ڈاکٹرافضل گرو، شہید آزادی کشمیر

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
ڈاکٹرافضل گرو، شہید آزادی کشمیر – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

حضرت سمیہ بنت خیاط رضی اﷲتعالی عنھا، سرزمین مکہ مکرمہ کی پہلی شہید خاتون ہیں جنہوں نے قافلہ سخت جاں میں شامل ہو کر حیات جاوداں پائی۔ ان کے بعد تا دم تحریر حضرات و خواتین کی لمبی، طویل اور نہ ختم ہونے والی ایک فہرست ہے جنہوں نے جام شہادت نوش جان کیا۔ جوار کعبہ سے چلنے والا یہ کاروان شہدائے اسلام جو بدر و احد سے ہوتا ہوا روم اور ایران کی سرحدوں پر میدان قتال فی سبیل اﷲ گرم کرتا ہوا کربلا کی سنگلاخ وادیوں میں پہنچا اور حرمت و تقدیس کے بلند و بالا مینار بھی اس قافلہ میں شامل ہوئے۔

قرون اولی سے دور عروج اور پھر غلامی کی مہیب غار سے نکل کر تحریکوں کے راستے آزادیوں کی طرف رواں دواں اس امت کی کوکھ نے شہدا کی فصلوں کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھا ہے۔ امت مسلمہ بلاشبہ شہداء کی پرورش کرنے والی امت ہے اور تاج شہادت کو اس امت کے نوجوانان نے بخوشی و شادمانی اور بحسرت و آرزو اپنے سروں پر سجایا ہے۔ دشمن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ لوگ زندگی کی نسبت موت سے کیوں پیار کرتے ہیں، اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں سے کیوں جا ٹکراتے ہیں، جن معرکوں میں بچ جانے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہوتا، وہاں شمولیت کے لیے قرعہ اندازی کیوں کرنی پڑتی ہے، اور مائیں خود اپنے ہاتھوں سے کیوں شہداء کو گھروں سے تیار کر کے روانہ کرتی ہیں۔ دشمن کو کون سمجھائے کہ نور توحید کے یہ پروانے اﷲ تعالی سے ملاقات کو اس دنیا پر فوقیت دیتے ہیں اور ان کے ساتھ اﷲتعالی نے بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخلے کا وعدہ کر رکھا ہے، اور اﷲ تعالی سے بڑھ کر اور کون ہے جو اپنا وعدہ سچ کر دکھائے۔

ڈاکٹر افضل گرو شہید بھی اس قافلے کے وہ شریک ہیں جو غزوہ ہندمیں معرکہ آزادی کشمیر کے محاذ کے مجاہد تھے، اور برہمن کی اسلام دشمنی کا شکار ہوئے۔ ڈاکٹر افضل گرو شہید مقبوضہ جموں و کشمیر کے ’’دوآباغ‘‘ نامی گاؤں میں جو سوپور کے قریب ضلع بارہ مولا میں واقع ہے، میں 1969ء میں پیدا ہوئے۔ یہ حبیب اﷲ نامی خوش قسمت باپ کا گھرانہ تھا۔ حبیب اﷲ لکڑیوں کے ایک چھوٹے سے کاروبار کا مالک تھا۔ باپ کا سایہ بچپن میں سے سر سے اٹھ گیا لیکن پھر بھی بیوہ ماں نے ڈاکٹر افضل گرو شہید کی تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل نہ آنے دیا۔گورنمنٹ اسکول سوپور سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ 1986ء میں تعلیم کے دس سال مکمل کیے اور اس کے بعد ثانوی تعلیمی سند کی تکمیل کے بعد ’’جہلم ویلی میڈیکل کالج‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ شباب کے ساتھ ساتھ ایمان بھی جوان ہوتا گیا اور ظلم کے خلاف جنگ اور جہاد کاجذبہ ڈاکٹر افضل گرو شہید کے سینے میں موجزن ہونے لگا۔ اپنے علاقے میں پھلوں کی تجارت سے وابستہ طارق نامی ایک نوجوان نے تحریک شہدائے کشمیر سے وابستہ کر دیا۔

