کورونا وائرس نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کو کیسے بے نقاب کیا؟

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
کورونا وائرس نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کو کیسے بے نقاب کیا؟

اپنے اپارٹمنٹ میں مقید ہو کر میں یہ دیکھ سکتا ہوں کہ خوف نے کیسے امریکہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ امریکی شہریوں کی بڑی تعداد اس کورونا وائرس سے متاثر ہو چکی ہے۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کا سب سے طاقتور ملک اس وائرس کے علاج کی تگ ودو میں ہے، جس وائرس کو کچھ عرصہ قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محض ایک سیاسی افوا قرار دیا تھا۔

یہ وہ ملک ہے جسے باہر سے دیکھنے والے ہر لحاظ سے ایک محفوظ جگہ تصور کرتے ہیں اور یہاں آ کر پرسکون زندگی گزارنے کی خواہش میں وہ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو خطرے میں ڈال کر اِدھر کا رخ کرتے ہیں۔

لیکن چند دنوں میں ہی یہ ملک اب بدل چکا ہے۔ یہاں کورونا وائرس سے 260 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ اس وائرس سے 19624 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
ابھی کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ صورتحال کتنی بگڑ سکتی ہے اور کب تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے
کورونا وائرس کا خوف امریکہ کو کیسے متاثر کر رہا ہے
کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں
کورونا وائرس کے ’ہومیوپیتھک علاج‘ پر انڈیا کی وضاحت

امریکہ میں بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کیسے اندرونی طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔

یہ وہ ملک ہے جو دنیا کے کسی کونے میں کچھ بھی ہو رہا ہو اس پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کے رہنما اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے پیچھے نہیں رہتے۔

امریکہ کے وفاقی تحفظ صحت ایجنسی کے بیماریوں پر قابو پانے اور بچانے والے ادارے (سی ڈی سی) کے سابق ڈائریکٹر ٹام فرائیڈن نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ زیادہ خراب صورتحال میں، جو کہ دکھائی دے رہی ہے، امریکہ کی آدھی آبادی کووڈ-19 وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے اور ایک ملین سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کی صورتحال وہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ یہاں سے لوگ اپنے آبائی وطن واپس جا رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق جن چینی والدین نے بڑے فخر سے اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ یا لندن بھجوایا تھا وہ اب انھیں ماسک اور سینٹائزر بھیج رہے ہیں یا انھیں جلد از جلد گھر واپس بلا رہے ہیں جس پر 25 ہزار ڈالر تک خرچ آ سکتا ہے۔

مشرقی چین سے آئے 24 برس کی طالب علم جنھوں نے حال ہی میں گریجوئیشن کی ہے نے بتایا ہے کہ وہ اپنی روم میٹ کے ساتھ واپس اپنے ملک جا رہی ہیں۔

امریکہ میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ٹیسٹ کرنے اور بچاو کی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔

صدر ٹرمپ نے جنوری میں ڈیوس میں ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر سی این بی سی کو بتایا کہ ہم نے اسے مکمل قابو میں رکھا ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین سے جو اطلاعات آ رہی ہیں ان کا اس پر مکمل اعتماد ہے۔

صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔ یہ دیکھنا باعث تعجب ہے کہ کیسے امریکہ میں ہیلتھ کیئر سے شروع ہونے والی کئی دن کی سیاسی گہما گہمی والی بحث آخر میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ پر ختم ہوئی۔

ہیلتھ کیئر ایجنسی (سی ڈی ایس) نے کورونا وائرس سے متعلق اپنا ٹیسٹ کا نظام متعارف کرایا لیکن مینوفیکچرنگ خامیوں کی وجہ سے ابتدائی ٹیسٹ کے حاصل ہونے والے ابتدائی نتائج بے نتیجہ ہی رہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاملات حل کر لیے گئے ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹ اگر ٹیسٹ دستیاب بھی ہوں تو بہت سارے اسے برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اگر آپ کی انشورنس نہیں ہے تو آپ انتہائی خطرے میں ہیں

رپورٹس کے مطابق کاٹن سویب، دستانوں (گلوز) اور دیگر آلات کی کمی کی وجہ سے کورونا کے ٹیسٹ مطلوبہ رفتار سے نہیں ہو رہے ہیں۔

جیسے جیسے لوگوں نے حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھانے شروع کیے تو صدر ٹرمپ نے اجلاس اور کانفرنسز شروع کردیں اور کیمروں کے سامنے اپنی انتظامیہ کو متحرک کر دیا جو ٹی وی پر بھرپور مدد اور اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں۔

امریکی صحافی ڈیوڈ ویلاس ویلس نے اپنے ایک کالم America is broken میں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی خوب خبر لی۔ انھوں نہ لکھا کہ یہ کتنا افسوسناک ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کا نظام نجی کمپنیوں اور مخیر افراد کے ہاتھوں یرغمال ہو کر رہ گیا ہے جہاں امریکہ میں بھی ضرورت کے اس وقت میں اس وبا سے متعلق ضروری طبی امداد فراہم کریں گے۔

ہمارے موجودہ نظام کی خرابی کی اس سے زیادہ بھیانک مثال کیا ہوگی کہ صفِ اول کے طبی اداروں اور انشورنس کمپنیوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے فیس معاف کرنے یا مشترکہ ادائیگی پر زبردستی مجبور کرنا پڑا۔

صحافی کارل گبسن نے انشورنس نہیں کرائی ہوئی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ کورونا وائرس کے دور میں رہنا کتنا خوفناک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سڑک پر موٹر سائیکل سے گرنے کے بعد جب میں 2013 میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو زیادہ فیس دیکھ کر پھر کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس ہی نہیں گیا ہوں۔

