Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
ڈاکٹرافضل گرو، شہید آزادی کشمیر – ڈاکٹر ساجد خاکوانی
حضرت سمیہ بنت خیاط رضی اﷲتعالی عنھا، سرزمین مکہ مکرمہ کی پہلی شہید خاتون ہیں جنہوں نے قافلہ سخت جاں میں شامل ہو کر حیات جاوداں پائی۔ ان کے بعد تا دم تحریر حضرات و خواتین کی لمبی، طویل اور نہ ختم ہونے والی ایک فہرست ہے جنہوں نے جام شہادت نوش جان کیا۔ جوار کعبہ سے چلنے والا یہ کاروان شہدائے اسلام جو بدر و احد سے ہوتا ہوا روم اور ایران کی سرحدوں پر میدان قتال فی سبیل اﷲ گرم کرتا ہوا کربلا کی سنگلاخ وادیوں میں پہنچا اور حرمت و تقدیس کے بلند و بالا مینار بھی اس قافلہ میں شامل ہوئے۔
قرون اولی سے دور عروج اور پھر غلامی کی مہیب غار سے نکل کر تحریکوں کے راستے آزادیوں کی طرف رواں دواں اس امت کی کوکھ نے شہدا کی فصلوں کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھا ہے۔ امت مسلمہ بلاشبہ شہداء کی پرورش کرنے والی امت ہے اور تاج شہادت کو اس امت کے نوجوانان نے بخوشی و شادمانی اور بحسرت و آرزو اپنے سروں پر سجایا ہے۔ دشمن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ لوگ زندگی کی نسبت موت سے کیوں پیار کرتے ہیں، اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں سے کیوں جا ٹکراتے ہیں، جن معرکوں میں بچ جانے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہوتا، وہاں شمولیت کے لیے قرعہ اندازی کیوں کرنی پڑتی ہے، اور مائیں خود اپنے ہاتھوں سے کیوں شہداء کو گھروں سے تیار کر کے روانہ کرتی ہیں۔ دشمن کو کون سمجھائے کہ نور توحید کے یہ پروانے اﷲ تعالی سے ملاقات کو اس دنیا پر فوقیت دیتے ہیں اور ان کے ساتھ اﷲتعالی نے بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخلے کا وعدہ کر رکھا ہے، اور اﷲ تعالی سے بڑھ کر اور کون ہے جو اپنا وعدہ سچ کر دکھائے۔
ڈاکٹر افضل گرو شہید بھی اس قافلے کے وہ شریک ہیں جو غزوہ ہندمیں معرکہ آزادی کشمیر کے محاذ کے مجاہد تھے، اور برہمن کی اسلام دشمنی کا شکار ہوئے۔ ڈاکٹر افضل گرو شہید مقبوضہ جموں و کشمیر کے ’’دوآباغ‘‘ نامی گاؤں میں جو سوپور کے قریب ضلع بارہ مولا میں واقع ہے، میں 1969ء میں پیدا ہوئے۔ یہ حبیب اﷲ نامی خوش قسمت باپ کا گھرانہ تھا۔ حبیب اﷲ لکڑیوں کے ایک چھوٹے سے کاروبار کا مالک تھا۔ باپ کا سایہ بچپن میں سے سر سے اٹھ گیا لیکن پھر بھی بیوہ ماں نے ڈاکٹر افضل گرو شہید کی تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل نہ آنے دیا۔گورنمنٹ اسکول سوپور سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ 1986ء میں تعلیم کے دس سال مکمل کیے اور اس کے بعد ثانوی تعلیمی سند کی تکمیل کے بعد ’’جہلم ویلی میڈیکل کالج‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ شباب کے ساتھ ساتھ ایمان بھی جوان ہوتا گیا اور ظلم کے خلاف جنگ اور جہاد کاجذبہ ڈاکٹر افضل گرو شہید کے سینے میں موجزن ہونے لگا۔ اپنے علاقے میں پھلوں کی تجارت سے وابستہ طارق نامی ایک نوجوان نے تحریک شہدائے کشمیر سے وابستہ کر دیا۔
