محتلف فورم پر اور شوشل میڈیا پر بس ایک ہی بات ہے شاہد افریدی اور پاکستان کرکٹ ٹیم خفیظ احمد شہزاد شعیب ملک عمر اکمل ان ناموں اور ان ناموں پر بحث کے علاوہ نہ کچھ دیکھنے کو ملتا ہے نہ سننے کو ہر چینل پر جاوں جہاں پر گھنٹوں ایم کیو ایم اور مصطفی کمال کی سٹوریاں چل رہی تھی ان سب باتوں کو بریک لگ چکا ہے ۔10یا 12 ٹیسٹ کرکٹ کھلینے والے اور اس طرح 25.25ون ڈے کھلینے والے ہرشام کو کیسی ماہر سرجنوں کی طرح کرکٹ ٹیم اور عوا م کا پوسٹ مارٹم کرنے میں مصروف نظر اتے ہے ۔اور تو اور ایک اور قاری کی پوسٹ نظر سے گزری کہ ٹورنمنٹ سے تو ساوتھ افریقہ بھی نکلنے والا ہے مگر وہاں تو ٹیم کے خلاف نہ کچھ دیکھنے کو ملتا ہے
نہ ہی سننے تو مجھے تعجب ہوا اس طرح کی بات کہنے والے پر لیکن یہ پتہ نہیں چلا کہ اس طرح کی بات کہنے والا شائد پشاور کراچی لاہور یا پاکستان کے کسی علاقے کا باشندہ تو نہیں ہوسکتا ورنہ وہ اس طرح نہیں کہتا یا لکھتا ،ہوسکتا ہوں موصوف پاکستانی تو ہوں مگر بیروں ملک مقیم ہوگا۔پاکستانی کے نزدیک کرکٹ کیوں اہم ہے عرصہ نصف صدی سے ہم تمام پاکستانی غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہے باہر کے ممالک میں ایک چھوٹے سا پٹاحہ بھی پھوٹ پڑھے تو ایک دو بڑے بڑے عہدوں والے منسٹر استعفی دے دیتے ہے ،یہاں عرصہ سالوں سے دہشت پھیلی ہوئی ہے ہزاروں پاکستانی لقمہ اجل بن گئے لیکن کیسی ایک دفتر کے چپڑاسی کا استعفی تک دیکھنے کو نہیں ملا۔
اٹیم بم اور دنیا کی بہتریں میزائل ٹیکنالوجی سے لیس دنیا کی بڑی اور بہتر افواج کی حامل ملک میں بجلی کا یہ خال ہے کہ ہر انے والی حکومت الیکشن جیتنے کے لیے بجلی کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے ہمارے والدین ہم اور ہمارے ہونے والے بچے عہدے غلامی میں پیدا ہوئے اور کچھ نسل تو مٹی میں مل گئی کچھ کا کچھ حصہ زندگی کا بقایا ہے مگر ہمارا بھٹو اور نواز اج بھی زندہ ہے ۔ان منحوس چہروں کے علاوہ نہ ہم نے کچھ دیکھا نہ دیکھ پائینگے ۔پاکستانیوں کی اکثریت سیکڑوں ٹی وی چینل کے ہوتے ہوئے
ہر روز طلال چودھری پرویز رشید اور الطاف کی بک بک دیکھنے کے لئے مجبور ہے کوہلو کی بیل کی طرح پاکستانی پورے 30 دن کام میں لگے ہوتے ہے 30ویں دن جب اجرت ملتی ہے تو پہلے پہل بجلی اور گیس کے بل جمع کرکے دیکھتی ہے کہ کچھ اگر اس سے بچ جائے تو وہ کیسی اچھے خوراک کی عیاشی کا سوچھے روز صبح اہل وطن کی پہلے پہل ٹی وی یا اخبار دیکھنے کی ہوتی کہ خودکش کہاں ہو ا ہے ۔کرکٹ گراونڈ جنازے اور جلسے کے لئے رہ گئے ہے ۔پاکستانی دنیا میں نہ کہیں جاسکتے ہے نہ کچھ کما سکتے ہے ۔حکمرانوں نے ہمارے خون اتنا چوسا ہے
