تخلیق پاکستان کے وقت، مشرقی اور مغربی جانبین میں کوئی شہر بھی کلکتہ اور دہلی کے ہم پلہ نہیں تھا۔
اسٹریٹیجک نکتہ نظر سے، مملکت کا دارلخلافہ مغربی پاکستان میں ہونا چاہیے تھا۔
اور اس وقت سندھ وہ واحد صوبہ تھا جہاں مسلم لیگ کی حکومت قائم تھی۔
سندھ حکومت نے قائداعظم کو پیشکش کی کہ کراچی شہر کو دارالخلافہ بنا دیا جائے، اور یہ کہ حکومت سندھ، وفاق کے لیے گورنر ہاؤس، اسمبلی بلڈنگ اور دیگر عمارات مہیا کرنے پر آمادہ تھی۔
قائد اعظم نے حکومت سندھ کی یہ پیشکش قبول فرمالی۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ کراچی کو دارالحکومت بنانا، سندھ حکومت کی ایما پر ممکن ہوا۔
قائد اعظم چاہتے تو سندھ کی اس پیشکش کو رد کر کے لاہور کو دارالخلافہ بنا سکتے تھے۔ گورنر جنرل کو کون روکتا؟
بہ الفاظ دیگر، کراچی قائداعظم کا انتخاب تھا۔
کراچی نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو یکجا کیا ہوا تھا۔ ڈھاکہ سے کراچی کا سفر باسانی سمندری راستے سے ہو جاتا تھا۔ کراچی میں بنگالی زبان بولنے والے پاکستانی بھی قابل ذکر تعداد میں آباد تھے۔
دو بنگالی وزرائے اعظم، خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی نے کراچی میں اپنے مکانات بھی بنائے اور ان کے کئی لواحقین آج بھی کراچی میں ہی مقیم ہیں۔
المختصر، کراچی وفاق کی علامت اور وحدت پاکستان کا اہم ستون تھا۔
مگر 1958 میں وفاق پاکستان کا دشمن، غدار اعظم ایوب خان، پاکستان پر غاصبانہ قابض ہوا اور 1959 میں کراچی سے دارالخلافہ پنجاب میں ہری پور سے نزدیک لے جانے کا ارادہ کیا۔
ہری پور ایوب خان کی جائے پیدائش تھا اور اس کا مجوزہ دارالحکومت (اسلام آباد) وہاں سے صرف 33 کلومیٹر کے فضائی سفر پر واقع تھا۔ قراقرم ہائی وے سے یہ فاصلہ 80 کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔
یوں پاکستان کے دشمن نے پاکستان کا دل نکال کر اس کو ایسی جگہ لگایا جہاں بیٹھ کر یحیٰ خان نے وفاق پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔
اسلام آباد کی تعمیر میں کثیر زر مبادلہ اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ لگایا گیا، جس سے ہزاروں گنا کم رقم سے کراچی شہر میں کئی ترقیاتی کام کروا کے دارالحکومت کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔
ہندوستان میں دہلی کو ترک کر کے نیا کیپیٹل نہیں بنایا گیا۔
مگر ایوب خان کے سازشی اور نسل پرستی سے اٹے ہوئے ذہن میں کراچی دشمنی سمائی ہوئی تھی۔ جس کا اظہار اس کے مجرم ہونہار گوہر ایوب خان نے کراچی کی اردو بولنے والی آبادی میں دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا بازار گرم کر کے دیا۔
اسلام آباد بنا کر، پاکستان کے مشرقی بازو کو ہم سے الگ کیا گیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اردو بولنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری رکھتے ہوئے کوٹہ سسٹم رائج کیا، دیہی اور شہری سندھ کی تفریق کی۔ شہری سندھ کا پیسہ گوٹھوں کے لیے مختص کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے بعد، وردی والوں نے اردو بولنے والوں کے اندر سے ایک 2 ٹکے کا اٹھائی گیرا منتخب کیا۔
پیپلز پارٹی کو کراچی سے دفع کرنے کے لیے چرب زبان الطاف حسین کو ایسے ہی استعمال کیا گیا جیسے وردی والے ڈاکٹر عامرلیاقت کی چرب زبانی کو بول ٹی وی پر استعمال کرتے رہے۔
سندھ میں مصنوعی دہشت کا ماحول پیدا کر کے مہاجر اور سندھی کے مابین دشمنی اور رقابت کو ہوا دی گئی۔ مہاجر قومی موومنٹ کو پنپنے کا موقع دیا گیا۔
گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی شہر کو آگ اور خون میں لت پت کر کے سلسلہ وار اجاڑا گیا۔
مگر کینٹونمنٹ کے علاقے ترقی کرتے رہے۔
پنجاب کی زیادتی پر مبنی پالیسی کے ذریعے حالیہ نام نہاد مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا، اور لاہور کی آبادی کو ڈرامائی طور پر کراچی کے مدمقابل لایا گیا۔
راحیل شریف کے دور میں سندھ رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن ڈرامہ بازی رچایا۔۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ایم کیو ایم نئے نام سے اب بھی مسلط ہے۔ پیپلز پارٹی کا کرپٹ ٹولہ اپنی جگہ ہے۔ وردی والوں کا گندہ انڈا مصطفیٰ کمال شہر کے سیاسی ماحول میں سرگرم ہے۔
اور کراچی شہر محرومیوں کی تصویر بنا فریاد کر رہا ہے کہ اسے کب تک اجاڑا جاتا رہے گا۔
اسٹریٹیجک نکتہ نظر سے، مملکت کا دارلخلافہ مغربی پاکستان میں ہونا چاہیے تھا۔
اور اس وقت سندھ وہ واحد صوبہ تھا جہاں مسلم لیگ کی حکومت قائم تھی۔

سندھ حکومت نے قائداعظم کو پیشکش کی کہ کراچی شہر کو دارالخلافہ بنا دیا جائے، اور یہ کہ حکومت سندھ، وفاق کے لیے گورنر ہاؤس، اسمبلی بلڈنگ اور دیگر عمارات مہیا کرنے پر آمادہ تھی۔

قائد اعظم نے حکومت سندھ کی یہ پیشکش قبول فرمالی۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ کراچی کو دارالحکومت بنانا، سندھ حکومت کی ایما پر ممکن ہوا۔
قائد اعظم چاہتے تو سندھ کی اس پیشکش کو رد کر کے لاہور کو دارالخلافہ بنا سکتے تھے۔ گورنر جنرل کو کون روکتا؟
بہ الفاظ دیگر، کراچی قائداعظم کا انتخاب تھا۔
کراچی نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو یکجا کیا ہوا تھا۔ ڈھاکہ سے کراچی کا سفر باسانی سمندری راستے سے ہو جاتا تھا۔ کراچی میں بنگالی زبان بولنے والے پاکستانی بھی قابل ذکر تعداد میں آباد تھے۔
دو بنگالی وزرائے اعظم، خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی نے کراچی میں اپنے مکانات بھی بنائے اور ان کے کئی لواحقین آج بھی کراچی میں ہی مقیم ہیں۔
المختصر، کراچی وفاق کی علامت اور وحدت پاکستان کا اہم ستون تھا۔
مگر 1958 میں وفاق پاکستان کا دشمن، غدار اعظم ایوب خان، پاکستان پر غاصبانہ قابض ہوا اور 1959 میں کراچی سے دارالخلافہ پنجاب میں ہری پور سے نزدیک لے جانے کا ارادہ کیا۔
ہری پور ایوب خان کی جائے پیدائش تھا اور اس کا مجوزہ دارالحکومت (اسلام آباد) وہاں سے صرف 33 کلومیٹر کے فضائی سفر پر واقع تھا۔ قراقرم ہائی وے سے یہ فاصلہ 80 کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔
یوں پاکستان کے دشمن نے پاکستان کا دل نکال کر اس کو ایسی جگہ لگایا جہاں بیٹھ کر یحیٰ خان نے وفاق پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔
اسلام آباد کی تعمیر میں کثیر زر مبادلہ اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ لگایا گیا، جس سے ہزاروں گنا کم رقم سے کراچی شہر میں کئی ترقیاتی کام کروا کے دارالحکومت کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔

ہندوستان میں دہلی کو ترک کر کے نیا کیپیٹل نہیں بنایا گیا۔
مگر ایوب خان کے سازشی اور نسل پرستی سے اٹے ہوئے ذہن میں کراچی دشمنی سمائی ہوئی تھی۔ جس کا اظہار اس کے مجرم ہونہار گوہر ایوب خان نے کراچی کی اردو بولنے والی آبادی میں دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا بازار گرم کر کے دیا۔
اسلام آباد بنا کر، پاکستان کے مشرقی بازو کو ہم سے الگ کیا گیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اردو بولنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری رکھتے ہوئے کوٹہ سسٹم رائج کیا، دیہی اور شہری سندھ کی تفریق کی۔ شہری سندھ کا پیسہ گوٹھوں کے لیے مختص کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے بعد، وردی والوں نے اردو بولنے والوں کے اندر سے ایک 2 ٹکے کا اٹھائی گیرا منتخب کیا۔
پیپلز پارٹی کو کراچی سے دفع کرنے کے لیے چرب زبان الطاف حسین کو ایسے ہی استعمال کیا گیا جیسے وردی والے ڈاکٹر عامرلیاقت کی چرب زبانی کو بول ٹی وی پر استعمال کرتے رہے۔


سندھ میں مصنوعی دہشت کا ماحول پیدا کر کے مہاجر اور سندھی کے مابین دشمنی اور رقابت کو ہوا دی گئی۔ مہاجر قومی موومنٹ کو پنپنے کا موقع دیا گیا۔
گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی شہر کو آگ اور خون میں لت پت کر کے سلسلہ وار اجاڑا گیا۔
مگر کینٹونمنٹ کے علاقے ترقی کرتے رہے۔

پنجاب کی زیادتی پر مبنی پالیسی کے ذریعے حالیہ نام نہاد مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا، اور لاہور کی آبادی کو ڈرامائی طور پر کراچی کے مدمقابل لایا گیا۔
راحیل شریف کے دور میں سندھ رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن ڈرامہ بازی رچایا۔۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ایم کیو ایم نئے نام سے اب بھی مسلط ہے۔ پیپلز پارٹی کا کرپٹ ٹولہ اپنی جگہ ہے۔ وردی والوں کا گندہ انڈا مصطفیٰ کمال شہر کے سیاسی ماحول میں سرگرم ہے۔
اور کراچی شہر محرومیوں کی تصویر بنا فریاد کر رہا ہے کہ اسے کب تک اجاڑا جاتا رہے گا۔



- Featured Thumbs
- https://cdn.techjuice.pk/wp-content/uploads/2015/02/Karachi.jpg