چار گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر نے میرے بازو پر پٹی باندھی، درد کی دوا لکھی اور مجھے گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اتنے سے کام کے لیے مجھے 4000$ سے بھی زیادہ دینے پڑے۔ اور جو میں نہیں دیکھ سکا وہ آج تک میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نہ کوئی اپارٹمنٹ کرائے پر لے سکتا ہوں اور نہ ہی گاڑی خرید سکتا ہوں۔

سنہ 2018 تک امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق 27.5 ملین لوگ جو کہ کل آبادی کا 8.5 فیصد بنتے ہیں نے ہیلتھ انشورنس نہیں کرا رکھی ہے۔

عوامی احتجاج کے بعد دباؤ میں آکر امریکی حکومت نے کورونا وائرس کے جلد اور مفت ٹیسٹ کی سہولت کا قانون بنایا ہے۔

تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکیوں جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں میں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

اگرچہ وائٹ ہاؤس کے صحن میں کھڑے ہو کر صدر ٹرمپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ملین کے حساب سے ماسک تیار کیے جارہے ہیں تاہم زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔
تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکی جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں

ایسی افسوسناک اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی ریاست سیٹل میں ڈاکٹر پلاسٹک شیٹ سے اپنے لیے ماسک خود تیار کر رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق صحت اور ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن نے کنسٹرکشن کمپنیوں، دانتو اور جانوروں کے ڈاکٹرز سمیت دیگر گروپس جن کے پاس ماسک ہو سکتے ہیں سے ماسک عطیہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

ایک ایمرجنسی روم میں ڈاکٹرز کو زائدلمدت والے ماسک دیے گئے اور جب انھوں نے ان ماسک کو باندھنے کی کوشش کی تو ان کی ربڑ ڈھیلی پڑ گئی۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بہت سے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انھیں محض صرف ایک ماسک ہی دیا جا رہا ہے جسے وہ لامتناہی وقت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اسے صاف کر کے دوبارہ استعامل کر رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کتنا موثر ہو سکتا ہے۔

شگاگو میں ایک میڈیکل سنٹر پر ہسپتال کے عملے نے ’واش ایبل لیب گوگلز‘ استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔

بروکلن میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ ماسک کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے وہ ایک ہفتے تک ایک ماسک کو استعمال کرتے رہے۔

ترقی یافتہ ملک سے غیر معمولی قسم کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

یہاں تک کہ امریکی محکمہ صحت (سی ڈی ایس) نے یہ اعلان کرنے کی بھی کوشش کی کہ ماسک کی کمی کی وجہ سے اگر ضروری ہو تو منہ کو ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور سکارف کا استعمال کیا جائے۔ سی ڈی ایس کے مطابق جہاں اگر ماسک دستیاب نہ ہوں تو پھر آخری آپشن کے طور پر گھر کے بنائے ماسک بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں تاکہ کووڈ-19 کے متاثرہ مریضوں کی بہتر دیکھ بھال کی جا سکے۔

ہیلتھ کیئر کے محکمے میں کام کرنے والے اس صورتحال پر سخت غصے میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی ڈی ایس کے یہ اقدامات انھیں اور ان کے خاندانوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔

اس طرح کی صورتحال میں مریض جب سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے تو پھر ایسے میں وینٹیلیٹر انتہائی زیادہ ضروری ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کے پاس اس وقت 160،000 وینٹیلیٹرز ہیں جن میں سے 89،000 ابھی سٹاک میں رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بہت زیادہ وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے۔
اگر یہ 1918 کی فلو کی وبا کی طرح کی ہوتی تو اس کے لیے 9.6 ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت پڑتی اور 2.9 ملین کو آئی سی یو کی ضرورت رہتی

لیکن اس صورتحال کی انتہا دیکھیں۔ اس ملک میں اکثر پیشگی تیاریوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اس کی ایک مثال کورونا سے نجات حاصل کرنے کے لیے بنکرز کی فروخت کی مثال ہے۔

ایک تجزیے کے مطابق اگر یہ وبا 1968 کی طرح کی ہوتی جو ایک انفلوئنزا اے (فُلو) کی وجہ سے پھوٹی تو اس کے لیے ایک ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت ہوتی۔ تقریباً 38 ملین کو میڈیکل کیئر کی ضرورت ہوتی اور دو لاکھ کو آئی سی یو کی ضرورت ہوتی۔

سنہ 1968 کی وبا سے مرنے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد بنتی ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ امریکی بھی شامل تھے۔

سنہ 1918 میں فلو سے 500 ملین افراد متاثر ہوئے جو دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی بنتا ہے۔ اس وبا سے 50 ملین لوگ ہلاک ہوئے، جس میں 675000 امریکی تھے۔

امریکہ میں ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ بھر کی ہسپتالوں میں 924،107 بستر اور 46،825 بستر میڈیکل سرجیکل انٹینسو کیئر والے ہیں اور 50،000 سے زائد کارڈیالوجی اور دیگر امراض کے لیے بستر دستیاب ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مطلوبہ بستر کی تعداد میں بڑا فرق ہے۔ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔

امریکہ کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے تقریباً 2.8 بستر دستیاب ہیں۔ اتنے ہی افراد کے لیے جنوبی کوریا کے پاس 12 بستر سے زائد دستیاب ہیں۔ چین کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے 4.3 بستر دستیاب ہیں۔

اس طرح کے موازنے جاری رہیں گے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے صحت کے شعبے میں ایک ٹریلین ڈالرز سے زائد مختص کردیے ہیں۔

