
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے پاس دریائے سواں کے قریب واقع تخت پڑی کے جنگلات، جو کبھی سرسبز و شاداب تھے، اب غیر قانونی تعمیرات اور ہاؤسنگ سکیموں کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہ معاملہ اب ملک کی عدالتوں اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے زیرِ سماعت ہے، جس میں پاکستان کے بڑے پراپرٹی ڈویلپر ملک ریاض اور پاکستانی افواج کے زیرِ انتظام ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) پر جنگلات کی زمینوں پر غیر قانونی قبضے کے سنگین الزامات عائد ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک وقت تھا جب یہ جنگلات بہت گھنے اور سرسبز تھے، اور اس علاقے کی اہمیت ماحول کے حوالے سے بہت زیادہ تھی۔ تاہم، صرف 20 سال پہلے تک یہاں جو قدرتی ماحول تھا، وہ اب بدل چکا ہے۔ اب یہاں ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن اور پاکستانی فوج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے ڈی ایچ اے کے منصوبے نظر آتے ہیں۔ یہ منصوبے جو پہلے جنگلات کی زمین پر بنائے گئے، اب تک ان پر قبضے کے الزامات سامنے آ چکے ہیں۔
پرتعیش عمارات والا یہ علاقہ جس زمین پر موجود ہے، وہ نہ صرف جنگلات کی زمین ہے بلکہ عدالتی تحقیقات کے مطابق تخت پڑی کے جنگلات پر تعمیرات قبضہ کر کے بنائی گئیں۔ تخت پڑی کے یہ جنگلات مبینہ غیر قانونی تعمیرات کی نذر تو کئی سال سے ہو رہے ہیں لیکن ان کا ذکر حال ہی میں پاکستان میں انسداد بد عنوانی کے ادارے نیب کے ایک بیان میں ملتا ہے۔ نیب کے اس بیان میں الزام لگایا گیا کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے۔
https://twitter.com/x/status/1892098700165689551
جج مظہر منہاس، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، کی 2011 کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں درج ہے کہ تخت پڑی جنگل کی صفائی بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے مل کر کی۔ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے قبضے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے 2018 کے ایک فیصلے کے مطابق بھی بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے سرکاری جنگلات اور شاملات کی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ڈی ایچ اے ان جنگلات سمیت ملک میں کسی بھی جگہ پر قبضے کی تردید کرتا ہے۔ فوج کے زیرانتظام چلنے والے اس ادارے کے مطابق ڈی ایچ اے نے تخت پڑی سمیت جنگلات کی زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا اور ڈی ایچ اے کا سیکٹر ایف بھی بحریہ ٹاؤن کی ملکیت میں ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنگلات کی جگہ پر قبضے کی شکایات پر محکمہ جنگلات اور سروے آف پاکستان کو نئے سرے سے ایک سروے کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد عدالت نے ان محکموں کی طرف سے جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ اور سروے کا 2018 کے اپنے فیصلے میں حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گوگل ارتھ کے مطابق 17 اپریل 2005 تک پورا تخت پڑی جنگل اپنی جگہ پر موجود نظر آتا ہے جبکہ اس کے بعد 9 اکتوبر 2005 تک درخت کاٹ دیے گئے اور جنگل کی جگہ تعمیرات شروع کردی گئیں۔
بی بی سی نے جن افسران سے سرکاری ریکارڈ تک دسترس حاصل کرنے کی بات کی تو انھوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حامی بھری۔ ان کا مؤقف تھا کہ انھیں ان رہائشی منصوبوں کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں اپنے ایک فیصلے میں متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی تھیں کہ یہ قبضہ چھڑوایا جائے جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے عدالت کو متعدد سماعتوں پر بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں اور عدالتی فیصلے کے مطابق کارروائی آگے بڑھائی جائے گی تاہم محکمہ جنگلات پنجاب کے چیف کنزرویٹر آفیسر عبدالمقیت خان کہتے ہیں کہ اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ ان کا مؤقف ہے کہ سانس لینے کے لیے آکسیجن درکار ہے، لہٰذا جنگلات کی جس زمین پر قبضہ ہوا، وہ واپس دلائی جائے یا اس کے متبادل کوئی جگہ دی جائے۔
نیب نے حالیہ بیان میں کہا کہ ملک ریاض عدالتی مفرور ہیں اور ساتھ یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کو منی لانڈرنگ تصور کیا جائے گا۔ نیب کے مطابق ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں زمینوں پر قبضے کیے اور سرکاری و نجی اراضی پر ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا۔ ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور نیب کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان قانونی چینلز کے ذریعے ملک ریاض کی حوالگی کے لیے متحدہ عرب امارات سے رابطہ کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جنگلات کی زمین پر بحریہ ٹاؤن کے نام 483.99 ایکڑ زمین کا قبضہ سرکاری دستاویزات کا حصہ ہے۔ اس رقبے میں سے 163.36 ایکڑ بحریہ ٹاؤن کے فیز ایٹ میں شامل کر دی گئی۔ بحریہ سپرنگ نارتھ کو 185.17 ایکڑ دی گئی۔ اوورسیز سیکٹر ون کے لیے 5.29 ایکڑ جبکہ گارڈن سٹی کے تین سیکٹرز کے لیے 110.17 ایکڑ جنگلات کی زمین کام میں لائی گئی۔ تخت پڑی جنگلات کی تقریباً 300 ایکڑ زمین پر اب ڈی ایچ اے کی تعیمرات ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق تخت پڑی جنگلات کی زمین میں سے ڈی ایچ اے تھری میں 9.01 ایکڑ، ڈیفنس ولاز کے لیے 74.84 ایکڑ، ڈی ایچ اے کے سیکٹر ایف کے لیے 202.48 ایکڑ زمین شامل کی گئی۔ بحریہ ٹاؤن نے ڈی ایچ اے کو بھی زمین ٹرانسفر کی اور بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نے مل کر جنگلات کی زمین میں سے 754.92 ایکڑ زمین اپنے رہائشی منصوبے کا حصہ بنا دی۔
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف واضح احکامات جاری کیے لیکن آج بھی نیب کا مؤقف ہے کہ تحقیقات جاری ہیں۔ تخت پڑی جنگلات کے معاملے میں عدالتی فیصلے موجود ہیں، انکوائری رپورٹس اور سرکاری دستاویزات میں زمینوں کے غیر قانونی حصول کے شواہد درج ہیں، مگر زمین واپسی اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی صورت حال جوں کی توں ہے۔ عدالت کی ہدایت کے باوجود اب تک بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے خلاف کوئی عملی اقدام دیکھنے کو نہیں ملا، اور محکمہ جنگلات تاحال زمین کی واپسی کے انتظار میں ہے۔'
- Featured Thumbs
- https://content-cdn.zameen.com/DHA_Islamabad_3edf0d2161.jpg
Last edited: