A.Chaudhry
Banned

پارلیمنٹ ایک مقدس آئینی ادارہ ہے جو عوام کی اجتماعی آواز کی نمائیندگی کرتا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ انتخابات کے دوران عوام سے سوشل کنٹریکٹ کرتے ہیں۔ عوام ان کو اپنے اعتماد کا ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں اور منتخب نمائیندوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ سوشل کنٹریکٹ کے مطابق عوام کے بنیادی حقوق کا دفاع اور تحفظ کریں گے۔ اراکین پارلیمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینا اہل صحافت کا فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جانا چاہیئے کہ جائزہ لینے والا قلم کار پارلیمنٹ کے ادارے کے خلاف ہے۔ نوائے وقت اور اس کے لکھاری جمہوریت کے دفاع اور استحکام کے لیے پیش پیش رہے ہیں۔ راقم نے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے دوران جمہوریت کی بحالی کے لیے سب سے پہلے کوڑے کھائے۔ جمہوریت کے ساتھ کمٹ مینٹ آج بھی قائم و دائم ہے البتہ جمہوری تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں قوم اس منطقی نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ موجودہ جمہوری ماڈل ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے لہذا جمہوری اور سیاسی نظام میں ایسی مثبت انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جو موجودہ جمہوریت کو سنوارنے، نکھارنے اور اسے حقیقی معنوں میں عوامی جمہوریت بنانے کے لیے لازمی ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان کے جمہوری و سیاسی نظام کو عوام کی امنگوں اور قومی سلامتی و خوشحالی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا علم سنبھال لیا ہے وہ ذہنی اور فکری انقلاب لانا چاہتے ہیں ،خدا ان کا حامی اور ناصر ہو۔پاکستان کے سب آئینی ادارے ریاست کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان اداروں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور میڈیا میں سے ایک بھی نہ ہوتو ریاست مکمل نہیں ہوسکتی البتہ ان ریاستی اداروں کے وقار اور ساکھ کی ذمے داری ان میں کام کرنے والے افراد پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ادارے کے افراد کی کارکردگی اگر بہترین اور تسلی بخش ہوگی تو عوام کی نظر میں وہ ادارہ قابل احترام ٹھہرے گا جیسے فوج کے سپہ سالار اور عدلیہ کے چیف جسٹس نے کارکردگی کی بنیاد پر افواج پاکستان اور عدلیہ کے وقار اور ساکھ میں اضافہ کیا ہے۔ عوام بعض تحفظات کے باوجود ان اداروں کی مجموعی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔
پارلیمنٹ کے آئینی سربراہ صدر پاکستان ہیں اور انتظامیہ کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم ہیں۔ صدر پاکستان نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کردئیے البتہ پی پی پی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے وہ اقتدار اور اختیارات کا مرکز و محور رہے۔ آئینی ترمیم کے مطابق کوئی رکن پارلیمنٹ اپنے پارٹی لیڈر کی مرضی اور منشاکے خلاف کام نہیں کرسکتا۔ اسی طرح پارٹی لیڈر ہی وزیراعظم کو نامزد کرتا ہے لہذا وزیراعظم بھی صدر پاکستان اور شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کے تابع ہی رہا۔ آنے والا مورخ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کی کامیابی اور ناکامی کی ذمے داری صدر پاکستان پر ہی عائد کرے گا۔ موجودہ پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی عوام کی توقعات کے مطابق نہیں رہی۔ اراکین پارلیمنٹ نے ذاتی مراعات اور مفادات تو خوب حاصل کیے البتہ وہ سوشل کنٹریکٹ کے مطابق عوام کے جان و مال اور بنیادی انسانی حقوق کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ عوام باشعور ہیں مگر بے بس اور مجبور ہیں وہ پارلیمانی ڈرامے دیکھتے رہے مگر خاموش رہے۔ پارلیمنٹ کا حالیہ ڈرامہ اس وقت سامنے آیا جب حکمران اتحادی جماعت اے این پی نے سینٹ میں کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد پیش کی جس کی حمایت پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت اسلام نے کی۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد ایم کیو ایم نے پورے پاکستان کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی جس کی اے این پی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت العلمائے اسلام نے مخالفت کی مگر پی پی پی نے اس قرارداد کی بھی حمایت کردی۔ پی پی پی اتحادی جماعتوں کے ہاتھوں کئی بار بلیک میل ہوتی رہی ہے۔اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد ایک تاریخی ڈرامہ ہے اراکین اسمبلی نے یہ جانتے بوجھتے قرارداد منظور کرلی کہ موجودہ حکومت میں اسلحہ واپس لینے کی اہلیت اور سکت ہی نہیں ہے۔ منافقت کی انتہا دیکھیئے کہ جن اراکین اسمبلی نے لاکھوں کی تعداد میں ممنوعہ اور غیر ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس تقسیم کیے وہی اب پاکستان کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد منظور کررہے ہیں۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ہوم منسٹر کی حیثیت میں تین لاکھ اسلحہ کے لائسنس تقسیم کیے۔
اپنا تو ہے ظاہر و باطن ایک مگر
یاروں کی ہے گفتار جدا کردار جدا
اپوزیشن کی پارلیمانی کارکردگی مایوس کن رہی اسی لیے اسے ”فرینڈلی اپوزیشن“ کے طعنے برداشت کرنے پڑے۔ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ پانچ سال میں احتساب بل منظور نہ کرسکی جس کی وجہ ”مک مکا“ تھی۔ اراکین پارلیمنٹ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کے لیے تیار نہ تھے البتہ چوہدری نثار علی کا یہ بیان درست ہے کہ پارلیمنٹ ”قراردادوں کا قبرستان“ بن چکی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ نے مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بلوچستان، خارجہ پالیسی، لاپتہ افراد اور ڈرون حملوں سمیت بیسیوں قراردادیں منظور کیں مگر کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اراکین پارلیمنٹ اگر عوام دوست اور محب الوطن ہوتے تو وہ لازمی طور پر پالیمانی طاقت اور قوت استعمال کرکے انتظامیہ کو مجبور کرتے کہ وہ پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عمل کرے۔ جب ایف آئی اے نے عدلیہ کے احکامات کے مطابق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹے کو نوٹس جاری کیے تو صدر پاکستان سمیت پارلیمنٹ ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ عوام قتل ہوتے رہے ، مہنگائی میں پستے رہے، قومی دولت لٹتی رہی، نوٹ چھپتے رہے، قرضے بڑھتے رہے مگر پارلیمنٹ کبھی پاکستان اور عوام کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ کی مثبت کارکردگی اٹھارہویں آئینی ترمیم ہے جس کے ذریعے 1973ءکے آئین کی روح کو فوجی آمرانہ ترامیم سے آزاد کرکے صوبوں کو خود مختار بنایا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے قوانین بنائے گئے۔ مجموعی طور پر پارلیمنٹ کی کارکردگی مایوس کن رہی جس کا اندازہ انتخابات کے دوران اراکین پارلیمنٹ کو ہوجائے گا۔
ساڈی جھولی دے وچ اج وی کجھ آساں تے کجھ لارے نیں
یاں پتھر نے جیہڑے لوکاں سچ آکھن تے
پارلیمنٹ کے آئینی سربراہ صدر پاکستان ہیں اور انتظامیہ کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم ہیں۔ صدر پاکستان نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کردئیے البتہ پی پی پی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے وہ اقتدار اور اختیارات کا مرکز و محور رہے۔ آئینی ترمیم کے مطابق کوئی رکن پارلیمنٹ اپنے پارٹی لیڈر کی مرضی اور منشاکے خلاف کام نہیں کرسکتا۔ اسی طرح پارٹی لیڈر ہی وزیراعظم کو نامزد کرتا ہے لہذا وزیراعظم بھی صدر پاکستان اور شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کے تابع ہی رہا۔ آنے والا مورخ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کی کامیابی اور ناکامی کی ذمے داری صدر پاکستان پر ہی عائد کرے گا۔ موجودہ پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی عوام کی توقعات کے مطابق نہیں رہی۔ اراکین پارلیمنٹ نے ذاتی مراعات اور مفادات تو خوب حاصل کیے البتہ وہ سوشل کنٹریکٹ کے مطابق عوام کے جان و مال اور بنیادی انسانی حقوق کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔ عوام باشعور ہیں مگر بے بس اور مجبور ہیں وہ پارلیمانی ڈرامے دیکھتے رہے مگر خاموش رہے۔ پارلیمنٹ کا حالیہ ڈرامہ اس وقت سامنے آیا جب حکمران اتحادی جماعت اے این پی نے سینٹ میں کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد پیش کی جس کی حمایت پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت اسلام نے کی۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد ایم کیو ایم نے پورے پاکستان کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی جس کی اے این پی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت العلمائے اسلام نے مخالفت کی مگر پی پی پی نے اس قرارداد کی بھی حمایت کردی۔ پی پی پی اتحادی جماعتوں کے ہاتھوں کئی بار بلیک میل ہوتی رہی ہے۔اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد ایک تاریخی ڈرامہ ہے اراکین اسمبلی نے یہ جانتے بوجھتے قرارداد منظور کرلی کہ موجودہ حکومت میں اسلحہ واپس لینے کی اہلیت اور سکت ہی نہیں ہے۔ منافقت کی انتہا دیکھیئے کہ جن اراکین اسمبلی نے لاکھوں کی تعداد میں ممنوعہ اور غیر ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس تقسیم کیے وہی اب پاکستان کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد منظور کررہے ہیں۔ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ہوم منسٹر کی حیثیت میں تین لاکھ اسلحہ کے لائسنس تقسیم کیے۔
اپنا تو ہے ظاہر و باطن ایک مگر
یاروں کی ہے گفتار جدا کردار جدا
اپوزیشن کی پارلیمانی کارکردگی مایوس کن رہی اسی لیے اسے ”فرینڈلی اپوزیشن“ کے طعنے برداشت کرنے پڑے۔ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ پانچ سال میں احتساب بل منظور نہ کرسکی جس کی وجہ ”مک مکا“ تھی۔ اراکین پارلیمنٹ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کے لیے تیار نہ تھے البتہ چوہدری نثار علی کا یہ بیان درست ہے کہ پارلیمنٹ ”قراردادوں کا قبرستان“ بن چکی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ نے مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بلوچستان، خارجہ پالیسی، لاپتہ افراد اور ڈرون حملوں سمیت بیسیوں قراردادیں منظور کیں مگر کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اراکین پارلیمنٹ اگر عوام دوست اور محب الوطن ہوتے تو وہ لازمی طور پر پالیمانی طاقت اور قوت استعمال کرکے انتظامیہ کو مجبور کرتے کہ وہ پارلیمنٹ کی قراردادوں پر عمل کرے۔ جب ایف آئی اے نے عدلیہ کے احکامات کے مطابق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹے کو نوٹس جاری کیے تو صدر پاکستان سمیت پارلیمنٹ ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ عوام قتل ہوتے رہے ، مہنگائی میں پستے رہے، قومی دولت لٹتی رہی، نوٹ چھپتے رہے، قرضے بڑھتے رہے مگر پارلیمنٹ کبھی پاکستان اور عوام کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ کی مثبت کارکردگی اٹھارہویں آئینی ترمیم ہے جس کے ذریعے 1973ءکے آئین کی روح کو فوجی آمرانہ ترامیم سے آزاد کرکے صوبوں کو خود مختار بنایا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے قوانین بنائے گئے۔ مجموعی طور پر پارلیمنٹ کی کارکردگی مایوس کن رہی جس کا اندازہ انتخابات کے دوران اراکین پارلیمنٹ کو ہوجائے گا۔
ساڈی جھولی دے وچ اج وی کجھ آساں تے کجھ لارے نیں
یاں پتھر نے جیہڑے لوکاں سچ آکھن تے
http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/28-Nov-2012/148941