Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان کی سیاست میں ان دنوں ایک دلچسپ اور پیچیدہ منظرنامہ بن رہا ہے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ ٹرمپ، جو کہ ایک کاروباری شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، ہمیشہ اپنے فیصلوں میں گاجر اور چھڑی کی سیاست کو اپناتے ہیں۔ اس کا مقصد ہمیشہ اپنے ملک امریکہ کے مفادات کو آگے بڑھانا ہوتا ہے، اور اس میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے والی ممکنہ ڈیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔ مگر اس میں پاکستانی عوام اور خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
ٹرمپ نے حال ہی میں پاکستان میں اپنے قریبی رفیق اور کاروباری شخصیت جینٹری بیچ کو بھیجا ہے، تاکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ایسی کاروباری ڈیل کی جائے جس سے امریکہ کو چین کے خلاف تجارتی محاذ پر برتری حاصل ہو سکے۔ دوسری جانب، ٹرمپ نے اپنے قریبی ساتھی رچرڈ گرینل کو پاکستانی حکومت کے پیچھے لگا رکھا ہے، جو روزانہ ترکی بہ ترکی پی ٹی آئی کے حق میں ٹویٹس کرتا رہتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ڈیل کرنا چاہتا ہے، یعنی کہ امریکہ کی بات مانتے ہوئے چین کے تجارتی کیمپ میں نہ بیٹھو، نہیں تو میں عمران خان اور انسانی حقوق کی پامالی کو بنیاد بنا کر تم پر چڑھائی کرسکتا ہوں۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اگر یہ سوچ رہی ہے کہ ۸ فروری کے احتجاج میں ۲۶ نومبر ۲۰۲۴ کی طرح سویلین پر تشدد کیا جائے یا گولیاں چلائی جائیں، تو اس سے پاکستان کو بڑا سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ٹرمپ نے پہلے ہی کیپیٹل ہل کے واقعے کے بعد اپنے سیاسی موقف کو مضبوط کیا ہے اور اگر پاکستان میں کوئی ایسی صورتحال پیدا کی گئی، تو ٹرمپ اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے سخت اقدامات کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ امریکہ کی جانب سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا اور سخت اقدامات کرنا کسی بھی وقت ممکن ہے، جس کا اثر پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی قوتوں پربھی پڑے گا۔
اس ساری صورتحال میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی کاروباری ڈیل کو طے کر کے عمران خان کو جیل میں رکھے اور موجودہ حکومت اپنی مدت ملازمت کو مکمل کرے۔ اس کے بعد اگلے دِن ہی پاکستان سے نکل جانے کا فیصلہ کرے تاکہ سیاسی بحران سے بچا جا سکے۔ اس سے زیادہ کی امید رکھنا محض بیوقوفی یا پاگل پن ہوگا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس وقت امریکہ کی طاقتور پوزیشن اور ٹرمپ کی کاروباری ذہانت پاکستانی سیاست میں ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
لہٰذا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہی سب سے بہتر راستہ ہے کہ وہ امریکہ اور خاص کر ڈونلڈ ٹرمپ کے کیپیٹل ہِل کے واقعے کے مفادات کو سمجھتے ہوئے اپنے اندرونی مسائل کو حل کرے اور کسی ایسی راہ پر نہ چلے جو ملک کو مزید بحران میں مبتلا کرے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں پاکستان میں اپنے قریبی رفیق اور کاروباری شخصیت جینٹری بیچ کو بھیجا ہے، تاکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ایسی کاروباری ڈیل کی جائے جس سے امریکہ کو چین کے خلاف تجارتی محاذ پر برتری حاصل ہو سکے۔ دوسری جانب، ٹرمپ نے اپنے قریبی ساتھی رچرڈ گرینل کو پاکستانی حکومت کے پیچھے لگا رکھا ہے، جو روزانہ ترکی بہ ترکی پی ٹی آئی کے حق میں ٹویٹس کرتا رہتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ڈیل کرنا چاہتا ہے، یعنی کہ امریکہ کی بات مانتے ہوئے چین کے تجارتی کیمپ میں نہ بیٹھو، نہیں تو میں عمران خان اور انسانی حقوق کی پامالی کو بنیاد بنا کر تم پر چڑھائی کرسکتا ہوں۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اگر یہ سوچ رہی ہے کہ ۸ فروری کے احتجاج میں ۲۶ نومبر ۲۰۲۴ کی طرح سویلین پر تشدد کیا جائے یا گولیاں چلائی جائیں، تو اس سے پاکستان کو بڑا سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ٹرمپ نے پہلے ہی کیپیٹل ہل کے واقعے کے بعد اپنے سیاسی موقف کو مضبوط کیا ہے اور اگر پاکستان میں کوئی ایسی صورتحال پیدا کی گئی، تو ٹرمپ اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے سخت اقدامات کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ امریکہ کی جانب سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا اور سخت اقدامات کرنا کسی بھی وقت ممکن ہے، جس کا اثر پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی قوتوں پربھی پڑے گا۔
اس ساری صورتحال میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی کاروباری ڈیل کو طے کر کے عمران خان کو جیل میں رکھے اور موجودہ حکومت اپنی مدت ملازمت کو مکمل کرے۔ اس کے بعد اگلے دِن ہی پاکستان سے نکل جانے کا فیصلہ کرے تاکہ سیاسی بحران سے بچا جا سکے۔ اس سے زیادہ کی امید رکھنا محض بیوقوفی یا پاگل پن ہوگا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس وقت امریکہ کی طاقتور پوزیشن اور ٹرمپ کی کاروباری ذہانت پاکستانی سیاست میں ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
لہٰذا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہی سب سے بہتر راستہ ہے کہ وہ امریکہ اور خاص کر ڈونلڈ ٹرمپ کے کیپیٹل ہِل کے واقعے کے مفادات کو سمجھتے ہوئے اپنے اندرونی مسائل کو حل کرے اور کسی ایسی راہ پر نہ چلے جو ملک کو مزید بحران میں مبتلا کرے۔