’’اﷲتعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند صف بند ہو کر لڑتے ہیں‘‘ اور اس طرح کی دیگر آیات قرآنی ڈاکٹرافضل گرو شہید کو تیزی سے جنت کی وادیوں کی طرف کھینچتی چلی جا رہی تھیں۔ اپنی دینی تربیت کے دوران 1993،94ء میں دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن بھی مکمل کرلی۔ 1996ء تک دہلی میں ملازمت بھی کرتے رہے اور دہلی میں ایک دوا ساز کمپنی کے علاقائی افسر بھی تعینات رہے، بعد ازاں طبی سازوسامان کی فراہمی سے بھی متعلق رہے اور اس دوران سری نگر اور دہلی کے درمیان مسلسل حالت سفر میں رہتے تھے۔ ان مذکورہ امور کے باعث گھریلو دباؤ پر تحریک تکمیل پاکستان کی سرگرمیاں جزوی طور پر معطل بھی رہیں۔ 1998ء میں ’تبسم‘ نامی لڑکی آپ کی شریکہ حیات بنی، لیکن کسے معلوم تھا کہ ایک شہید کی آغوش اس بنت حوا کا مقدر بننے والا ہے۔
13 دسمبر2001ء کو دہلی میں بھارتی پارلیمان پر حملہ ہوا، کم و بیش نصف گھنٹہ فائرنگ کا تبادلہ چلتا رہا، حملہ آور جان کی بازی ہار گئے، ایک مالی اور آٹھ سیکورٹی اہلکار کام آئے، سولہ افراد زخمی بھی ہوگئے۔ حسب معمول بھارتی قیادت نے زخمی بلی کھمبا نوچے کے مصداق پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھر تناؤ پیدا ہو گیا اور بڑھتا چلا گیا۔ امریکی صدرنے مداخلت کی اور دونوں ملکوں کی قیادت سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے حملے کو جنگ کا بہانہ نہ بناؤ۔15 دسمبر 2001ء کو دہلی کی پولیس نے ڈاکٹر افضل گرو شہید کو گرفتار کر لیا اور ان کے ساتھ کچھ اور مرد و خواتین کو بھی سری نگر سے ان کے گھروں سے اٹھا لیا جن میں دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسرصاحب بھی شامل تھے۔ ’’پوٹا‘‘ نامی بدنام زمانہ قانون کی آہنی زنجیریں ان گرفتار شدگان کا لباس بنیں اور جنگ، قتل، دہشت گردی اور ریاست کے خلاف سازشوں کے ناجائز و
خودساختہ الزامات ان پر دھر دیے گئے۔ پولیس اور انتظامیہ نے افسران بالا کی سرزنش سے بچنے کے لیے جو بھی ہتھے چڑھا،
اسی کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا۔ 29 دسمبر 2001ء کو ڈاکٹر افضل گرو شہید دس دنوں کے لیے پولیس کے حوالے کر دیے گئے تاکہ وہ جسمانی
ریمانڈ لے سکے۔ بھارتی پولیس کا جسمانی ریمانڈ کوئی راز نہیں ہے، ایک زمانہ جانتا ہے کہ صحیح و سالم لوگ ذہنی و جسمانی معذور ہو کر باہر آتے ہیں اور کچھ کو تو تابوت میں بند کر کے لایاجاتا ہے اور باقی ماندہ کی مسخ شدہ لاشیں کسی ندی کے کنارے پڑی ملتی ہیں، یہ ہے سیکولر بھارت کی انسان دشمنی کا اصل چہرہ۔ عدالت نے ایک وکیل مقرر کیا تاکہ ڈاکٹر افضل گرو شہید کی قانونی مدد ہو سکے لیکن چند دنوں بعد اس وکیل نے بھی اپنی مصروفیات کے باعث علیحدگی اختیار کر لی۔ اب ڈاکٹر افضل گرو شہید مکمل طور پر سیکولرازم کے ننگ انسانیت شکنجے میں کسے جاچکے تھے۔ جون 2002ء میں تمام الزامات ثابت ہوگئے، یا دوسرے الفاظ میں ثابت کردیے گئے،
کیونکہ وہاں کا قانون تو سیکولرازم ہے جس سے کسی خیر اور بھلائی کی توقع عبث ہے، تب عدل و انصاف کی امید تو لاحاصل ہے۔ پولیس نے عدالت میں ڈاکٹر افضل گرو شہید کا اقراری بیان پیش کیا، لیکن انہوں نے اس بیان کی صداقت سے انکار کر دیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پولیس نے اقراری بیان پر کس طرح دستخط کرائے ہوں گے۔ 2006ء میں ڈاکٹر افضل گرو شہید نے اپنے وکیل کو بتایا تھا کہ کس طرح ان کے گھر والے زیرعتاب ہیں اور ایک صحافی نے ڈاکٹرافضل گرو شہید کے حوالے سے پولیس تشدد کی تفصیلات بھی بتائی تھیں کہ کس طرح نازک اعضاء تک کو بجلی کے جھٹکوں سے نشانہ بنایاگیا۔ 8جولائی 2002ء کو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی اور روزانہ کی بنیاد پر اس مقدمے کو سنا جاتا رہا۔ یاد رہے کہ یہ ایک ’پوٹا‘ عدالت تھی۔ یہ سماعت چھ ماہ تک چلتی رہی اور 18 دسمبر 2002ء کو خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی۔ ہائی کورٹ میں اپیل دائرکی گئی لیکن وہاں بھی انصاف کی توقع عبث تھی اور اپیل خاج ہوگئی۔ 4
