کربلا کا سفر ( مبشر علی زیدی کی یاداشتیں)۔

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
کربلا کا سفر (کچھ یادیں)۔

unnamed.jpg


تحریر: مبشر علی زیدی

بُلاوا

میری پیاری امی کا انتقال ہوچکا ہے۔ میں قرآن پاک خریدتا ہوں اور امی کی طرف سے مسجدوں میں رکھ دیتا ہوں۔ چاہے کوئی سُنی پڑھے، شیعہ پڑھے، مقلد پڑھے، غیر مقلد پڑھے، کچھ ثواب امی کو بھی پہنچتا ہوگا۔امام حسین علیہ السلام کا حرم بھی خدا کی مسجد ہے۔ یہاں بھی نماز پڑھی جاتی ہے۔ یہاں بھی قرآن پڑھا جاتا ہے۔ جگہ جگہ طاقچے بنے ہیں جن میں قرآن پاک رکھے ہیں۔ تسبیحیں رکھی ہیں۔ کوئی زمین پر سجدہ نہ کرنا چاہے تو سجدہ گاہیں رکھی ہیں۔


پچھلی بار میں کربلا آیا تو دیکھا کہ حرم کے خدام بہت چوکس ہیں۔ نہ کچھ لانے دیتے ہیں، نہ لے جانے دیتے ہیں۔ میں نے باہر ایک دکان سے چار قرآن پاک خریدے اور چپکے سے حرم میں داخل ہوگیا۔ ایک طاق میں رکھنے کو تھا کہ ایک خادم نے پکڑلیا۔ میں گھبرا گیا۔


وہ نرم لہجے میں کچھ کہتا تھا لیکن عربی بولنے کی وجہ سے میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ میرے بازو کو گرفت میں لے کر ایک دفتر میں پہنچا۔ میں سمجھا کہ اب خیر نہیں۔ نہ جانے کیا حشر کریں۔ خادم نے شیخ الخدام کو کچھ بتایا۔ انھوں نے جھک کر مجھے سلام کیا۔ عربی، فارسی اور اردو کی آمیزش سے میرا شکریہ ادا کیا۔ قرآن پاک کو بوسہ دیا۔ پھر مجھے تحفے میں ایک چھوٹی سی تھیلی پیش کی۔ اس میں امام حسین علیہ السلام کی قبر کی چند چٹکی مٹی تھی۔



لوگ اسے خاک شفا کہتے ہیں۔ جب کبھی میری طبیعت خراب ہوتی تھی تو امی کہتی تھیں، میرے لال، تجھے کچھ نہیں ہوگا۔ کم از کم میری زندگی میں تجھے کچھ نہیں ہوگا۔ ہر ماں اپنے بچے کو ایسے ہی دلاسا دیتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ایک دن کہیں جارہے تھے۔ راستے میں انھیں ٹھوکر لگی۔ خدا نے آواز دی، موسیٰ سنبھل کر۔ اب تیرے لیے دعا کرنے والی ماں نہیں رہی۔



امی کا انتقال ہوا اور میری آنکھوں میں تکلیف ہوئی تو میں ڈاکٹر ہاشمانی کے اسپتال گیا۔ ڈاکٹر شریف ہاشمانی نے بتایا کہ میری آنکھوں میں موتیا اتر رہا ہے۔ سفید موتیا نہیں، کالا موتیا۔ سفید موتیا کے آپریشن کے بعد آنکھیں صاف ہوجاتی ہیں۔ کالا موتیا آنکھیں لے کر چھوڑتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا، ہم بیماری کو روکنے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن بینائی گئی تو واپس نہیں آئے گی۔ علاج نہیں کرو گے تو سال دو سال میں اندھے ہوجاؤ گے۔ ہم ٹریٹمنٹ کریں گے تو چار پانچ سال مل جائیں گے۔


لوگ تصویر کا روشن رخ دیکھتے ہیں۔ دھندلی آنکھوں والوں کو ہمیشہ تاریک پہلو دکھائی دیتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ آنکھیں گئیں۔ ان حالات میں پچھلی بار کربلا آیا تھا۔امام حسین علیہ السلام کے روضے سے خاک شفا لینے کے بعد میں حضرت عباس علیہ السلام کے روضے پر آیا۔ قرآن پاک خریدنے کے بجائے حرم کے اندر موجود دفتر پہنچ گیا۔ وہاں خدام سے تڑخی ہوئی عربی، شکستہ فارسی اور شستہ اردو میں پوچھا کہ کیا میں یہاں قرآن پاک رکھ سکتا ہوں؟ خدام کی سمجھ میں کوئی اور بات آئی۔ ایک نے قرآن پاک کا چھوٹا نسخہ اٹھاکر مجھے دیا۔ اس پر روضے کی مہر لگی ہوئی تھی۔ اس نے کہا، وعدہ کرو، اسے روز پڑھو گے؟ میں نے وعدہ کرلیا۔



خاک شفا آنکھوں پر مل لی۔ قرآن کا ایک صفحہ روز کھول کر دیکھ لیتا ہوں۔ بینائی بحال ہے۔ ہاشمانی اسپتال کے ڈاکٹر اب کہتے ہیں، پہلے ہماری مشین میں کوئی گڑبڑ تھی۔ غالباً تمھاری آنکھوں کی بناوٹ دھوکا دیتی ہے۔ تمھیں کالا موتیا لاحق نہیں۔ کسی علاج کی ضرورت نہیں۔ کسی دوا کی ضرورت نہیں۔ کسی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس رپورٹس موجود ہیں۔ ریکارڈ موجود ہے۔ کراچی میں کوئی دیکھنا چاہے تو حاضر ہے۔


میں نظر کا چشمہ لگاتا ہوں لیکن پھر بھی آنکھوں میں درد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ میری آنکھیں ضرورت سے زیادہ خشک رہتی ہیں۔ مصنوعی آنسوؤں کے ڈراپس ملتے ہیں۔ آنکھوں میں جب درد ہو، ایک دو قطرے ٹپکالیا کرو۔ میں دس مہینے وہ ڈراپس جیب میں رکھتا ہوں۔ محرم میں ضرورت نہیں پڑتی۔


امام حسین علیہ السلام کی ضریح کے قریب ایک قبر حبیب ابن مظاہر کی ہے۔ یہ امام کے بچپن کے دوست تھے۔ کوفے میں کھانا کھارہے تھے کہ امام کا خط ملا۔ کھانا چھوڑکے کربلا کا رخ کیا۔ عاشور کے دن حبیب نے حبیب سے پہلے اپنی جان دی۔


لوگ کہتے ہیں کہ حبیب ابن مظاہر ؓکی ضریح پر ہاتھ سے کسی دوست، کسی رشتے دار، کسی محلے دار کا نام لکھ دیں تو کربلا کا بلاوا آجاتا ہے۔ گویا یہ کوئی نوٹس بورڈ ہے۔ گویا یہ کوئی حاضری کی درخواست کا مقام ہے۔ سچ سچ بتاؤں؟ ہم کئی سال سے کربلا کا ارادہ کررہے تھے۔ پیسے بھی تھے، شوق بھی تھا، ہمت بھی تھی لیکن بلاوا نہیں تھا۔


ہم چھ سات سال پہلے ایک خاتون کے مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ اب ہم وہاں نہیں رہتے لیکن میری بیوی نے ان کے ہاں بیسی ڈالی ہوئی ہے۔ وہ اس ماہ بیسی دینے گئی تو آنٹی نے بتایا، وہ کربلا گئی ہوئی تھیں اور انھوں نے حبیب ابن مظاہرؓ کی ضریح پر میرا نام لکھ دیا ہے۔ اب کربلا کا بلاوا آنے والا ہے۔ میری بیوی حیران رہ گئی کہ ہم تو واقعی چند دن میں روانہ ہونے والے ہیں۔



سفر کربلا اور روزہ امام حسین [SUP]علیہ السلام[/SUP] پر حاضری

iraqi-shiite-piligrims-heading-to-karbala1.jpg


خانیوال کے مرکزی امام بارگاہ میں ایک ضریح رکھی ہے جو میرے دادا ظفر حسن نے رام پور سے بنوائی تھی۔ شاید قیام پاکستان سے پہلے بنوائی ہوگی۔ بابا میرا ہاتھ تھام کے اس ضریح کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میرا بچپن تھا۔ میں ضریح کو تکتا رہتا تھا۔ بابا کہتے تھے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے روضے کی شبیہہ ہے۔
شاید تبھی امام حسین علیہ السلام سے محبت ہوگئی تھی۔آج کربلا پہنچ گیا ہوں۔ رات کا جاگا ہوا تھا۔ دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ لیکن اسی عالم میں حرم کی طرف چل دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ حسین علیہ السلام کا لشکر تین دن تک بھوکا پیاسا رہا۔ سات محرم کو پانی بند ہوگیا تھا۔ آج سات محرم ہی تو ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے روضے پر جانے سے پہلے ایک اور جگہ گیا۔ وہ کون سی جگہ ہے، یہ کل بتاؤں گا۔ وہاں سے امام کے روضے پر پہنچا۔ بیٹے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔میرا بیٹا اتنا چھوٹا بھی نہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھانی پڑیں اور اتنا بڑا بھی نہیں کہ بڑی بڑی باتیں سمجھ جائے۔ لیکن آج میں نے اسے ایک بڑی بات بتائی۔ جب بڑا ہوجائے گا تو سمجھ جائے گا۔
حرم کے دروازے سے امام کی قبر کی جالی تک، جسے ضریح کہا جاتا ہے، میں نے کہا کہ تم بڑے ہوکر جی چاہے تو سنی بن جانا،جی چاہے تو شیعہ، یا مرضی ہو تو کچھ بھی نہیں۔ یہ تمھارا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے۔تم کسی بھی مذہب کا انتخاب کرنا لیکن یاد رکھنا کہ جس ہستی کے نام پر تمھارا نام رکھا ہے، اس کا دامن مت چھوڑنا۔​
پھر میں نے گنبد کے نیچے دونوں حُسینوں کو گواہ بناکر کہا کہ میں نے دونوں کو ملادیا۔ آگے اُس حسین علیہ السلام کی مرضی کہ دوبارہ بلاتا ہے یا نہیں اور اِس حسین کی مرضی کہ لوٹ کے آتا ہے یا نہیں۔نجف سے کربلا آتے ہیں تو راستے میں جگہ جگہ خیمے لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ زائرین کے مہمان خانے ہیں۔ عاشور پر اور چہلم پر، جسے یہاں اربعین کہا جاتا ہے، لوگ نجف سے پیدل چلتے ہیں اور تین دن سفر کرکے کربلا پہنچتے ہیں۔ راستے میں خیمے لگاکر بیٹھے مقامی افراد انھیں مہمان بناتے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی پلاتے ہیں۔ انھیں آرام دہ بستر فراہم کرتے ہیں۔
مقتل میں لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کے اسیر خاندان کو اسے راستے سے کوفہ لے جایا گیا۔ کوئی مہمان خانہ نہیں تھا۔ کسی نے کھانا پانی نہیں پوچھا۔ لوگ تماشا سمجھ کر راستے میں کھڑے ہوجاتے تھے اور پتھر مارتے تھے۔
کربلا میں قیامت کا رش ہے۔ عراق بھر سے اور پوری دنیا سے حسین علیہ السلام کے ماننے والے آئے ہوئے ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والے ہوٹلوں کا انتظام کرکے پہنچے ہیں۔ مقامی لوگ کسی انتظام کے بغیر آجاتے ہیں۔ کوئی قیام گاہ مل گئی تو اچھا ہے، نہیں تو زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کھلانے والے لنگر بہت، پلانے والی سبیلیں بہت۔ گرمی ہے تو درخت کے نیچے لیٹ کر سوگئے۔ سردی ہے تو حرم کی جانب سے ہزاروں کمبل تقسیم کیے جاتے ہیں۔ لیکن لاکھوں کے مجمع میں ہزاروں سے کیا ہوتا ہے۔
پچھلی بار آیا تھا تو سردی تھی۔ اس بار آتے ہی بارش دیکھنے کو ملی۔ پہلے موسلادھار بارش۔ پھر موسلادھار جلوس۔ ایک کے بعد ایک جلوس۔ طرح طرح کے جلوس۔میں نے کراچی میں عاشور پر سنی بھائیوں کے جلوس دیکھے ہیں۔ ان میں بچے لکڑی کی تلواریں چلاتے ہیں۔ بعض اہل تشیع اعتراض کرتے ہیں کہ غم کے دن یوں نہیں کرنا چاہیے۔​
کربلا آکر دیکھیں، یہ سب یہاں ہوتا ہے۔ شاید یہ روایت کربلا ہی سے ہمارے ہاں پہنچی ہے۔ میں نے آج کئی جلوس دیکھے، عراقی قبیلوں، مقامی تنظیموں کے جلوس، جن میں کچھ نوجوان لشکر حسین کے نوجوانوں کا لباس پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تلوار تھی، زبان پر رجز تھا۔ ایک کو گھوڑے پر بھی سوار دیکھا۔ ہر جلوس کے آگے اسکاؤٹ کے بجائے ملٹری بینڈ۔ نقارہ بج رہا ہے، اسلحے کی جھنکار ہے۔ پہلے آپ کو یاد آئے گا کہ یہ کربلا ہے۔ پھر یاد آئے گا کہ محرم ہے۔ تاریخ آپ کو مجسم دکھائی دے گی۔ کچھ دیر کے لیے آپ چودہ سو سال پیچھے پہنچ جائیں گے۔
امام حسین علیہ السلام کے روضے پر ایک گورا نظر آیا۔ مجھے بہت تعجب ہوا۔ وہ کچھ دیر ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑا رہا۔ پھر باہر نکل آیا۔
میں بھی باہر نکلا۔ سوچا کہ اپنی انگریزی کا امتحان لینا چاہیے۔ اس سے پوچھا، کہاں سے آئے ہو۔ اس نے بتایا، امریکا کا ہوں۔ میں نے سوال کیا، کوئی پروڈیوسر ہو؟ ڈاکومنٹری بنانا چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا، میں فنانشل اینالسٹ ہوں۔ میرا فلم ولم سے کوئی تعلق نہیں۔ تعطیلات پر مشرق وسطیٰ گھوم رہا ہوں۔
میں نے کہا، تعطیلات پر ہو تو دبئی عمان کیوں نہیں گئے؟ امام حسین علیہ السلام کے روضے پر کیسے آگئے؟وہ امریکی بھڑک گیا۔ کہنے لگا، تم واشنگٹن آتے ہو تو کیا ہم پوچھتے ہیں کہ ابراہام لنکن کے مقبرے پر کیسے آگئے؟ لوگ نجات دہندوں کو سلام کرنے، حاضری دینے آتے ہی ہیں۔ میں نے امام بارگاہوں میں لکھا دیکھا تھا، ان الحسین مصباح الھدیٰ سفینۃ النجاۃ۔ اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس غیر مسلم سے گفتگو کرکے گرہ کھل گئی۔
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
کربلا کا سفر (کچھ یادیں)۔
کربلا میں آپ کہیں سے بھی داخل ہوں، غازی عباس [SUP]علیہ السلام[/SUP] آپ کا استقبال کرتے ہیں ۔

Ashura-Mourning-Shia-Muharram-Imam-Hussain-Sunni-Karbala1.jpg


تحریر: مبشر علی زیدی


کربلا میں آپ کہیں سے بھی داخل ہوں، غازی عباس علیہ السلام آپ کا استقبال کرتے ہیں۔اس بات کا ایک اور مطلب بھی ہے لیکن میں یہ بتارہا ہوں کہ دور سے آپ کو غازی کے روضے کا گنبد نظر آجائے گا۔ یہ امام حسین علیہ السلام کے روضے کے گنبد سے کچھ مختلف ہے۔ بنانے والوں نے اسے کچھ ایسے بنایا ہے کہ اس میں کشش پیدا ہوگئی ہے۔


میری پھپھو نے کوئی چار دہائیاں قبل کچھ عرصہ، شاید کئی سال کربلا میں قیام کیا تھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ رات کو وہ بین الحرمین بیٹھ جاتی تھیں۔ پھر انھیں گنبد سے آسمان تک روشنی کا ایک سلسلہ، ایک مینار دکھائی دیتا تھا۔پھپھو نے یہ بات اس وقت بتائی تھی جب میں اتنا چھوٹا تھا کہ اسکول میں بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ قسم خدا کی، یہ بات آج سے پہلے کبھی یاد نہیں آئی۔ گنبد دیکھا تو پھپھو کے الفاظ کان میں گونجے۔



آج رات میں بین الحرمین جابیٹھا۔ گنبد پر نگاہیں جمادیں۔ جب تک آنکھیں خشک رہیں، کچھ نظر نہیں آیا۔ جیسے ہی ان میں اشک بھرے، روشنی کا ایک مینار آسمان تک بلند ہوگیا۔