’’اﷲتعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند صف بند ہو کر لڑتے ہیں‘‘ اور اس طرح کی دیگر آیات قرآنی ڈاکٹرافضل گرو شہید کو تیزی سے جنت کی وادیوں کی طرف کھینچتی چلی جا رہی تھیں۔ اپنی دینی تربیت کے دوران 1993،94ء میں دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن بھی مکمل کرلی۔ 1996ء تک دہلی میں ملازمت بھی کرتے رہے اور دہلی میں ایک دوا ساز کمپنی کے علاقائی افسر بھی تعینات رہے، بعد ازاں طبی سازوسامان کی فراہمی سے بھی متعلق رہے اور اس دوران سری نگر اور دہلی کے درمیان مسلسل حالت سفر میں رہتے تھے۔ ان مذکورہ امور کے باعث گھریلو دباؤ پر تحریک تکمیل پاکستان کی سرگرمیاں جزوی طور پر معطل بھی رہیں۔ 1998ء میں ’تبسم‘ نامی لڑکی آپ کی شریکہ حیات بنی، لیکن کسے معلوم تھا کہ ایک شہید کی آغوش اس بنت حوا کا مقدر بننے والا ہے۔

13 دسمبر2001ء کو دہلی میں بھارتی پارلیمان پر حملہ ہوا، کم و بیش نصف گھنٹہ فائرنگ کا تبادلہ چلتا رہا، حملہ آور جان کی بازی ہار گئے، ایک مالی اور آٹھ سیکورٹی اہلکار کام آئے، سولہ افراد زخمی بھی ہوگئے۔ حسب معمول بھارتی قیادت نے زخمی بلی کھمبا نوچے کے مصداق پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھر تناؤ پیدا ہو گیا اور بڑھتا چلا گیا۔ امریکی صدرنے مداخلت کی اور دونوں ملکوں کی قیادت سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے حملے کو جنگ کا بہانہ نہ بناؤ۔15 دسمبر 2001ء کو دہلی کی پولیس نے ڈاکٹر افضل گرو شہید کو گرفتار کر لیا اور ان کے ساتھ کچھ اور مرد و خواتین کو بھی سری نگر سے ان کے گھروں سے اٹھا لیا جن میں دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسرصاحب بھی شامل تھے۔ ’’پوٹا‘‘ نامی بدنام زمانہ قانون کی آہنی زنجیریں ان گرفتار شدگان کا لباس بنیں اور جنگ، قتل، دہشت گردی اور ریاست کے خلاف سازشوں کے ناجائز و
خودساختہ الزامات ان پر دھر دیے گئے۔ پولیس اور انتظامیہ نے افسران بالا کی سرزنش سے بچنے کے لیے جو بھی ہتھے چڑھا،

اسی کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا۔ 29 دسمبر 2001ء کو ڈاکٹر افضل گرو شہید دس دنوں کے لیے پولیس کے حوالے کر دیے گئے تاکہ وہ جسمانی
ریمانڈ لے سکے۔ بھارتی پولیس کا جسمانی ریمانڈ کوئی راز نہیں ہے، ایک زمانہ جانتا ہے کہ صحیح و سالم لوگ ذہنی و جسمانی معذور ہو کر باہر آتے ہیں اور کچھ کو تو تابوت میں بند کر کے لایاجاتا ہے اور باقی ماندہ کی مسخ شدہ لاشیں کسی ندی کے کنارے پڑی ملتی ہیں، یہ ہے سیکولر بھارت کی انسان دشمنی کا اصل چہرہ۔ عدالت نے ایک وکیل مقرر کیا تاکہ ڈاکٹر افضل گرو شہید کی قانونی مدد ہو سکے لیکن چند دنوں بعد اس وکیل نے بھی اپنی مصروفیات کے باعث علیحدگی اختیار کر لی۔ اب ڈاکٹر افضل گرو شہید مکمل طور پر سیکولرازم کے ننگ انسانیت شکنجے میں کسے جاچکے تھے۔ جون 2002ء میں تمام الزامات ثابت ہوگئے، یا دوسرے الفاظ میں ثابت کردیے گئے،

