کوئی تمہیں ہٹلر نہیں کہے گا

ابابیل

Senator (1k+ posts)
ایک کروڑ افریقیوں کو مار آؤ، کوئی تمہیں ہٹلر نہیں کہے گا!

201702_LeopoldBeljeum.jpg


اگر آپ دس ملین سے زیادہ افریقی انسانوں کو قتل کر دیں کوئی بھی آپ کو ہٹلر کے مشابہہ نہیں قرار دے گا۔ نہ ہی آپ برائی اور شر کے ہم نام ہوں گے اور نہ ہی آپ کی شکل سے دہشت یا کراہت ۔ ٹپکے گی، حتیٰ کہ دکھ کا تاثر بھی نہیں چھوڑے گی



عالمی میڈیا سے استفادہ: سارہ اقبال


اس تصویر کو اچھی طرح دیکھیے۔ کیا آپ اسے پہچان پائے؟

لوگوں کی اکثریت نہ اسے پہچانتی ہے اور نہ انہوں نے اس کے بارے میں کبھی سنا۔

مگر لازم تو یہ تھا کہ آپ اسے پہچانتے ہوتے اور اس کے بارے میں ویسے ہی احساسات رکھتے جیسے ہٹلر اور موسولینی کے بارے میں رکھتے ہیں۔ حیران مت ہوئیے، اس شخص نے ایک کروڑ سے زائد انسان قتل کر رکھے ہیں!

اس کا نام
لیوپولڈ
2 ہے, جو بلجیم کا بادشاہ تھا۔

اس شخص نے مملکت بلجیم پر 1885 سے 1909 کے دوران حکومت کی۔ ایشیا اور افریقہ میں کئی ناکام استعماری کوششوں کے بعد افریقی ملک کانگو کو اپنے ہدف کے طور پر چنا۔ اس سلسلے میں پہلا بنیادی اقدام کونگو کو خریدنا اور اس کے باشندوں کو غلام بنانا تھا۔

اس وقت اس علاقے کا رقبہ بلجیم کے رقبہ سے 72 گنا زیادہ تھا
وہاں کے باشندے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔
لیوپولڈ نے دھوکے کے ساتھ ان سے ایک اتفاق نامے پر دستخط کر والیے جس میں کہا گیا تھا:

"ماہانہ کپڑوں کے ایک ایک جوڑے کے مقابلے میں جو ذیل کے دستخط کنندہ تمام قبائلی سرداروں کو پیش کیے جائیں گے، جس کے ساتھ پوشاک کا ایک ایک خصوصی تحفہ بھی ہو گا، قبائل کے سردار برضا و رغبت اور از خود اپنی جملہ اراضی سے اپنے، اپنے ورثاء اور اپنی تاابد آئندہ نسلوں کے تمام حقوق سے سوسائٹی (جس کا سربراہ لیوپولڈ تھا) کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں..... اور اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ جب وہ ان سے مزدوروں کا مطالبہ کرے یہ انہیں فراہم کریں گے یا اس کے علاوہ جب بھی کسی منصوبے، رفاہی یا فوجی مہمات کا سوسائٹی اس اراضی کے کسی بھی علاقہ میں اعلان کرے گی(تو یہ افرادی قوت کے ساتھ اس کی مدد کریں گے)...... ملک کے تمام راستے اور آبی گزرگاہیں، نیز ان پر مالیہ لگانے کا حق، جانوروں اور مچھلیوں کے شکار، معدنیات،جنگلات وغیرہ سے متعلقہ تمام حقوق سوسائٹی کی ملکیت ہونگے۔"

ہم نہ ہی اپنے تعلیمی اداروں میں اس لیوپولڈ کے بارے میں کچھ پڑھتے ہیں اور نہ میڈیا میں اس کے بارے میں کچھ سنتے ہیں۔ (دوسری جنگ عظیم میں سامنے آنے والی ہولوکاسٹ ایسی) ظلم و بربریت کی زبان زد عام کہانیوں میں اس شخص کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں۔ حالانکہ افریقہ میں استعمار، لوگوں کو غلام بنانے، اور وسیع پیمانے کے ذبح عام واقعات کی جو ایک تاریخ ہے، یہ شخص اس (تاریخ) کا ایک نہایت قابل ذکر نام ہے جو کہ دنیا کے وائٹ مین کے تصور سے ٹکراتی ہے۔

