کپتان زبردست حملہ کر رہا ہے لیکن کیا گول کر لے گا؟
وسی بابا
اگے پیچھے اوپر تلے فلاپ جلسے۔ یہ کرامت بھی کپتان پارٹی ہی دکھا سکتی تھی کہ جھنگ جیسے شہر میں بھی اک ناکام جلسی کھڑکا آئے۔ جھنگ میں خیر سے کپتان کی سب سے بڑی حریف پارٹی مسلم لیگ نون کو امیدوار ہی نہیں ملا ۔ جو تھے وہ دوڑ لگا گئے۔
اس کے بعد فیصل آباد پھر شاہدرہ پھر جہلم ۔ کام ہیٹرک سے بھی آگے بڑھ گیا۔ جہلم کے بعد کپتان کی بس ہو گئی اور شیخ صاحب نے شائد خود فرمائش کی دی کہ جاندی کرو۔ پنڈی میں لیاقت باغ کا جلسہ منسوخ ہو گیا۔
الیکشن میں دن رہ گئے ہیں چار ۔ سروے رپورٹوں کو اگ لگی ہوئی ہے سب میں کپتان کو فاتح بتایا جا رہا۔ ان ساری سروے رپورٹوں کی لکھاری کوئی پردہ دار حسینہ ہی ہے۔ ہر سروے میں کے پی سے کپتان کو پچیس سیٹ دلوا رکھی ہیں۔ کسی ایک میں بھی ایک سیٹ کا فرق نہیں۔
ہمارے حساب میں کپتان بارہ سیٹ سے جیت رہا کے پی میں ۔ جب خود ایک ایک سیٹ گنی تو گیارہویں کے بعد بارہویں نہ مل سکی جہاں سے اسے جتوا دیتے۔ سوری کپتان۔
کپتان کو جو کرنا ہے، بلکہ کیا کرنا وزیراعظم بننا ہے۔ شیروانی تیار ہے یہ تب ہی پہن سکے گا جب پنجاب اسے پہنائے گا۔
آپس کی بات ہے کپتان کے ساتھ ذاتی جیلسی کے ساتھ جب پنجاب کی سیٹیں گننی شروع کیں ۔ہم ابھی سو تک ہی پہنچے تھے کہ کتنی سیٹ کپتان کو جتوا بیٹھے۔ پچپن قومی اسمبلی سیٹوں پر کپتان کو واضح برتری حاصل تھی۔ یہ اب ہو نہیں سکتا تھا کہ کپتان کو اپنے ہاتھوں فتح دلوا دیتے اس لیے گنتی ختم کر دی۔
کپتان نے پنجاب میں اپنی گیم بنا لی ہے یا بنی بنائی مل گئی ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ کپتان آگے ہے۔
مسلم لیگ نون کی حالت پتلی ہے۔ مسلم لیگ نون والے اپنی مہم چلا نہیں پا رہے۔ ان کو ٹکٹ دیر سے ملے۔ امیدواروں کو یہ یقین نہیں تھا کہ ٹکٹ ملے گا۔ پارٹی کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ٹکٹ دیا تو رکے گا یا دوڑ جائے گا۔ کافی سارے ٹکٹ واپس کر کے دوڑ بھی گئے۔
ایسے امیدواروں نے اپنی مہم دیر سے شروع کی۔ مہم اگر تیس دن کی ہو تو ان کو بیس ہی دن ملے مہم چلانے کے لیے۔ حکمران پارٹی کے امیدواروں کا ایک مسلہ یہ بھی ہوتا کہ لوگ ان سے ناراض ہوتے ہیں۔
وہ پہلے دو تین ہفتے منت ترلا ہی کرتے رہتے۔ اپنے ووٹروں سپوٹروں کے آگے پگ رکھ کے بہہ جاتے کہ لے تیری مرضی یا سر پر رکھ دے واپس ہمارے، یا اس سے جالے اتار لے پنکھوں کے۔
مسلم لیگ نون کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اپنا ورکر الیکشن کے دن کے لیے بچا لیا ہے۔ اسے ائرپورٹ لے جا کر پولیس سے کٹوایا نہیں ہے۔ الیکشن اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔
مسلم لیگ نون نے ابھی ٹاپ گئر نہیں لگایا۔
اوکاڑہ میں میاں منظور وٹو نے پوری طرح اپنا الیکشن بنا لیا تھا۔ مسلم لیگ نون کے امیدوار معین وٹو دور دور تک مقابلے میں نہیں تھے۔ اب وہ اچانک سرگرم ہوئے ہیں دوبارہ۔ روزانہ کی بنیاد پر نبض دیکھ کر یہ واضح ہوتا جا رہا کہ اس سیٹ پر الیکشن پھنستا جا رہا۔
اوکاڑہ کے ہی ایک حلقے میں کچھ لوگوں کو پکڑ کر ان کی نمائش لگائی ہے مسلم لیگیوں نے ۔ پتہ نہیں کیوں ۔ اس سے بھی الیکشن مہم میں جان پڑتی دکھائی دے رہی،یہ بہادری شائد مہنگی پڑے لیکن ووٹر تو بہادری کو پسند ہی کرتا ہے ، خیر۔
مسلم لیگ نون الیکشن ڈے کو مینیج کرنا جانتی ہے۔ اپنا ووٹر باہر لاتی ہے ورکر کو اس دن کے لیے بچاتی اور چارج کرتی رہتی ہے۔ اس بار ورکروں کو ایک سافٹ وئر بنا کر تربیت بھی دی ہے دھاندلی پکڑنے سے زیادہ فلم اور فوٹو کھینچنے کی۔
کپتان اپنی حاصل کردہ برتری کو کتنا قائم رکھ پاتا ہے۔ الیکشن ڈے پر اس کے کارکن کی پرفارمنس کیسی رہتی ہے۔ وہ نتیجہ آنے کے بعد تک کتنی دیر پہرا دیتا ہے۔ ووٹر کو کتنا باہر نکال پاتا ہے۔
اس تاثر کو کیسے اور کتنا زائل کر پاتا ہےکہ یہ الیکشن اس کے اور نون لیگ کے درمیان ہے۔ نون لیگ اور کسی دکھائی نہ دینے والی زورآور خلائی مخلوق کے درمیان نہیں ہے۔ خلائی مخلوق کے ذکر سے یاد آیا کہ اس سے لڑ مرنے والی نون لیگ ابھی باقی ہے۔ اس کی حمایت چاہنے والے شہباز شریف اور پی پی کے آصف زرداری کی گیم ڈوبتی جا رہی ہے۔
کپتان کو کھیل سے مثالیں دینے کی عادت ہے۔ ہاکی میں ہم لمبی مدت تک چیمپئین رہے۔ زوال تب شروع ہوا جب گول کرنے بھول گئے۔ گول کرنا ہم شائد نہیں بھولے تھے۔ ہمیں حسن سردار کے بعد کوئی اچھا سنٹر فاروڈ نہیں ملا تھا۔ اچھے رائٹ ان اور لیفٹ ان دیر تک ہمیں دستیاب رہے ۔ یہ جب یقینی گول بنا کر پاس دیتے تو سنٹر فاروڈ مسنگ کر دیتا تھا۔ فنشنگ ٹھیک سے نہ کر پانے کی کمزوری نے ہمیں نمبر ون کی دوڑ سے آخر کار باہر کر دیا۔
مسلم لیگ نون کی فنشنگ کی صلاحیت کمزور ہوئی ہو گی لیکن قائم ہے۔ کپتان کو اپنی صلاحیت ثابت کرنی ہے۔ اسی پر اس کے وزیراعظم بننے کے خواب کا انحصار ہے۔
تو اے ہمارے پیارے لیڈر ہمارے کپتان گول کر لو گے ۔
source