کیونکہ وہاں کا قانون تو سیکولرازم ہے جس سے کسی خیر اور بھلائی کی توقع عبث ہے، تب عدل و انصاف کی امید تو لاحاصل ہے۔ پولیس نے عدالت میں ڈاکٹر افضل گرو شہید کا اقراری بیان پیش کیا، لیکن انہوں نے اس بیان کی صداقت سے انکار کر دیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پولیس نے اقراری بیان پر کس طرح دستخط کرائے ہوں گے۔ 2006ء میں ڈاکٹر افضل گرو شہید نے اپنے وکیل کو بتایا تھا کہ کس طرح ان کے گھر والے زیرعتاب ہیں اور ایک صحافی نے ڈاکٹرافضل گرو شہید کے حوالے سے پولیس تشدد کی تفصیلات بھی بتائی تھیں کہ کس طرح نازک اعضاء تک کو بجلی کے جھٹکوں سے نشانہ بنایاگیا۔ 8جولائی 2002ء کو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی اور روزانہ کی بنیاد پر اس مقدمے کو سنا جاتا رہا۔ یاد رہے کہ یہ ایک ’پوٹا‘ عدالت تھی۔ یہ سماعت چھ ماہ تک چلتی رہی اور 18 دسمبر 2002ء کو خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی۔ ہائی کورٹ میں اپیل دائرکی گئی لیکن وہاں بھی انصاف کی توقع عبث تھی اور اپیل خاج ہوگئی۔ 4

اگست 2005ء کو سپریم کورٹ نے بھی ماتحت عدالت کی یہ سزا برقرار رکھی۔ نظرثانی کی اپیل بھی خارج۔ ان تمام حقائق سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی عدالتیں کس قدر اپنی حکومتی پالیسیوں کے تابع ہیں۔ یہ سیکولرازم کے اصل کردار ہیں، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے اور اصل میں حکومتی ارادوں کو عدالتی فیصلوں کی شکل میں تھوپ دیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2006ء میں ڈاکٹر افضل گرو شہید کی بیوی ’تبسم‘ نے صدرمملکت کو رحم کی اپیل کی۔ اس نظام میں صدر بھی تو اسی نظام کا سب سے بڑا نمائندہ تھا، سو اس نے بھی توقع کے عین مطابق یہ اپیل مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ میں ایک بار پھر بھی کوشش کی گئی لیکن جون2007ء میں پھر ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا اور سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ اس درخواست میں کوئی جان نہیں۔ جنوری2013ء تک بھارتی وزارت داخلہ پھانسی کا فیصلہ کرچکی تھی۔9 فروری کو 8 بجے جب جیل انتظامیہ نے پھانسی کی اطلاع دی تو ڈاکٹر افضل گرو شہید بہت مطمئن اور پرسکون تھے۔ انہوں نے بیوی کے نام خط لکھا، اس سے قبل وہ فجرکی نماز اور قرآن مجید کے کچھ اوراق کی تلاوت کر چکے تھے۔ جیل میں ہی جنازہ پڑھاگیا اور انہیں دفنا دیا گیا۔

