ہمارے شعبدہ باز حکمرانوں کےلیے ''گفتار کے غازی'' کی اصطلاح جس نے متعارف کرائی وہ شخص یقیناً تحسین کا مستحق ہے ۔ ہر کوئی دیکھ رہا ہے کہ پاناما لیکس کے ذریعے سرعام چوری پکڑی گئی ہے مگر مجال ہے جو شرمندگی یا ندامت کا کوئی احساس سامنے آیا ہو ۔ بات بات پر مغرب کی ترقی کی مثالیں دینے والے اب ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے ۔ اخلاقیات کے اعلیٰ معیار پر فائز ہونا تو درکنار یہاں تو جھوٹ کی طویل تاریخ ہے جسے کوئی ذی شعور جھٹلا نہیں سکتا ۔ مثال کے طور پر باتوں باتوں میں تو پاکستان کب کا ایشین ٹائیگر بن چکا ۔ آئین شکن آمر کو سزا دی جاچکی ۔ کرپشن کرنے والے بھاٹی گیٹ پر پھانسی پاچکے اور جن جن سیاستدانوں نے فوجی آمریت کا ساتھ دیا تھا وہ سب آج جیلوں میں پڑے ہیں ۔ اگر یہ باتیں آپ کو مذاق لگ رہی ہیں تو جواب یہ ہے کہ سیاسی وعدے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے ۔
وزیراعظم نوازشریف لندن میں جلاوطنی کے دوران پرویز مشرف اور ق لیگ کی قیادت کے بارے میں جو کچھ کہتے تھے وہ اس وقت کی ضرورت تھی ۔ جو اب وہ کررہے ہیں وہ آج کی ضرورت ہے ۔ ان دنوں قوم کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پرویز مشرف کے ساتھ جلاوطنی کا کوئی معاہدہ نہیں ، پھر شہزاد مقرم نے ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دی تو کھسیانی بلی کافی دنوں تک کھمبا نوچتی رہی ۔ محترم وزیراعظم نوازشریف نے اقتدار ملتے ہی پہلے پرویز مشرف کی کابینہ کے کم و بیش تمام افراد کو اپنے مصاحبین خاص میں شامل کیا اور وزارتیں دے دیں ۔ اب سابق آمر کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ بیرون ملک رخصت کردیا ۔
اس صورتحال پرپوچھا جاسکتا ہے کہ جناب کیا سیاست میں اخلاقیات نام کی بھی کوئی چیز ہے ، بات بات پر قرآن و حدیث کے حوالے دینے والوں کو غلط بیانی پر کیا کوئی شرمندگی کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ حالات تو یہی بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔ دن کو رات قرار دینے پر اصرار کرنا اب ان کی عادت بن چکا ہے ۔ سچ اور جھوٹ کی تمیز کےلیے شائد ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے اور بسیار خوری حواس کو ایسے خوابیدہ کرچکی ہے کہ انہیں کسی چیز کا احساس ہی نہیں ۔
پنجاب میں دو دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ن لیگ کا دور اقتدار تاحال جاری ہے ۔ اس طویل عرصے میں ابھی تک اس عمارت کی پہلی اینٹ بھی نہیں رکھی جاسکی جس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد لوگ اپنی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے ۔ اسپتالوں ، تھانوں ، ماتحت عدالتوں اور سرکاری دفاتر کی صورتحال سب کے سامنے ہے مگر زبانی کلامی گڈ گورننس کا ڈھنڈورا جتنا مرضی پیٹ لیں آپ کو کون روک سکتا ہے ۔ ارض پاکستان میں چونکہ جھوٹ بولنے پر کوئی پابندی نہیں اس لیے اس رعایت کا فائدہ خادم پنجاب بھی بھرپور طریقے سے اٹھا رہے ہیں ۔
انتخابات سے پہلے ن لیگ نے کشکول توڑنے کے وعدے بھی بڑے جوش وخروش سے کیے مگر درحقیقت قرضہ پہ قرضہ لیا جارہا ہے ۔ ملکی معیشت آئی ایم ایف کے سہارے چل رہی ہے جبکہ ٹیکس دہندگان کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کےلیے اعلان کردہ انقلابی اقدامات کی قوم منتظر تھی مگر برا ہو پاناما لیکس کا جس نے سارا معاملہ ہی خراب کردیا ۔ اب شریف خاندان کی سربراہی میں یہ حکومت جس سے بھی ٹیکس مانگے گی ، جواب کیا ہوگا ؟اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
سانحہ پشاور کے بعد 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان بھی چند وعدوں پر مشتمل ایک دستاویز تھی جس پر اس معصوم قوم نے یقین کرلیا ۔ سب نے سوچا کہ وہ دن دور نہیں کہ حکومت اب فاٹا میں اصلاحات کرے گی ، افغان مہاجرین کا مسئلہ فوری حل ہوگا ، مدارس کی رجسٹریشن ہوگی ، نیکٹا کا ادارہ پوری طرح فعال ہوجائے گا ۔ کراچی آپریشن کو مصلحتوں سے پاک کیا جائے گا اور ملک میں فوجداری نظام میں اصلاحات ہوں گی ۔ مگروہ دن اور آج کا دن ان تمام وعدوں کی فائل بند الماری میں پڑی ہے ۔ اگر کوئی کام ہو بھی رہا ہے تو چیونٹی کی رفتار سے ۔
ن لیگ نے کچھ وعدے ملک کے کسانوں سے بھی کررکھے ہیں مثلاً انہیں آڑھتی اور پٹواری کے جبر سے نجات دلائی جائے گی ۔ کھاد بیج ، ادویات اور بجلی سستی ہوگی اور انہیں اپنی فصل کی مناسب قیمت ملے گی ۔ شوگر مافیا پر بھی قانون کا اطلاق ویسے ہی ہوگا جیسے عام آدمی پر ہوتا ہے ۔ حکومت کے تین سال
گزرچکے مگر ان وعدوں پر عمل کس نے کرنا ہے اور کب کرنا ہے کوئی نہیں جانتا ۔
پنجاب اسمبلی میں ہی ن لیگ نے وقتی مصلحتوں کے پیش نظر صوبے کے تین انتظامی یونٹ یا نئے صوبے بنانے کی قرارداد منظور کی تھی ۔ عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر ملنا تھا مگر جھوٹ ایک بار پھر عمل پر غالب آگیا ۔ تاحال جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر کام چل رہا ہے اور کوئی عوامی عدالت ، عوامی نمائندوں سے جواب طلبی نہیں کرسکتی ۔ جمہوریت کی خاطر ہروقت خون کے آنسو بہانے والے محترم آصف زرداری بھی اینٹ سے اینٹ بجاتے بجاتے بغلیں بجانے لگ گئے ہیں ۔ اپنے بیان سے ایسے مکرے کہ ثابت ہوگیا وہ ن لیگ کے سچے اور پکے اتحادی ہیں۔ جھوٹ کی سیاست اتنی عام ہوگئی ہے کہ اب اگر کوئی سیاستدان سچ بولے تو شائد لوگوں کو حیرانی ہو ۔ بہرحال حکمرانوں کو ابراہم لنکن کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کچھ وقت کےلیے سب لوگوں کو بے وقوف بناسکتے ہیں ۔ آپ ہروقت کچھ لوگوں کو بے وقوف بناسکتے ہیں مگر آپ ہروقت سب لوگوں کو بے وقوف نہیں بناسکتے ۔