بھئی عقل کل تو وہ ہے۔۔اس کا ذکر تو قصوں کہانیوں میں آتا ہے۔۔۔
جیسا کہ یہاں۔۔۔ ? ۔
اس سے پنگا، نہیں چنگا۔
تحریر؛ جانی
پھر کہتے ہیں ہم ڈوب گئے، برباد ہوگئے، ۔۔او کچھ عقل سے کام لو، جانتے ہو کس سے پنگا لے رہے ہو۔۔
ہٹلر کی فوج کے بے رحم برف میں پھنس جانے کی اطلاع جب اسے ملی تو کہا جاتا ہے کہ اس کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے کہ کاش اس کی بات مانی ہوتی۔۔
وہ ایک نڈر لیڈر تو تھا ہی مگر ساتھ ہی ساتھ دوراندیش و درویش صفت بھی تھا۔۔ اس کی شہرت نے اپنے پنڈ کی سرحدوں کو عبور کرکے جس تیزی سے یورپ و امریکہ کو اپنے سحر میں جھکڑا، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔۔
ایک دن وہ اپنے خیمے میں بیٹھا۔۔ اپنی چھوٹی آنکھوں کو مزید چھوٹا کئے سوچ میں غرق تھا کہ جاں کی امان پاتے ہوئے ایک درباری نے تخلیہ میں ایک خبر دینی چاہی، جس کی اسے فورا اجازت مل گئی۔۔ کیونکہ وہ درباری اگر کچھ گڑبڑکرتا بھی تو اپنا کرتا،۔۔اس پہ کیا فرق پڑتا۔۔
خبر سن کر پہلے تو اس کے چہرے کے تاثرات یوں تھے جیسے درباری کی آئی باری۔۔مرنے کی۔۔۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر اک فاتحانہ مسکُراہٹ دیکھ کر درباری کی بھی جان میں جان آئی۔۔۔وہ تھا ہی کچھ ایسا۔۔کہ کب کیا کرجائے کسی کو اندازہ نہیں ہوتا۔۔اور جب ہوتا تو بہت دیر ہوچکی ہوتی۔۔
اس نے گائے کا چھوٹا سا چمڑہ منگوایا۔۔جو آج کل کے حساب سے دو بائے دو کے آس پاس بنتا ہے۔۔اور اس پر خون سے کچھ لکیریں ڈالنی شروع کردیں۔۔خون اس کا نہیں بلکہ اس گائے کے خاوند کا تھا۔۔لکیریں دیکھ کراس کے بڑے بڑے عقل والے مشیروں کے سرچکرا کے رہ گئے تھے۔۔مشیر بھی کیا تھے بس فارمیلیٹی کے لئے رکھے تھے۔۔ورنہ اکثر وہ مشیروں سے مشورہ لینے کے بجائے دیتے دکھائی دیتا تھا۔۔ جس پر بعض اوقات مشیر بھی کنفیوژ ہوجاتے کہ مشیر وہ ہیں کہ یہ۔۔
اس نےوہ چمڑہ درباری کے حوالے کرکے اسے فورا اپنے مقام تک پہنچانے کا حکم صادر کیا اور خود اپنے خیمے میں آرام کی نیت سے لیٹ گیا۔۔ رات کو اچانک اس کی آنکھ کھلی تو خیمے کے آس پاس مشکوک حرکات نے اس کے کان کھڑے کردیئے۔۔ اوروہ فورا ہی کسی چیتے کی طرح چستی دکھاتے ہوئے، بہادری سے خیمے کے باہر آیا۔۔ کیونکہ اس کی ڈکشنری میں احتیاط کا مطلب تھا بزدلی۔۔
باہر آیا تو بلی کو بھاگتے دیکھ کر فاتحانہ انداز میں سوچھا کہ یہ یقینا کوئی شیر تھا مگر ہماری دہشت سے بلی بن کے بھاگنے پر مجبور ہوا۔۔