اس ساری مہم کو ’آپریشن تھری اسٹار‘ کا نام دیا گیا تھا۔ سیکولرازم کے بھارتی برانڈ میں یہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں پہلا قتل ہے نہ آخری، جب تک سیکولرازم کے اقتدار کی بھیانک رات جاری ہے، ایسے قتل ہوتے رہیں گے۔ اس وقت بھارت کی ریاست اپنے شرق تا غرب انسانوں کی قتل گاہ بنی ہوئی ہے، کہیں ریاست اور حکومت کے ہاتھوں انسان اور انسانیت تہہ تیغ ہو رہے ہیں تو کہیں برہمن کے تعصب کا آسیب نہ صرف دیگر ہندؤوں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی نگلے جا رہا ہے، رہی سہی کسر انتہا پسند تنظیموں نے پوری کر رکھی ہے جو پوری سرکاری سرپرستی میں انسانوں کی بستیوں کی بستیاں نذر آتش کرنے کو عین مذہبی فریضہ گردانتی ہیں۔ انگلیوں پر گنے چنے چند بھارتی علاقے ہیں جہاں کے دو چار فیصد حالات اخبارات کی زینت بن کر دنیا کے سامنے پہنچ جاتے ہیں، وگرنہ دور دراز کی وادیوں اور جزیروں اور سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائل تو بیسویں صدی کی دہلیز پر ننگ انسانیت حالات سے دوچار ہیں اور وہاں کھلم کھلا جنگل کا قانون نافذ ہے۔

لیکن شہداء کے قافلے میں روز افزوں ہونے والا اضافہ بالآخراس خطے کی تقدیر بدلا چاہتا ہے، اور اﷲ تعالی نے چاہا تو بہت جلد شہیدوں کا خون رنگ لائے گا اور آسمانوں تک پہنچنے والی انسانیت کی چیخیں عرش خداوندی کو جھنجھوڑ دیں گی اور کشمیر سمیت یہ خطہ سرزمین برصغیر اس برہمن کے خونیں چنگل سے ضرور آزاد ہو کر کلمہ توحید کے سائے تلے سکون آشنا ہوگا، انشاءاﷲ تعالی۔
https://daleel.pk/2017/02/09/29770
 
Last edited:

SachGoee

Senator (1k+ posts)
کشمیر کے مجاہد اور لیاقت بلوچ کا فرزند


کی ہر پرجوش تقریر کے بعد کشمیر کو آزاد ہوتا دیکھ لیتے ہیں۔ یہ لوگ قربانی کی کھالیں، صدقہ اور خیرات اس یقین سے دیتے ہیں کہ ان کے چندے کے روپے سے خریدی جانے والی گولی ضرور کسی دشمن بھارتی فوجی کی کھوپڑی میں گھسے گی۔ پر ان کی کھوپڑی میں یہ حقیت نہیں گھستی کہ جن جنونیوں سے یہ کشمیر آزاد کروانے کی امید لگائے رکھے ہیں وہ ان کو کشمیر کی ایک یونین کونسل تک آزاد نہیں کروا کے دے سکتے۔ رہی بات کشمیر جہاد میں حصہ لینے والے مجاہدین کی تو اس کے لیے سادہ لوح مسلمانوں کی وافر مقدار آج بھی بکثرت دستیاب ہے جو اپنا تن من دھن بھیانک نظریات رکھنے والی جہادی لیڈر شپ کے عجیب مقاصد کے لیے نچھاور کرنے لیے ہر وقت بے تاب رہتے ہیں۔

یہاں میں ایک بات کا ذکر ضرور کروں گا کہ کشمیر جہاد پر صبح شام درس دینے والوں کی منافقت بھی دیکھ لیجیے جو اپنی سگی اولاد کو بالکل اس کارخیر کے لیے اجازت نہیں دیتے کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے کیے جانے والے جہاد کا حصہ بنیں۔ اس ایندھن کا شکار سادہ لوح لوگوں کی اولادیں ہمشہ بنتی چلی آرہی ہیں۔ جماعت اسلامی کی سابق امیر قاضی حسین احمد جب حیات تھے تو لاہور مینار پاکستان کے قریب کشمیر جہاد کے عنوان پر جماعت اسلامی نے ایک اجتماع کا انعقاد کیا۔ اس اجتماع میں جماعت اسلامی کے موجودہ مرکزی رہنماہ لیاقت بلوچ جو اس وقت بھی جماعت اسلامی کی مرکزی شوری کے اہم رکن تھے اپنے فرزند کے ساتھ بہت انہماک سے کشمیر جہاد پر کی جانے والی تقاریر سن رہے تھے۔ پر یہاں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ وہ یہ کے لیاقت بلوچ کے فرزند اپنے والد سے بھی زیادہ انہماک سے جذباتی تقاریر سے اپنا ایمان تازہ کر رہے تھے۔ اجتماع کے اختتام پر لیاقت بلوچ کے فرزند نے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر ہی شمالی صوبے میں موجود کشمیر جہاد کے تربیتی کیمپ کا رخ کیا تا کہ وہ ضروری تربیت کی تکمیل کے بعد جنت نظیر وادی کو ہندوؤں کے تسلط سے آزاد کروانے کے لیے باقاعدہ جہاد میں حصہ لیں۔ دوسری جانب لیاقت بلوچ اور ان کے اہل خانہ پر اپنے جگر گوشے کی اچانک گمشدگی کی خبر سے قیامت ٹوٹ پڑی۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ لیاقت بلوچ اور ان کی اہلیہ کے دل پر اس وقت کیا گزری ہو گی کیوںکہ میں نے چند ان گھرانوں کو قریب سے دیکھا ہے جن کے لعل بھی گھر سے کالج کے لیے نکلے تھے مگر ان کی لاشیں طویل تلاش کے بعد جہادی پرچموں میں لپٹی واپس آئی تھیں۔ لیاقت بلوچ تو اپنے اثر و رسوخ سے اپنے فرزند کو قومی ادارے کے ہیلی کاپٹر پر جہادی کیمپ سے ہی اپنے ہمراہ واپس گھر لے آئے تھے مگر ہزاروں ماؤں کے بچوں کی تلاش میں لیاقت بلوچ اس طرح نکلنے کا کبھی ارادہ تک نہیں کر سکتے۔

یہ ایک بھیانک حقیت ہے کہ عسکریت پسندی اور جہاد پر ابھارنے والے لیڈران اپنی سگی اولادوں کو اپنے اس کالے دھندے کی دنیا سے مکمل دور رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ صلاح الدیں سید کے بچوں کے بارے میں معلوم کر سکتے ہیں جو سرکاری ملازمت اور اعلیٰ تعلیم میں مصروف ہیں اور ان کو بالکل اجازت نہیں کہ وہ اپنے والد کی سوچ کی تقلید بھی کریں۔

کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینے کے بعد ہمیں اس شہ رگ کے حصول کے لیے جتنی کوشش کرنی چاہیے تھی ہم وہ تو نہیں کر سکے۔ کبھی ہم جارج بش اور اب ہم ڈونلڈ ٹرمپ سے امید لگائے رکھے ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے کا قابل قبول حل نکالیں۔ ہماری اس امید کے ساتھ بھی بہت برا حشر ہو گا اگر ہم نے اپنی کمزوریوں کو اس کیس سے الگ نہ کیا۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ دنیا کشمیر کیس پر فیصلہ دیتے وقت حافظ سعید جیسوں کا کردار ضرور سامنے رکھے گی جو اس وقت ہماری سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ اس لیے اب ان تمام جہادی ٹھیکوں کو فی الفور منسوخ کرنا بہت ضروری ہو چکا ہے جو ہم نے صرف کشمیر کی آزادی کے لیے جاری کیے تھے۔