Source
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
جہالت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی. کسی عہدے، قابلیت کی محتاج نہیں ہوتی
 

Salazar67

Chief Minister (5k+ posts)
کورونا وائرس نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کو کیسے بے نقاب کیا؟

اپنے اپارٹمنٹ میں مقید ہو کر میں یہ دیکھ سکتا ہوں کہ خوف نے کیسے امریکہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ امریکی شہریوں کی بڑی تعداد اس کورونا وائرس سے متاثر ہو چکی ہے۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کا سب سے طاقتور ملک اس وائرس کے علاج کی تگ ودو میں ہے، جس وائرس کو کچھ عرصہ قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محض ایک سیاسی افوا قرار دیا تھا۔

یہ وہ ملک ہے جسے باہر سے دیکھنے والے ہر لحاظ سے ایک محفوظ جگہ تصور کرتے ہیں اور یہاں آ کر پرسکون زندگی گزارنے کی خواہش میں وہ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو خطرے میں ڈال کر اِدھر کا رخ کرتے ہیں۔

لیکن چند دنوں میں ہی یہ ملک اب بدل چکا ہے۔ یہاں کورونا وائرس سے 260 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ اس وائرس سے 19624 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
ابھی کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ صورتحال کتنی بگڑ سکتی ہے اور کب تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے
کورونا وائرس کا خوف امریکہ کو کیسے متاثر کر رہا ہے
کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں
کورونا وائرس کے ’ہومیوپیتھک علاج‘ پر انڈیا کی وضاحت

امریکہ میں بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کیسے اندرونی طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔

یہ وہ ملک ہے جو دنیا کے کسی کونے میں کچھ بھی ہو رہا ہو اس پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کے رہنما اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے پیچھے نہیں رہتے۔

امریکہ کے وفاقی تحفظ صحت ایجنسی کے بیماریوں پر قابو پانے اور بچانے والے ادارے (سی ڈی سی) کے سابق ڈائریکٹر ٹام فرائیڈن نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ زیادہ خراب صورتحال میں، جو کہ دکھائی دے رہی ہے، امریکہ کی آدھی آبادی کووڈ-19 وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے اور ایک ملین سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کی صورتحال وہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ یہاں سے لوگ اپنے آبائی وطن واپس جا رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق جن چینی والدین نے بڑے فخر سے اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ یا لندن بھجوایا تھا وہ اب انھیں ماسک اور سینٹائزر بھیج رہے ہیں یا انھیں جلد از جلد گھر واپس بلا رہے ہیں جس پر 25 ہزار ڈالر تک خرچ آ سکتا ہے۔

مشرقی چین سے آئے 24 برس کی طالب علم جنھوں نے حال ہی میں گریجوئیشن کی ہے نے بتایا ہے کہ وہ اپنی روم میٹ کے ساتھ واپس اپنے ملک جا رہی ہیں۔

امریکہ میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ٹیسٹ کرنے اور بچاو کی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔

صدر ٹرمپ نے جنوری میں ڈیوس میں ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر سی این بی سی کو بتایا کہ ہم نے اسے مکمل قابو میں رکھا ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین سے جو اطلاعات آ رہی ہیں ان کا اس پر مکمل اعتماد ہے۔

صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔ یہ دیکھنا باعث تعجب ہے کہ کیسے امریکہ میں ہیلتھ کیئر سے شروع ہونے والی کئی دن کی سیاسی گہما گہمی والی بحث آخر میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ پر ختم ہوئی۔

ہیلتھ کیئر ایجنسی (سی ڈی ایس) نے کورونا وائرس سے متعلق اپنا ٹیسٹ کا نظام متعارف کرایا لیکن مینوفیکچرنگ خامیوں کی وجہ سے ابتدائی ٹیسٹ کے حاصل ہونے والے ابتدائی نتائج بے نتیجہ ہی رہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاملات حل کر لیے گئے ہیں۔


تصویر کے کاپی رائٹ اگر ٹیسٹ دستیاب بھی ہوں تو بہت سارے اسے برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اگر آپ کی انشورنس نہیں ہے تو آپ انتہائی خطرے میں ہیں


رپورٹس کے مطابق کاٹن سویب، دستانوں (گلوز) اور دیگر آلات کی کمی کی وجہ سے کورونا کے ٹیسٹ مطلوبہ رفتار سے نہیں ہو رہے ہیں۔

جیسے جیسے لوگوں نے حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھانے شروع کیے تو صدر ٹرمپ نے اجلاس اور کانفرنسز شروع کردیں اور کیمروں کے سامنے اپنی انتظامیہ کو متحرک کر دیا جو ٹی وی پر بھرپور مدد اور اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں۔

امریکی صحافی ڈیوڈ ویلاس ویلس نے اپنے ایک کالم America is broken میں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی خوب خبر لی۔ انھوں نہ لکھا کہ یہ کتنا افسوسناک ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کا نظام نجی کمپنیوں اور مخیر افراد کے ہاتھوں یرغمال ہو کر رہ گیا ہے جہاں امریکہ میں بھی ضرورت کے اس وقت میں اس وبا سے متعلق ضروری طبی امداد فراہم کریں گے۔

ہمارے موجودہ نظام کی خرابی کی اس سے زیادہ بھیانک مثال کیا ہوگی کہ صفِ اول کے طبی اداروں اور انشورنس کمپنیوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے فیس معاف کرنے یا مشترکہ ادائیگی پر زبردستی مجبور کرنا پڑا۔