اگست 2005ء کو سپریم کورٹ نے بھی ماتحت عدالت کی یہ سزا برقرار رکھی۔ نظرثانی کی اپیل بھی خارج۔ ان تمام حقائق سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی عدالتیں کس قدر اپنی حکومتی پالیسیوں کے تابع ہیں۔ یہ سیکولرازم کے اصل کردار ہیں، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے اور اصل میں حکومتی ارادوں کو عدالتی فیصلوں کی شکل میں تھوپ دیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2006ء میں ڈاکٹر افضل گرو شہید کی بیوی ’تبسم‘ نے صدرمملکت کو رحم کی اپیل کی۔ اس نظام میں صدر بھی تو اسی نظام کا سب سے بڑا نمائندہ تھا، سو اس نے بھی توقع کے عین مطابق یہ اپیل مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ میں ایک بار پھر بھی کوشش کی گئی لیکن جون2007ء میں پھر ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا اور سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ اس درخواست میں کوئی جان نہیں۔ جنوری2013ء تک بھارتی وزارت داخلہ پھانسی کا فیصلہ کرچکی تھی۔9 فروری کو 8 بجے جب جیل انتظامیہ نے پھانسی کی اطلاع دی تو ڈاکٹر افضل گرو شہید بہت مطمئن اور پرسکون تھے۔ انہوں نے بیوی کے نام خط لکھا، اس سے قبل وہ فجرکی نماز اور قرآن مجید کے کچھ اوراق کی تلاوت کر چکے تھے۔ جیل میں ہی جنازہ پڑھاگیا اور انہیں دفنا دیا گیا۔
اس ساری مہم کو ’آپریشن تھری اسٹار‘ کا نام دیا گیا تھا۔ سیکولرازم کے بھارتی برانڈ میں یہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں پہلا قتل ہے نہ آخری، جب تک سیکولرازم کے اقتدار کی بھیانک رات جاری ہے، ایسے قتل ہوتے رہیں گے۔ اس وقت بھارت کی ریاست اپنے شرق تا غرب انسانوں کی قتل گاہ بنی ہوئی ہے، کہیں ریاست اور حکومت کے ہاتھوں انسان اور انسانیت تہہ تیغ ہو رہے ہیں تو کہیں برہمن کے تعصب کا آسیب نہ صرف دیگر ہندؤوں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی نگلے جا رہا ہے، رہی سہی کسر انتہا پسند تنظیموں نے پوری کر رکھی ہے جو پوری سرکاری سرپرستی میں انسانوں کی بستیوں کی بستیاں نذر آتش کرنے کو عین مذہبی فریضہ گردانتی ہیں۔ انگلیوں پر گنے چنے چند بھارتی علاقے ہیں جہاں کے دو چار فیصد حالات اخبارات کی زینت بن کر دنیا کے سامنے پہنچ جاتے ہیں، وگرنہ دور دراز کی وادیوں اور جزیروں اور سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائل تو بیسویں صدی کی دہلیز پر ننگ انسانیت حالات سے دوچار ہیں اور وہاں کھلم کھلا جنگل کا قانون نافذ ہے۔
لیکن شہداء کے قافلے میں روز افزوں ہونے والا اضافہ بالآخراس خطے کی تقدیر بدلا چاہتا ہے، اور اﷲ تعالی نے چاہا تو بہت جلد شہیدوں کا خون رنگ لائے گا اور آسمانوں تک پہنچنے والی انسانیت کی چیخیں عرش خداوندی کو جھنجھوڑ دیں گی اور کشمیر سمیت یہ خطہ سرزمین برصغیر اس برہمن کے خونیں چنگل سے ضرور آزاد ہو کر کلمہ توحید کے سائے تلے سکون آشنا ہوگا، انشاءاﷲ تعالی۔