ہمارے قومی اداروں، سیاستدانوں اور تمام باشعور رہنماؤں کو سوچنا چاہیے کہ ہم نے کس کے ہاتھوں میں کشمیر کا مقدمہ دہنا ہے۔ دنیا تو حافظ سعید کے نظریات کی الف ب بھی نہیں مان سکتی پر اگر آپ کشمیر جہاد کے لیے چندہ دیتے ہیں تو آپ کو ضرور مسعود اظہر، حافظ سعید، ٖفضل رحمان خلیل اور صلاح الدین سید سے ہی امید رکھنی چاہیے اور اگر آپ اپنے ووٹ کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور ایک قومی سوچ رکھتے ہیں تو لاکھ اختلافات کے باوجود آپ کو کشمیر کا کیس صرف اور صرف طارق فاطمی اور سرتاج عزیز کو ہی دینا ہو گا۔ ہم دنیا کو بیک وقت حافظ سعید اور سرتاج عزیز کی پالیساں دکھا کر اپنا مقدمہ کمزور کر چکے ہیں مگر اب بھی اگر ہم چاہیں تو اس سب کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ریاست کے پاس اب بھی بہت سے دیگر راستے موجود ہیں جن سے بھارت کی بھیانک شکل ہم دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے فارن آفس کے محاذ پر اپنی غلطیاں اور کمزوریاں مکمل ٹھیک کر کے اس پر کامل یقین رکھنا ہو گا کیوںکہ ہم دنیا میں کشمیر کا کیس ایک مضبوط اور درست خارجہ پالیسی کے ساتھ ہی جیت سکتے ہیں۔



http://www.humsub.com.pk/36939/ali-zardar-khan/
 
Last edited:

SachGoee

Senator (1k+ posts)

جہاد جہاد کر کے لا شعور غریبوں, مسکینوں، لاچاروں کے بچے مروا کے،72 حوروں کے وعدے دیتے ہیں۔ اپنا بچہ بہک کر گیا والد محترم کی روح گرما دینے والی تقریر سن کر تو فوج کی بھیک مانگ کر ہیلی کاپٹر سے لفٹ کروایا۔ اپنے بچوں کو امریکہ بھیجتے ہیں دنیاوی تعلیم لینے اور غریب کا بچہ افغانستان میں مرے جماعت کے لیڈرز کے لیے امریکی ڈالرز کے لیے یا کشمیر میں مرے۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
Re: ڈاکٹرافضل گرو، شہید آزادی کشمیر

کربلا کی سنگلاخ وادیوں میں پہنچا اور حرمت و تقدیس کے بلند و بالا مینار بھی اس قافلہ میں شامل ہوئے۔

:13::13::13::13::13::27::17::17::17:

چودھری یار ! وہ تو ہی تھا نا کہ جس نے منو کے یزید و حسین کے ایک برابر ہونے کے بیان کی حمایت پر تھریڈ بنایا تھا ؟
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
کشمیر کے مجاہد


قادیانیوں نے ہی تو جہاد کے خلاف انگریز کا ساتھ دیکر مسلمانوں کی شہید کرواتے رہے ، انعام میں انگریز نے جعلی پیغمبر بنا دیا جو خود عیسیٰ بن بیٹھا ، عجیب تیری منطق ، جماعت اسلامی کے بہت سے افراد نے جہد میں حصہ لیا اپنے مظلوم بھائیوں کیلئے ، یہ الله کا حکم ہے ، کسی قادیانی کا نہیں
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

جہاد جہاد کر کے لا شعور غریبوں, مسکینوں، لاچاروں کے بچے مروا کے،72 حوروں کے وعدے دیتے ہیں۔ اپنا بچہ بہک کر گیا والد محترم کی روح گرما دینے والی تقریر سن کر تو فوج کی بھیک مانگ کر ہیلی کاپٹر سے لفٹ کروایا۔ اپنے بچوں کو امریکہ بھیجتے ہیں دنیاوی تعلیم لینے اور غریب کا بچہ افغانستان میں مرے جماعت کے لیڈرز کے لیے امریکی ڈالرز کے لیے یا کشمیر میں مرے۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز


ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے سب اغیار
سب صفتیں اکھٹی ہو گئیں، ایک مرزا غدار
کذب اس کا، دنیا جان گئی ، لٹ گیا ایمان
سمجھ نہ آئے ان کو ، پیروکار بنے انگریز کے وفادار
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)