[FONT=&quot]لیوپولڈ[/FONT] نے اس وقت اس ملک کو دولت کے ایک بہت بڑے سرچشمے کے طور پر دیکھا۔اس زمانے میں ہوا بھرے ٹائروں اور گاڑی کے پہیوں کی جانب دنیا کا نیا نیا رجحان ہوا تھا۔ جس سے ربڑ کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ربڑ کے درخت کے حوالے سے ایک بنیادی معلومات یہ ہے کہ اس کی پیداوار حاصل کرنے کے لئے درخت کو اگانے کے بعد کم ازکم پندرہ سال درکار ہوتے ہیں۔

اس لحاظ سے کانگو کی سرزمین ایک مثالی چناؤ تھا کیونکہ وہاں پر بارش بھرے جنگلات اور ربڑ کے خودرَو درختوں کی بہتات تھی۔

دولت اکٹھی کرنے کےلیے لیوپولڈ کا طریقہ بہت وحشیانہ تھا۔ اس کے فوجی افریقہ کے اس خطے میں جسے لیوپولڈ نے کانگو فری اسٹیٹ کا نام دیا تھا افریقیوں کی بستیوں میں جا گھستے۔وہ وہاں کی عورتوں کو رہن رکھ لیتے تھے تاکہ ان کے مردوں کو مجبور کریں کہ وہ جنگلوں میں جاکر ربڑ کا رس نکال نکال کر لائیں اور جب وہ ایک جگہ کے درخت کو فارغ کر لیتے تو ان کو جنگل میں آگے سے آگے جانے پر مجبور کرتے۔

سستی سے کام لینے کی بڑی سخت سزا تھی۔

لیوپولڈ نے کرائے کے سپاہیوں کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ کام کے دوران غلاموں کی نگرانی کریں۔اور جب غلام مقررہ ہدف سر نہ کر پاتے تو یہ سپاہی ان کو کوڑوں سے مارتے۔ کبھی کبھی اتنا مارتے کہ موت کے منہ میں پہنچا دیتے یا ان کے ہاتھ مکمل طور پر کاٹ دیتے۔اور جو کوئی اس تشدد سے نہ بھی مرتا وہ کام کی مشقت کے بوجھ سے مر جاتا کہ اتنے لمبے دورانیہ تک بغیر کھائے پئے کام کرنا (موت کا سبب بنتا)۔

جہاں تک ان یرغمالی عورتوں کا معاملہ ہے تو وہ بھی محفوظ نہیں تھیں۔ بلکہ مختلف قسم کی اذیتیں دی جاتیں کوڑوں سے مارنا،،زنا بالجبر،بھوکا رکھنا وغیرہ۔ غرض ہر وہ کوشش جو موت کے دھانے پر لے جائے وہ ان کے ساتھ کی گئی۔

یہ سب کا سب ان دلائل کے پردے تلے ہورہا تھا جو
[FONT=&quot]لیوپولڈ[/FONT] نےکونگو میں استعمار کو ترویج دینے کے لئے پیش کئے تھے،فلاحی کاموں اور عیسائی مذہب کو پھیلانے سے آغاز کیا اور لوگوں کو غلام بنا کر ان کو منڈیوں میں فروخت کرنے پر (یہ سلسلہ) آ رکا۔

مگر
[FONT=&quot]لیوپولڈ[/FONT] کی یہ بےرحم مہمات لوگوں کی موت کا براہ راست واحد سبب نہ تھیں۔ ہوا یوں کہ جب صحیح سلامت مردوں کو زبردستی بیگار پر لے لیا جاتا تو وہ بستیوں کے عورتوں،بوڑھوں ،بچوں اور کمزور مردوں کے لئے مناسب مقدار میں خوراک نہ مہیا کر سکتے۔ تو وہ بھوک اور فاقوں کی وجہ سے بلکتے۔ جس کی وجہ سے کئی وبائیں اور امراض پھوٹ پڑے جنہوں نے لاکھوں زندگیوں کو متاثر کیا مثلا چیچک اور ٹی بی کی بیماریاں وغیرہ۔

١٩٥٠ میں مارک ٹوین جو کہ مشہور مزاح نگار امریکی مصنف ہے اس نے اس کے بارے میں اس عنوان سے ایک لمبی عبارت لکھی

