ڈیل معافی کی نہیں، شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی ہو رہی ہے
وسی بابا
ہمارا میڈیا جہاں ٹرک کی چھوٹی لال بتی دیکھتا ہے۔ اس کے پیچھے چلا جاتا ہے، ساتھ ہی کوشش کرتا ہے اکیس بائس کروڑ گوبھیاں بھی اپنی ڈی ایس این جی ویگن میں ڈال کر لے جائے۔ اب ہمارا آزاد میڈیا ہمیں شریف فیملی کے ساتھ ایک نئے این آر او کی خبریں سنا رہا ہے۔ میڈیا تو ہمارا اتنا آزاد ہے کہ کبھی کبھی لگتا کہ عقل سے بھی آزاد ہونے کی کوشش کر رہا۔
مسلم لیگ نون کو شہباز شریف نے دیوار میں سیدھی ٹکر مارنے سے بچایا ہے۔ اس کے بعد پنجاب پولیس کے ساتھ اپنے کارکن کا گھول ہونے سے بھی بچایا ہے۔ اس کے باوجود سولہ ہزار مقدمات درج ہونے کی خوشخبریاں رپورٹ ہوئی ہیں۔
کسی نہ کسی طرح مسلم لیگ نون بچ بچا کر الیکشن کے دن تک پہنچ گئی ہے۔ اتنی کامیابی سے بچی ہے کہ لیڈر جیل میں ہے۔ سیاسی وارث بھی جیل میں ہے۔ حنیف عباسی کو آدھی رات کو قید سنائی ہے۔ شیخ رشید کو اس قید کے ساتھ ہی سیدھی موٹر وے اسمبلی جاتی دکھائی دی۔
پر، شیخ صاحب کا الیکشن ہی گل ہو گیا ہے۔ ان کی دوسری سیٹ بھی پھنس گئی ہے۔ احتجاج کی اک ایسی خاموش لہر اٹھی ہے کہ بہت سے منصوبے بدلتے دکھائی دے رہے۔ مسلم لیگ نون کے جلسوں میں رش بڑھ گیا۔ آخری تین چار دن میں وہ پوری طرح چارج ہو کر الیکشن موڈ میں آ گئی ہے۔
شہباز شریف کو لگ رہا ہے کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے۔ وہ اپنے لیے پنجاب ہی نہیں مرکز میں بھی اب پورا امکان دیکھ رہے ہیں۔ ویسے وہ کہہ تو کے پی حکومت لینے کا بھی رہے ہیں۔ بے وثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کا خیال ہے کہ کٹ کٹاپا ہو سکتا ہے پنجاب میں لیکن برتری ہماری ہی ہوگی۔
اک بندہ جو سیاستدان بھی ہو۔ حکومت بھی کر چکا ہو۔ سب سے بڑی پارٹی کا کرتا دھرتا بھی ہو۔ باقی تو چھوڑیں پنجاب سپیڈ کے نام سے خبریں چھپوا چھپوا کر مشہور بھی ہو چکا ہو۔ وہ جب اپنی کامیابی کا امکان دیکھے گا تو کیا کرے گا؟
ظاہر ہے کہ وہ اپنے امکانات واضح کرنے کی کوشش کرے گا۔ اپنی مشکلات ختم کرنے کو بھاگ دوڑ کرے گا۔ اپنے دوستوں ہمدردوں کو آواز دے گا کہ ارے دیوانو مجھے پہچانو، او جولی او شیلا مجھے روکو کہیں گر نہ پڑوں۔
ترک صدر کے ساتھ شہبازشریف کے ٹیلی فونک رابطوں کی خبر سامنے آ چکی ہے۔ ظاہر ہے دونوں نے ترک مٹھائیوں پر بات نہیں کی ہو گی۔ آئندہ حکومت پر ہی بات کی ہو گی۔ ترک صدر سرگرم ہوئے ہوں گے۔ کہیں اور بھی فون کیا ہو گا۔
اک دوست ملک کے اعلی سطحی عہدیدار پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ وہ شہباز شریف سے مل چکے ہیں۔ اب انہوں نے پنڈی جانا ہے۔ آپ سوچتے رہیں لیاقت باغ دیکھنے جا رہے ہوں گے۔
سیدھی بات یہ ہے کہ شہبازشریف سمجھتے ہیں کہ جیت بھی گئے تو پارٹی انہیں وزیراعظم نہیں بنائے گی۔ انہوں نے اپنے سارے دوستوں کو ایکٹو کر دیا ہے کہ ضمانت دیں راضی کریں۔ میرے راستے صاف کریں میں تو بندہ ہی بہت اچھا ہوں۔ تصادم سے گریز کرنے والی اپنی ساری باتیں حرکتیں وہ ثبوت میں پیش کرتے ہوں گے۔
ہمارے تینوں اہم ترین دوست ملک اس وقت پاکستانی حالات کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ وہ براہ راست متاثر ہوں گے۔ وہ پوری طرح ہم سے منسلک ہیں متعلق ہیں۔ ان تینوں ممالک کا اپنا ایک وژن بھی ہے ہمارے لیے پاکستان کے لیے۔ تو یہ سب سرگرم ہو چکے ہیں۔
ان سارے رابطوں کا جو کم از کم نتیجہ نکلنا ہے وہ اچھے الیکشن ہو گا۔ سب کو مطمئین کرنے کا یہی ایک طریقہ بھی ہے۔
اس طریقے سے جڑا ایک لطیفہ بھی سن لیں۔ پی ٹی آئی کے ایک منتخب رکن پارلیمنٹ نے لاہور میں تاریخی ارشاد فرمایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اب ہمیں کہہ رہے کہ الیکشن فری اینڈ فئیر ہوں گے، ہم سے اتنی محنت اس لیے کرائی تھی؟ اب ہمارا کیا بنے گا؟“
این آر او والی باتیں گپ ہیں۔ شہباز شریف اس وقت کچھ دوسری کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر وہ الیکشن جیت جائیں تو انہیں وزیراعظم بننے کا ایک فیئر چانس دیا جائے۔ کیونکہ ان سمیت پارٹی کے اندر اور باہر یہ حقیقی خدشات ہیں کہ نواز شریف کبھی بھی شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد نہیں کریں گے۔
source