قادیانیوں نے ہی تو جہاد کے خلاف انگریز کا ساتھ دیکر مسلمانوں کی شہید کرواتے رہے ، انعام میں انگریز نے جعلی پیغمبر بنا دیا جو خود عیسیٰ بن بیٹھا ، عجیب تیری منطق ، جماعت اسلامی کے بہت سے افراد نے جہد میں حصہ لیا اپنے مظلوم بھائیوں کیلئے ، یہ الله کا حکم ہے ، کسی قادیانی کا نہیں
[/right]


ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے سب اغیار
سب صفتیں اکھٹی ہو گئیں، ایک مرزا غدار
کذب اس کا، دنیا جان گئی ، لٹ گیا ایمان
سمجھ نہ آئے ان کو ، پیروکار بنے انگریز کے وفادار



When Zulfikar Ali Bhutto and Lt Gen Akhtar Malik conceived Operation Gibraltar, it was to sever Kashmir from the Indian mainland. The infiltration of irregulars to bolster the freedom movement inside Kashmir, instigated a series of rebel actions that provided the backdrop for the engagement of regulars on the ceasefire line (CFL). The CFL began to be regularly violated and small troop movements began on either side of it. That gave cause to bigger assemblies across the international border while Pakistani troops pressed in on an offensive across the CFL towards Jammu.

Perhaps the most brilliant move of the entire war was the rapidity with which Pakistani troops, under the command of Lt Gen Malik moved on the Tawi-Akhnoor-Jammu axis. They moved into Chamb and Jaurian without a fight; the enemy having receded as they advanced. Jammu was only an arm’s length away, and that would have laid open the Kathua road to Pakistan’s advancing troops, making the dream of cutting Kashmir at its chicken-neck at Madhopur a probability. Until of course minor matters of the spoils and ultimate glory came in the way.

The offensive was paused for a change of command away from Lt Gen Malik, over to the blue-eyed Lt Gen Yahya Khan. This two-day pause was sufficient for the Indian forces to hustle, dig deep and halt the momentum of the Pakistani troops.Meanwhile, to release pressure on Jammu, India opened up two fronts and war was declared on September 6. The situation on the Kashmir front never got better beyond what was reached by September 2 and 3, and Pakistan’s political objective of winning Kashmir lay buried at the altar of egotistic ambition and human pettiness. Many saw the generalship as Pakistan’s pervasive Achille’s heel. It is true for many other reasons but this particular moment in 1965 was lost to crass ordinariness and human baseness.


Here on, began a dour fight for the stalemate. Pakistan lost the offensive edge and was forced on the defensive. All of Pakistan’s war stories – popular in the public realm – are related to the courage of defending what had been wrought on itself. India opened on two fronts — one in Sialkot, as a protective manoeuvre against the growing momentum of the thrust in Kashmir and the other in Lahore. Both Indian offensives were halted by magnificent tales of personal bravery and sacrifice. On the Sialkot front, the biggest tank battle since the Second World War was fought and the Indian offensive petered out. On the Lahore front a combination of some stout defending by the much smaller defensive elements and some extraordinary support by the air force in targeting Indian forces, saved the day for Pakistan.

https://tribune.com.pk/story/950846/65-fifty-years-on/







Qudrat Ullah Shahab an eminent Urdu writer and civil servant from Pakistan said that

"At a time when Major (General) Akhtar Hussain Malik was to take over Akhnoor to pave the way to take Srinager, the capital of Kashmir, he was wrongly removed from the command, and General Yahya Khan was put in his position. Perhaps the aim was to deprive Pakistan success in Akhnoor, Yahya Khan accomplished this task very well."[1]

Zulfikar Ali Bhutto the ninth Prime Minister of Pakistan and its fourth President said

"Had General Akhtar Malik not been stopped in the Chamb-Jaurian Sector, the Indian forces in Kashmir would have suffered serious reverses, but Ayub Khan wanted to make his favorite, General Yahya Khan, a hero."[2]




References

1. http://www.dailykos.com/story/2007/12/27/426904/-A-Brief-Overview-of-Pakistan-s-Intelligence-Service

2. Pakistan's Drift into Extremism: Allah, the Army, and America's War on Terror By Hassan Abbas Pg 51
General Akhtar Hussain Malik, Daily Imroze, Lahore, 22 August 1971
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
جماعت اسلامی کے نام


buyidlfcyaa6c-l.jpg
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
In a personal tribute, His Majesty King Hussein bin Tallal of Jordan said:

"He was indeed a champion of the Arab cause and his ceaseless efforts whether among the Muslim and non-aligned countries or at the International Court of Justice will remain for ever a shining example of a great man truly dedicated to our faith and civilization."