صحافی کارل گبسن نے انشورنس نہیں کرائی ہوئی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ کورونا وائرس کے دور میں رہنا کتنا خوفناک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سڑک پر موٹر سائیکل سے گرنے کے بعد جب میں 2013 میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو زیادہ فیس دیکھ کر پھر کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس ہی نہیں گیا ہوں۔

چار گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر نے میرے بازو پر پٹی باندھی، درد کی دوا لکھی اور مجھے گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اتنے سے کام کے لیے مجھے 4000$ سے بھی زیادہ دینے پڑے۔ اور جو میں نہیں دیکھ سکا وہ آج تک میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نہ کوئی اپارٹمنٹ کرائے پر لے سکتا ہوں اور نہ ہی گاڑی خرید سکتا ہوں۔

سنہ 2018 تک امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق 27.5 ملین لوگ جو کہ کل آبادی کا 8.5 فیصد بنتے ہیں نے ہیلتھ انشورنس نہیں کرا رکھی ہے۔

عوامی احتجاج کے بعد دباؤ میں آکر امریکی حکومت نے کورونا وائرس کے جلد اور مفت ٹیسٹ کی سہولت کا قانون بنایا ہے۔

تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکیوں جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں میں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

اگرچہ وائٹ ہاؤس کے صحن میں کھڑے ہو کر صدر ٹرمپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ملین کے حساب سے ماسک تیار کیے جارہے ہیں تاہم زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔


تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکی جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں


ایسی افسوسناک اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی ریاست سیٹل میں ڈاکٹر پلاسٹک شیٹ سے اپنے لیے ماسک خود تیار کر رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق صحت اور ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن نے کنسٹرکشن کمپنیوں، دانتو اور جانوروں کے ڈاکٹرز سمیت دیگر گروپس جن کے پاس ماسک ہو سکتے ہیں سے ماسک عطیہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

ایک ایمرجنسی روم میں ڈاکٹرز کو زائدلمدت والے ماسک دیے گئے اور جب انھوں نے ان ماسک کو باندھنے کی کوشش کی تو ان کی ربڑ ڈھیلی پڑ گئی۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بہت سے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انھیں محض صرف ایک ماسک ہی دیا جا رہا ہے جسے وہ لامتناہی وقت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اسے صاف کر کے دوبارہ استعامل کر رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کتنا موثر ہو سکتا ہے۔

شگاگو میں ایک میڈیکل سنٹر پر ہسپتال کے عملے نے ’واش ایبل لیب گوگلز‘ استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔

بروکلن میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ ماسک کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے وہ ایک ہفتے تک ایک ماسک کو استعمال کرتے رہے۔

ترقی یافتہ ملک سے غیر معمولی قسم کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

یہاں تک کہ امریکی محکمہ صحت (سی ڈی ایس) نے یہ اعلان کرنے کی بھی کوشش کی کہ ماسک کی کمی کی وجہ سے اگر ضروری ہو تو منہ کو ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور سکارف کا استعمال کیا جائے۔ سی ڈی ایس کے مطابق جہاں اگر ماسک دستیاب نہ ہوں تو پھر آخری آپشن کے طور پر گھر کے بنائے ماسک بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں تاکہ کووڈ-19 کے متاثرہ مریضوں کی بہتر دیکھ بھال کی جا سکے۔

ہیلتھ کیئر کے محکمے میں کام کرنے والے اس صورتحال پر سخت غصے میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی ڈی ایس کے یہ اقدامات انھیں اور ان کے خاندانوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔

اس طرح کی صورتحال میں مریض جب سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے تو پھر ایسے میں وینٹیلیٹر انتہائی زیادہ ضروری ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کے پاس اس وقت 160،000 وینٹیلیٹرز ہیں جن میں سے 89،000 ابھی سٹاک میں رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بہت زیادہ وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے۔


اگر یہ 1918 کی فلو کی وبا کی طرح کی ہوتی تو اس کے لیے 9.6 ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت پڑتی اور 2.9 ملین کو آئی سی یو کی ضرورت رہتی

لیکن اس صورتحال کی انتہا دیکھیں۔ اس ملک میں اکثر پیشگی تیاریوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اس کی ایک مثال کورونا سے نجات حاصل کرنے کے لیے بنکرز کی فروخت کی مثال ہے۔

ایک تجزیے کے مطابق اگر یہ وبا 1968 کی طرح کی ہوتی جو ایک انفلوئنزا اے (فُلو) کی وجہ سے پھوٹی تو اس کے لیے ایک ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت ہوتی۔ تقریباً 38 ملین کو میڈیکل کیئر کی ضرورت ہوتی اور دو لاکھ کو آئی سی یو کی ضرورت ہوتی۔

سنہ 1968 کی وبا سے مرنے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد بنتی ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ امریکی بھی شامل تھے۔

سنہ 1918 میں فلو سے 500 ملین افراد متاثر ہوئے جو دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی بنتا ہے۔ اس وبا سے 50 ملین لوگ ہلاک ہوئے، جس میں 675000 امریکی تھے۔

امریکہ میں ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ بھر کی ہسپتالوں میں 924،107 بستر اور 46،825 بستر میڈیکل سرجیکل انٹینسو کیئر والے ہیں اور 50،000 سے زائد کارڈیالوجی اور دیگر امراض کے لیے بستر دستیاب ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مطلوبہ بستر کی تعداد میں بڑا فرق ہے۔ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔

امریکہ کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے تقریباً 2.8 بستر دستیاب ہیں۔ اتنے ہی افراد کے لیے جنوبی کوریا کے پاس 12 بستر سے زائد دستیاب ہیں۔ چین کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے 4.3 بستر دستیاب ہیں۔

اس طرح کے موازنے جاری رہیں گے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے صحت کے شعبے میں ایک ٹریلین ڈالرز سے زائد مختص کردیے ہیں۔

Source
Duniya kaa takut wur mulk? Really? Sareee Takut gaand Say nekul gaee hai. Iss orange CHUTTIYA key.
 

pkpatriot

Chief Minister (5k+ posts)
Sadly, I think America will have most corona patients in few days all becauseof trump's ego, greed and hatred against his competitors.
Rather than taking precautions Trump administration was busy in finding Profits in China's egony.
May Allah swt save the humanity in this pandemic.
 