بین الحرمین کا مطلب ہے، دو حرموں کے درمیان کی جگہ۔ کربلا میں ایک راستہ ایسا ہے کہ ایک طرف امام حسین علیہ السلام کا حرم ہے، دوسری طرف حضرت عباسؑ کا روضہ۔ درمیان میں اشک بار سوگ وار عزادار۔ یہ اصطلاح کربلا کے علاوہ میں نے صرف مدینے میں سنی ہے۔ ایک طرف پاک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا روضہ، دوسری طرف پاک ہستیوں کی آرام گاہ جنت البقیع۔ میں نے وہاں بھی بہت گشت کیا ہے۔


گشت کرنے کا ایک اور مقام مکہ میں ہے۔ ایک طرف صفا، دوسری طرف مروہ۔ ان کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں جو عمرے کا حصہ ہے۔ کربلا والے کہتے ہیں کہ حسین اور عباس کی قبروں کے درمیان ٹھیک اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا صفا اور مروہ کے درمیان۔ میں نے فاصلہ تو نہیں ناپا لیکن کربلا میں بھی پیاس اتنی ہی پائی جتنی اسماعیل کو لگی ہوگی اور بے قراری اتنی ہی دیکھی جتنی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑی ہوئی ماں کو ہوگی۔

میں نے کل لکھا تھا کہ کربلا پہنچ کر امام حسین علیہا السلام کے روضے پر جانے سے پہلے میں ایک اور مقام پر گیا تھا۔ وہ مقام حضرت عباس علیہ السلام کا روضہ ہے۔حضرت عباس ؑامام حسین علیہ السلام کے چھوٹے بھائی تھے۔ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے نہیں، بی بی ام البنین ؑکے فرزند تھے اس لیے امام کو بھائی نہیں، ہمیشہ آقا کہا۔ ان کی بہادری اور وفا کی مثالیں دی جاتی ہیں۔


میں نے کسی کا قول پڑھا ہے کہ کربلا میں اگر بنو ہاشم کے چار دلیر ایک ساتھ ہوتے تو جنگ کا ظاہری نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ حسین علیہ السلام ، محمد بن حنفیہؑ، مسلم بن عقیل ؑاور عباسؑ۔عباس کی جنگ دیکھ کر لوگوں کو علی کرم اللہ وجہہ کی جنگ یاد آجاتی تھی۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے انھیں لڑنے نہیں دیا، لشکر کا علم دار بنادیا۔ لشکر کٹ گیا تو بھی حملے کی نہیں، صرف دفاع کی اجازت ملی۔ بچوں کی پیاس دیکھ کر مشکیزہ لے کر نکلے اور لڑتے لڑتے دریا تک پہنچ گئے لیکن پانی نہیں پیا۔ واپسی پر گھیر کے شہید کردیا گیا۔
کبھی سنا ہے کہ کوئی شخص پانی نہیں لایا لیکن اس کا نام سقا پڑگیا؟ آج آٹھ محرم ہے۔ کسی شیعہ گھر میں جھانکیں۔ ہرا لباس پہنے کوئی نہ کوئی بچہ سقا بنا ہوا نظر آئے گا۔ ہاتھ میں علم ہوگا، علم پر مشک ہوگی۔ مشک میں پانی نہیں ہوگا۔ مشک پیاسی ہوگی۔


دریا سے واپسی پر عباس ؑکے ایک ہاتھ میں علم تھا، دوسرے میں مشک۔ جنگ کیسے کرتے۔ ایک ظالم نے تلوار سے وار کرکے ان کا دایاں بازو کاٹ دیا، دوسرے نے بایاں۔ کربلا میں ان دونوں مقامات کے نشان موجود ہے۔ ان کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ عباس علیہ السلام کے روضے کے ایک طرف امام حسین علیہ السلام کا روضہ ہے اور یہ مقامات دوسری طرف۔ اب وہاں بازار بن گیا ہے اور بہت سی دکانیں ہیں۔ تبرکات کی دکانیں۔ علم کی دکانیں۔ پرچموں کی دکانیں۔ مشکیزوں کی دکانیں۔ لوگ علم کا پھریرا خریدتے ہیں اور سامنے روضے میں جاکر جالی سے مس کرلیتے ہیں۔
151024144913_kashmir_muharram_976x549_afp.jpg



کبھی کراچی میں امروہے والوں کا جلوس دیکھا ہے؟ جلوس تو خیر امام حسین علیہ السلام کا ہوتا ہے لیکن امروہے والے اٹھاتے ہیں۔ یہ چھ محرم کو رضویہ میں، سات محرم کو انچولی میں اور آٹھ محرم کو نشترپارک سے برآمد ہوتا ہے۔ اس جلوس میں روایتی طور پر سڑک پر ماتم نہیں ہوتا۔ صرف حسینؑ حسینؑ کی صدائیں ہوتی ہیں اور علم ہوتے ہیں۔ پھریرے کے علم، تلواروں کے علم، مشکیزے کے علم، پھولوں سے لدے ہوئے علم۔


امروہے والے ایک خاص قسم کا علم بناتے ہیں جو مجھ کم علم نے کہیں اور نہیں دیکھا۔ اس میں ایک بڑی کمان کے دونوں جانب دو تلواریں لٹکائی جاتی ہیں۔ پھر اسے گلاب کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے سجادیا جاتا ہے۔ بعضے لوگ اتنا پھول چڑھادیتے ہیں کہ علم کو اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہتی۔


تین دہائیاں پہلے جب ہم خانیوال میں رہتے تھے تو میرے ماموں وہ علم سجاتے تھے۔ چھ محرم اور عاشور کو جلوس اٹھتا تھا تو ایک چوک میں علم کی سلامی دی جاتی تھی۔ کوئی جوان وہ بھاری علم لے کر بیچ میں آتا تھا اور اسے تیزی سے گردش دیتا تھا۔ تلواریں ہوا میں رقص کرتی تھیں۔ پھول اڑان بھرتے تھے۔ فضا معطر ہوجاتی تھی۔ میں حیرت سے اس نظارے میں گم ہوجاتا تھا۔ کچھ دیر کو کربلا پہنچ جاتا تھا۔


آج سچ مچ کربلا پہنچ گیا ہوں۔میں نے کراچی میں ویسی سلامی نہیں دیکھی۔ آج غازی ؑکے روضے پر ایک علم دار کو پھریرے والے پرچم کی سلامی دیتے ہوئے دیکھا تو اس نظارے میں گم ہوگیا۔ کچھ دیر کو تین دہائیاں قبل خانیوال پہنچ گیا۔


حضرت عباس علیہ السلام دریا کے کنارے شہید کیے گئے تھے۔ روایت ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام ان کے پاس پہنچے تو لبوں پر دم تھا۔ جاتے جاتے کہا کہ میری لاش یہیں رہنے دیں، خیموں کی طرف نہ لے جائیں۔ ان ننھے بچوں کا سامنا کیسے کروں جن کے لیے پانی نہیں لے جاسکا۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قبر وہیں بنائی گئی۔

آپ روضے میں داخل ہوں گے تو ضریح دکھائی دے گی۔ قبر اس کے نیچے زیر زمین ہے۔ اسے سرداب کہتے ہیں۔ دریا صدیوں پہلے راستہ بدل چکا۔ آج کربلا میں کوئی دریا نہیں۔ لیکن عباس علیہ السلام کی قبر کے چاروں طرف پانی ہے۔ یہ پانی کہاں سے آتا ہے؟ یہ پانی اتنا شرمندہ کیوں ہے؟ یہ پانی اس قبر کا طواف کیوں کرتا رہتا ہے؟

درِ حسین[SUP] علیہ السلام[/SUP] پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ

kb12.jpg

گزشتہ سال امام حسین کے چہلم پر کربلا میں ڈھائی کروڑ عزادار پہنچے تھے۔ پورے کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ نہیں ہے۔ کیا میں نے غلطی سے دو تین صفر بڑھادیے ہیں؟یہ میں وکی پیڈیا دیکھ کر لکھ رہا ہوں۔ 2014 میں 25.1 ملین عزادار، 2013 میں 22 ملین سوگوار۔

خود اندازہ لگائیں کہ آج کربلا میں کیا حال ہے۔ میں سب دیکھ رہا ہوں۔ الحمداللہ حج کرچکا ہوں۔ میدان عرفات میں بھی لاکھوں حاجی ایک ساتھ دیکھ چکا ہوں۔ وہاں لاکھوں کو محمد ﷺنماز پڑھاتے ہیں۔ یہاں لاکھوں کو حسین نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث یاد آگئی۔ حسین منی و انا من الحسین
۔
کبھی سمندر میں پیراکی کی ہے؟ تیز لہریں اٹھتی ہیں۔ ہاتھ پیر چلانے پڑتے ہیں۔ جسم شل ہوجاتا ہے۔ کربلا میں انسانوں کا سمندر ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہاتھ پیر چلانا پڑتے ہیں۔ کہنیاں اور دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ جسم شل ہوجاتا ہے۔میں محمد علی بھائی کے سامنے کہہ بیٹھا، آج کتنا رش ہے۔ وہ تڑپ گئے۔ کہنے لگے، میں پہلی بار 1993 میں کربلا آیا تھا۔ محرم کے دن تھے۔ غازی عباس کے روضے پر حاضری دینے پہنچا تو وہاں صرف دو آدمی تھے۔ ان میں سے ایک میں تھا۔ تم رش سے گھبرارہے ہو؟ میں تنہائی سے گھبراگیا تھا۔ محمد علی بھائی کی آواز بھرا گئی۔


