Khair Andesh
Chief Minister (5k+ posts)
کبھی تو "ناں "کرنی ہو گی!
ادھار کی زندگی
جس وقت پاکستان نے امریکی جنگ میں اپنا کندھا پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور ڈو مور کے ہر تقاضہ پر لبیک کہنے کی ٹھانی تھی(بلکہ جو چیز نہ مانگی گئی،وہ بھی دے دی گئی)،اہل نظر نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ خود سپردگی کی یہ پالیسی کہیں کا نہ چھوڑے گی۔ کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی، " ناں " کرنی ہی پڑے گی۔اور جس دن "نو مور" کہہ دیا گیا، اس دن ہم پھر اسی پوزیشن میں ہوں گے جس دن ہم نائن الیون کے بعد تھے(بلکہ اس سے بھی ذیادہ کمزور پوزیشن میں ہوں گے)۔
طالبان(افغان) کے بعد،کشمیر اور کشمیری تنظیموں کے بعد باری:۔
اچھے برے طالبان کا فرق تو ہم پہلے ہی ختم کر چکے تھے،مگر اب آثار بتا رہے ہیں کہ حکومت اب کشمیر پر بھی یو ٹرن لینے کا سوچ رہی ہے، اور اب کشمیری جہادی تنظیموں کا نمبر لگ چکا ہے (خاص کر پٹھان کوٹ حملے کے بعد)۔با الفرض ہم اس پر عمل بھی کر لیتے ہیں، اور ان پر مکمل طور پر قابو پا لیا جاتا ہے۔ تو کیا ڈو مور کا مطالبہ آنا بند ہو جائے گا؟ اس کا جواب ہاں میں دینا بہت مشکل ہے۔ جو لوگ حالات کی خرابی کا سارا نزلہ "غیر ریاستی عناصر"پر گراتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر ان کا خاتمہ ہو جائے،تو سب ٹھیک ہو جائے گا، وہ یقینا بھول رہے ہیں کہ ہم انڈیا سے تین جنگیں ایسی حالت میں لڑ چکے ہیں، کہ ان غیر ریاستی عناصر کا کوئی وجود نہیں تھا، مگر اس کے باوجود انڈیا نے حملہ کر کے ملک کو دولخت کر دیا۔کہنے کا مطلب یہ کہ یہ موجودہ دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہیں، اور انڈیا کبھی بھی اکھنڈ بھارت سے کم پر راضی نہیں ہو گا، اور کشمیر کے بعد کوئی دوسرا شوشہ چھوڑ دیا جائے گا۔
ٓآئی ایس آئی کی باری۔
لکھوی، حافظ سعید، مسعود اظہراور دوسرے تیسرے کو انڈیا کے حوالے کر دیا جاتا ہے،یا خود ہی کوئی کاروائی کر دی جاتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد ہماری جان ڈو مور سے چھوٹ جائے گی؟ یقینا نہیں، کہ انڈیا کی اصل دشمنی تو آئی ایس آئی کے ساتھ ہے۔ اور حافظ سعید وغیرہ کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کے شبہ کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ورنہ اس کی حافظ سعید یا دوسروں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اگرچہ امریکا کو محفوظ رکھنے کے لئے سب سے ذیادہ قربانی فرنٹ لائن سٹیٹ دے رہی ہے، مگر امریکا کی اصل (سٹریٹیجک)یاری انڈیا کے ساتھ ہی ہے۔چنانچہ امریکا کے پاس کوئی اور وجہ نہ بھی ہو، صرف اپنے سٹریٹیجک پارٹنربھارت کی ناپسندیدگی ہی آئی ایس کو ٹارگٹ کرنے کے لئے کافی ہے۔
