کام آسان مگر ناکام انسان

ابابیل

Senator (1k+ posts)

دروس حدیث ۔۔۔ ابو کلیم فیضی

کام آسان مگر ناکام انسان

حدیث نمبر :24

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِىِّ -صلى اللہ علیہ وسلم- قَالَ خَصْلَتَانِ أَوْ خَلَّتَانِ لاَ یُحَافِظُ عَلَیْہِمَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ہُمَا یَسِیرٌ وَمَنْ یَعْمَلُ بِہِمَا قَلِیلٌ یُسَبِّحُ فِى دُبُرِ کُلِّ صَلاَۃٍ عَشْرًا وَیَحْمَدُ عَشْرًا وَیُکَبِّرُ عَشْرًا فَذَلِکَ خَمْسُونَ وَمِائَۃٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ وَخَمْسُمِائَۃٍ فِى الْمِیزَانِ وَیُکَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلاَثِینَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَہُ وَیَحْمَدُ ثَلاَثًا وَثَلاَثِینَ وَیُسَبِّحُ ثَلاَثًا وَثَلاَثِینَ فَذَلِکَ مِائَۃٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ فِى الْمِیزَانِ . فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ -صلى اللہ علیہ وسلم- یَعْقِدُہَا بِیَدِہِ قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ کَیْفَ ہُمَا یَسِیرٌ وَمَنْ یَعْمَلُ بِہِمَا قَلِیلٌ قَالَ یَأْتِى أَحَدَکُمْ یَعْنِى الشَّیْطَانَ فِى مَنَامِہِ فَیُنَوِّمُہُ قَبْلَ أَنْ یَقُولَہُ وَیَأْتِیہِ فِى صَلاَتِہِ فَیُذَکِّرُہُ حَاجَۃً قَبْلَ أَنْ یَقُولَہَا .

(سنن التزمذی : ۳۴۱٠، الدعوات، سنن أبوداؤد : ۵٠۶۵، الأدب، مسند أحمد : ج: ۲، ص: ۱۶۱، ۱۶۲)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان بھی دو کام پر مداومت کر لے گا وہ جنت میں داخل ہو گا، وہ دونوں کام ہیں تو بہت آسان لیکن اس پر عمل کرنے والے لوگ کم ہی ہیں (پہلا کام) ہر نماز کے بعد دس بار سبحان اللہ دس بار الحمد للہ اور دس بار اللہ اکبر کہنا، راوی کہتے ہیں

کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتلاتے جا رہے تھے اور اپنے ہاتھوں پر شمار کراتے جا رہے تھے ، آپ نے فرمایا : یہ شمار میں تو ڈیڑھ سو (150)ہیں البتہ ترازو میں ڈیڑھ ہزار (1500) ہیں، (دوسرا کام) اور جب اپنے بستر پر سونے کے لئے جاؤ تو سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر سوبار کہو یہ شمار میں تو سو ہی ہیں البتہ ترازو میں ایک ہزار ہیں، پھر تم میں کون شخص ایسا ہو گا جو دو ہزار پانچ سوگنا کرتا ہو، صحابہ نے عرض کیا کہ ہم اس ذکر کا اہتمام کیوں نہیں کر سکتے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ایک شخص نماز میں ہوتا ہے اور شیطان اس کے پاس آ کر کہتا ہے : فلاں چیز یاد کرو، فلاں چیز یاد کرو، چنانچہ وہ شخص نماز سے فارغ ہو کر (اس کام میں مشغول ہو جاتا ہے اور) اس ذکر کا اہتمام نہیں کرپاتا، اسی طرح جب وہ اپنے بستر پر سونے کے لئے جاتا ہے تو شیطان اسے برابر تھپکیاں دیتا رہتا ہے یہاں تک وہ (اس ذکر کا اہتمام کئے بغیر) سوجاتا ہے۔


(ابوداؤد، ترمذی، أحمد)
تشریح : رب کریم کا یہ بہت بڑا فضل عظیم ہے کہ اس نے اپنے ضعیف و کمزور بندوں کی ہر قسم کے خیر پر رہنمائی کی ہے اور ہر قسم کے شر سے متنبہ کیا ہے ، اس کا ایک بہت بڑا فضل یہ بھی ہے کہ اس نے ایک نیکی پر کم از کم دس گنا اجر دینے کا وعدہ فرمایا ہے ، زیر بحث حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی ایک فضل کا بیان ہے ، چنانچہ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ایسے عمل بتلائے ہیں جن پر عمل کرنا تو بہت ہی آسان ہے البتہ اس کا اہتمام کر لینا جنت میں داخلہ کے سبب ہیں۔