پھر انھوں نے کہا، کیا تم یقین کرو گے کہ ان دنوں مقامی افراد کو کربلا آنے کی اجازت نہیں تھی۔ کیا تم یقین کرو گے کہ حضرت عباس علیہ السلام کے روضے کا باب قبلہ ٹوٹا ہوا تھا۔ کیا تم یقین کرو گے کہ امام حسین علیہ السلام کے روضے میں صرف ایک ٹیوب لائٹ جل رہی تھی۔ باقی حرم میں روشنی کا انتظام نہیں تھا۔

میں نے تصور باندھنے کی کوشش کی۔ کربلا میں روشنیوں کا سیلاب دیکھ رہا ہوں اس لیے میری امیجی نیشن بھٹک گئی۔ حسین کی قبر پر اندھیرے کا عکس نہیں بناسکی۔ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر پر اندھیرے کی تصویر کھنچ گئی۔

میرا چھوٹا بھائی کہتا ہے، دوسرے لوگ اپنی ماں کی قبر پر شمع جلاتے ہیں۔ ہم روشنی کیوں نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں، ہاں کسی دن یہ بات بتاؤں گا۔
میرے بیٹے نے دریافت کیا کہ کیا ہم کسی سے ملنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، زیارت کی حد تک درست لیکن ہم کسی سے ملنے نہیں آئے۔ بیٹے نے کہا کہ یہاں نقارہ بج رہا ہے۔ کیا ہم جنگ کرنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں۔ ہم جنگ کرنے نہیں آئے۔ اس نے سوال کیا، یہاں زنجیر زنی ہورہی ہے۔ کیا ہم خون کا ماتم کرنے کربلا آئے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں۔ ہم خون کا ماتم کرنے نہیں آئے۔
بیٹے نے پوچھا، پھر ہم کربلا کیوں آئے ہیں؟ میں نے کہا، یہ پیاسوں کی سرزمین ہے۔ ہم یہاں پانی پلانے آئے ہیں۔ آؤ، میرے ساتھ سبیل میں کربلا کے پیاسوں کو پانی پلاؤ۔یہ حسین علیہ السلام یہاں پانی کے جام پلائے۔ وہ حسین علیہ السلام وہاں کوثر کے جام پلائے گا۔ کربلا میں ہر ملک کا نمائندہ موجود ہے، ہر مذہب کا بھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کربلا کی جنگ میں امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں دو ہندو بھی شامل تھے؟

ہندوستان میں ہندو برہمنوں کا ایک خاندان دت مشہور ہے۔ فلم اسٹار سنیل دت، سنجے دت، ممتاز صحافی برکھا دت کا تعلق اسی سلسلے سے ہے۔ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے بزرگ امام حسین کے محب تھے اور کربلا کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ ایک بزرگ راہیب دت جنگ میں بچنے کے بعد واپس ہندوستان آگئے تھے۔ انھوں نے ہندوؤں میں عزاداری کی بنیاد رکھی۔ یہ لوگ مندر نہیں جاتے۔ محرم میں جلوس اٹھاتے ہیں۔ کچھ لوگ خون کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ یہ خود کو مسلمان نہیں، حسینی برہمن کہلواتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ یہ روایات درست ہیں یا نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ہندو کو شہید کہنا درست ہے یا نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ ہندو کربلا میں دفن ہیں یا نہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر یہ سب سچ نہیں بھی ہے تب بھی حسینی برہمنوں کی حسین سے محبت سچ ہے۔
درِ حسین علیہ السلام پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لیے

 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
کربلا کا سفر (کچھ یادیں)۔



کربلا میں شب عاشور

1291792_184.jpg



تحریر: مبشر علی زیدی
کربلا میں آج 9 محرم ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کربلا کی جنگ 9 محرم کو ہونی تھی لیکن امام حسین علیہ السلام نے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔

امام نے مہلت مانگی؟ کیا مطلب؟ کیوں؟
امام حسین علیہ السلام نے کہا، ایک رات کی مہلت چاہیے تاکہ ہم مرنے سے پہلے جی بھر کے عبادت کرلیں۔ اس رات کو شب عاشور کہا جاتا ہے۔ لاکھوں، یا شاید کروڑوں لوگ آج کی رات نہیں سوتے۔ آپ اس رات کیا کرتے ہیں؟اگر آپ شیعہ ہیں تو آج کی رات امام بارگاہ میں گزاریں۔ اگر آپ سنی ہیں تو آج کی رات مسجد میں گزاریں۔ اگر آپ کسی مذہب کو نہیں مانتے تو آج کی رات اور کل کا دن لوگوں کی خدمت میں گزاریں۔ کسی غریب کو کھانا کھلادیں۔ کسی پیاسے کو پانی پلادیں۔ یہی انسانیت ہے۔ یہی حسینیت ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ کس کے پاس کتنی مہلت ہے۔ ایک رات بھی ہے یا نہیں۔
اگر آپ کبھی کربلا نہیں آئے تو آپ کے ذہن میں ایک میدان کا تصور ہوگا۔ خیال ہوگا کہ اس میدان میں دو مزار بنادیے گئے ہیں۔ تصویروں میں دونوں مزاروں کے درمیان کی جگہ نظر آتی ہے۔ کربلا ٹی وی چینل ان مزاروں اور ان کے درمیانی راستے پر ہونے والی عزاداری کو چوبیس گھنٹے نشر کرتا رہتا ہے۔


میں لکیروں کے بجائے لفظوں سے موجودہ کربلا کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کربلا ایک صوبے کا نام ہے۔ اس کے بیچ میں ایک شہر ہے جس کے اطراف اب پہرا ہے۔ اندر داخل ہونے والوں کی سخت تلاشی لی جاتی ہے۔ شہر میں عمارتیں ہیں۔ نئے پرانے ہوٹل ہیں، چھوٹی دکانوں والی قدیم مارکیٹیں ہیں، ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں گھر بھی ہیں۔
کربلا کے مرکز میں دو روضے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے احاطے ہیں۔ چاروں طرف کمرے اور دفاتر، بیچ میں صحن اور مرکز میں گنبد۔ گنبد کے نیچے ضریح۔ میں پچھلی بار آیا تھا تو صحن کھلے تھے لیکن چھتیں ڈالنے کا انتظام ہورہا تھا۔ اس بار سب چھتیایا جاچکا ہے۔
دونوں روضوں میں داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں۔ ہر دروازے کا ایک نام ہے۔ اس پر کوئی ایک سلام بھی لکھا ہے۔ میں وہ سب کسی آئندہ تحریر میں درج کروں گا۔ سمجھانے کو صرف ایک لکھ دیتا ہوں۔ روضہ حسین علیہ السلام کے ایک دروازے کا نام باب قبلہ ہے۔ اس پر السلام علیک یا سید الشہدا لکھا ہے۔

ہر دروازے کے قریب جوتے اور امانتیں سنبھالنے والے بیٹھے ہیں۔ آپ جوتے اور موبائل فون ان کے حوالے کردیں۔ وہ آپ کو ٹوکن دے دیں گے۔ موبائل فون اور کیمرے اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔شمر لعین نے جہاں امام حسین علیہ السلام کا سر کاٹا، وہ ان کی قبر سے الگ مقام ہے لیکن چند قدم دور گنبد کے نیچے ہی ہے۔ یہ ایک تنگ کمرا ہے جس میں ایک وقت میں چار چھ سے زیادہ آدمی داخل نہیں ہوسکتے۔ آپ کتنے ہی بہادر آدمی کیوں نہ ہوں، اس کمرے میں پہنچ کر گھبرا جائیں گے۔ اگر حسین علیہ السلام سے محبت ہے تو تڑپ جائیں گے۔

میں لکھ چکا ہوں کہ امام کی ضریح کے ساتھ گنج شہیداں ہے۔ بیشتر شہدا وہیں دفن ہیں۔ کچھ فاصلے پر اسی گنبد کی عمارت کے نیچے حبیب ابن مظاہر ؓکی قبر ہے۔