https://daleel.pk/2017/02/09/29770
حضرت سمیہ بنت خیاط رضی اﷲتعالی عنھا، سرزمین مکہ مکرمہ کی پہلی شہید خاتون ہیں جنہوں نے قافلہ سخت جاں میں شامل ہو کر حیات جاوداں پائی۔ ان کے بعد تا دم تحریر حضرات و خواتین کی لمبی، طویل اور نہ ختم ہونے والی ایک فہرست ہے جنہوں نے جام شہادت نوش جان کیا۔ جوار کعبہ سے چلنے والا یہ کاروان شہدائے اسلام جو بدر و احد سے ہوتا ہوا روم اور ایران کی سرحدوں پر میدان قتال فی سبیل اﷲ گرم کرتا ہوا کربلا کی سنگلاخ وادیوں میں پہنچا اور حرمت و تقدیس کے بلند و بالا مینار بھی اس قافلہ میں شامل ہوئے۔
قرون اولی سے دور عروج اور پھر غلامی کی مہیب غار سے نکل کر تحریکوں کے راستے آزادیوں کی طرف رواں دواں اس امت کی کوکھ نے شہدا کی فصلوں کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھا ہے۔ امت مسلمہ بلاشبہ شہداء کی پرورش کرنے والی امت ہے اور تاج شہادت کو اس امت کے نوجوانان نے بخوشی و شادمانی اور بحسرت و آرزو اپنے سروں پر سجایا ہے۔ دشمن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ لوگ زندگی کی نسبت موت سے کیوں پیار کرتے ہیں، اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں سے کیوں جا ٹکراتے ہیں، جن معرکوں میں بچ جانے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہوتا، وہاں شمولیت کے لیے قرعہ اندازی کیوں کرنی پڑتی ہے، اور مائیں خود اپنے ہاتھوں سے کیوں شہداء کو گھروں سے تیار کر کے روانہ کرتی ہیں۔ دشمن کو کون سمجھائے کہ نور توحید کے یہ پروانے اﷲ تعالی سے ملاقات کو اس دنیا پر فوقیت دیتے ہیں اور ان کے ساتھ اﷲتعالی نے بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخلے کا وعدہ کر رکھا ہے، اور اﷲ تعالی سے بڑھ کر اور کون ہے جو اپنا وعدہ سچ کر دکھائے۔
ڈاکٹر افضل گرو شہید بھی اس قافلے کے وہ شریک ہیں جو غزوہ ہندمیں معرکہ آزادی کشمیر کے محاذ کے مجاہد تھے، اور برہمن کی اسلام دشمنی کا شکار ہوئے۔ ڈاکٹر افضل گرو شہید مقبوضہ جموں و کشمیر کے ’’دوآباغ‘‘ نامی گاؤں میں جو سوپور کے قریب ضلع بارہ مولا میں واقع ہے، میں 1969ء میں پیدا ہوئے۔ یہ حبیب اﷲ نامی خوش قسمت باپ کا گھرانہ تھا۔ حبیب اﷲ لکڑیوں کے ایک چھوٹے سے کاروبار کا مالک تھا۔ باپ کا سایہ بچپن میں سے سر سے اٹھ گیا لیکن پھر بھی بیوہ ماں نے ڈاکٹر افضل گرو شہید کی تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل نہ آنے دیا۔گورنمنٹ اسکول سوپور سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ 1986ء میں تعلیم کے دس سال مکمل کیے اور اس کے بعد ثانوی تعلیمی سند کی تکمیل کے بعد ’’جہلم ویلی میڈیکل کالج‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ شباب کے ساتھ ساتھ ایمان بھی جوان ہوتا گیا اور ظلم کے خلاف جنگ اور جہاد کاجذبہ ڈاکٹر افضل گرو شہید کے سینے میں موجزن ہونے لگا۔ اپنے علاقے میں پھلوں کی تجارت سے وابستہ طارق نامی ایک نوجوان نے تحریک شہدائے کشمیر سے وابستہ کر دیا۔
’’اﷲتعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند صف بند ہو کر لڑتے ہیں‘‘ اور اس طرح کی دیگر آیات قرآنی ڈاکٹرافضل گرو شہید کو تیزی سے جنت کی وادیوں کی طرف کھینچتی چلی جا رہی تھیں۔ اپنی دینی تربیت کے دوران 1993،94ء میں دہلی یونیورسٹی سے گریجویشن بھی مکمل کرلی۔ 1996ء تک دہلی میں ملازمت بھی کرتے رہے اور دہلی میں ایک دوا ساز کمپنی کے علاقائی افسر بھی تعینات رہے، بعد ازاں طبی سازوسامان کی فراہمی سے بھی متعلق رہے اور اس دوران سری نگر اور دہلی کے درمیان مسلسل حالت سفر میں رہتے تھے۔ ان مذکورہ امور کے باعث گھریلو دباؤ پر تحریک تکمیل پاکستان کی سرگرمیاں جزوی طور پر معطل بھی رہیں۔ 1998ء میں ’تبسم‘ نامی لڑکی آپ کی شریکہ حیات بنی، لیکن کسے معلوم تھا کہ ایک شہید کی آغوش اس بنت حوا کا مقدر بننے والا ہے۔
13 دسمبر2001ء کو دہلی میں بھارتی پارلیمان پر حملہ ہوا، کم و بیش نصف گھنٹہ فائرنگ کا تبادلہ چلتا رہا، حملہ آور جان کی بازی ہار گئے، ایک مالی اور آٹھ سیکورٹی اہلکار کام آئے، سولہ افراد زخمی بھی ہوگئے۔ حسب معمول بھارتی قیادت نے زخمی بلی کھمبا نوچے کے مصداق پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھر تناؤ پیدا ہو گیا اور بڑھتا چلا گیا۔ امریکی صدرنے مداخلت کی اور دونوں ملکوں کی قیادت سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے حملے کو جنگ کا بہانہ نہ بناؤ۔15 دسمبر 2001ء کو دہلی کی پولیس نے ڈاکٹر افضل گرو شہید کو گرفتار کر لیا اور ان کے ساتھ کچھ اور مرد و خواتین کو بھی سری نگر سے ان کے گھروں سے اٹھا لیا جن میں دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسرصاحب بھی شامل تھے۔ ’’پوٹا‘‘ نامی بدنام زمانہ قانون کی آہنی زنجیریں ان گرفتار شدگان کا لباس بنیں اور جنگ، قتل، دہشت گردی اور ریاست کے خلاف سازشوں کے ناجائز و
خودساختہ الزامات ان پر دھر دیے گئے۔ پولیس اور انتظامیہ نے افسران بالا کی سرزنش سے بچنے کے لیے جو بھی ہتھے چڑھا،
اسی کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا۔ 29 دسمبر 2001ء کو ڈاکٹر افضل گرو شہید دس دنوں کے لیے پولیس کے حوالے کر دیے گئے تاکہ وہ جسمانی
ریمانڈ لے سکے۔ بھارتی پولیس کا جسمانی ریمانڈ کوئی راز نہیں ہے، ایک زمانہ جانتا ہے کہ صحیح و سالم لوگ ذہنی و جسمانی معذور ہو کر باہر آتے ہیں اور کچھ کو تو تابوت میں بند کر کے لایاجاتا ہے اور باقی ماندہ کی مسخ شدہ لاشیں کسی ندی کے کنارے پڑی ملتی ہیں، یہ ہے سیکولر بھارت کی انسان دشمنی کا اصل چہرہ۔ عدالت نے ایک وکیل مقرر کیا تاکہ ڈاکٹر افضل گرو شہید کی قانونی مدد ہو سکے لیکن چند دنوں بعد اس وکیل نے بھی اپنی مصروفیات کے باعث علیحدگی اختیار کر لی۔ اب ڈاکٹر افضل گرو شہید مکمل طور پر سیکولرازم کے ننگ انسانیت شکنجے میں کسے جاچکے تھے۔ جون 2002ء میں تمام الزامات ثابت ہوگئے، یا دوسرے الفاظ میں ثابت کردیے گئے،
کیونکہ وہاں کا قانون تو سیکولرازم ہے جس سے کسی خیر اور بھلائی کی توقع عبث ہے، تب عدل و انصاف کی امید تو لاحاصل ہے۔ پولیس نے عدالت میں ڈاکٹر افضل گرو شہید کا اقراری بیان پیش کیا، لیکن انہوں نے اس بیان کی صداقت سے انکار کر دیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پولیس نے اقراری بیان پر کس طرح دستخط کرائے ہوں گے۔ 2006ء میں ڈاکٹر افضل گرو شہید نے اپنے وکیل کو بتایا تھا کہ کس طرح ان کے گھر والے زیرعتاب ہیں اور ایک صحافی نے ڈاکٹرافضل گرو شہید کے حوالے سے پولیس تشدد کی تفصیلات بھی بتائی تھیں کہ کس طرح نازک اعضاء تک کو بجلی کے جھٹکوں سے نشانہ بنایاگیا۔ 8جولائی 2002ء کو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی اور روزانہ کی بنیاد پر اس مقدمے کو سنا جاتا رہا۔ یاد رہے کہ یہ ایک ’پوٹا‘ عدالت تھی۔ یہ سماعت چھ ماہ تک چلتی رہی اور 18 دسمبر 2002ء کو خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی۔ ہائی کورٹ میں اپیل دائرکی گئی لیکن وہاں بھی انصاف کی توقع عبث تھی اور اپیل خاج ہوگئی۔ 4