Salazar67

Chief Minister (5k+ posts)
Sadly, I think America will have most corona patients in few days all because of arrogance of trump's ego, greed and hatred against his competitors.
Rather than taking precautions Trump administration was busy in finding Profits in China's egony.
May Allah swt save the humanity in this pandemic.
Good intentions.. Doors of Tauba have been closed. Hope I am wrong.
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
کورونا وائرس نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کو کیسے بے نقاب کیا؟

اپنے اپارٹمنٹ میں مقید ہو کر میں یہ دیکھ سکتا ہوں کہ خوف نے کیسے امریکہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ امریکی شہریوں کی بڑی تعداد اس کورونا وائرس سے متاثر ہو چکی ہے۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کا سب سے طاقتور ملک اس وائرس کے علاج کی تگ ودو میں ہے، جس وائرس کو کچھ عرصہ قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محض ایک سیاسی افوا قرار دیا تھا۔

یہ وہ ملک ہے جسے باہر سے دیکھنے والے ہر لحاظ سے ایک محفوظ جگہ تصور کرتے ہیں اور یہاں آ کر پرسکون زندگی گزارنے کی خواہش میں وہ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو خطرے میں ڈال کر اِدھر کا رخ کرتے ہیں۔

لیکن چند دنوں میں ہی یہ ملک اب بدل چکا ہے۔ یہاں کورونا وائرس سے 260 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ اس وائرس سے 19624 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
ابھی کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ صورتحال کتنی بگڑ سکتی ہے اور کب تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے
کورونا وائرس کا خوف امریکہ کو کیسے متاثر کر رہا ہے
کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں
کورونا وائرس کے ’ہومیوپیتھک علاج‘ پر انڈیا کی وضاحت

امریکہ میں بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کیسے اندرونی طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔

یہ وہ ملک ہے جو دنیا کے کسی کونے میں کچھ بھی ہو رہا ہو اس پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کے رہنما اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے پیچھے نہیں رہتے۔

امریکہ کے وفاقی تحفظ صحت ایجنسی کے بیماریوں پر قابو پانے اور بچانے والے ادارے (سی ڈی سی) کے سابق ڈائریکٹر ٹام فرائیڈن نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ زیادہ خراب صورتحال میں، جو کہ دکھائی دے رہی ہے، امریکہ کی آدھی آبادی کووڈ-19 وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے اور ایک ملین سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کی صورتحال وہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ یہاں سے لوگ اپنے آبائی وطن واپس جا رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق جن چینی والدین نے بڑے فخر سے اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ یا لندن بھجوایا تھا وہ اب انھیں ماسک اور سینٹائزر بھیج رہے ہیں یا انھیں جلد از جلد گھر واپس بلا رہے ہیں جس پر 25 ہزار ڈالر تک خرچ آ سکتا ہے۔

مشرقی چین سے آئے 24 برس کی طالب علم جنھوں نے حال ہی میں گریجوئیشن کی ہے نے بتایا ہے کہ وہ اپنی روم میٹ کے ساتھ واپس اپنے ملک جا رہی ہیں۔

امریکہ میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ٹیسٹ کرنے اور بچاو کی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔

صدر ٹرمپ نے جنوری میں ڈیوس میں ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر سی این بی سی کو بتایا کہ ہم نے اسے مکمل قابو میں رکھا ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین سے جو اطلاعات آ رہی ہیں ان کا اس پر مکمل اعتماد ہے۔

صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔ یہ دیکھنا باعث تعجب ہے کہ کیسے امریکہ میں ہیلتھ کیئر سے شروع ہونے والی کئی دن کی سیاسی گہما گہمی والی بحث آخر میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ پر ختم ہوئی۔

ہیلتھ کیئر ایجنسی (سی ڈی ایس) نے کورونا وائرس سے متعلق اپنا ٹیسٹ کا نظام متعارف کرایا لیکن مینوفیکچرنگ خامیوں کی وجہ سے ابتدائی ٹیسٹ کے حاصل ہونے والے ابتدائی نتائج بے نتیجہ ہی رہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاملات حل کر لیے گئے ہیں۔


تصویر کے کاپی رائٹ اگر ٹیسٹ دستیاب بھی ہوں تو بہت سارے اسے برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اگر آپ کی انشورنس نہیں ہے تو آپ انتہائی خطرے میں ہیں


رپورٹس کے مطابق کاٹن سویب، دستانوں (گلوز) اور دیگر آلات کی کمی کی وجہ سے کورونا کے ٹیسٹ مطلوبہ رفتار سے نہیں ہو رہے ہیں۔

جیسے جیسے لوگوں نے حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھانے شروع کیے تو صدر ٹرمپ نے اجلاس اور کانفرنسز شروع کردیں اور کیمروں کے سامنے اپنی انتظامیہ کو متحرک کر دیا جو ٹی وی پر بھرپور مدد اور اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں۔

