ماضی قریب سے چند اہم سبق
محد جاوید اقبال
بہت دنوں سے بُری بُری خبریں مل رہی تھیں۔ آئیے آپ کو ایک دو اچھی خبریں سنائوں۔ پہلی اچھی خبر یہ ہے کہ امریکا قوموں کی قیادت کے منصب سے معزول کردیا گیا ہے، اور جلد ہی ڈالر عالمی کرنسی نہیں رہے گا۔ امریکا نے ہتھیاروں سے اتنی جنگیں نہیں جیتیں جتنی ڈالر سے جیتی ہیں۔ ڈالر تھا کیا… کاغذ کا ایک ٹکڑا، جس پر فرعون کی کچھ علامات بنی ہوئی تھیں۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل 1973ء میں امریکی ڈالر میں تیل کی ادائیگی پر راضی ہوگئے تھے۔ اسی ڈالر کا حربہ استعمال کرکے امریکا نے عالم اسلام میں غدار خریدے۔ مثلاً مصر میں انورالسادات اور حُسنی مبارک، اور عراق میں صدام حسین کے جنرل، جنھوں نے امریکی ڈالرز کے عوض فوج کو اس طرح پھیلایا کہ ان کے درمیان امریکی فوجوں کو گھسنے کا موقع مل گیا۔ اسی کے ذریعے اس نے ایران میں ایسی قیادت تیار کی جو نام تو امام خمینی کا لیتی تھی مگر جس کے افعال شاہ ایران کی پیروی کرتے نظر آتے تھے۔ ایسے لوگوں نے افغانستان اور پھر عراق میں حملے کے لیے امریکا کو امداد فراہم کی۔ اسی ڈالر کے ذریعے جنرل جہانگیر کرامت اور پرویزمشرف جیسے جنرل خریدے گئے جنہوں نے افغانستان میں پیش قدمی کے لیے امریکا کو مدد فراہم کی۔ پاکستان کے طویل المیعاد مفادات کو قربان کرکے نہ کوئی ڈیم بننے دیا اور نہ بجلی کے حصول کے لیے کوئی اچھی منصوبہ بندی ہونے دی۔ اسی لیے آج ہمارے عوام‘ تاجر اور صنعت کار پریشان ہیں۔ اسی ڈالر کے استعمال کے ذریعے ہمارا میڈیا خریدا گیا اور کچھ لوگ امریکا میں جائداد کے مالک بن گئے۔ عظیم قربانیاں دے کر ارضِ پاکستان حاصل کرنے کے باوجود ہم عالمِ اسلام کے لیے مثال کیوں نہ بن سکے؟ ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا ماضی کے حالات و واقعات پر نظر ڈالنے سے جو حقیقت اُبھرکر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو مسلمان کتاب اللہ میں غور وخوض کرتا ہے اس پر چیزوں کی حقیقت عیاں ہوجاتی ہے۔ اور جو قرآنِ پاک پر تدبر اور تفکر کا حق نہیں ادا کرتا وہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ شاہ فیصل ایک متدین اور متقی شخص تھے لیکن انہوں نے قرآنِ پاک کی اس ہدایت پر تدبر نہیں کیا جس میں حق تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا ہے کہ لوگوں کو ان کی اشیاء میں خسارہ نہ دو۔ یہ اہم ہدایت کلامِ پاک میں بار بار دوہرائی گئی ہے۔ مثلاً سورہ الاعراف اور سورہ ہود کی 85 ویں آیت میں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب دو افراد یا اداروں کے درمیان لین دین ہو تو اس طرح ہونا چاہیے کہ وہ ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے خسارے پر منتج نہ ہو۔ شاہ فیصل پیٹرول کی قیمت کم کرنا قبول کرلیتے لیکن اس کے لیے سونے کی شکل میں ادائیگی پر اصرار کرتے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا تو صدی کے خاتمے سے پیشتر ہی امریکا کا خانہ خراب ہوچکا ہوتا۔
آج اگر امریکا 14 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی صلاحیت سے کہیں بڑھ کر دنیا بھر میں مارا ماری اور قتل وغارت گری کرتا آیا ہے۔ آج امریکا قرض کی ادائیگی تو کجا اس پر سود بھی ادا کرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ منصبِ قیادت سے ہٹاکر صہیونی بینکرز نے اس کی جگہ پہلے یورو کو لانے کی کوشش کی، مگر وہ بھی مالی اعتبار سے اس کے اہل نہ نکلے تو پھر چین کو عالمی قیادت سونپنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم نے دیکھا کہ جب 9/11 کے ضمن میں امریکا نے بھارت کے ذریعے پاکستان پر فوجی دبائو ڈالا تو چین خاموش رہا۔ اس سے پہلے بھی 1971ء کی جنگ میں اس نے پاکستان کو سیاسی حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہودی موت سے بے حد ڈرتے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ عالم اسلام کے درمیان میں ان کی ریاست کبھی محفوظ نہیں رہ سکتی، اس لیے انھوں نے چین کو قرض دیا اور ٹیکنالوجی فراہم کی۔ یہاں تک کہ اس کی برآمدات اتنی بڑھ گئیں کہ اس کی کرنسی سب سے مضبوط بن گئی۔ آئندہ دنیا کی رہنما قوم امریکا نہیں بلکہ چین ہوگا، اور یہودی بینکرز کا صدر مقام یا ہیڈکوارٹر نیویارک نہیں بلکہ شنگھائی ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم مستقبل قریب میں امریکا کی نام نہاد دوستی سے ہی نہیں بلکہ چین کی حمایت سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ اور اب بھی ہم اپنا رُخ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی طرف موڑ لیں تو اپنے ہی نہیں بلکہ عالمی حالات کو بھی اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔ پہلے ہی اللہ سبحانہٗ تعالیٰ ہم پر اس قدر مہربان رہا ہے کہ ہم اُس کے شکر کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ پاکستان کے اطراف تمام ممالک مثلاً بھارت‘ ایران اور چین خشک سالی کا شکار رہے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے یہ مصیبت ہم پر نہ آنے دی اور ہماری فصلوں کو پانی میسر آتا رہا۔ ہمارے ملک میں غلہ اور اجناس کی قیمتیں اس لیے بڑھیں کہ حکومت نے گنجائش سے زیادہ برآمد کی اجازت دی اور پھر رشوت لے کر انہیں درآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اس طرح چند پارٹی عہدیداروں کا بھلا ضرور ہوا مگر عام پاکستانی پر بہت زیادہ بوجھ پڑگیا۔ پاکستانی روپے کی قیمت جو کم ہوئی ہے اس کے پسِ منظر میں یہی حقیقت کارفرما ہے کہ بدعنوان سیاست داں‘ بیوروکریٹس اور جنرل اپنی ناجائز آمدنی ڈالر میں تبدیل کرکے سوئس‘ برٹش اور امریکی بینکوں میں جمع کراتے رہے، اور ڈالر کی طلب میں اضافے کے سبب پاکستان میں ڈالر مہنگا ہوتا چلا گیا جبکہ دنیا بھر میں اس کی قیمت گرتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری درآمدات مہنگی سے مہنگی ہوتی گئیں اور برآمدات کی مالیت کم ہوگئی۔ ہمارے قرض میں اضافہ ہوا اور ہمارا عام آدمی زیربار ہوا۔ ہم پر لازم ہے کہ اپنا رُخ امریکا سے موڑ کر اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی طرف موڑ لیں، کیوں کہ وہی حقیقتاً ہمارا رازق اور روزی رساں ہے۔ اُسی پر توکل کرکے ہم اپنی 18کروڑ آبادی کے لیے وسائلِ زیست حاصل کرسکتے ہیں۔ جو اللہ پر بھروسا کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ یہ بات گلی کے نکڑ پر بیٹھا موچی بھی جانتا ہے اور کروڑوں کی ٹیکسٹائل پروڈکٹس برآمد کرنے والا مل اونر بھی۔ پتا نہیں یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کی سمجھ میں کب آئے گی؟ ہمیں افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑنے سے صاف انکار کردینا چاہیے۔ اور ہماری سرحدی چوکی پر حملہ کرکے امریکا نے اس کے لیے جواز بھی مہیا کردیا تھا۔ پھر بھی ہمارے جنرلوں اور سیاست دانوں کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ ذرا سوچیں 18کروڑ آبادی کے لیے ایک ارب ڈالر کی امداد کیا معنی رکھتی ہے؟ فی کس پانچ ساڑھے پانچ ڈالر۔ کیا اس کے لیے ہم اپنے طویل المیعاد مفادات قربان کرسکتے ہیں؟ ہمیں صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ ہم امریکا کی جنگ مزید نہیں لڑسکتے۔ امریکا سابق سپرپاور بن گیا ہے۔ وہ ہمارا کوئی نقصان نہیں کرسکتا اگر ہم اصولوں پر ڈٹ جائیں۔
http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-07-10