٭پہلا عمل یہ ہے کہ بندہ مومن جب اپنی نماز سے فارغ ہو تو کسی دوسرے کام میں مشغول ہونے سے قبل (تین بار) استغفر اللہ، پھر ایک بار اللھم أنت السلام ومنک السلام، تبارکت یا ذالجلال والکرام
(صحیح مسلم)

اس کے بعد ایک بار: لا لہ لا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر، اللھم لا مانع لما أعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد
(صحیح بخاری ومسلم)

کے بعد دس دس بار سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر، کہہ لے ، بظاہر تو یہ بہت ہی معمولی کام ہے لیکن اس معمولی عمل پر اسے تین سو نیکیاں ملتی ہیں اسطرح پانچ نمازوں میں ملا کر یہ کلمات کل 150 بار ہوں گے ، جن کا اجر 1500 کے برابر ہو گا۔

٭دوسرا عمل یہ کہ جب بندہ اپنے بستر پر جائے تو دائیں کروٹ لیٹ کر تسبیح فاطمی یعنی ۳۳ بار سبحان اللہ، ۳۳ بار الحمد للہ، ۳۴ بار اللہ اکبر، کہہ لے ، اسطرح یہ کلمات گنتی میں تو سو ہیں لیکن اجر میں ایک ہزار کے برابر ہیں، گویا بغیر کسی مشقت اور وقت کے بندہ مومن چند منٹ میں ڈھائی ہزار
نیکیاں اپنے نامۂ اعمال میں جمع کر سکتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک نیکی کا اجر دس گنا ملتا ہے۔

اس کام کی اہمیت کے پیش نظر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ابھارنے کا ایک اور اسلوب اختیار کیا کہ نیکیوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے بندوں کے گناہ خصوصاً صغائر معاف کر دئے جاتے ہیں، "ان الحسنات یذھبن السیئات نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، اور چونکہ ہر شخص گناہ کرتا ہے پھر عادتاً ایک سچے مسلمان سے یہ بعید ہے کہ چوبیس گھنٹے میں اس سے ڈھائی ہزار گناہ سرزد ہوں، اسطرح یہ نیکیاں اس کے لئے درجات کی بلندی کا بھی سبب بنتی ہیں، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کہ جب یہ نیکیاں اس کے گناہوں سے زیادہ ہیں تو بہت ہی غیر معقول بات ہے کہ تم لوگ اس کا اہتمام نہ کرو، بلکہ چاہئے کہ اس نیک عمل کو ہر گز نہ چھوڑو، بلکہ اس کا اہتمام کرو۔
اب ہر شخص کو اس پر تعجب ہو گا کہ جب عمل اس قدر آسان ہے اور اس پر اجر اس قدر عظیم ہے تو پھر کوتاہی کیوں ہو گی اسی لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب اس عمل کا ثواب اتنا بڑا ہے تو اس پر عمل کرنے والے لوگ کم کیوں ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہوتا یوں ہے کہ بندہ ابھی نماز ہی میں ہوتا ہے کہ شیطان اس کے پاس آ کر متعدد کا م یا د دلاتا ہے ، اس کا م کی اہمیت پر توجہ دلاتا ہے ، اس کے فوت ہونے کا خوف دل میں ڈالتا ہے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نمازی سلام پھیرنے کے فورا بعد اس کام میں مشغول ہو جاتا ہے اور یہ ذکر کئے بغیر اٹھ کر چلا جاتا ہے ، یہی حربہ شیطان سونے کے وقت بھی استعمال کرتا ہے ، نتیجہ سونے والا دوسرے خیالات میں مشغول ہو کر سوجاتا ہے اور اس ذکر کا اہتمام نہیں کرتا۔


فوائد

(۱) نماز کے بعد ذکر و اذکار کی اہمیت۔
(۲) تسبیح فاطمی کی اہمیت۔
(۳) قیامت کے دن بندوں کے اعمال کا تولہ جانا برحق ہے۔
(۴) شیطان انسان کو ہر نیک کام سے روکتا ہے۔
٭٭٭
 
Last edited by a moderator:

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Deen of islam is a complete system or unit in itself just like a perfectly working order machine. Any and every part of a machine must work along with others properly to make the whole thing work properly. Tinkering with its parts senselessly here and there proves fatal for its user. Talking about the quran out of its proper context only confuses people and moves them away from deen of islam if they claim to be muslims or if nonmuslims it gives them sticks to beat up muslims with.

For proper understanding of the quran and deen of islam see HERE, HERE, HERE and HERE.
 

Back
Top