King Leopolds soliloquy ,A defense of his Congo rule

اس میں اس نے بادشاہ کی خونی سرگرمیوں کی خوب خبر لی اور اس نے افریقہ کی سرزمین پر جو زیادتیاں کر رکھی تھیں ان پر شدید طنز کیا۔ اس نے لیوپولڈ کی ہی زبانی ان مظالم کو یوں بیان کیا:

"جس وقت وہ لوگ بھوک،بیماری،مایوسی اور کسی وقفے اور آرام کے بغیر مشقت اور بیگار کرنے کی وجہ سے اپنی ڈیوٹیاں پوری کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جنگلوں میں چلے جاتے ہیں تاکہ میری سزا سے بچ سکیں۔تب میری کالی فوج ان کا پیچھا کرتی اور ان کو ذبح کرتی ہے،ان کی عورتوں کو رہن رکھنے کے بعد بستیوں کو آگ لگا دیتی ہے۔وہ ہر چیز پر کہتے میں کیسے ایک پوری قوم کو کوڑوں سے مار سکتا ہوں ؛ایک قوم جواس کائنات میں دوستوں سے محروم ہے تو میں ان کی زندگی کا وجود ختم کر دیتا ہوں محض اپنی تسکین کے لئے ہر طریقے سے ان لوگوں کو قتل کرتا ہوں۔"

مارک ٹوین کی یہ عبارت اس لنک سے دیکھی جا سکتی ہے۔

مگر آپ یہ عبارت کہیں بھی نہیں پڑھیں گے باوجود اسکے کہ مارک ٹوین عالمی مصنف ہے۔ اور نہ ہی اس کے بارے میں امریک طالب علموں سے سنیں گے حالانکہ مارک ٹوین کی عبارات امریکی سلیبس میں بہت مشہور ہیں سوائے سیاسی تحریروں کے۔۔

آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر آپ دس ملین سے زیادہ افریقی انسانوں کو قتل کر دیں کوئی بھی آپ کو ہٹلر کے مشابہہ نہیں قرار دے گا ۔نہ ہی آپ برائی اور شر کے ہم نام ہوں گے اور نہ ہی آپ کی شکل سے دہشت یا کراہت ٹپکے گی، حتیٰ کہ دکھ کا تاثر بھی نہیں چھوڑے گی۔ کوئی بھی آپ کے ہاتھوں ذبح ہونے والوں کے بارے میں بات نہیں کرے گا اور تاریخ کو آپ کا نام تک یاد نہیں رہے گا!

اس سلسلہ میں ایک ڈاکومینٹری بھی دیکھی جا سکتی ہے:
Congo White King, Red Rubber, Black Death کانگو، گورا بادشاہ، لال ربر اور کالی موت۔




 
Last edited by a moderator:

patriot

Minister (2k+ posts)
تاریخ فاتح کے زاویہ نگاہ سے لکھی جاتی ہے ۔
اس وقت دنیا کی امامت جن کے ہاتھ میں ہے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ دنیا کو کس رنگ میں دیکھنا ہے ۔
 

HamzaK

Banned
This is the true face of Christianity aka Liberalism or Secularism. By the time this King was ruling Belgium, Christianity had embraced an evolution called Secularism. But since world histories have been written by Christian authors and distributed by their governments, they don't show their actual ugly face to the world. This world has been ravaged over and over again by Christian regimes and armies. If today's Muslims can't fight these satanic forces then at least they may study histories and expose the criminals to the world.
 

HamzaK

Banned
The truth is Christianity has spread by terrorism and satanism. Africa, America, Canada, New Zealand are a few examples.
 

Aliimran1

Prime Minister (20k+ posts)
Aaj ki is duniya mein Islam kay Sar taj Arabon kay liye alag qanoon hai aur ajmion Kay liye alag
India mein Hindu Kay liye alag aur Muslim Kay liye alag --- jamhoriat Kay champion India mein Kashmiris Muslims Kay liye alag aur Hindu Kay liye alag ---- Gaow mata Muslim katay tu gala kato aur Beef export karo tu tijarat kahlaay
Pakistan mein Ashrafia Kay liye alag ghreeb Kay liye alag ---- qanoon Fauji jurm karay tu medals aur Maal zameen se nawazo aur Hukamran karain tu safe passage du aur Muk muka aik roti chori karo tu jail Magar Arbon Dollar ka ghaban karo tu Nab se Muk Muka
Ghora karay tu hero kala karay tu jurmh
South Africa mein aaj bhi Kalon Kay liye alag alag sazain hein
Kion kah ghureeb aur kala hona aik jurm hai ----- akhar Kion
?????????.
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
BBC NEWS
King Leopold's legacy of DR Congo violence
Mark Dummett
Former BBC Kinshasa correspondent