ٓآئی ایس آئی کو قابو کرنے کے ویسے تو درجنوں بہانے ہو سکتے ہیں، لیکن شاید اس کیلئے صرف "اسامہ کارڈ "ہی کافی ہو۔آج کل بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ وقتا فوقتا ایبٹ آبادکمپاؤنڈ سے برآمد ہونے والی مختلف چیزوں کا تذکرہ میڈیا میں چلتا رہتا ہے۔ کبھی اسامہ کی ڈائری، کبھی خطوط اور ای میل وغیرہ(ابھی حال ہی میں اسامہ کی وصیت بھی' برآمد' ہو چکی ہے ۔ابھی قندوزکے جس ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا،ا س میں بھی آئی ایس آئی کا نام لیا گیا تھا)پھر جو قوتیں عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا" سراغ "لگا سکتی ہیں، ان کے لئے(وقت آنے پر) اسامہ اور آئی ایس آئی کے افسران کے درمیان(اصل یا نقل) خط و کتابت پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہو گا۔سیمور ہرش، گارلوٹا اور اسی قبیل کے صحافیوں کے ذریعے سے میدان پہلے ہی تیارکیا جاتا رہا ہے۔مثلا بی بی سی کی یہ رپورٹ ملاحظہ کریں
یعنی کیوں کہ ابھی وقت نہیں آیا اس لئے،ابھی صرف شک ہے کہ اعلی عہدیدار اسامہ کے معاملے میں ملوث تھے۔ اور یہ شک کبھی بھی یقین میں بدل سکتا ہے۔
اب کیونکہ یہ پورا مضمون ہی مفروضے پر ہے، اس لئے ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے بھی پر کاٹ دیئے جاتے ہیں، اور بہت سے ریٹائرڈ یا حاضر سروس افسران پر چھری چلا دی جاتی ہے۔ مگر کیا اب بھی ڈو مور کا سلسلہ رکے گا؟؟۔
ایٹمی پروگرام کی باری:۔
اب جب کہ آئی ایس آئی میں دہشت گردوں کے حمایتیوں کی" تصدیق "ہو چکی ہو گی تو اس کے بعد لا محالہ ایٹمی پروگرام کا نمبر آئے گا، کہ عالمی طاقتیں ایسے ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار برداشت نہیں کر سکتیں کہ جس کی سرکاری خفیہ ایجنسی میں دہشت گردی کے حمایتی موجود رہے ہوں۔چنانچہ اس وقت کا وزیر اعظم یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صاحب ٹی وی پر تشریف لائیں گے، اور قوم سے مخاطب ہوں گے؛۔
میرے عزیز ہم وطنو، جیسا کہ آ پ سب جانتے ہیں کہ ہمارا پیارا ملک بڑے بحرانوں میں مبتلا ہے۔مشکل کی اس گھڑی میں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آ پ کا دفاع مظبوط ہاتھوں میں ہے، لیکن قوموں کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے موڑ آ جاتے ہیں، جہاں انہیں مشکل فیصلے لینے ہوتے ہیں۔
میرے ہموطنوں، جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے، دنیا کی بڑی سپر پاور نے ہمیں دھمکی دی ہے کہ یا تو ایٹمی صلاحیت ختم کردو، ورنہ پتھر کے زمانے میں پہنچنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی ایٹمی صلاحیت اس کے دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور ہماری ایٹمی صلاحیت نے بھی ہمیشہ دشمن کو ہماری طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے سے روکے رکھا ہے۔ مگر اب سوال ہمارے ملک کی بقا کا ہے۔ او اگر ملک ہی تباہ ہو گیا، تو ایٹمی ہتھیار ہمارے کسی کام کے نہیں۔لہذا "سب سے پہلے پاکستان"اور میں آج سب کے سامنے ایٹمی صلاحیت سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہوں۔
پاک فوج کی باری:۔
کشمیری تنظیموں کے خلاف کاروائی کی وجہ سے فوج میں ویسے ہی بددلی اور مایوسی پھیلی ہوئی تھی،اوپر سے آئی ایس آئی جو فوج کی آنکھوں کا کام دیتی تھی،غیر فعال ہے، اور ایٹمی ہتھیار بھی چلے گئے، چنانچہ اب پاک فوج ایک آسان شکار ہے۔امریکا میں یا کسی یورپی ملک میں ایک حملہ ہوتا ہے، اور اس کا الزام، پہلے سے ہی بدنام فوج کے ان ناراض لوگوں پر لگتا ہے جو کشمیر آئی ایس آئی پالیسی اور ایٹمی ہتھیاروں کے سرنڈر کرنے پر دل گرفتہ ہیں،اور امریکا سے بدلہ لینا چاہتے ہیں (یا کوئی بھی بہانہ بنایا جا سکتا ہے)۔پھرامریکا خود براہ راست حملہ کر تا ہے، یا اپنے پوڈل انڈیا کے ذریعے کرواتا ہے، نتیجہ ایک ہی ہے ٹائیں ٹائیں فش۔