کئی قبریں اس مرکزی روضے سے دور ہیں۔ جیسے حضرت عباس، جن کی قبر پر الگ روضہ ہے۔ وہ قبر اس لیے دور ہے کہ غازی کو دریا کے کنارے شہید کیا گیا تھا۔ یہاں حُر کی قبر بھی نہیں۔ یہاں بی بی زینب سلام اللہ علیھا کے بچوں عونؑ اور محمدؑ کی قبریں بھی نہیں۔ بی بی نے اپنے بچوں سے کہا تھا، امام حسین علیہ السلام پیاسے ہیں۔ خبردار اگر دریا کا رخ کیا تو۔ بچوں نے دریا سے منہ موڑا اور لڑتے لڑتے کہیں دور نکل گئے۔ وہیں قتل ہوئے۔ وہیں دفن ہوئے۔

روضہ حسین علیہ السلام کے سامنے ایک الگ نسبتاً چھوٹی عمارت ہے۔ اس کا نام تلہ زینبیہ ہے یعنی زینبؑ کا ٹیلہ۔ عاشور کے دن عصر کے وقت جب شمر لعین خنجر لے کر، سجدے میں پڑے ہوئے امام کی پیٹھ پر چڑھا تو بی بی نے اس ٹیلے پر چڑھ کر وہ منظر دیکھا۔ اس مقام پر سیڑھیاں بنادی گئی ہیں۔ بہت سے لوگ ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھ پاتے۔ جسم لرزنے لگتا ہے۔ پیروں سے جان نکل جاتی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے روضے کے ایک جانب شارع سدرہ ہے۔ وہیں ایک مقام ہے جہاں امام حسین علیہ السلام کے اٹھارہ سال کے بیٹے علی اکبر علیہ السلام کو سینے میں برچھی مارکے قتل کیا گیا تھا۔ ایک مقام ہے جہاں چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر علیہ السلام کو تیر مار کے شہید کیا گیا تھا۔ شارع سدرہ پر اب ہوٹل بن گئے ہیں۔ ان کے پیچھے پتلی پتلی گلیاں اور رہائشی مکان ہیں۔ یہ دونوں مقامات ان تنگ گلیوں کے بیچ ہیں۔ وہاں زائرین کا ہجوم ہوتا ہے۔

روضوں سے کچھ دور خیمہ گاہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے لشکر کی خیمہ گاہ۔ وہاں اب بس تین چار خیمے لگے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف عمارتیں ہونے کی وجہ سے وہ تصور تو پیدا نہیں ہوتا لیکن ایک بار آپ کسی خیمے میں جاکر بیٹھ جائیں تو کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

حضرت عباسؑ کے روضے کے ایک جانب ایک سڑک کا نام شارع علقمے ہے۔ وہاں دو مقامات ہیں جہاں غازی کے بازو کاٹ دیے گئے تھے۔ علقمہ اس نہر کا نام تھا جو دریائے فرات سے نکلتی تھی اور کربلا تک آتی تھی۔ وہ نہر صدیوں پہلے خشک ہوچکی۔ اب صرف اس کا نام رہ گیا ہے۔

لیکن کربلا میں ایک نہر موجود ہے۔ اس وقت میرے سامنے تاریخ کی کوئی کتاب نہیں۔ ایک مجلس میں جو سنا وہ بیان کررہا ہوں۔ لکھنو کے ایک نواب کی والدہ کربلا آئیں تو انھوں نے پوچھا، دریا کہاں ہے؟ جواب ملا کہ نہر تو خشک ہوچکی، دریا راستہ بدل چکا۔ انھوں نے کہا، دریا کے بغیر کربلا کا تصور کیسے کریں؟ انھوں نے یہاں ایک نہر کھدوائی۔ یہ نہر شارع سدرہ کے اختتام پر موجود ہے۔ اس میں آب رواں نہیں بلکہ ٹھہرا ہوا پانی ہے۔

نہر کھودنے سے جتنی مٹی نکلی، وہ بیگم صاحبہ چھکڑوں پر لدواکر لکھنو لے گئیں اور اس سے وہاں امام بارگاہ تعمیر کروایا۔ لکھنو کے کوئی دوست یہ تحریر پڑھیں تو میری تصحیح کردیں۔
آج ایک نام نہاد دہریے نے مجھے کراچی سے فون کیا۔ پتا نہیں درخواست کی یا حکم دیا کہ کربلا سے ایک چٹکی خاک شفا لیتے آؤ۔ میں نے کہا، تم تو خدا کو نہیں مانتے، مذہب کو نہیں مانتے، شیعہ ازم کو نہیں مانتے۔ اس نے کہا، ہاں کسی کو نہیں مانتا لیکن حسین علیہ السلام کو مانتا ہوں۔

کربلا میں شام غریباں

Sham-e-Ghareeban.jpg


کربلا میں اس وقت بھی لاکھوں کا مجمع ہے لیکن پھر بھی عجیب سی خاموشی ہے۔ حرمین کے اطراف اتنی روشنی ہے جیسے کہکشائیں زمین پر اتر آئی ہوں لیکن پھر بھی اداسی ہے۔ رات بھیگ چکی ہے لیکن کسی کی آنکھوں میں نیند نہیں۔ آنکھیں بھی بھیگی ہوئی ہیں۔

کربلا میں شام غریباں ہے۔
سورج سوا نیزے پر تھا تو امام حسین علیہ السلام لشکر کے سردار تھے، عباسؑ علم دار تھے۔ اب حسین علیہ السلام کا سر نیزے پر ہے اور عابد بیمار لشکر کا سردار ہے، زینب سلام اللہ علیھا علم دار ہے۔میں بہت دیر سے لکھنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن لکھ نہیں پارہا کہ میرا قیام شارع امام علیؑ پر ہے۔ سامنے مخیم حسینؑ ہے۔ مخیم یعنی خیمہ گاہ۔ آج کئی بار اس کا طواف کرکے آگیا لیکن اندر نہیں گھسا۔ پچھلی بار آیا تھا تو دیکھا تھا کہ اندر تین خیمے لگے ہیں۔ اب یہ پختہ عمارت ہے۔

امام حسین علیہ السلام کا لشکر آیا ہوگا تو بہت سے خیمے ہوں گے۔ اہل بیت کے خیمے، اصحاب کے خیمے، انصار کے خیمے۔ وہ سب خیمے شام غریباں میں جلادیے گئے تھے۔ حضرت زین العابدین علیہ السلام کی طبعیت خراب تھی۔ غش میں پڑے تھے۔ بی بی زینب سلام اللہ علیھا جلتے خیمے میں داخل ہوئیں اور بیمار بھتیجے کو کھینچ کر، کچھ لوگ کہتے ہیں، پشت پر لاد کر باہر لائیں۔ پھر ایک ٹوٹا ہوا نیزہ اٹھاکر کھوئے ہوئے بچوں کو ڈھونڈنے نکلیں۔ زندہ بچے کم ملے۔

یہ سب ایک دل دوز داستان ہے۔ میں اسے نہیں سناسکتا۔کربلا والے تین دن کے پیاسے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کے شہید ہونے کے بعد غریبوں کے لیے پانی آیا۔ پانی کیسے آیا، کون لایا، کب آیا، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ صرف اتنا پتا ہے کہ پانی آیا تو زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا نے سکینہ کو بلایا۔ ایک کوزہ پانی سے بھر کے دیا۔ سکینہ نے کہا، پہلے آپ پئیں۔ زینبؑ نے کہا، پہلے چھوٹے بچوں کو پلاتے ہیں۔ سکینہ ؑکوزہ لے کر چلی۔ زینب ؑنے کہا، کدھر کا ارادہ ہے؟ سکینہ نے کہا، پہلے چھوٹے بچوں کو پلاتے ہیں۔ مقتل جارہی ہوں۔ پہلے علی اصغر ؑکو پلاؤں گی۔

حسینی لشکر شہید ہوچکا تو ظالموں نے سب کے سر کاٹ لیے۔ پھر وہ سر نیزوں پر چڑھادیے گئے۔ کربلا میں اس کی یاد منائی جاتی ہے۔ نیزوں پر مصنوعی سر اٹھائے جاتے ہیں۔ شام غریباں میں ایک دستہ خیمہ گاہ کے اطراف وہ نیزے لے کر گشت کرتا رہا۔ دور سے وہ منظر دیکھ کر خوف محسوس ہوا۔ مغرب کے بعد روضہ حسینؑ میں شام غریباں کی مجلس ہوئی۔ میں نے ہوٹل کے ٹی وی میں دیکھا کہ روضہ مکمل بھرا ہوا ہے اور وہاں جانے کی کوئی صورت نہیں۔ السید جاسم الطریجاوی نے وہ مجلس پڑھی۔ جاسم دراصل نوحہ خواں ہیں اور نوحے کے بیچ بیچ میں مصائب بھی پڑھتے جاتے ہیں۔ یہ ایک طویل مجلس تھی۔ میں ہوٹل سے نکلا اور ادھر ادھر پھرتا رہا۔ دیکھا کہ لوگ شمعیں جلارہے ہیں۔

پاکستان میں شب عاشور کو امام بارگاہوں میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔ کربلا میں شب عاشور کو نہیں، شام غریباں کو شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں آج اپنے حقوق کے لیے کیسے آواز بلند کی جاتی ہے؟ مظلوموں کی یاد کیسے منائی جاتی ہے؟ پاکستان میں مذہبی تنظیمیں جلوس نکالتی ہیں۔ سیکولر لوگ شمعیں روشن کرتے ہیں۔ سیاست دان اور سفارت کار عظیم رہنماؤں کے مقبروں پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ سب دنیا کو کس نے سکھایا ہے؟

روضہ حسین ؑمیں شام غریباں کی مجلس ختم ہوئی۔ لوگ چھٹنا شروع ہوگئے۔ میں روضے میں داخل ہوا اور امام حسین علیہ السلام کی ضریح تک پہنچا۔ گنبد کے نیچے نماز پڑھی۔ پھر دوسری جانب سے باہر نکلا۔ دیکھا کہ چھ آدمی اردو میں نوحہ پڑھ رہے ہیں اور ان کے فقط چھ ہی ساتھی ماتم کررہے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے دوسرے کی قمیص پکڑے ہوئے، ایک بار جھک کر، دوسری بار اٹھ کر دایاں ہاتھ سینے پر مارتے ہوئے۔ یہ ویسا ماتم تھا جیسا امروہے والے کرتے ہیں۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ دو نوحوں کے بیچ کے وقفے میں ایک نوحہ خواں سے پوچھا، آپ کہاں سے آئے ہیں۔ اس نے کہا، کینیا سے۔ ہم گجراتی بولتے ہیں لیکن نوحہ اردو میں پڑھتے ہیں۔ بہت عرصے سے کینیا میں آباد ہیں۔
زیارت کے بعد میں روضہ حسین ؑسے نکلنے کو تھا کہ ہٹو بچو کی آوازیں آئیں۔ دس بارہ محافظ کسی شخص کو گھیرے میں لیے چلے آرہے تھے۔ یہ السید جاسم تھے۔ لوگ ان سے ہاتھ ملانے کے لیے بڑھتے تھے اور محافظ انھیں دھکا دیتے تھے۔ میں وہیں کھڑا رہا اور جب وہ میرے قریب آئے تو ہاتھ آگے بڑھادیا۔ دھکے تو لگے لیکن السید جاسم نے مصافحہ کرلیا۔ محنت وصول ہوئی۔
قمہ کا ماتم ہمیشہ جلوس میں کیا جاتا ہے۔ لبنانی ماتم دار دستے کے ارکان ایک ساتھ مل کر چھریاں سر پر مارتے ہیں۔ میں نے کراچی میں دیکھا ہے کہ ماتمی دستے کے ارکان ایک ایک کرکے قمہ لگاتے ہیں۔
ابھی کچھ دیر پہلے میں نے حضرت عباس علیہ السلام کے روضے کے باہر ایک تنہا بوڑھے کو تلوار سر پر مارتے دیکھا۔ تلوار ایسے ماری جاتی ہے کہ سر کی کھال کٹتی ہے۔ خون نکل آتا ہے۔ کھوپڑی کو نقصان نہیں ہوتا۔ مجھے تعجب ہوا کہ وہاں کوئی جلوس نہیں تھا۔ کوئی نوحہ نہیں پڑھ رہا تھا۔ کوئی دوسرا ماتم نہیں کررہا تھا۔گمان ہے کہ وہ بوڑھا کہیں دور سے آیا ہوگا۔ وقت پر کربلا نہیں پہنچ سکا ہوگا۔ جیسے ہی پہنچا، زمین پر بیٹھا اور تلوار نکال کر سر پر تین چار بار مار لی۔ پھر وہ کھڑا ہوا اور سر پر ہاتھ مار مار کے امام حسین ؑ کو یاد کرنے لگا۔ سر سے خون بہتا جاتا تھا، آنکھوں سے اشک۔

Source
Source
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
کربلا کا سفر (کچھ یادیں)۔


ایک نماز کربلا میں

Kerbela_Hussein_Moschee1.jpg



تحریر: مبشر علی زیدی
میں نے حرمِ امام حسینؑ کے ایک طاقچے سے قرآن پاک اٹھایا اور آخری صفحات کھولے۔ جو سورۃ سامنے آئی، اُس کا ایک ہی لفظ پڑھ کر دل لرزنے لگا۔ والعصر- میں مصلے پر کھڑا ہوا اور نمازِ عصر کی نیت باندھ لی۔ مجھے صبحِ عاشور کا خیال آیا جب کربلا میں تیر چلنا شروع ہوگئے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کے انصار انھیں گھیر کے کھڑے ہوگئے تاکہ وہ نماز پڑھ لیں۔ وہ نماز تیروں کے سائے میں ادا کی گئی۔
میں نے نماز توڑ دی۔ وہ نماز قبول نہیں ہوتی جس میں خدا کے سوا کسی کا خیال آجائے۔

میں نے پھر نیت کے الفاظ دوہرائے۔ الحمد شریف میں پڑھا، اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ۔ مجھے حُر کا خیال آیا جو شبِ عاشور تک سیدھے راستے پر نہیں تھا۔ لیکن پھر دل پلٹ گیا۔ اسے سیدھا راستہ مل گیا۔ وہ شخص جس نے امام کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر ان کا راستہ روکا تھا، وہ رسی سے ہاتھ باندھ کر ان خدمت میں پیش ہوگیا۔ پھر جان دینے والوں میں آگے آگے رہا۔ اب پتا چلا کہ امام نے ایک رات کی مہلت اپنے لیے نہیں، حُر کے لیے مانگی تھی۔

میں نے نماز ادھوری چھوڑ دی۔ حُر صراط المستقیم پر آگیا تھا لیکن میرا ذہن کیوں بھٹک گیا۔میں نے دوبارہ نیت کرلی۔ الحمد شریف پوری پڑھ لی۔ خیال آیا کہ یہ تو سورہ فاتحہ ہے۔ یہ تو شہیدوں کے سرہانے پڑھی جاتی ہے۔ وہ سامنے شہید حبیب ابن مظاہر کی قبر ہے۔ پچھتر سال کا بوڑھا میدانِ جنگ میں کیسے اترا ہوگا؟ تلوار کیسے سنبھالی ہوگی؟ زخم کہاں کھائے ہوں گے؟
مجھے پھر نماز چھوڑنا پڑی۔ میں قبر پرست نہیں ہوں۔ میں خدا پرست ہوں۔میں نے نئے سرے سے نیت باندھ لی۔ الحمد شریف ختم کرلی۔ سورہ کوثر پڑھنے لگا۔ مجھے خیال آیا کہ امام حسین علیہ السلام کے انصار اور اہلِ بیت تین دن کے پیاسے تھے۔ وہ شہید ہوکر جنت پہنچے ہوں گے تو امام حسن علیہ السلام حوضِ کوثر کے جام لیے کھڑے ہوں گے۔ وہ بھی تو جنت کے سرداروں میں ایک سردار ہیں۔ وہ انصار کی پیاس بجھاتے ہوں گے اور پوچھتے جاتے ہوں گے، میرا علی اصغر علیہ السلام کس حال میں ہے؟ میرا علی اکبر علیہ السلام کس عالم میں ہے؟ قاسم اُن کی ڈھال بنا یا نہیں؟ وہ جنگ کرنے آرہا ہے یا نہیں؟

میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ سورہ کوثر کے معنی پر غور کرتا رہ گیا۔میں نے ایک بار پھر نیت کی اور پوری توجہ سے نماز پڑھنے لگا۔ الحمد پڑھی، سورہ کوثر پڑھی۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلا گیا۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لیے۔ اچانک عباس علیہ السلام کا خیال آیا۔ اُن کے دونوں ہاتھ ظالموں نے قطع کردیے تھے۔ ابھی حرم میں آتے ہوئے شباب قطع کفین کی سبیل سے پانی پیا تھا۔ شباب قطع کفین یعنی وہ جوان جس کے بازو کاٹ دیے گئے؟

میں نے سجدہ نہیں کیا۔ نماز روک دی۔ اپنے سر پر تھپڑ مارے۔ خدا تعالیٰ سے معافی کا طلب گار ہوا۔ خود سے وعدہ کیا کہ اب پورے خشوع و خضوع سے نماز پڑھوں گا۔میں نے عصر کی نماز کی نیت ٹھہر ٹھہر کر کی۔ خود کو متوجہ رکھنے کے لیے باآواز بلند نماز پڑھنے لگا۔ قیام میں رہا، خدا کا دھیان رہا۔ رکوع میں گیا، خدا کا دھیان رہا۔ سجدے میں گیا تو کسی نے کان میں کہا، چودہ سو سال بعد نماز پڑھ رہے ہو تو کبھی حُر کا خیال آرہا ہے، کبھی حبیب ابن مظاہر ؓکے بارے میں سوچ رہے ہو، کبھی قاسم اور عباس یاد آرہے ہیں، کبھی اکبر ؑاور اصغر ؑکے لیے آنسو بہارہے ہو۔ حسین علیہ السلام نے عصر کی نماز کیسے پڑھی ہوگی؟

زخموں سے چور اُس بدن کا قیام کیسا رہا ہوگا؟ ٹوٹی ہوئی کمر والا 50 سالہ حسین ؑرکوع میں کیسے گیا ہوگا؟ پیشانی پر پتھر کھانے والے امام نے سجدہ کیسے کیا ہوگا؟میں نے ایک چیخ ماری اور تڑپ کر اٹھ گیا۔ حسین علیہ السلام وہ نماز پوری نہیں کرسکے تھے۔ شمر نے انھیں شہید کردیا تھا۔ میں بھی نماز پوری نہیں کرسکا۔ عصر کا وقت گزر گیا۔ نماز قضا ہوگئی۔ قضا کے سارے مطلب آج سمجھ میں آگئے۔
کربلا سے شام تک

Bibi_Zainab_A_S.jpg

دس محرم کو یوم حسین ؑسب مناتے ہیں۔ کراچی کی انجمن رضائے حسینی گیارہ محرم کو یوم زینب مناتی ہے۔ عاشور کے دن حسینی لشکر کے سب مرد قتل کردیے گئے۔ صرف امام زین العابدین بچے جو بیمار تھے۔ بی بی زینب سلام اللہ علیھا نے لٹے پٹے قافلے کو سنبھالا۔ جب انھیں قیدی بناکر شام کے دربار میں لے گئے تو بی بی زینب سلام اللہ علیھانے وہ خطبہ دیا جس کے سامنے بڑی بڑی تقاریر ہیچ ہیں۔

ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض نے بی بی زینب پر ایک نظم لکھی تھی۔
اس قدر مظلومیت اور ایسا خطبہ پُر جلال
مل نہیں سکتی ہمیں تاریخ میں ایسی مثال
پیش کرتی ہے انھیں انسانیت زریں خراج
آپ کے سر پر رکھا ہے عالم نسواں نے تاج


امام حسین علیہ السلام سے محبت ہے تو قرآن پڑھیں۔ امام حسین علیہ السلام کا اور قرآن پاک کا گہرا رشتہ ہے۔ اٹوٹ رشتہ! ذاکرین پڑھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا سر کاٹ کے نیزے پر بلند کیا گیا تو اس نے قرآن پڑھنا شروع کردیا۔ شہدائے کربلا کے سروں اور اہل بیت کے اسیروں کو شہر شہر گھمایا گیا۔ اہل بیت پاک کے لیے صرف عزت لکھی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا سر قرآن پڑھتا رہا۔ اسلام کی تبلیغ ہوتی گئی۔
آپ کربلا سے دمشق تک کا سفر کرکے دیکھیں۔ راستے میں جگہ جگہ راس الحسینؑ کے نام سے مقامات ملیں گے۔ راس عربی میں سر کو کہتے ہیں۔ میں نے کوفے کی مسجد حنانہ، مسجد سہلا، حلب کا راس الحسین اور دمشق کی مسجد امیہ دیکھی ہے۔ حلب میں موجود پتھر پر آج بھی خون جما ہوا ہے۔ کئی سال پہلے ایک پاکستانی انجمن وہاں نوحہ خوانی کررہی تھی کہ اس پتھر سے خون پھوٹ پڑا۔ اس کی وڈیو موجود ہے۔

DSC03111.JPG

مقام راس الحسینؑ در شہر حلب (شام)۔

جہاں جہاں امام حسین علیہ السلام کا سر رکھا گیا، وہاں وہاں آج بھی تلاوت جاری ہے۔ یوں بھی کوئی تبلیغ کرتا ہے؟ یوں بھی کسی نے اسلام کو زندہ رکھا ہے؟ اہل بیت کے اسیروں کا قافلہ کوفے اور دمشق کے بازاروں میں پھرایا گیا۔ مقامی لوگ تماشا سمجھ کر ٹھہر جاتے تھے۔ کچھ شقی پتھر مارتے تھے۔

میں نے شام کا بازار دیکھا ہے۔ اسے سوق حمیدیہ کہتے ہیں۔ یہ ایک طویل بازار ہے۔ میں کئی بار سلطان صلاح الدین کے مقبرے سے مسجد امیہ تک آیا ہوں اور واپس گیا ہوں۔ وہاں پہنچ کر اہل تشیع کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ مسجد امیہ کا احاطہ بہت بڑا ہے۔ اس میں شام کے حاکم کا دربار تھا۔ میں پانچ چھ سال پہلے گیا تھا۔ اس دربار کی نشانی موجود تھی۔ مسجد کے اندر حضرت یحیٰ علیہ السلام کا سر دفن ہے۔ باہر برآمدے میں نکلیں تو ایک کمرے کے اوپر راس الحسینؑ لکھا ہے۔ وہاں امام حسین علیہ السلام کا سر رکھا گیا تھا۔ وہاں عزادار جاتے ہیں اور روتے ہوئے باہر آتے ہیں۔

مسجد کے عقبی دروازے سے نکلیں تو چند تنگ گلیوں کے بعد بی بی سکینہ سلام اللہ علیھا کا روضہ ہے۔ اہل بیت کا قافلہ ایک سال تک دمشق میں قید رہا تھا۔ بی بی سکینہ سلام اللہ علیھا قید خانے کے اندھیرے سے گھبراتی تھیں۔ روز پوچھتی تھی، رہائی کب ملے گی؟ سب کو رہائی مل گئی۔ بی بی آج بھی وہیں ہیں۔ روضے میں اوپر ضریح ہے اور نیچے تہہ خانہ۔ تہہ خانے میں اندھیرا۔ میں چھ سیڑھیاں اترا تھا کہ گھبرا کے واپس آگیا۔ پھر چھ راتوں تک نہیں سوسکا۔

میں کربلا میں ہوں لیکن لکھتے لکھتے کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہوں۔ کچھ دیر میں واپس آؤں گا۔ ذرا دمشق کا حال سنادوں۔ دمشق میں ایک قبرستان کا نام باب صغیر ہے۔ وہاں بہت سے صحابہ کرام ؓاور اہل بیت علیھم السلام کی قبریں ہیں۔ ایک قبر پر اردو میں لکھا ہے، یہ بی بی فضہؑ کی قبر ہے۔ بی بی فضہؑ، سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھاکی کنیز تھیں۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں موجود تھیں۔ باب صغیر میں ایک قبر پر بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہے۔ ایک قبر پر بی بی ام سلمہ ؑکا نام ہے۔ ایک قبر پر بی بی ام کلثوم ؑکا نام ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اصلی قبریں ہیں یا نہیں۔ بہت سی ہستیوں کے بارے میں ایک سے زیادہ مقامات کی روایات ہیں۔ بیشتر لوگ کہتے ہیں بی بی زینب ؑکا روضہ دمشق میں ہے۔ میں نے اس کی زیارت کی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، بی بی جنت البقیع میں دفن ہیں۔ میں اسے دیکھ چکا ہوں۔ مصر کے شہر قاہرہ میں بھی بی بی زینب کا ایک علامتی مزار ہے۔

باب صغیر کے بالکل سامنے ایک عمارت ہے جس میں ایک ضریح بنی ہوئی ہے۔ ایک مقامی روایت کے مطابق وہاں کربلا میں شہید کیے گئے اہل بیت کے جوانوں کے سر دفن ہیں۔لیکن صحیح روایت کے مطابق شُھداء کے سر واپس کربلا لائے گئے اور امام زین العابدین علیہ السلام نے انھیں یہاں شُھداء کےبدن کے ساتھ دفن کیا۔ دمشق کی اس عمارت میں جہاں ضریح ہے، وہاں انھیں کچھ دن رکھا گیا تھا اس لیے لوگ زیارت کرنے آتے ہیں۔ ایک مقام ہے جہاں ان سروں کو دھویا گیا۔ لوگ وہاں اشکوں سے اپنا منہ دھوتے ہیں۔


بِنائے لا اله، کربلا


1f051963e4661e5cd2d20c4df1087a4d.jpg




ایک دوست نے پوچھا، کیا آپ سفرنامہ لکھنے کے لیے کربلا گئے ہیں؟ کیا فیس بک کی تحریریں پلان کرکے لکھی ہیں۔ جی نہیں۔ میں پہلے بھی یہاں آچکا ہوں۔ ایک لفظ نہیں لکھا تھا۔ حج پر گیا تو کئی ڈائریاں بھردیں لیکن فیس بک پر چند صفحے ہی لکھے۔ چھاپا کچھ نہیں۔ عرب امارات، شام، ایران، بحرین، ترکی، جرمنی، اٹلی، فرانس، بیلجیم، کئی ملک گھوم چکا ہوں۔ کبھی کچھ نہیں لکھا۔


اس بار کیوں لکھنے بیٹھ گیا؟ میں یہ بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن اذن ملا ہے تو بتارہا ہوں۔ میں سات محرم کو کربلا آیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے روضے پر پہنچا تو محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنے محبوں کے انتظار میں ہیں۔ میرےدل میں اُن کے ہاتھ کو چومنے کی خواہش پیدا ہوئی اور میں ضریح چوم کر صحن میں آیا اور ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔چشمِ تصور میں اپنے مولا امام حسین علیہ السلام کو اپنے سامنے محسوس کیا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا، امامؑ نے پوچھا، کیا کام کرتے ہو؟ میں نے کہا، مولا! کہانیاں لکھتا ہوں۔امام حسین علیہ السلام نے کہا، اچھا؟ کبھی ہماری کہانی بھی لکھو


ایک اور دن روضے پر گیا تو وہاں کئی جلوس پہنچے ہوئے تھے۔ کوئی دستہ نقارہ پیٹ رہا تھا، کوئی حلقہ ماتم کررہا تھا، کوئی انجمن دائرہ بناکر گریہ کررہی تھی، کوئی قبیلہ کربلا کے واقعے کو تمثیل کررہا تھا۔ میں اندازہ نہیں لگاسکا کہ امام علیہ السلام کو کیا اچھا لگ رہا ہے اور کیا نہیں۔


ایک دن میں نے اپنے خیال میں ادب کے ساتھ امامؑ سے سوال کیا، آپ سے محبت کرنے والے آپ کی یاد کیسے منائیں؟ جواب ملا، کچھ لوگ علم اٹھائیں۔ کچھ لوگ قلم اٹھائیں۔ہر شہر میں لوگ خوشی خوشی آتے ہیں، خوش گوار یادیں جمع کرتے ہیں، خوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں۔ کربلا میں لوگ روتے ہوئے آتے ہیں، روتے روتے واپس جاتے ہیں۔

کربلا سے جدائی کا وقت آن پہنچا۔ لوگ امام حسین علیہ السلام کے روضے میں جاتے ہیں۔ الوداعی سلام کرتے ہیں اور دوبارہ طلبی کی درخواست کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ میں آج روضے پر پہنچا اور پھر اپنے مولا امام حسین علیہ السلام کو سلام کیا۔ عرض کیا، مولا! وطن واپس جارہا ہوں۔ اپنے چاہنے والوں کے لیے کوئی پیغام؟ ایسے لگا جیسے امام حسین علیہ السلام کہہ رہے ہوں، ہاں۔ میرے چاہنے والوں سے کہنا کہ جب پانی پئیں، میری پیاس کو یاد کریں، میرے بچوں کی پیاس کو یاد کریں، شہدائے کربلا کی پیاس کو یاد کریں۔

بہنوں بیٹیوں سے کہنا، گھر سے نکلیں تو چادر سر پر ضرور لیں، بی بی زینب سلام اللہ علیھا کی چادر یاد رکھیں، میری بیٹیوں کا پردہ یاد رکھیں، نبی زادیوں کی حرمت یاد رکھیں۔ اور علیؑ سے عشق کرنے کے دعوے داروں کو بتانا کہ علی(کرم اللہ وجہہ) کو اسلام کی پہلی صدی میں پچاس سال تک منبروں سے برا بھلا کہا گیا، ان پر تبرا کیا گیا۔ یاد دلانا کہ تبرا کرنے والے منبر باقی نہیں رہتے، صرف وہ منبر رہ جاتے ہیں جن سے محبت پھیلائی جاتی ہے۔


میں روضہ حسین علیہ السلام کے باب قبلہ پر صحن میں کھڑا تھا۔ رخصت کی اجازت مانگ چکا تھا۔ ضریح میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ میں اس منظر کو آنکھوں میں قید کرلینا چاہتا تھا۔ کبھی کبھی کوئی منظر ہمیشہ کے لیے آنکھوں میں بس جاتا ہے۔ پھر وہ خودبخود آپ کی نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ اچانک ایک شخص میرے قریب زور سے چلایا۔ میں گھبراکے اچھل پڑا۔ وہ کوئی عرب ملنگ تھا۔ نعرہ لگارہا تھا، لا الھ الا اللہ۔ قبر حسین علیہ السلام کا طواف کرتا جاتا تھا۔ کئی بار کہتا تھا، لا الھ، پھر ایک بار کہتا تھا، الااللہ۔
لا الھ، لا الھ، لا الھ، لا الھ، لا الھ، لا الھ، لا الھ[SUP]ط[/SUP] الااللہ


مجھے کسی عالم کی بات یاد آئی۔ رسول پاک نے مشرکوں سے منوالیا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔ وہ اللہ کو مان گئے تھے لیکن کچھ ایسے تھے جو لاالھنہیں کہتے تھے۔ چوری چھپے اپنے بُتوں کو پوجتے رہتے تھے۔ تبھی تو علامہ اقبال نے کہا تھا
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں،
لا الھ الا اللہ
علی ؑنے کعبے میں رکھے بُتوں کو توڑا۔ حسینؑ نے آستینوں میں چھپے بُتوں کو توڑا۔ لا الھ کا اقرار کروایا۔ باب قبلہ پر کھڑے کھڑے میری آنکھوں کے سامنے خانیوال کا امام بارگاہ آگیا جہاں میرے دادا ظفر حسن کی قبر ہے۔ اس کے مرکزی دروازے پریہ اشعار رقم ہیں۔
Deen.png

اپنے گھر میں ان اشعار کی حقیقت سمجھ نہیں آتی تھی۔ حسینؑ کے گھر میں ملنگ کے ایک نعرے نے سمجھادی۔



Source
Source
Source
 
Last edited:

RastGo

Banned

Day of ashura around the world


day-of-ashura-karbala-0.jpg


day of Ashura in Karbala

ce91b52647ae964b638e69c4f0d8e91c.jpg



2014-635507145762938757-293.jpg


-
Shi'ite Muslim women hold up their chained hands as they mourn during an Ashoura procession in Istanbul


2014-635507145759032507-903.jpg


6355a6eab0c17c255f93bd4f03621cb9.jpg


458322734-shiite-muslims-attend-commemoration-rituals-gettyimages.jpg


BN-AJ583_ikashm_G_20131113082157.jpg



Shiite Muslims participated in a religious procession held on the seventh day of Islamic month of Muharram in Srinagar, Jammu and Kashmir

APTOPIX-Mideast-Leban_Khat.jpg





Ashoura day in Lebanon - AP Photo


alalam_635812920201628845_25f_4x3.jpg


alalam_635812920401228803_25f_4x3.jpg


Millions of Iranians Commemorate Ashura Nationwide + Video


- See more at: http://en.alalam.ir/news/1752520#sthash.Ch0xJvvq.dpuf


384681_Saudi-Ashura.jpg


Shia Muslims mark the anniversary of the martyrdom of Imam Hussein (PBUH) in Saudi Arabia


4200636248_03bc864243.jpg


Flags of Ashura [Dhaka, Bangladesh]

79117623-kuwaiti-shiites-gather-on-the-outskirts-of-gettyimages.jpg


[FONT=&amp]
Kuwaiti Shiites gather on the outskirts of Kuwait City to mark the final day of Ashura
[/FONT]

maxresdefault.jpg





ASHURA JULOOS MOMBASA (KENYA)


2014-11-03T045215Z_1511096150_GM1EAB30ZMK01_RTRMADP_3_AFGHANISTAN-RELIGION.JPG


Afghans pray during a procession held to mark Ashura in Kabul






ashura-cairo-egypt-72d2-832480.jpg

Ashura
""
ashura-cairo-egypt-5acd-832480.jpg


Cairo - Egypt

 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
??? ?? ??? ??? ??? ????? ??? ???? ?? ????? ?? ?? ??? ?? ??? ???? ???? ?????? ?? ???? ????? ????


 
Last edited:

Back
Top