امریکی صحافی ڈیوڈ ویلاس ویلس نے اپنے ایک کالم America is broken میں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی خوب خبر لی۔ انھوں نہ لکھا کہ یہ کتنا افسوسناک ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کا نظام نجی کمپنیوں اور مخیر افراد کے ہاتھوں یرغمال ہو کر رہ گیا ہے جہاں امریکہ میں بھی ضرورت کے اس وقت میں اس وبا سے متعلق ضروری طبی امداد فراہم کریں گے۔

ہمارے موجودہ نظام کی خرابی کی اس سے زیادہ بھیانک مثال کیا ہوگی کہ صفِ اول کے طبی اداروں اور انشورنس کمپنیوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے فیس معاف کرنے یا مشترکہ ادائیگی پر زبردستی مجبور کرنا پڑا۔

صحافی کارل گبسن نے انشورنس نہیں کرائی ہوئی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ کورونا وائرس کے دور میں رہنا کتنا خوفناک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سڑک پر موٹر سائیکل سے گرنے کے بعد جب میں 2013 میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو زیادہ فیس دیکھ کر پھر کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس ہی نہیں گیا ہوں۔

چار گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر نے میرے بازو پر پٹی باندھی، درد کی دوا لکھی اور مجھے گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اتنے سے کام کے لیے مجھے 4000$ سے بھی زیادہ دینے پڑے۔ اور جو میں نہیں دیکھ سکا وہ آج تک میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نہ کوئی اپارٹمنٹ کرائے پر لے سکتا ہوں اور نہ ہی گاڑی خرید سکتا ہوں۔

سنہ 2018 تک امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق 27.5 ملین لوگ جو کہ کل آبادی کا 8.5 فیصد بنتے ہیں نے ہیلتھ انشورنس نہیں کرا رکھی ہے۔

عوامی احتجاج کے بعد دباؤ میں آکر امریکی حکومت نے کورونا وائرس کے جلد اور مفت ٹیسٹ کی سہولت کا قانون بنایا ہے۔

تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکیوں جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں میں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

اگرچہ وائٹ ہاؤس کے صحن میں کھڑے ہو کر صدر ٹرمپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ملین کے حساب سے ماسک تیار کیے جارہے ہیں تاہم زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔


تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکی جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں


ایسی افسوسناک اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی ریاست سیٹل میں ڈاکٹر پلاسٹک شیٹ سے اپنے لیے ماسک خود تیار کر رہے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق صحت اور ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن نے کنسٹرکشن کمپنیوں، دانتو اور جانوروں کے ڈاکٹرز سمیت دیگر گروپس جن کے پاس ماسک ہو سکتے ہیں سے ماسک عطیہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

ایک ایمرجنسی روم میں ڈاکٹرز کو زائدلمدت والے ماسک دیے گئے اور جب انھوں نے ان ماسک کو باندھنے کی کوشش کی تو ان کی ربڑ ڈھیلی پڑ گئی۔

رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بہت سے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انھیں محض صرف ایک ماسک ہی دیا جا رہا ہے جسے وہ لامتناہی وقت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اسے صاف کر کے دوبارہ استعامل کر رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کتنا موثر ہو سکتا ہے۔

شگاگو میں ایک میڈیکل سنٹر پر ہسپتال کے عملے نے ’واش ایبل لیب گوگلز‘ استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔

بروکلن میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ ماسک کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے وہ ایک ہفتے تک ایک ماسک کو استعمال کرتے رہے۔

ترقی یافتہ ملک سے غیر معمولی قسم کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

یہاں تک کہ امریکی محکمہ صحت (سی ڈی ایس) نے یہ اعلان کرنے کی بھی کوشش کی کہ ماسک کی کمی کی وجہ سے اگر ضروری ہو تو منہ کو ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور سکارف کا استعمال کیا جائے۔ سی ڈی ایس کے مطابق جہاں اگر ماسک دستیاب نہ ہوں تو پھر آخری آپشن کے طور پر گھر کے بنائے ماسک بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں تاکہ کووڈ-19 کے متاثرہ مریضوں کی بہتر دیکھ بھال کی جا سکے۔

ہیلتھ کیئر کے محکمے میں کام کرنے والے اس صورتحال پر سخت غصے میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی ڈی ایس کے یہ اقدامات انھیں اور ان کے خاندانوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔

اس طرح کی صورتحال میں مریض جب سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے تو پھر ایسے میں وینٹیلیٹر انتہائی زیادہ ضروری ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کے پاس اس وقت 160،000 وینٹیلیٹرز ہیں جن میں سے 89،000 ابھی سٹاک میں رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بہت زیادہ وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے۔


اگر یہ 1918 کی فلو کی وبا کی طرح کی ہوتی تو اس کے لیے 9.6 ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت پڑتی اور 2.9 ملین کو آئی سی یو کی ضرورت رہتی

لیکن اس صورتحال کی انتہا دیکھیں۔ اس ملک میں اکثر پیشگی تیاریوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اس کی ایک مثال کورونا سے نجات حاصل کرنے کے لیے بنکرز کی فروخت کی مثال ہے۔

ایک تجزیے کے مطابق اگر یہ وبا 1968 کی طرح کی ہوتی جو ایک انفلوئنزا اے (فُلو) کی وجہ سے پھوٹی تو اس کے لیے ایک ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت ہوتی۔ تقریباً 38 ملین کو میڈیکل کیئر کی ضرورت ہوتی اور دو لاکھ کو آئی سی یو کی ضرورت ہوتی۔

سنہ 1968 کی وبا سے مرنے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد بنتی ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ امریکی بھی شامل تھے۔

سنہ 1918 میں فلو سے 500 ملین افراد متاثر ہوئے جو دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی بنتا ہے۔ اس وبا سے 50 ملین لوگ ہلاک ہوئے، جس میں 675000 امریکی تھے۔