مطلب یہ کہ ملک کا وفاق فوج کی وجہ سے قائم ہے، اور دشمن بھی یہ جانتا ہے۔ اگر فوج کو بیچ میں سے نکال دو، تو پھر سندھو دیش بنے گا یا جناح پور، گریٹر بلوچستان کی سازش کامیاب ہوتی ہے، یا منی پنجاب کی، گلگت بلتستان آغا خانیوں کو عنایت کیا جاتا ہے، یا قادیانیوں کو مرحمت کیا جاتا ہے،اس بات کا فیصلہ دشمن ہی کرے گا۔
حکم اذاں
اوپر جو خاکہ بیان کیا ہے، ہو سکتا ہے اصل امریکی پلان سے کچھ مختلف ہو، اور کشمیری تنظیموں کے بعد براہ راست ایٹمی ہتھیاروں (جن کے بارے میں آنٹی کونڈی فرماچکی ہیں کہ ان کا انتظام کر لیا گیا ہے) یا ڈائریکٹ فوج پر ہی(بذریعہ انڈیا) ہاتھ ڈال دیا جائے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اگر موجودہ حالات میں پتے ہوش و حواس سے، اور اصل دشمن کو سامنے رکھ کر نہ کھیلے گئے،اور دور اندیشانہ فیصلے نہ کیئے گئے، تو دشمن وار کرنے کے لئے ہر دم تیار ہے، اور کسی رحم کی امید نہ رکھی جائے(بالخصوص شام، لیبیا و یمن کا حال مد نظر رکھا جائے)۔
آگے تیرے بھاگ لچھیئے۔۔۔
جس وقت پاکستان نے امریکی جنگ میں اپنا کندھا پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور ڈو مور کے ہر تقاضہ پر لبیک کہنے کی ٹھانی تھی(بلکہ جو چیز نہ مانگی گئی،وہ بھی دے دی گئی)،اہل نظر نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ خود سپردگی کی یہ پالیسی کہیں کا نہ چھوڑے گی۔ کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی، " ناں " کرنی ہی پڑے گی۔اور جس دن "نو مور" کہہ دیا گیا، اس دن ہم پھر اسی پوزیشن میں ہوں گے جس دن ہم نائن الیون کے بعد تھے(بلکہ اس سے بھی ذیادہ کمزور پوزیشن میں ہوں گے)۔
طالبان(افغان) کے بعد،کشمیر اور کشمیری تنظیموں کے بعد باری:۔
اچھے برے طالبان کا فرق تو ہم پہلے ہی ختم کر چکے تھے،مگر اب آثار بتا رہے ہیں کہ حکومت اب کشمیر پر بھی یو ٹرن لینے کا سوچ رہی ہے، اور اب کشمیری جہادی تنظیموں کا نمبر لگ چکا ہے (خاص کر پٹھان کوٹ حملے کے بعد)۔با الفرض ہم اس پر عمل بھی کر لیتے ہیں، اور ان پر مکمل طور پر قابو پا لیا جاتا ہے۔ تو کیا ڈو مور کا مطالبہ آنا بند ہو جائے گا؟ اس کا جواب ہاں میں دینا بہت مشکل ہے۔ جو لوگ حالات کی خرابی کا سارا نزلہ "غیر ریاستی عناصر"پر گراتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر ان کا خاتمہ ہو جائے،تو سب ٹھیک ہو جائے گا، وہ یقینا بھول رہے ہیں کہ ہم انڈیا سے تین جنگیں ایسی حالت میں لڑ چکے ہیں، کہ ان غیر ریاستی عناصر کا کوئی وجود نہیں تھا، مگر اس کے باوجود انڈیا نے حملہ کر کے ملک کو دولخت کر دیا۔کہنے کا مطلب یہ کہ یہ موجودہ دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہیں، اور انڈیا کبھی بھی اکھنڈ بھارت سے کم پر راضی نہیں ہو گا، اور کشمیر کے بعد کوئی دوسرا شوشہ چھوڑ دیا جائے گا۔
ٓآئی ایس آئی کی باری۔
لکھوی، حافظ سعید، مسعود اظہراور دوسرے تیسرے کو انڈیا کے حوالے کر دیا جاتا ہے،یا خود ہی کوئی کاروائی کر دی جاتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد ہماری جان ڈو مور سے چھوٹ جائے گی؟ یقینا نہیں، کہ انڈیا کی اصل دشمنی تو آئی ایس آئی کے ساتھ ہے۔ اور حافظ سعید وغیرہ کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کے شبہ کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ورنہ اس کی حافظ سعید یا دوسروں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اگرچہ امریکا کو محفوظ رکھنے کے لئے سب سے ذیادہ قربانی فرنٹ لائن سٹیٹ دے رہی ہے، مگر امریکا کی اصل (سٹریٹیجک)یاری انڈیا کے ساتھ ہی ہے۔چنانچہ امریکا کے پاس کوئی اور وجہ نہ بھی ہو، صرف اپنے سٹریٹیجک پارٹنربھارت کی ناپسندیدگی ہی آئی ایس کو ٹارگٹ کرنے کے لئے کافی ہے۔
ٓآئی ایس آئی کو قابو کرنے کے ویسے تو درجنوں بہانے ہو سکتے ہیں، لیکن شاید اس کیلئے صرف "اسامہ کارڈ "ہی کافی ہو۔آج کل بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ وقتا فوقتا ایبٹ آبادکمپاؤنڈ سے برآمد ہونے والی مختلف چیزوں کا تذکرہ میڈیا میں چلتا رہتا ہے۔ کبھی اسامہ کی ڈائری، کبھی خطوط اور ای میل وغیرہ(ابھی حال ہی میں اسامہ کی وصیت بھی' برآمد' ہو چکی ہے ۔ابھی قندوزکے جس ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا،ا س میں بھی آئی ایس آئی کا نام لیا گیا تھا)پھر جو قوتیں عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا" سراغ "لگا سکتی ہیں، ان کے لئے(وقت آنے پر) اسامہ اور آئی ایس آئی کے افسران کے درمیان(اصل یا نقل) خط و کتابت پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہو گا۔سیمور ہرش، گارلوٹا اور اسی قبیل کے صحافیوں کے ذریعے سے میدان پہلے ہی تیارکیا جاتا رہا ہے۔مثلا بی بی سی کی یہ رپورٹ ملاحظہ کریں
مسٹر ہرش کہتے ہیں پاکستان میں اسامہ کی موجودگی کی خبر صرف نچلے درجے تک محدود نہیں تھی بلکہ پاکستانی افواج اور اس کی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ ترین عہدیدار بھی اس سے باخبر تھے۔ لیکن سی آئی اے اس خیال کی تردید کرتی ہے ۔ اُس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت اس سے بےخبر تھی۔
اس سارے معاملے کی ایک اور ممکنہ توجیح بھی موجود ہے جو پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی کے اندر ان باغی عناصر کی جانب اشارہ کرتی ہے جن کی ہمدردیاں اسلامی عسکریت پسندوں کے ساتھ رہی ہیں۔
یعنی کیوں کہ ابھی وقت نہیں آیا اس لئے،ابھی صرف شک ہے کہ اعلی عہدیدار اسامہ کے معاملے میں ملوث تھے۔ اور یہ شک کبھی بھی یقین میں بدل سکتا ہے۔
اب کیونکہ یہ پورا مضمون ہی مفروضے پر ہے، اس لئے ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے بھی پر کاٹ دیئے جاتے ہیں، اور بہت سے ریٹائرڈ یا حاضر سروس افسران پر چھری چلا دی جاتی ہے۔ مگر کیا اب بھی ڈو مور کا سلسلہ رکے گا؟؟۔
ایٹمی پروگرام کی باری:۔
اب جب کہ آئی ایس آئی میں دہشت گردوں کے حمایتیوں کی" تصدیق "ہو چکی ہو گی تو اس کے بعد لا محالہ ایٹمی پروگرام کا نمبر آئے گا، کہ عالمی طاقتیں ایسے ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار برداشت نہیں کر سکتیں کہ جس کی سرکاری خفیہ ایجنسی میں دہشت گردی کے حمایتی موجود رہے ہوں۔چنانچہ اس وقت کا وزیر اعظم یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صاحب ٹی وی پر تشریف لائیں گے، اور قوم سے مخاطب ہوں گے؛۔