کہ جب الیکشن ہوتا تو جسم میں کیسی نشی کی طرح سوئیاں چوبتی ہے اور پہلے سے زیادہ مینڈیٹ دینے کے لئے بعمائے اپنے فیملی کیساتھ پولنگ سٹیشن کا رح کرتے ہے ۔ووٹ دینے کے بعد 5 سال پھر رونے میں بیت جاتے ہے ۔پھر سال بعد جب کوئی کرکٹ ایونٹ ہوتا ہے تو بس پاکستانیوں کے نزدیک یہی لمحہ خوشی اور مسرت کا ہوتا اورخوشی اور مسرت میں کوئی بھی رنگ میں بھنگ برداشت کرنے کا عادی نہیں ہوتا۔ یہی ہمارہ حال بھی ہے ایک ہی تو خوشی ہے کرکٹ اس کے لئے نہ تو بچوں کے لئے نہ ہی نئے کپڑے اور نہ ہی نئے جوتے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔بھلا ایسے تہوار کا کوں مزہ خراب کرنے کا سوچھے گا ۔
نجم سیٹی جس کرکٹ کا سربراہ ہوں جس کی ساری زندگی پاکستان علیحدگی تحریکوں میں گزری ہوں صبح سپریم کورٹ اس کو گھر بیج دیتی ہے شام کو بادشاہ سلامت پھر اس کو کرسی پیش کرتا ہے ۔عجیب ملک ہے لوگ صدر پاکستان کے قسمت پر رشک کرتے ہے کہ دہی بڑے بادشاہ سلامت کے لئے بیجنے والا صدر بن سکتا ہے ہڑیسہ بنانے والا سلام اباد کا مئیر بن سکتا ہے
اور اب اگلی باری کیسی اچھے ڈیش بنانے والی کی ہے ان کو وزیر خارجہ بنانے کا امکان ہے اس لئے تو ہر شام سیایسی ٹاک کے بعد ہر دوسرے چینل پر کھانا بنانے والوں کی بھرمار ہے معبادا بادشاہ سلامت کو کوئی ڈیش اچھی لگے اور ان کا نمبر لگ جائے ۔
کراچی پر گزشتہ 30سال سے ایک بھیڑے کا قبضہ ہے بڑے شہر کے بڑے بڑے لوگ جب رشیا وزٹ کے لئے جاتے ہے تو وہاں ان کو کمروں میں بند کیا جاتا ہے خود سوچھے اگر عام رعایا اگر وہاں گیا ہوتا تو اس کی لاش اتی ۔
نہ ہی سننے تو مجھے تعجب ہوا اس طرح کی بات کہنے والے پر لیکن یہ پتہ نہیں چلا کہ اس طرح کی بات کہنے والا شائد پشاور کراچی لاہور یا پاکستان کے کسی علاقے کا باشندہ تو نہیں ہوسکتا ورنہ وہ اس طرح نہیں کہتا یا لکھتا ،ہوسکتا ہوں موصوف پاکستانی تو ہوں مگر بیروں ملک مقیم ہوگا۔پاکستانی کے نزدیک کرکٹ کیوں اہم ہے عرصہ نصف صدی سے ہم تمام پاکستانی غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہے باہر کے ممالک میں ایک چھوٹے سا پٹاحہ بھی پھوٹ پڑھے تو ایک دو بڑے بڑے عہدوں والے منسٹر استعفی دے دیتے ہے ،یہاں عرصہ سالوں سے دہشت پھیلی ہوئی ہے ہزاروں پاکستانی لقمہ اجل بن گئے لیکن کیسی ایک دفتر کے چپڑاسی کا استعفی تک دیکھنے کو نہیں ملا۔