اگست 2005ء کو سپریم کورٹ نے بھی ماتحت عدالت کی یہ سزا برقرار رکھی۔ نظرثانی کی اپیل بھی خارج۔ ان تمام حقائق سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارتی عدالتیں کس قدر اپنی حکومتی پالیسیوں کے تابع ہیں۔ یہ سیکولرازم کے اصل کردار ہیں، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے اور اصل میں حکومتی ارادوں کو عدالتی فیصلوں کی شکل میں تھوپ دیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2006ء میں ڈاکٹر افضل گرو شہید کی بیوی ’تبسم‘ نے صدرمملکت کو رحم کی اپیل کی۔ اس نظام میں صدر بھی تو اسی نظام کا سب سے بڑا نمائندہ تھا، سو اس نے بھی توقع کے عین مطابق یہ اپیل مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ میں ایک بار پھر بھی کوشش کی گئی لیکن جون2007ء میں پھر ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا اور سپریم کورٹ نے کہہ دیا کہ اس درخواست میں کوئی جان نہیں۔ جنوری2013ء تک بھارتی وزارت داخلہ پھانسی کا فیصلہ کرچکی تھی۔9 فروری کو 8 بجے جب جیل انتظامیہ نے پھانسی کی اطلاع دی تو ڈاکٹر افضل گرو شہید بہت مطمئن اور پرسکون تھے۔ انہوں نے بیوی کے نام خط لکھا، اس سے قبل وہ فجرکی نماز اور قرآن مجید کے کچھ اوراق کی تلاوت کر چکے تھے۔ جیل میں ہی جنازہ پڑھاگیا اور انہیں دفنا دیا گیا۔
اس ساری مہم کو ’آپریشن تھری اسٹار‘ کا نام دیا گیا تھا۔ سیکولرازم کے بھارتی برانڈ میں یہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں پہلا قتل ہے نہ آخری، جب تک سیکولرازم کے اقتدار کی بھیانک رات جاری ہے، ایسے قتل ہوتے رہیں گے۔ اس وقت بھارت کی ریاست اپنے شرق تا غرب انسانوں کی قتل گاہ بنی ہوئی ہے، کہیں ریاست اور حکومت کے ہاتھوں انسان اور انسانیت تہہ تیغ ہو رہے ہیں تو کہیں برہمن کے تعصب کا آسیب نہ صرف دیگر ہندؤوں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی نگلے جا رہا ہے، رہی سہی کسر انتہا پسند تنظیموں نے پوری کر رکھی ہے جو پوری سرکاری سرپرستی میں انسانوں کی بستیوں کی بستیاں نذر آتش کرنے کو عین مذہبی فریضہ گردانتی ہیں۔ انگلیوں پر گنے چنے چند بھارتی علاقے ہیں جہاں کے دو چار فیصد حالات اخبارات کی زینت بن کر دنیا کے سامنے پہنچ جاتے ہیں، وگرنہ دور دراز کی وادیوں اور جزیروں اور سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائل تو بیسویں صدی کی دہلیز پر ننگ انسانیت حالات سے دوچار ہیں اور وہاں کھلم کھلا جنگل کا قانون نافذ ہے۔
لیکن شہداء کے قافلے میں روز افزوں ہونے والا اضافہ بالآخراس خطے کی تقدیر بدلا چاہتا ہے، اور اﷲ تعالی نے چاہا تو بہت جلد شہیدوں کا خون رنگ لائے گا اور آسمانوں تک پہنچنے والی انسانیت کی چیخیں عرش خداوندی کو جھنجھوڑ دیں گی اور کشمیر سمیت یہ خطہ سرزمین برصغیر اس برہمن کے خونیں چنگل سے ضرور آزاد ہو کر کلمہ توحید کے سائے تلے سکون آشنا ہوگا، انشاءاﷲ تعالی۔
https://daleel.pk/2017/02/09/29770
- Featured Thumbs
- https://daleel.pk/wp-content/uploads/2017/02/image-1-300x183.jpg
Last edited: