کورونا کے قہر کے بیچ دلی کا تازہ کشمیر اعلامیہ
گذشتہ برس اگست میں حکومت ہند نے کشمیر کی سیاسی اور آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا جو قانون پارلیمنٹ میں منظور کرلیا تھا اُس کی مختلف شِقیں پچھلے سات ماہ سے مرحلہ وار نافذ کی جارہی ہیں۔
بدھ کی صبح بھی ایک اعلامیہ جاری ہوا جس کے مطابق اب کشمیر میں ڈومیسائل (شہریت) کا نیا قانون نافذ ہوگا اور اُس کی رُو سے سرکاری محکموں میں چپڑاسی، خاکروب، نچلی سطح کے کلرک، پولیس کانسٹیبل وغیرہ چوتھے درجے کے عہدوں کو کشمیریوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے جبکہ گیزیٹِڈ عہدوں کے لیے پورے انڈیا سے اُمیدوار نوکریوں کے اہل ہوں گے۔ مبصرین کے نزدیک یہ گویا 70 لاکھ کشمیریوں کو 130 کروڑ لوگوں کے سمندر میں غرق کرنے کے مترادف ہے۔
ایسے وقت جب پوری دُنیا کے ساتھ ساتھ انڈیا بھی کورونا کی وبا سے متاثر ہے اور کشمیر میں متاثرین کی تعداد 55 تک پہنچ چکی ہے جبکہ دو کی موت ہوگئی ہے، کشمیر کی سیاسی اور انتظامی حیثیت کے بارے میں اس عوام بیزار اعلامیے پر یہاں کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔
حالیہ دنوں طویل قید کے بعد رہا کیے گئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلی عمرعبداللہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کے حملے کی مدافعت میں پورے ملک کے وسائل جھونک دیے گئے ہیں، کشمیر کے بارے میں یہ ناپسندیدہ اعلان کیا گیا۔
’اگر اس قدر شدید صورتحال کے بیچ حکومت ہند کے پاس یہ اعلان کرنے کے لئے وقت ہے تو محبوبہ مفتی اور دیگر سیاسی رہنماوں کو رہا کرنے کا وقت کیوں نہیں ہے۔‘
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کرکے خطے کو دو جموں کشمیر اور لداخ کے الگ الگ مرکزی انتظام والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا اور دونوں کو انڈین وفاق میں مکمل طور پر ضم کیا گیا۔
یہ اعلان اس قدر غیرمقبول تھا کہ حکومت کو دو لاکھ اضافی فورسز تعینات کرکے کئی ہفتوں تک وادی کو لاک ڈاون کرنا پڑا اور سبھی علیحدگی پسند اور ہندنواز سیاسی رہنماوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں سرکردہ سماجی شخصیات اور نوجوانوں کو گرفتارکیا گیا۔
سیاسی اجتماعات، تقاریر اور انٹرنیٹ پر سخت قدغن لگائی گئی۔ انٹرنیٹ کو جنوری میں سُست رفتار کے محدود پیمانے پر بحال کیا گیا۔
کورونا وبا کے بیچ ایمنسٹی انٹرنیشنل، رپورٹرز وَداوٹ بارڈرز اور انٹرنیٹ فاونڈیشن جیسے عالمی اداروں نے حکومت ہند سے کہا ہے کہ کشمیر میں تیزرفتار انٹرنیٹ کو بحال کیا جائے، تاہم حکومت ابھی بھی سکیورٹی کی صورتحال کا حوالہ دے رہی ہے۔
فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ کو گذشتہ ماہ رہا کیا گیا تھا لیکن اُنہوں نے دیگر قیدیوں کی رہائی تک کوئی سیاسی گفتگو کرنے سے اجتناب کیا۔
وادی میں سیاست پہلے ہی حاشیے پر تھی کہ اچانک محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے کئی باغی کارکن سابق وزیرالطاف بخاری کی قیادت میں ’اپنی پارٹی‘ نامی نئی تنظیم کے بینر تلے جمع ہوگئے اور انہوں نے دلی میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ کے ساتھ ملاقات کی۔
امیت شاہ نے اس ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ کشمیریوں کو نئے قوانین سے متعلق نوکریوں اور زمینیوں کی ملکیت کے بارے میں جو خدشات ہیں اُنہیں نئے ڈومیسائل قانون کے ذریعہ دُور کیا جائے گا۔
اب جبکہ ڈومیسائل قانون کا اعلان ہوا ہے تو یہ عمرعبداللہ کے بقول اس قدر کھوکھلا ہے کہ اس کی وکالت کرنے والے الطاف بخاری کو بھی اس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنا پڑا ہے۔
واضح رہے مسٹر بخاری نے قانون کی مخالفت تو نہیں کی ہے تاہم انہوں نے کورونا وبا سے پیدا شدہ صورتحال کے پس منظر میں قبل ازوقت قرار دیا ہے۔
نئے قانون کے مطابق فوج اور دیگر مرکزی اداروں کے ملازمین اگر پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے یہاں مقیم ہوں تو وہ کشمیر کے مستقل باشندے ہونگے اور اُنہیں یہاں نوکریوں، ووٹ اور جائیداد کی ملکیت کا حق حاصل ہوگا۔
گذشتہ برس اگست میں حکومت ہند نے کشمیر کی سیاسی اور آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا جو قانون پارلیمنٹ میں منظور کرلیا تھا اُس کی مختلف شِقیں پچھلے سات ماہ سے مرحلہ وار نافذ کی جارہی ہیں۔
بدھ کی صبح بھی ایک اعلامیہ جاری ہوا جس کے مطابق اب کشمیر میں ڈومیسائل (شہریت) کا نیا قانون نافذ ہوگا اور اُس کی رُو سے سرکاری محکموں میں چپڑاسی، خاکروب، نچلی سطح کے کلرک، پولیس کانسٹیبل وغیرہ چوتھے درجے کے عہدوں کو کشمیریوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے جبکہ گیزیٹِڈ عہدوں کے لیے پورے انڈیا سے اُمیدوار نوکریوں کے اہل ہوں گے۔ مبصرین کے نزدیک یہ گویا 70 لاکھ کشمیریوں کو 130 کروڑ لوگوں کے سمندر میں غرق کرنے کے مترادف ہے۔
ایسے وقت جب پوری دُنیا کے ساتھ ساتھ انڈیا بھی کورونا کی وبا سے متاثر ہے اور کشمیر میں متاثرین کی تعداد 55 تک پہنچ چکی ہے جبکہ دو کی موت ہوگئی ہے، کشمیر کی سیاسی اور انتظامی حیثیت کے بارے میں اس عوام بیزار اعلامیے پر یہاں کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔
حالیہ دنوں طویل قید کے بعد رہا کیے گئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلی عمرعبداللہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کے حملے کی مدافعت میں پورے ملک کے وسائل جھونک دیے گئے ہیں، کشمیر کے بارے میں یہ ناپسندیدہ اعلان کیا گیا۔
’اگر اس قدر شدید صورتحال کے بیچ حکومت ہند کے پاس یہ اعلان کرنے کے لئے وقت ہے تو محبوبہ مفتی اور دیگر سیاسی رہنماوں کو رہا کرنے کا وقت کیوں نہیں ہے۔‘
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کرکے خطے کو دو جموں کشمیر اور لداخ کے الگ الگ مرکزی انتظام والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا اور دونوں کو انڈین وفاق میں مکمل طور پر ضم کیا گیا۔
یہ اعلان اس قدر غیرمقبول تھا کہ حکومت کو دو لاکھ اضافی فورسز تعینات کرکے کئی ہفتوں تک وادی کو لاک ڈاون کرنا پڑا اور سبھی علیحدگی پسند اور ہندنواز سیاسی رہنماوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں سرکردہ سماجی شخصیات اور نوجوانوں کو گرفتارکیا گیا۔
سیاسی اجتماعات، تقاریر اور انٹرنیٹ پر سخت قدغن لگائی گئی۔ انٹرنیٹ کو جنوری میں سُست رفتار کے محدود پیمانے پر بحال کیا گیا۔
کورونا وبا کے بیچ ایمنسٹی انٹرنیشنل، رپورٹرز وَداوٹ بارڈرز اور انٹرنیٹ فاونڈیشن جیسے عالمی اداروں نے حکومت ہند سے کہا ہے کہ کشمیر میں تیزرفتار انٹرنیٹ کو بحال کیا جائے، تاہم حکومت ابھی بھی سکیورٹی کی صورتحال کا حوالہ دے رہی ہے۔
فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ کو گذشتہ ماہ رہا کیا گیا تھا لیکن اُنہوں نے دیگر قیدیوں کی رہائی تک کوئی سیاسی گفتگو کرنے سے اجتناب کیا۔
وادی میں سیاست پہلے ہی حاشیے پر تھی کہ اچانک محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی کے کئی باغی کارکن سابق وزیرالطاف بخاری کی قیادت میں ’اپنی پارٹی‘ نامی نئی تنظیم کے بینر تلے جمع ہوگئے اور انہوں نے دلی میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ کے ساتھ ملاقات کی۔
امیت شاہ نے اس ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ کشمیریوں کو نئے قوانین سے متعلق نوکریوں اور زمینیوں کی ملکیت کے بارے میں جو خدشات ہیں اُنہیں نئے ڈومیسائل قانون کے ذریعہ دُور کیا جائے گا۔
اب جبکہ ڈومیسائل قانون کا اعلان ہوا ہے تو یہ عمرعبداللہ کے بقول اس قدر کھوکھلا ہے کہ اس کی وکالت کرنے والے الطاف بخاری کو بھی اس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنا پڑا ہے۔
واضح رہے مسٹر بخاری نے قانون کی مخالفت تو نہیں کی ہے تاہم انہوں نے کورونا وبا سے پیدا شدہ صورتحال کے پس منظر میں قبل ازوقت قرار دیا ہے۔
نئے قانون کے مطابق فوج اور دیگر مرکزی اداروں کے ملازمین اگر پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے یہاں مقیم ہوں تو وہ کشمیر کے مستقل باشندے ہونگے اور اُنہیں یہاں نوکریوں، ووٹ اور جائیداد کی ملکیت کا حق حاصل ہوگا۔
اس کے علاوہ جو بچے یہاں سات سال سے زیرتعلیم ہوں اور دسویں و بارہویں جماعتوں کے امتحانات مقامی بورڈ کے ذریعے پاس کئے ہوں، وہ بھی متعلقہ مراعات سمیت کشمیری باشندے تصور ہوں گے۔
بیس سال قبل فاروق عبداللہ کی حکومت نے ایک قانون کے ذریعے سابق وزرائے اعلیٰ کو سرکاری مہمان اور کابینہ وزیر کا درجہ دیا تھا جسکے مطابق اُنہیں زیڈ سکیورٹی، چار ملازمین اور ایک ڈرائیور کے علاوہ سفری اخراجات اور قیام و طعام کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی تھی۔ اب یہ سب ختم ہوگیا ہے۔
کشمیر پنڈتوں کی نمائندگی کرنے والے مقامی بی جے پی رہنما اجے چرنگو نے اس اعلامیہ کا خیر مقدم کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ مہاجرت کی اسناد کے اجرا پر فوری طور پابندی عائد ہونی چاہیے۔
تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ ’پوری دُنیا میں یہ بحث ہے کہ کورونا وائرس نے انتہاپسند قوتوں کی ترجیحات بدل جائیں گے۔ یہ موقع تھا کہ جنوبی ایشیا کی قوتیں ماضی کی کدورتیں بھول کر صحت عامہ کے شعبے میں اشتراک کی باتیں کرتے۔ لیکن انڈیا بھر میں لاک ڈاون ہے اور کشمیری مہینوں سے مصائب کا شکار ہیں اور نئی دلی نے ایک اور اعلان کر کے کشمیریوں کا نفسیاتی ٹارچر کیا ہے۔ ملک کا معاشی خسارہ چھہ فیصد سے تجاوز کررہا ہے، لاکھوں نوکریاں چلی گئی ہیں، غریب لوگ جان دے رہے ہیں، صنعت کا بُرا حال ہے، اور مودی سرکار اب بھی سمجھتی ہے کہ کشمیریوں کو سزا دینا ضروری ہے۔ یہ اعلان تکلیف دہ ہونے کے علاوہ نہایت حیران کن ہے۔‘
source
بیس سال قبل فاروق عبداللہ کی حکومت نے ایک قانون کے ذریعے سابق وزرائے اعلیٰ کو سرکاری مہمان اور کابینہ وزیر کا درجہ دیا تھا جسکے مطابق اُنہیں زیڈ سکیورٹی، چار ملازمین اور ایک ڈرائیور کے علاوہ سفری اخراجات اور قیام و طعام کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی تھی۔ اب یہ سب ختم ہوگیا ہے۔
کشمیر پنڈتوں کی نمائندگی کرنے والے مقامی بی جے پی رہنما اجے چرنگو نے اس اعلامیہ کا خیر مقدم کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ مہاجرت کی اسناد کے اجرا پر فوری طور پابندی عائد ہونی چاہیے۔
تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ ’پوری دُنیا میں یہ بحث ہے کہ کورونا وائرس نے انتہاپسند قوتوں کی ترجیحات بدل جائیں گے۔ یہ موقع تھا کہ جنوبی ایشیا کی قوتیں ماضی کی کدورتیں بھول کر صحت عامہ کے شعبے میں اشتراک کی باتیں کرتے۔ لیکن انڈیا بھر میں لاک ڈاون ہے اور کشمیری مہینوں سے مصائب کا شکار ہیں اور نئی دلی نے ایک اور اعلان کر کے کشمیریوں کا نفسیاتی ٹارچر کیا ہے۔ ملک کا معاشی خسارہ چھہ فیصد سے تجاوز کررہا ہے، لاکھوں نوکریاں چلی گئی ہیں، غریب لوگ جان دے رہے ہیں، صنعت کا بُرا حال ہے، اور مودی سرکار اب بھی سمجھتی ہے کہ کشمیریوں کو سزا دینا ضروری ہے۔ یہ اعلان تکلیف دہ ہونے کے علاوہ نہایت حیران کن ہے۔‘
source