_39897345_leopold203.jpg

King Leopold II left arguably the largest and most horrid legacy

_39897201_victim02.jpg

Men who failed to bring enough rubber for agents were killed

_39897199_victim01.jpg

Children and adults had their hands chopped off


Of the Europeans who scrambled for control of Africa at the end of the 19th century, Belgium's King Leopold II left arguably the largest and most horrid legacy of all.
While the Great Powers competed for territory elsewhere, the king of one of Europe's smallest countries carved his own private colony out of 100km2 of Central African rainforest.
He claimed he was doing it to protect the "natives" from Arab slavers, and to open the heart of Africa to Christian missionaries, and Western capitalists.

Instead, as the makers of BBC Four documentary White King, Red Rubber, Black Death powerfully argue, the king unleashed new horrors on the African continent.

Torment and rape

He turned his "Congo Free State" into a massive labour camp, made a fortune for himself from the harvest of its wild rubber, and contributed in a large way to the death of perhaps 10 million innocent people.

I was so moved, Your Excellency, by the people's stories that I took the liberty of promising them that in future you will only kill them for crimes they commit
John Harris
Missionary in Baringa
What is now called the Democratic Republic of Congo has clearly never recovered.
"Legalized robbery enforced by violence", as Leopold's reign was described at the time, has remained, more or less, the template by which Congo's rulers have governed ever since.

Meanwhile Congo's soldiers have never moved away from the role allocated to them by Leopold - as a force to coerce, torment and rape an unarmed civilian population.

Chopping hands

As the BBC's reporter in DR Congo, I covered stories that were loud echoes of what was happening 100 years earlier.

The film opens with the shocking images of some of Leopold's victims - children and adults whose right hands had been hacked off by his agents.
They needed these to prove to their superiors that they had not been "wasting" their bullets on animals.

This rule was seldom observed as soldiers kept shooting monkeys and then later chopping off human hands to provide their alibis.

'Foreign correspondents'

Director Peter Bate uses documented accounts of such atrocities to present an imaginary court case against the monarch who he compares to a subsequent European tyrant, Adolf Hitler.

He has an actor play the bearded, heavily-set Leopold, fidgeting nervously as damning testimonies are read out, compiled by the foreign correspondents of the day, the missionaries.

John Harris of Baringa, for example, was so shocked by what he had come across that he felt moved to write a letter to Leopold's chief agent in the Congo.

"I have just returned from a journey inland to the village of Insongo Mboyo. The abject misery and utter abandon is positively indescribable. I was so moved, Your Excellency, by the people's stories that I took the liberty of promising them that in future you will only kill them for crimes they commit."

Positive legacy

In the film's most powerful sequences we see reconstructions of the terror caused by Leopold's enforcers and agents.

We see a village burnt without warning and its people rounded up; its men sent off into the forests, and its women tied up as hostages and helpless targets of abuse until their husbands return with enough wild rubber to satisfy the agent.

This, we are told, was the "moment of truth" for the whole community.

If the men did not bring back enough and the agent lost his commission, he would order the deaths of everyone.

There is no doubt that Congo's history, and White King, Red Rubber, Black Death are almost too upsetting to bear, however Leopold did leave, albeit unwittingly, one positive legacy - the birth of modern humanitarianism.
The campaign to reveal the truth behind Leopold's "secret society of murderers," led by diplomat Roger Casement, and a former shipping clerk ED Morel, became the first mass human rights movement.

Its successors like Amnesty International, Human Rights Watch and the Kinshasa-based Voix des Sans Voix and Journaliste En Danger mean abuses in modern day DR Congo can never be hidden for long.

Congo: White king, red rubber, black death will be shown on BBC Four in the UK on Tuesday, 24 February at 2100

Story from BBC NEWS:
http://news.bbc.co.uk/go/pr/fr/-/2/hi/africa/3516965.stm

Published: 2004/02/24 13:46:00 GMT

BBC 2017


http://news.bbc.co.uk/2/hi/africa/3516965.stm
 
Last edited:

Back
Top