میرے عزیز ہم وطنو، جیسا کہ آ پ سب جانتے ہیں کہ ہمارا پیارا ملک بڑے بحرانوں میں مبتلا ہے۔مشکل کی اس گھڑی میں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آ پ کا دفاع مظبوط ہاتھوں میں ہے، لیکن قوموں کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے موڑ آ جاتے ہیں، جہاں انہیں مشکل فیصلے لینے ہوتے ہیں۔
میرے ہموطنوں، جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے، دنیا کی بڑی سپر پاور نے ہمیں دھمکی دی ہے کہ یا تو ایٹمی صلاحیت ختم کردو، ورنہ پتھر کے زمانے میں پہنچنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی ایٹمی صلاحیت اس کے دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اور ہماری ایٹمی صلاحیت نے بھی ہمیشہ دشمن کو ہماری طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے سے روکے رکھا ہے۔ مگر اب سوال ہمارے ملک کی بقا کا ہے۔ او اگر ملک ہی تباہ ہو گیا، تو ایٹمی ہتھیار ہمارے کسی کام کے نہیں۔لہذا "سب سے پہلے پاکستان"اور میں آج سب کے سامنے ایٹمی صلاحیت سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہوں۔
پاک فوج کی باری:۔
کشمیری تنظیموں کے خلاف کاروائی کی وجہ سے فوج میں ویسے ہی بددلی اور مایوسی پھیلی ہوئی تھی،اوپر سے آئی ایس آئی جو فوج کی آنکھوں کا کام دیتی تھی،غیر فعال ہے، اور ایٹمی ہتھیار بھی چلے گئے، چنانچہ اب پاک فوج ایک آسان شکار ہے۔امریکا میں یا کسی یورپی ملک میں ایک حملہ ہوتا ہے، اور اس کا الزام، پہلے سے ہی بدنام فوج کے ان ناراض لوگوں پر لگتا ہے جو کشمیر آئی ایس آئی پالیسی اور ایٹمی ہتھیاروں کے سرنڈر کرنے پر دل گرفتہ ہیں،اور امریکا سے بدلہ لینا چاہتے ہیں (یا کوئی بھی بہانہ بنایا جا سکتا ہے)۔پھرامریکا خود براہ راست حملہ کر تا ہے، یا اپنے پوڈل انڈیا کے ذریعے کرواتا ہے، نتیجہ ایک ہی ہے ٹائیں ٹائیں فش۔
مطلب یہ کہ ملک کا وفاق فوج کی وجہ سے قائم ہے، اور دشمن بھی یہ جانتا ہے۔ اگر فوج کو بیچ میں سے نکال دو، تو پھر سندھو دیش بنے گا یا جناح پور، گریٹر بلوچستان کی سازش کامیاب ہوتی ہے، یا منی پنجاب کی، گلگت بلتستان آغا خانیوں کو عنایت کیا جاتا ہے، یا قادیانیوں کو مرحمت کیا جاتا ہے،اس بات کا فیصلہ دشمن ہی کرے گا۔
حکم اذاں
اوپر جو خاکہ بیان کیا ہے، ہو سکتا ہے اصل امریکی پلان سے کچھ مختلف ہو، اور کشمیری تنظیموں کے بعد براہ راست ایٹمی ہتھیاروں (جن کے بارے میں آنٹی کونڈی فرماچکی ہیں کہ ان کا انتظام کر لیا گیا ہے) یا ڈائریکٹ فوج پر ہی(بذریعہ انڈیا) ہاتھ ڈال دیا جائے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اگر موجودہ حالات میں پتے ہوش و حواس سے، اور اصل دشمن کو سامنے رکھ کر نہ کھیلے گئے،اور دور اندیشانہ فیصلے نہ کیئے گئے، تو دشمن وار کرنے کے لئے ہر دم تیار ہے، اور کسی رحم کی امید نہ رکھی جائے(بالخصوص شام، لیبیا و یمن کا حال مد نظر رکھا جائے)۔
آگے تیرے بھاگ لچھیئے۔۔۔
- Featured Thumbs
- http://teamripped.com/wp-content/uploads/2013/03/Do-more.jpg