Muhammad Fadhel al-Jamali, a former Prime Minister of Iraq, in a tribute on his death, wrote:

"In fact, it was not possible for any Arab, however capable and competent he may be, to serve the cause of Palestine in a manner in which this distinguished and great man dedicated himself. What was the result of the debate in the United Nations is another matter. But, it must be acknowledged that Mohammad Zafrulla Khan occupies a pre-eminent position in defending the Palestinians in this dispute. We except from all Arabs and followers of Islam that they will never forget this great Muslim fighter. After Palestine, the services of this man for the independence of Libya also deserves admiration. In the United Nations, his struggle for the rights of Arabs formed the basis of firm and lasting friendship between us."

— Al-Sabah Oct 10, 1985
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)



واہ جی واہ !!! کیا بات ہے ، شاہ فیصل مرحوم اس وقت جانتے ہوتے کہ وزیر خارجہ ہی ہے جس کی وجہ سے آج تک کشمیری جانیں دے رہے ہیں ، اس کذاب دشمن نے قائد اعظم کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا ، جعلی نبی کے جھانسے میں اپنا ایمان کھو بیٹھا

 

SachGoee

Senator (1k+ posts)



واہ جی واہ !!! کیا بات ہے ، شاہ فیصل مرحوم اس وقت جانتے ہوتے کہ وزیر خارجہ ہی ہے جس کی وجہ سے آج تک کشمیری جانیں دے رہے ہیں ، اس کذاب دشمن نے قائد اعظم کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا ، جعلی نبی کے جھانسے میں اپنا ایمان کھو بیٹھا



Aik aor Jhoot.

Chaudhry sahib ne Quaid e Azam ka janaza perha tha magar uss Mullay k peechay nai perha jo Imam Mehdi AS ko gandi gaaleeaan bakta tha. Jisko koi Insaan Imam Mehdi maanta ho aor jo moulvi usay Gaaleeaan deta ho so Ikhlaaqi farz aor nobility kehti hai k uss Imam ki Imamamatt mein Namaz na perhi jaaey.



Haan ye baat Musallima hai Maudoodi sahib aor Mufti Mehmood sahib na tou Janaaza mein Shaamil huay, na janaza perha na khud na he Uss Imam k peechay.

Agar Chaudhry sahib Gaali Imam k peechay janaza perh bhee letay tou aap sub aor Mullaoun ne kehna tha dekho Kaafir ka janaza perh raha hai ya kehtay k Ahmadi ho k ye Musalmaan k peechay janaza perh raha


Aor Kashmir aor Pakistan ki baatein kerne waalo Saari dunya jaanti hai k Ahraar Tehreek e Pakistan ki Mukhalif thee aor Maulana Maodoodi sahib aor Mufti Mehmood sahib Ahrar k Champion thay.


Aor Aor Quaid e Azam ne England se jo Aelaan kiya tha Barr e Sagheer Waapis jaanay ka wo Aeylaan Masjid Fazal london mein kiya tha.



Jub Aapka Imam Mehdi aaey ga aor Jo unn pe Eemaan naheen laaein ge Moulwi aor nangi ghaleez gaaleeaan nikaalein ge unn moulwioun ki Imamatt mein Aap Namaz perheeay ga zaroor. Hamara Zameer aor qadrein aesi munaafqat kerne ki ijazat nai deta.
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
1953: Jordan's King Hussain awarding highest national award to Chaudhry Zafarullah Khan for his services to Palestine Cause.


CTpSTXmU8AArxDX.jpg
 

Back
Top