امریکہ میں ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ بھر کی ہسپتالوں میں 924،107 بستر اور 46،825 بستر میڈیکل سرجیکل انٹینسو کیئر والے ہیں اور 50،000 سے زائد کارڈیالوجی اور دیگر امراض کے لیے بستر دستیاب ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مطلوبہ بستر کی تعداد میں بڑا فرق ہے۔ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔

امریکہ کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے تقریباً 2.8 بستر دستیاب ہیں۔ اتنے ہی افراد کے لیے جنوبی کوریا کے پاس 12 بستر سے زائد دستیاب ہیں۔ چین کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے 4.3 بستر دستیاب ہیں۔

اس طرح کے موازنے جاری رہیں گے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے صحت کے شعبے میں ایک ٹریلین ڈالرز سے زائد مختص کردیے ہیں۔

Source
امریکہ شروع سے ہی بے نقاب تھا دیکھنے والوں کو نظر نہیں اے تو اور بات ہے ایک طرف دہشت گرد پالے افغانستان پاکستان میں دوسری طرف صدام ملعون کو ہتھیار دے کر ایران سے لڑوایا پھر القاعدہ بنائی کام نکلا تو طالبان ای پھر دایش بنی جو لوگ استمعال ہوتے رہے ان کو کیوں نظر اے گا ؟
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
امریکہ شروع سے ہی بے نقاب تھا دیکھنے والوں کو نظر نہیں اے تو اور بات ہے ایک طرف دہشت گرد پالے افغانستان پاکستان میں دوسری طرف صدام ملعون کو ہتھیار دے کر ایران سے لڑوایا پھر القاعدہ بنائی کام نکلا تو طالبان ای پھر دایش بنی جو لوگ استمعال ہوتے رہے ان کو کیوں نظر اے گا ؟
عراق میں پھر بھی امرشیعہ اتحاد بنا
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
عراق میں پھر بھی امرشیعہ اتحاد بنا
عراق میں پھر بھی امرشیعہ اتحاد بنا
کونسا اتحاد بے تم لوگوں کو امریکہ مختلف ناموں سے تشکیل دیتا ہے جب تم لوگ اس کو آنکھیں دکھاتے ہو تو وہ جوتوں کی نوک پر رکھتا ہے پورے عالم اسلام میں صرف ایک ہم ہی ہیں جو اس کے مقابلے پر کھڑے ہیں آج بھی ایران پر لگی پابندیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہے دوسری طرف نجس شیخ مزے لوٹ رہی ہیں کچھ شرم کرو
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
کونسا اتحاد بے تم لوگوں کو امریکہ مختلف ناموں سے تشکیل دیتا ہے جب تم لوگ اس کو آنکھیں دکھاتے ہو تو وہ جوتوں کی نوک پر رکھتا ہے پورے عالم اسلام میں صرف ایک ہم ہی ہیں جو اس کے مقابلے پر کھڑے ہیں آج بھی ایران پر لگی پابندیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہے دوسری طرف نجس شیخ مزے لوٹ رہی ہیں کچھ شرم کرو
اتحاد حکومت پاکستان کے تعاون سے ہوتا ہے کبھی ضیا کبھی بینظیر. پابندیاں پاکستان پر بھی لگتی ہیں اور شیخوں کو بھی آنکھیں دیکھائی جاتی ہیں. بغضیہ رافضی ان کے اور شیطان بزرگ کے ساتھ تعلقات کو نام دے نا دیں اس کا نتیجہ المالکی، العبادی اور دیگر بچوں کے نام دنیا جانتی ہے​
 

jigrot

Minister (2k+ posts)
کورونا وائرس نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کو کیسے بے نقاب کیا؟

مکمل اعتماد ہے۔

ہی رہے۔





rce
Clearly the health care system in America needs to be fixed. The government should take control of health care and insurance companies should be shut down. The American health care system is broken.
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
اتحاد حکومت پاکستان کے تعاون سے ہوتا ہے کبھی ضیا کبھی بینظیر. پابندیاں پاکستان پر بھی لگتی ہیں اور شیخوں کو بھی آنکھیں دیکھائی جاتی ہیں. بغضیہ رافضی ان کے اور شیطان بزرگ کے ساتھ تعلقات کو نام دے نا دیں اس کا نتیجہ المالکی، العبادی اور دیگر بچوں کے نام دنیا جانتی ہے​
الله کی لعنت ہو تم پر تم ایک وقت میں دو میعار رکھتے ہو افغان حکومت اگر امریکہ کے ساتھ ہو تو برے لبرل جب طالبان کو امریکہ اپنے ہاتھوں سے بناے وہ جہادی
دوسری طرف مالکی العابدی جو کے لبرل ہیں اور علما کی نمائیندگی نہیں کرتے وہ تجھے امر شیعہ اتحاد لگتا ہے بد نسل تبھی تجھ سے بحث کرنے کی بجاے تجھے جوتے مارنے کو دل کرتا ہے
مجھے رافضی کس کو کہتے ہیں اس کی اصطلاح بتا پھر تجھے مزید جوتے مارتا ہوں تو انتہائی مکار بڈھا ہے سوچا تھا کے کچھ تعمیری گفتگو ہو گی پر تو چول کا چول ہی نکلا کچھ نہیں بدلہ
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
الله کی لعنت ہو تم پر تم ایک وقت میں دو میعار رکھتے ہو افغان حکومت اگر امریکہ کے ساتھ ہو تو برے لبرل جب طالبان کو امریکہ اپنے ہاتھوں سے بناے وہ جہادی
دوسری طرف مالکی العابدی جو کے لبرل ہیں اور علما کی نمائیندگی نہیں کرتے وہ تجھے امر شیعہ اتحاد لگتا ہے بد نسل تبھی تجھ سے بحث کرنے کی بجاے تجھے جوتے مارنے کو دل کرتا ہے
مجھے رافضی کس کو کہتے ہیں اس کی اصطلاح بتا پھر تجھے مزید جوتے مارتا ہوں تو انتہائی مکار بڈھا ہے سوچا تھا کے کچھ تعمیری گفتگو ہو گی پر تو چول کا چول ہی نکلا کچھ نہیں بدلہ
تم امریکا کے ساتھ ہو تو یہ ایمان کی علامت ہے. کوئی اور ہو تو منافقت

اس مقام تک پہنچنے اور نصرت کرنے کو ایرانی ملیشا علما کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی

تعمیری گفتگو، تم لوگوں کو تمہارے منہ کے مطابق چپیڑ ماری جائے تو تعمیر گفتگو کا رعب جھاڑنے لگتے ہو. بچے تمہاری برزگ آئی ڈی ڈیز بھی یہی ڈرامے کرتی منظر سے غائب ہو گئی​
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
تم امریکا کے ساتھ ہو تو یہ ایمان کی علامت ہے. کوئی اور ہو تو منافقت

اس مقام تک پہنچنے اور نصرت کرنے کو ایرانی ملیشا علما کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی

تعمیری گفتگو، تم لوگوں کو تمہارے منہ کے مطابق چپیڑ ماری جائے تو تعمیر گفتگو کا رعب جھاڑنے لگتے ہو. بچے تمہاری برزگ آئی ڈی ڈیز بھی یہی ڈرامے کرتی منظر سے غائب ہو گئی​
کب امریکہ کے ساتھ رہے ہم اس کا جواب دو
جاہل ایرانی ملیشیا علما تو ساتھ ہیں یہ مالکی کب سے ساتھ ہوا ؟
صدام کو کیا امریکہ اور آل سود نے ایران کے خلاف استمعال نہیں کیا ؟
اور رافضیکس کو کہتے ہیں اس کی اصطلاح کرو میں نے تمارے منہ پر تماری ہی چپیڑ ماری ہے اور ابھی مزید ماروں گا
 
Last edited:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
کب امریکہ کے ساتھرہے ہم اس کا جواب دو
جاہل ایرانی ملیشیا علما تو ساتھ ہیں یہ مالکی کب سے ساتھ ہوا ؟
صدام کو کیا امریکہ اور آل سود نے ایران کے خلاف استمعال نہیں کیا ؟
اور رافضیکس کو کہتے ہیں اس کی اصطلاح کرو میں نے تمارے منہ پر تماری ہی چپیڑ ماری ہے اور ابھی مزید ماروں گا
حضور فرما رہے ہیں تو کیا جواب دوں. آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے والے پوچھے کہاں ہے مکھی تو یہی کہا جا سکتا ہے کے ہے خبریں جھوٹی ہوں گی

muntazir کیا عجیب حسن اتفاق ہے تھریڈ کچھ بھی ہو انگلش والے
کی سوئی بھی اسی "تعمیری گفتگو" پر اٹک جاتی تھی تمھاری بھی. انگلش اردو سے کیا فرق پڑتا ہے. آئی ڈی بدل جاتی ہے "تعمیری گفتگو" کرنے والوں کا سر نہیں بدلتا​
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
حضور فرما رہے ہیں تو کیا جواب دوں. آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے والے پوچھے کہاں ہے مکھی تو یہی کہا جا سکتا ہے کے ہے خبریں جھوٹی ہوں گی

muntazir کیا عجیب حسن اتفاق ہے تھریڈ کچھ بھی ہو انگلش والے
کی سوئی بھی اسی "تعمیری گفتگو" پر اٹک جاتی تھی تمھاری بھی. انگلش اردو سے کیا فرق پڑتا ہے. آئی ڈی بدل جاتی ہے "تعمیری گفتگو" کرنے والوں کا سر نہیں بدلتا​
او بابا جو سوال پوچھ ہیں ان کا جواب دے ایک تو تم مکار بہت ہو بلکل ماموں جان کے مشیر پر گئے ہو اب سیریس ہو کر سوالات کے جواب دو سارے نہیں تو ایک کا ہی دے دو رافضی کسے کہتے ہیں اس کے معنی کیا ہیں ؟
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
او بابا جو سوال پوچھ ہیں ان کا جواب دے ایک تو تم مکار بہت ہو بلکل ماموں جان کے مشیر پر گئے ہو اب سیریس ہو کر سوالات کے جواب دو سارے نہیں تو ایک کا ہی دے دو رافضی کسے کہتے ہیں اس کے معنی کیا ہیں ؟
بچے دس سال سے انہی سوالوں کو جواب سے رہا ہوں. جو آنکھ کھولتا ہے تعمیری گفتگو کی چوسنی لگا کر دلپشوری کرنے فورم پر آ کر ماشٹر لگ جاتا ہے
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
بچے دس سال سے انہی سوالوں کو جواب سے رہا ہوں. جو آنکھ کھولتا ہے تعمیری گفتگو کی چوسنی لگا کر دلپشوری کرنے فورم پر آ کر ماشٹر لگ جاتا ہے
چچا کیدو قسم کھا کبھی جواب دیا ہے تم لوگوں کو دس سال سے تم لوگوں کی کتابیں کھول کھول کر پڑھاتا رہا ہوں تم لوگ کفار مکہ کی طرح منکر ہی رہے ہو اب جواب دو رافضی کی تشریح کرو قران حدیث سے
 

Back
Top