دراصل وہ محاز پر تھا۔۔ اور اس نے دشمن کے قلعے کے گرد اپنی فوج بٹھائی ہوئی تھی۔۔ قریب تھا کہ وہ حملہ کردیتا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ دشمن ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔۔ اور ہوتا بھی کیوں نہ۔۔ اس کی دور اندیشی۔۔ اس کی چالاکیوں اور اس کی مہارت کے علاوہ اس کی بہادری کے آگے ان کا کیا بس چل سکتا تھا۔۔
بغیر لعش گرائے جنگ جیتنا اس کی عادت بن گئی تھی۔۔ اور وہ بور ہونے لگا تھا۔۔ تو اس نے اپنی قوم کے لئے ریل کے منصوبے متعارف کرانے کا سوچھا۔۔۔ پٹڑی تو ڈل گئی۔۔مگر مسٗلہ یہ تھا کہ اس پر انجن کو کیسے ڈالا جائے۔۔ کیونکہ گھوڑوں کے بس کی بات وہ نہ تھی۔۔ اس بار چشم فلک نے اس کی طاقت دیکھی۔۔ اُف۔۔ کیا زبردست جوانی تھی۔۔۔
اس نے اپنے کندھوں تک لمبے بالوں کے ساتھ ریل کے انجن کو رسیوں کی مدد سے کھینچنا شروع کیا تو پہلے جو لوگ دل ہی دل میں اس کا مزاق اُڑا رہے تھے۔۔ اب شرمندہ شرمندہ سے تھے۔۔ کیونکہ وہ جوان اسے ایسے کھینچے جارہا تھا۔۔ جیسے کھوتا کسی خالی ریڑی کو کھینچتا ہے۔۔ مطلب بہت آسانی سے۔۔ یہ سب تو ہوگیا۔۔ مگر اب مسئلہ تھا۔۔ مزدوروں کی اور ضروری سامان کی جلد ترسیل کا ورنہ کام رک جاتا۔۔
یہی وہ وقت تھا جب اسے اس کے گائے کے چمڑے پر کھینچی لکیروں کا صلہ ملنا تھا۔۔ معلوم اس چمڑے پر اس نے کیا بنایا تھا۔۔ جب اسے اطلاع ملی کہ دور بہت دور سے کوئی آیا ہے اور آپ سے ہوا بازی سے متعلق مدد درکار ہے اسے۔۔ تو اس کی تیز نظر اور تیز دماغ نے اسے بتا دیا کہ کیا کرنا ہے۔۔ اس نے فورا ہی جہاز کا نہ صرف نقشہ بنایا ۔۔ بلکہ ایروڈانمکس ۔۔جہاز کے پر تولنا ، اسے موڑنا ۔۔ اور پھر مستقبل میں کنٹرول ٹاور سے بولنا بھی لکھ ڈالا۔۔ اور بدلے میں ایک آنے کا بھی تقاضہ نہ کیا۔۔ جس سے وہ لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس کا بدلہ دینے کا تہیہ کرلیا۔۔ اور اب جب انہیں موقع ملا تو وہ کیوں نہ اپنے محسن کی مدد کوآتے۔۔ اور اس طرح اس کا یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔۔اور ریل گاڑی واور اس کی پٹڑیاں وجود میں آئیں۔۔
جی ہاں آپ نے صحیح پہچانا۔۔ جس شخصیت کو آج طرح طرح کے ڈرامے کر کے ستارہے ہو۔۔ اور اس کے گنج پن پر لوگوں کو ہنسارہے ہو۔۔ یہ گنج اس نے اپنی قوم کے لئے اس سے ریل کھینچ کر کیا۔۔ تم نے کیا کیا۔۔ خالی باتیں۔۔ اب اگر وہ کہتا ہے کہ کوئی حاظر وقت بادشاہ اس سے ڈر گیا ہے تو اس پر ہنسنے کے بجائے اس پر غور کرو، اور ڈرو۔۔ کہیں صدیوں سے چھپا اس کے اندر سویا ہوا جوان جاگ گیا تو کیا کرو گے۔۔