتے ہیں ـدہشت گرد وں کی آخری باقیات ہیں ،وزیرِدفاع کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے ثمرات پہ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا جبکہ آرمی چیف نے اور فوج کے ابلاغ عامہ کے تر جمان نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ پاکستانیوں کے خون کے ہر قطرے کا حساب لیا جائے گا ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پوری قوم کو پْر سکون رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔
ان بیانات میں سے کوئی ایک بیان بھی نیا نہیں ہے یہاں تک کہ الفاظ بھی کم و بیش وہی ہیں جو لاہور میں ہونے والے دھماکے کے بعد تھے۔مگر مجھ جیسے عام پاکستانیوں کے اذہان میں ایک ہی سوال ہے کہ اگر یہ سب رہنما اپنے بیانات کی طرح ہی مخلص ہیں تو پھر ہم لوگ ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود عرب امارات اور کویت جیسے ممالک کی دھمکیاں کیوں برداشت کرتے ہیں؟ہماری حکومت اور فوج کی وہ کون کون سی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے ہم گالیاں بکنے اور سرِعام ملک توڑنے کی کوشش کرنے والے افغانیوں کو واپس نہیں بھیج سکتے؟
ہماری وہ کون سی کمزوری ہے جس کی بناء پہ افغانستان کا صدر ہماری امداد تک قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ الٹا ہمارے خلاف تضحیک آمیز لہجہ اختیار کرتا ہے؟آدھے سے زیادہ بم دھماکوں کے تانے بانے بیرونِ ملک ملنے کے باوجود ہمارے سیاسی رہنما بیانات پہ ہی کیوں اکتفا کرتے ہیں؟ ٹی وی پہ اس ملک کا مذاق بنانے والے،اپنی صحافتی دکان چمکانے والے اور بیرونی ایجنڈے کو دانستہ یا نا دانستہ فروغ دینے والے غدار لوگ دانشور کیوں کہلاتے ہیں؟اور ہمارے محبِ وطنجرنیل ہر بڑی دہشت گرد کاروائی کے بعد بجائے سرحد پار موجود درندوں کو کیفرِکردار تک پہنچانے اور ان کے ہمدردوں کا خاتمہ کرنے کے گانے کیوں ریلیز کرنا شروع کردیتے ہیں؟
مگر ان سب سوالوں سے بڑا سوال یہ ہے کہ سب سیاستدان اپنی تمام تر نااہلی اور بد طینتی کے باوجود بھاری اکثریت سے کیسے منتخب ہو جاتے ہیں؟ان سب سوالوں کے جواب ہماری اس نااہلی میں موجود ہے جس کے ہم بحیثیتِ مجموعی مرتکب رہے ہیں۔ہم میں سے اکثر اشخاص کے ماتھے پہ جلی حروف میں برائے فروخت کا بورڈ لگا ہوتا ہے اور اب یہی ہمارا قومی رویہ بھی بن چکا ہے۔ہم دس دس لاکھ روپے کے عوض افغانی،ایرانی یا تورانی کسی کو بھی اپنے ملک کی زمین لے کر دیتے ہیں اور پھر فوج سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے ہر سرپرست کو ختم کردے۔
ہم ہزار ہزار روپوں کے عوض افغان باشندوں کو اپنے ملک کی شہریت دلوا دیتے ہیں جبکہ افغانستان جو کہ تین دہائیوں سے جنگ زدہ بھی ہے،وہاں ہم پاکستانی ایک انچ زمین بھی نہیں لے سکتے۔ہم ان سب چہروں سے واقف ہوتے ہیں کہ جو صحافت کے نام پہ ہماری قومی دانش کا مذاق اڑارہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی تماشے کی خاطر سب سے پہلے انہیں کے پروگرام دیکھتے ہیں۔ہم اپنی سول انتظامیہ کو ہر جائز کام بھی رشوت دے کر کرواتے ہیں مگر پھر پولیس کی خرابی کا رونا بھی روتے ہیں۔ہمارے معاشرے کی ایلیٹ کلاس کسی سیکیورتی چیک پوسٹ پہ اپنی شناخت ثابت کرنے کے مطالبے کو تو اپنی توہیں سمجھتی ہے مگر پھر یہ سوال بھی کرتی نظر آتی ہے کہ دہشت گرد جائے وقوعہ تک پہنچ کیسے جاتے ہیں؟
ہم سب کو ہی یہ اندازہ ہے کہ کچھ زیادہ نہیں ہونے والا مگر پھر بھی سیاسی و فوجی قیادت کے بیانات میں تاثیرِمسیحائی کی توقع کرتے رہتے ہیں۔ہم یہ جانتے ہیں کہ افغانیوں کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہندوستان سے پہلے ہی افغانی ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں اور ایسا کرتے رہیں گے۔یہ بھی طے ہے کہ افغان قیادت ہربرائی کا ذمہ پاکستان کے سر ڈالے گی۔ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ہمارے برادر خلیجی ممالک پاکستانیوں کو دھکے دے کر اپنے اپنے علاقے سے بے روزگار کرکے نکالتے رہیں گے مگر ہمارے حکمرانوں کو نواز کر پوری قوم کے محسن بنتے رہیں گے۔
مگر ایسا کب تک چلتا رہے گا؟کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ ہم دوست دشمن اور رہنما و رہزن کی تمیز کر سکیں؟کیا ہم بطورِ قوم اس قابل نہیں ہوئے کہ اپنے ملک کو اپنے ذاتی گھر جتنا عزیز رکھ سکیں؟کیا ہم اپنے ملک کو بیچنے سے اجتناب کرسکتے ہیں اور کیا اپنے ملک کو بیچنے والوں کو رسوائی کی دلدل میں دھکیل سکتے ہیں؟
اگر ان چند سوالات میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی اثبات میں ہو تو ہم خوش قسمت ہیں وگرنہ کچھ بھی نہیں بدلےگا!لاشیں گرتی رہیں گی اور الفاظ کے معمولی ہیر پھیر کے ساتھ رہنما بیانات دیتے رہیں گے۔
فوج اسی طرح اعلانات کرتی رہے گی کہ ہیلی کاپٹرعوام کی خدمت کے لئے بھیج دیے کئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد وہ کوئی اچھا سا گانا بھی ریلیز کردیں!
Last edited by a moderator: