ابابیل
Senator (1k+ posts)
کتب خانوں کی اہمیت
کتاب کے ساتھ ہم مسلمانوں کو ایک خاص تعلق ہے۔ ہمارے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم پر جو پہلا اِرشاد ِ خداوندی اُترا وہ یہی تھا کہ "پڑھ" اور یہ اللہ تعالٰی کی نوازشات کی انتہا تھی کہ غارِ حرا کے اُس نورانی لمحے نے حضور صل اللہ علیہ وسلم کو "علم کا شہر" بنا دیا اور اُنہیں ایک عظیم کتاب کا حامل اور مبلغ قرار دیا۔ وہ کتاب جو سعادتوں اور برکتوں کا خزانہ ہے۔ گویا مسلمان دینی نقطہِ نظر سے اور وراثت کے اعتبار سے صاحبِ کتاب بھی ہے اور کتاب دوست بھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی میں ہم مسلمان انفرادی طور پر مجموعی لحاظ سے عظیم کتب خانوں کے مالک رہے ہیں۔ کتب خانے کسی قوم کی علمی عظمت اور فکری بصیرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم ایک شاندار تاریخ کے مالک ہیں۔ مخالف قوموں نے جب بھی مسلمانوں پر یلغار کی تو اُس یلغار کی زَد میں ہمارے جسم ہی نہیں آئے، ہمارے کتب خانے بھی آئے ہیں۔تاتاریوں نے مسلمانوں کے سروں کے مینار بھی تعمیر کیے مگر اُس کے ساتھ ہمارے قیمتی کتب خانوں کو دریائوں میں غرق بھی کر دیا تاکہ مسلمان فکری، عِلمی اور ادبی لحاظ سے مُفلِس ہو کر رہ جائیں۔ اِس سلسلے میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کہتے ہیں؛
علامہ محمد اقبال بھی یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا علم آج مغرب میں پڑا ہوا ہے اور اُنہوں نے اُن تحقیقات کو علم کے موتی کہا ہے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب اہلِ مغرب اور ساری دنیا سے علم کی تلاش میں اشخاص عرب ممالک تشریف لاتے تھے ، عربی زبان سیکھتے تھے، علم حاصل کرتے تھے اور پھر اپنے ملک جا کر اپنے لوگوں کو وہ علم سکھاتے ہیں اور آج ہمارا حال بھی اُنہوں جیسا ہے کیونکہ ہم پہلے اُن کی زبان سیکھتے ہیں پھر ہم اپنے علم کو سمیٹتے ہیں۔
ہمارے مخالفیں نے ہمیں یوں بھی لُوٹا کہ وہ ہماری کتابوں کو یورپ کی لائبریریوں میں لے گئے اور وہ کتابیں جو ہمارے اسلاف کی تحقیقات کا نچوڑ تھیں اور اُن سائنسی تحقیقات کی بنیادو ں پر اُنہوں نے اپنی زمین کو آسمان بنا دیا اور ہم اُن کی ترقی کو حیران نظروں سے دیکھتے رہے حالانکہ اہلِ مغرب کی سائنسی ترقی میں ہمارے اجداد کے خونِ جگر کی سُرخی جھلکتی ہے۔ یہی بات علامہ اقبال بھی کہہ رہے ہیں۔
ایک اِنسان جب مصروفیات ِ زندگی سے اُکتا جاتا ہے، زمانے کے غم جب اُس پر چھا جاتے ہیں تو انسان زندگی کی اُن تلخیوں سے بچنے کے لئے مختلف پناہیں ڈھونڈتا ہے، وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو کِسی دوسری طرف مصروف کرتا ہے۔ کھیل تماشے میں لگ جاتا ہے، فلمیں دیکھ کر زندگی کے غم دُور کرتا ہے اور بعض لوگ نشہ آور اشیاء میں عافیت تلاش کرتے ہیں اور اپنا وقت اور اپنی جان گنوا دیتے ہیں جبکہ اللہ کے بندے ذکرِ حق میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا کہ ہم کھیل نہ کھیلیں۔ متوازن زندگی کے لئے کھیل ضروری ہے۔ لیکن فحاش فلمیں، موسیقی وغیرہ اور نشہ آور اشیاء کو استعمال کرنے والا وقتی سکون کے لئے ایک دائمی زہر اپنی رگُوں میں اُتار لیتا ہے، یہ تفریحات وقت کاٹنے کا ایک ذریعہ تو ہیں مگر اصلاح و تعمیر کا کوئی نقش نہیں۔ یوں وقت بھی ضائع ہوتا ہے، صحت بھی تباہ ہوتی ہے اور ایک ایسی لت پڑ جاتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے اور جس کا نتیجہ جسمانی اور فکری تباہی ہے۔
کتب خانے ذہنی تفریح کا ایک تعمیری ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کتابوں کی دُنیا میں صرف اپنی کلفتوں کی بھول جاتا ہے بلکہ اُس کی سوچ میں وسعت بھی آ جاتی ہ، اُس کا دامن عِلم کے ساتھ ساتھ فضیلت کے موتیوں سے بھر جاتا ہے کیونکہ اُس کے اند ایک شعور پیدا ہوتا ہے، تقویٰ کا۔ جس قوم کے افراد علم و فَضل کی دولت سے بہرہ وَر ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے باپ دادا کی اُن تصنیفات کو کُتب خانوں میں محفوظ کر لیتے ہیں جن کو زمانے کی گردش سے خطرہ ہوتا ہے، ویسے بھی تاریخ اُنہی قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے عِلمی سرمائے کی حِفاظت کرنا جانتی ہے۔
مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا، اکثریت کے لئے مُشکِل ہو گیا ہے، انسان کے لئے ذاتی لائبریری بنانا بھی روز بروز نامُمکِن ہوتا جا رہا ہ، اِس اعتبار سے کتب خانوں کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے، انسان آسانی کے ساتھ جدید تصانیف سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور پھِر ایک انسان نہیں بلکہ سینکڑوں انسان، سالہا سال اُن علمی سر چشموں سے اپنی فکری پیاس بجھا سکتے ہیں۔ گویا کتابوں کی سنبھالنا، اُ ن کی حفاظت کرنا اور اُ ن کو کتب خانوں میں محفوظ کرنا ایک بہترین صدقہِ جاریہ ہے۔ اِس لئے لوگ اپنے ذاتی کتب خانوں کو قومی سطح کے کتب خانوں میں بُطور عطیہ مُنتَقِل کرتے ہیں تا کہ اُ ن کی موت کے بعد یہ کتابیں اپنا نوُر بِکھیرتی اور فِکرو خیال کی راہوں کو اجالتی رہیں۔ جب ہم کسی لائبریری سے کوئی کتاب لاتے ہیں تو ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ کتاب خراب نہ ہو اور محفوظ رہے کیونکہ وہ ذاتی ملکیت نہیں لیکن ایسا نہیں کہ ذاتی کتب کی حفاظت بھی نہ کی جائے بلکہ اُن کو بھی سنبھا ل کر رکھنا چاہیئے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اُس کتاب کی مستقبل میں ضرورت پڑے یا کسی دوست احباب کو ضرورت ہو۔ لائبریری سے لائی گئی کتاب ایک امانت کی مانند ہے، یہ ایک قومی دولت ہے اور اِس پر ہر ایک کا حق ہے۔ بعض لوگ لائبریری سے نادر کتابیں لے کر اُن کی قیمت جمع کرا دیتے ہیں، یہ قومی نوعیت کا ایک سنگین جُرم ہے۔ روپے تو مل جاتے ہیں مگر وہ نایاب کتابیں نہیں ملتیں۔ نتیجہ معلموم کہ ایک دُنیا اُ ن کے فیض سے محروم ہو جاتی ہے، جس طرح کب خانوں کے قیام ایک کارِ ثواب ہے اِس طرح وہاں سے کتابوں کو اُڑانا، ایک جُرم ہے۔
ہر انسان کی اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ بعض تاریخی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ بعض ادبی، بعض سیاسی ادب کا شوق رکھتے ہیں۔ بعض دینی کتابوں کا شوق رکھتے ہیں۔ ایک کتب خانے میں مختلف موضوعات سے متعلق کتابیں ہوتی ہیں اور اُس علمی ذخیرے میں رنگا رنگی ہوتی ہے۔ ایک موضوع پر بہت سے کتابیں مل جاتی ہیں اور انسان بیّک وقت ایک موضوع پر ہر قسم کے خیالات سے استفادہ کر سکتا ہے۔
کتابیں بہترین رفیق ہیں۔ انسان انسان کو فریب دیتا ہے مگر کتاب کبھی دھوکا نہیں دیتی۔ کتاب کا ایک ایک ورق واضح، کھلا اور سچا ہوتا ہے۔ کتاب زندگی کی تلخیوں میں حلاوت پیدا کرتی ہے اِس سے وقت بہلتا، احساس سنورتا، فکر نکھرتا، اور ذوق شگفتہ ہوتا ہے۔ مگر یہ اُنہیں مُہذب کتابوں سے ہی حاصل ہو سکتا ہے نہ کہ وہ کتابیں جو فحاشی کو فروغ دیں جِن میں غزلیات زیرِ فہرست ہیں۔ کتاب ایک بہترین ناصح، ایک شفیق دوست اور ایک معتبر رہنما ہے۔ کتاب علم کے نور اور قلم کی عظمت کا ایک خوبصورت اظہار ہے اور جو لوگ علم اور قلم کے اِس سرچشمے سے خود کو وابستہ کر لیتے ہیں وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتے۔ الغرض کتب خانے ایک قومی ضرورت ہیں، تنہائی کی نعمت ہیں، ادب اور فن کے خزانے ہیں، علم کا ایک سمندر ہیں کہ موجیں مار رہا ہوتا ہےاور ہر ایک کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت اور اپنے ظرف کے مطابق اپنی پیاس بجھاتا چلا جائے۔
[FONT=&]کتب کی اہمیت[/FONT]
کتاب کے ساتھ ہم مسلمانوں کو ایک خاص تعلق ہے۔ ہمارے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم پر جو پہلا اِرشاد ِ خداوندی اُترا وہ یہی تھا کہ "پڑھ" اور یہ اللہ تعالٰی کی نوازشات کی انتہا تھی کہ غارِ حرا کے اُس نورانی لمحے نے حضور صل اللہ علیہ وسلم کو "علم کا شہر" بنا دیا اور اُنہیں ایک عظیم کتاب کا حامل اور مبلغ قرار دیا۔ وہ کتاب جو سعادتوں اور برکتوں کا خزانہ ہے۔ گویا مسلمان دینی نقطہِ نظر سے اور وراثت کے اعتبار سے صاحبِ کتاب بھی ہے اور کتاب دوست بھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی میں ہم مسلمان انفرادی طور پر مجموعی لحاظ سے عظیم کتب خانوں کے مالک رہے ہیں۔ کتب خانے کسی قوم کی علمی عظمت اور فکری بصیرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم ایک شاندار تاریخ کے مالک ہیں۔ مخالف قوموں نے جب بھی مسلمانوں پر یلغار کی تو اُس یلغار کی زَد میں ہمارے جسم ہی نہیں آئے، ہمارے کتب خانے بھی آئے ہیں۔تاتاریوں نے مسلمانوں کے سروں کے مینار بھی تعمیر کیے مگر اُس کے ساتھ ہمارے قیمتی کتب خانوں کو دریائوں میں غرق بھی کر دیا تاکہ مسلمان فکری، عِلمی اور ادبی لحاظ سے مُفلِس ہو کر رہ جائیں۔ اِس سلسلے میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کہتے ہیں؛
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
جو دیکھیں اُن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
علامہ محمد اقبال بھی یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا علم آج مغرب میں پڑا ہوا ہے اور اُنہوں نے اُن تحقیقات کو علم کے موتی کہا ہے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب اہلِ مغرب اور ساری دنیا سے علم کی تلاش میں اشخاص عرب ممالک تشریف لاتے تھے ، عربی زبان سیکھتے تھے، علم حاصل کرتے تھے اور پھر اپنے ملک جا کر اپنے لوگوں کو وہ علم سکھاتے ہیں اور آج ہمارا حال بھی اُنہوں جیسا ہے کیونکہ ہم پہلے اُن کی زبان سیکھتے ہیں پھر ہم اپنے علم کو سمیٹتے ہیں۔
ہمارے مخالفیں نے ہمیں یوں بھی لُوٹا کہ وہ ہماری کتابوں کو یورپ کی لائبریریوں میں لے گئے اور وہ کتابیں جو ہمارے اسلاف کی تحقیقات کا نچوڑ تھیں اور اُن سائنسی تحقیقات کی بنیادو ں پر اُنہوں نے اپنی زمین کو آسمان بنا دیا اور ہم اُن کی ترقی کو حیران نظروں سے دیکھتے رہے حالانکہ اہلِ مغرب کی سائنسی ترقی میں ہمارے اجداد کے خونِ جگر کی سُرخی جھلکتی ہے۔ یہی بات علامہ اقبال بھی کہہ رہے ہیں۔
ایک اِنسان جب مصروفیات ِ زندگی سے اُکتا جاتا ہے، زمانے کے غم جب اُس پر چھا جاتے ہیں تو انسان زندگی کی اُن تلخیوں سے بچنے کے لئے مختلف پناہیں ڈھونڈتا ہے، وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو کِسی دوسری طرف مصروف کرتا ہے۔ کھیل تماشے میں لگ جاتا ہے، فلمیں دیکھ کر زندگی کے غم دُور کرتا ہے اور بعض لوگ نشہ آور اشیاء میں عافیت تلاش کرتے ہیں اور اپنا وقت اور اپنی جان گنوا دیتے ہیں جبکہ اللہ کے بندے ذکرِ حق میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا کہ ہم کھیل نہ کھیلیں۔ متوازن زندگی کے لئے کھیل ضروری ہے۔ لیکن فحاش فلمیں، موسیقی وغیرہ اور نشہ آور اشیاء کو استعمال کرنے والا وقتی سکون کے لئے ایک دائمی زہر اپنی رگُوں میں اُتار لیتا ہے، یہ تفریحات وقت کاٹنے کا ایک ذریعہ تو ہیں مگر اصلاح و تعمیر کا کوئی نقش نہیں۔ یوں وقت بھی ضائع ہوتا ہے، صحت بھی تباہ ہوتی ہے اور ایک ایسی لت پڑ جاتی ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے اور جس کا نتیجہ جسمانی اور فکری تباہی ہے۔
کتب خانے ذہنی تفریح کا ایک تعمیری ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کتابوں کی دُنیا میں صرف اپنی کلفتوں کی بھول جاتا ہے بلکہ اُس کی سوچ میں وسعت بھی آ جاتی ہ، اُس کا دامن عِلم کے ساتھ ساتھ فضیلت کے موتیوں سے بھر جاتا ہے کیونکہ اُس کے اند ایک شعور پیدا ہوتا ہے، تقویٰ کا۔ جس قوم کے افراد علم و فَضل کی دولت سے بہرہ وَر ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے باپ دادا کی اُن تصنیفات کو کُتب خانوں میں محفوظ کر لیتے ہیں جن کو زمانے کی گردش سے خطرہ ہوتا ہے، ویسے بھی تاریخ اُنہی قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے عِلمی سرمائے کی حِفاظت کرنا جانتی ہے۔
مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا، اکثریت کے لئے مُشکِل ہو گیا ہے، انسان کے لئے ذاتی لائبریری بنانا بھی روز بروز نامُمکِن ہوتا جا رہا ہ، اِس اعتبار سے کتب خانوں کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے، انسان آسانی کے ساتھ جدید تصانیف سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور پھِر ایک انسان نہیں بلکہ سینکڑوں انسان، سالہا سال اُن علمی سر چشموں سے اپنی فکری پیاس بجھا سکتے ہیں۔ گویا کتابوں کی سنبھالنا، اُ ن کی حفاظت کرنا اور اُ ن کو کتب خانوں میں محفوظ کرنا ایک بہترین صدقہِ جاریہ ہے۔ اِس لئے لوگ اپنے ذاتی کتب خانوں کو قومی سطح کے کتب خانوں میں بُطور عطیہ مُنتَقِل کرتے ہیں تا کہ اُ ن کی موت کے بعد یہ کتابیں اپنا نوُر بِکھیرتی اور فِکرو خیال کی راہوں کو اجالتی رہیں۔ جب ہم کسی لائبریری سے کوئی کتاب لاتے ہیں تو ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ کتاب خراب نہ ہو اور محفوظ رہے کیونکہ وہ ذاتی ملکیت نہیں لیکن ایسا نہیں کہ ذاتی کتب کی حفاظت بھی نہ کی جائے بلکہ اُن کو بھی سنبھا ل کر رکھنا چاہیئے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اُس کتاب کی مستقبل میں ضرورت پڑے یا کسی دوست احباب کو ضرورت ہو۔ لائبریری سے لائی گئی کتاب ایک امانت کی مانند ہے، یہ ایک قومی دولت ہے اور اِس پر ہر ایک کا حق ہے۔ بعض لوگ لائبریری سے نادر کتابیں لے کر اُن کی قیمت جمع کرا دیتے ہیں، یہ قومی نوعیت کا ایک سنگین جُرم ہے۔ روپے تو مل جاتے ہیں مگر وہ نایاب کتابیں نہیں ملتیں۔ نتیجہ معلموم کہ ایک دُنیا اُ ن کے فیض سے محروم ہو جاتی ہے، جس طرح کب خانوں کے قیام ایک کارِ ثواب ہے اِس طرح وہاں سے کتابوں کو اُڑانا، ایک جُرم ہے۔
ہر انسان کی اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ بعض تاریخی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ بعض ادبی، بعض سیاسی ادب کا شوق رکھتے ہیں۔ بعض دینی کتابوں کا شوق رکھتے ہیں۔ ایک کتب خانے میں مختلف موضوعات سے متعلق کتابیں ہوتی ہیں اور اُس علمی ذخیرے میں رنگا رنگی ہوتی ہے۔ ایک موضوع پر بہت سے کتابیں مل جاتی ہیں اور انسان بیّک وقت ایک موضوع پر ہر قسم کے خیالات سے استفادہ کر سکتا ہے۔