اٹیم بم اور دنیا کی بہتریں میزائل ٹیکنالوجی سے لیس دنیا کی بڑی اور بہتر افواج کی حامل ملک میں بجلی کا یہ خال ہے کہ ہر انے والی حکومت الیکشن جیتنے کے لیے بجلی کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے ہمارے والدین ہم اور ہمارے ہونے والے بچے عہدے غلامی میں پیدا ہوئے اور کچھ نسل تو مٹی میں مل گئی کچھ کا کچھ حصہ زندگی کا بقایا ہے مگر ہمارا بھٹو اور نواز اج بھی زندہ ہے ۔ان منحوس چہروں کے علاوہ نہ ہم نے کچھ دیکھا نہ دیکھ پائینگے ۔پاکستانیوں کی اکثریت سیکڑوں ٹی وی چینل کے ہوتے ہوئے
ہر روز طلال چودھری پرویز رشید اور الطاف کی بک بک دیکھنے کے لئے مجبور ہے کوہلو کی بیل کی طرح پاکستانی پورے 30 دن کام میں لگے ہوتے ہے 30ویں دن جب اجرت ملتی ہے تو پہلے پہل بجلی اور گیس کے بل جمع کرکے دیکھتی ہے کہ کچھ اگر اس سے بچ جائے تو وہ کیسی اچھے خوراک کی عیاشی کا سوچھے روز صبح اہل وطن کی پہلے پہل ٹی وی یا اخبار دیکھنے کی ہوتی کہ خودکش کہاں ہو ا ہے ۔کرکٹ گراونڈ جنازے اور جلسے کے لئے رہ گئے ہے ۔پاکستانی دنیا میں نہ کہیں جاسکتے ہے نہ کچھ کما سکتے ہے ۔حکمرانوں نے ہمارے خون اتنا چوسا ہے
کہ جب الیکشن ہوتا تو جسم میں کیسی نشی کی طرح سوئیاں چوبتی ہے اور پہلے سے زیادہ مینڈیٹ دینے کے لئے بعمائے اپنے فیملی کیساتھ پولنگ سٹیشن کا رح کرتے ہے ۔ووٹ دینے کے بعد 5 سال پھر رونے میں بیت جاتے ہے ۔پھر سال بعد جب کوئی کرکٹ ایونٹ ہوتا ہے تو بس پاکستانیوں کے نزدیک یہی لمحہ خوشی اور مسرت کا ہوتا اورخوشی اور مسرت میں کوئی بھی رنگ میں بھنگ برداشت کرنے کا عادی نہیں ہوتا۔ یہی ہمارہ حال بھی ہے ایک ہی تو خوشی ہے کرکٹ اس کے لئے نہ تو بچوں کے لئے نہ ہی نئے کپڑے اور نہ ہی نئے جوتے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔بھلا ایسے تہوار کا کوں مزہ خراب کرنے کا سوچھے گا ۔
نجم سیٹی جس کرکٹ کا سربراہ ہوں جس کی ساری زندگی پاکستان علیحدگی تحریکوں میں گزری ہوں صبح سپریم کورٹ اس کو گھر بیج دیتی ہے شام کو بادشاہ سلامت پھر اس کو کرسی پیش کرتا ہے ۔عجیب ملک ہے لوگ صدر پاکستان کے قسمت پر رشک کرتے ہے کہ دہی بڑے بادشاہ سلامت کے لئے بیجنے والا صدر بن سکتا ہے ہڑیسہ بنانے والا سلام اباد کا مئیر بن سکتا ہے
اور اب اگلی باری کیسی اچھے ڈیش بنانے والی کی ہے ان کو وزیر خارجہ بنانے کا امکان ہے اس لئے تو ہر شام سیایسی ٹاک کے بعد ہر دوسرے چینل پر کھانا بنانے والوں کی بھرمار ہے معبادا بادشاہ سلامت کو کوئی ڈیش اچھی لگے اور ان کا نمبر لگ جائے ۔
کراچی پر گزشتہ 30سال سے ایک بھیڑے کا قبضہ ہے بڑے شہر کے بڑے بڑے لوگ جب رشیا وزٹ کے لئے جاتے ہے تو وہاں ان کو کمروں میں بند کیا جاتا ہے خود سوچھے اگر عام رعایا اگر وہاں گیا ہوتا تو اس کی لاش اتی ۔